( ملفوظ 445 )اصلاح کا طریق زندہ ہونا

ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ اصلاح کا طریق بالکل مردہ ہو چکا تھا اب
اللہ کا شکر ہے کہ اس میں دوبارہ روح پھونکی گئی ہے جس کو ناواقفی کی وجہ سے تشدد کہا جاتا ہے لیکن اس وقت طبائع میں کجی بڑھ جانے سے اسی طرز کی حاجت تھی اسی کی نسبت میں اکثر کہا کرتا ہوں کہ اس چودھویں صدی میں ایسے ہی لٹھ پیر کی ضرورت تھی ۔ جیسا میں ہوں لوگ تو یہ چاہتے ہیں کہ مردے زندہ ہو جائیں اور نہ نفخ صور ہو نہ قیامت قائم ہو نہ میدان محشر ہو نہ میزان عدل ہو یعنی مقصود حاصل ہو جاوے اور کوئی بات ناگواری کی نہ ہو سو سنت اللہ میں یہ کیسے ممکن ہے اگر حسب خواہش نفس کے پیر ساری عمر طالب کی دلجوئی و خوشامد ہی کرتا رہے تو اصلاح کیسے ہو سکتی ہے ۔ حضرت مولانا محمد قاسم صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا مقولہ امیر شاہ خان صاحب سے سنا ہے کہ جس کا پیر ٹرا نہ ہو اس مرید کی اصلاح نہ ہو گی عجیب شان تھی ۔ ان حضرات کی حضرت مولانا ہی کا دوسرا واقعہ اسی اصلاح کے متعلق امیر شاہ خاں صاحب ہی بیان کرتے تھے کہ مولانا رحمۃ اللہ علیہ دہلی تھے خاں صاحب اور مولانا احمد حسن صاحب امروہوی ہمراہ تھے شب کو دونوں صاحبوں چارپائی مولانا سے ادب کے سبب ذرا دور کو بچھائیں خاں صاحب نے مولانا احمد حسن صاحب سے کہا کہ یہاں جو ایک برج والی مسجد ہے اس میں صبح کی نماز چل کر پڑھیں گے سنا ہے کہ وہاں کا امام بہت اچھا قرآن شریف پڑھتے ہیں مولوی صاحب نے کہا کہ ارے جاہل پٹھان ہم اس کے پیچھے نماز پڑھیں گے وہ تو ہمارے مولانا کی تکفیر کرتا ہے مولانا نے سن لیا پکار کر فرمایا کہ احمد حسن تو اوروں کو جاہل بتاتا ہے اور خود جاہل ہے کیا قاسم کی تکفیر سے وہ امامت کے قابل نہیں رہا ۔ میں تو اس سے اس کی دینداری کا معتقد ہو گیا اس نے میری کوئی بات دین کے خلاف سنی ہو گی جس کی وجہ سے میری تکفیر لازم تھی اگر روایت غلط پہنچی تو راوی کی خطا ہے اب میں خود اس کے پیچھے نماز پڑھوں گا مولانا نے صبح کی نماز اس کے پیچھے پڑھی ۔ اور ان دونوں کو ساتھ جانا پڑا تو دیکھئے مولانا احمد حسن صاحب کتنے محبوب تھے ۔ مگر اصلاح کے لئے ڈانٹ ان پر بھی پڑی ۔
28 شوال المکرم 1359 ھ مجلس بعد نماز ظہر یوم دو شنبہ