( ملفوظ 21 )جواب دینے کے لئے قیود وشرائط

ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ مجھ کو علماء کا طرز ناپسند ہے کہ سائل کے ہر سوال کے جواب دینے کی کوشش کرتے ہیں – جواب دینے کے بھی تو کچھ شرائط ہیں – آخر نماز اتنا بڑا رکن ہے دین کا بڑامگر وہ بھی قیود اور شرائط سے خالی نہیں ان شرائط کا حاصل یہ ہے اول یہ دیکھ لینا چایئے وہ سوال ضروری ہے یا غیر ضروری پھر اگر یہ بھی معلوم ہو جائے کہ فی نفسہ ضروری ہے تو پھر یہ دیکھنا چایئے کہ مشغلہ کے طور پر سوال کر رہا ہے یا واقع میں بھی اس کو ضرورت ہے – اگر محض مقصود ہے اور عمل وغیرہ مقصود نہیں تو ایسے شخص کو ہر گز نہ جواب دیا جائے البتہ علم کا جو حصہ فرض عین ہے وہ اس سے مستثنی ہے – غرض اس قسم کی باتوں کا خیال رکھنا علماء کو بہت ضروری ہے – علماء نے جو ان اصول کو چھوڑ دیا اس سے بہت مخلوق فضول میں مبتلا ہوگی یہی وجہ ہے کہ عوام الناس جاہل تک علماء کو اپنا تختہ مشق بنالیتے ہیں اور مسائل دینیہ میں اپنے منصب کے خلاف دخل دیتے ہیں اور بلا ضرورت خواہ مخواہ عملاء کو پریشان کرتے اور جھگڑوں میں پھنساتے اور عملاء کے ایسا کرنے کا سبب اکثر جاہ ہے کہ جواب دینے زیادہ معتقد ہوجائے گا یا اور اغراض فاسدہ مثلا یہ کہ ہم کو بدنام کریں گے یا اپنے دل میں سمجھیں گے کہ انہیں کچھ آتا جاتا نہیں یامدرسہ کا چندہ بند کردیں گے اس لئے سوال کا جواب دینے کو تیار ہوتے ہیں سو یہ بھی اچھی خاص مصیبت ہے معلوم بھی ہے کہ مجھے بڑے سے بڑے عالم محقق امام اور مجتھد کو بھی بعض مسائل پر لاادری ( مجھے معلوم نہیں ) کہنے کے سوا کچھ نہیں بن پڑا یہ ہے کہ علماء کو کا تابع نہ ہونا چاہیئے بلکہ سائل کو اپنا تابع بنانا چاہہئے جہاں سوال ضروری ہو اور طالب کو بھی فی الحقیقت ضرورت ہو وہاں اپنے اور کاموں کو چھوڑ کر بھی جواب دینا چاہئے اس لئے وہاں دین کی ضرورت ہو وہاں اپنے کاموں کو چھوڑ کر بھی جواب دینا چاہئے اس لئے وہاں دین کی ضرورت ہے حاصل یہ ہے کہ دین کے تابع خود بھی بنو اور دوسروں کو بھی بناؤ – دین کو کھیل تفریح مت بناؤ جیسا کہ ہو رہا ہے مولانا عبدالقیوم صاحب مقیم بھوپال کا معمول تھا کہ فضول سوال جواب نہ دیا کرتے تھے اگر سوال کرتا یہ مسئلہ کس حدیث میں ہے تو فرمایا کرتے کہ میں نو مسلم ہوں جو حدیث تلاش کرنے کو اپنے ان بڑوں سے دین پہنچا ہے مطلب یہ تھا کہ یہ بتلانا چاہئے تھے کہ سوال تیرا فضول ہے تو علماء کو یہ طرز احتیار کرنا چاہئے اور اس وقت کا جو طرز ہے وہ مفر ہے اور اس میں بڑے بفاسد ہیں –