حضرتؒ کی اپنے بارے میں تواضع خواجہ صاحب نے عرض کیا کہ حضرت تراویح کے وقت جو مصلے بچھاتے ہیں اس میں سجدہ کی جگہ مصلے سے خالی رہتی ہے پیچھے کو نکلا ہوا رہتا ہے فرمایا کہ نہ معلوم آپ اس پر کیا کیا حاشیہ چڑھائیں گے – میں اس کی حقیقت بیان کئے دیتا ہوں وہ یہ ہے کہ پیچھے کی جانب پٹائیوں کے درمیان جگہ کھلی ہوتی ہے میں رضائی اوڑھ کر کھڑا ہوتا ہوں اس خیال سے مصلے پیچھے ہٹا کر بچھاتا ہوں کہ پیچھے جو حصہ رضائی کا گرے اس پر مٹی نہ لگے یہ حکمت تھی اس میں آپ نہ معلوم کیا خیال کر رہے ہوں گے عرض کیا کہ واقعی میں تو قسم قسم کے خیال کر رہا تھا ( مثلا یہ نکتہ گڑھا ہوگا کہ سجدہ زمین پر ہو فرش پر نہ ہو ) فرمایا کہ حقیقت کے بے خبر ہونے سے ایسا ہی ہوتا ہے پھر امتحان و تحقیق کے بعد قلعی کھل جاتی ہے اس پر حضرت والا نے ایک حکایت فرمائی کہ ایک بادشاہ نے چار سمت کی عورتوں کے جمع کرنے کا اہتمام کیا تھا تاکہ انکے سلیقہ کا امتحان کرے – شب بھر ان کے پاس بسر کی صبح کو سب سے دریافت کیا کہ یہ بتاؤ اب شب کتنی باقی ہے اس پر تو سب کا اتفاق ہوا کہ صبح ہو گئی مگر وجہ مختلف بیان کی چنانچہ ایک بولی نتھ کے موتی ٹھنڈے معلوم ہوتے ہیں یہ اس نے اسلئے کہا کہ صبح صادق کے ساتھ ایک ہوا چلتی ہے اس کی خاصیت ہے کہ ہر چیز میں ٹھنڈ پیدا کر دیتی ہے وہ عجیب و غریب ہوا ہوتی ہے اس سے بڑی فرحت ہوتی ہے – دوسری نے کہا کہ پان کا مزا بدل گیا – تیسری نے کہا کہ شمع پھیکی پڑ گئی چوتھی نے کہا کہ گوہ آ رہا ہے تو ہم تو اس میں سے ہیں کہ گوہ آ رہا ہے تو حضرت کپڑے کی حفاظت مقصود تھی نہ کوئی راز تھا نہ حکمت –
