ایک صاحب نے عرض کیا کہ حضرت فلاں مقام پر جو جدید مدرسہ بچوں کی تعلیم قرآن و دینیات کے لۓ ہم لوگوں نے جاری کیا ہے اس پر لوگ ہنستے ہیں کہ یہ تو چھے مہینے کا ہے پھر نہ مدرسہ رہے گا نہ مدرسی فرمایا کہ ہنسنے دیجیے آپ کا کیا ضرر ہے اگر ایک شخص کو ایک وقت کی نماز پڑھنے کی توفیق ہو جاہۓ تو ایک ہی وقت کی سہی ایک وقت کا تو قرض ادا ہوا نہ پڑھنے سے تو بہتر ہے مولا نا جامی رحمتہ اللہ علیہ سے کسی نے کہا تھا کہ فلاں شخص ریا سے ذکر کرتا ہے فرمایا کرتا تو ہے تم کو تو ریا سے بھی کبھی توفیق نہ ہوئ تمہارا کیا منہ ہے اعتراض کا حاصل جواب یہ ہے کہ اول تو ریا ہی کا ثبوت نہیں دوسرے ممکن ہے ریاء ہی سے عادت ہو جاۓ پھر عمل بلا ریا ہونے لگے ایک مجتہد شیعی نے ایک مولوی صاحب سے نانوتہ میں کہا تھا آپ حضرات نے فلاں کام کیا تھا جس میں خطرات بھی تھے آخر کیا نتیجہ نکلا بجز پریشانی کے جواب میں مولوی صاحب نے یہ قطعہ پڑھ دیا ـ سود اقمار عشق میں شیریں سے کوہکن بازی اگرچہ پا نہ سکا سر تو کھو سکا کس منہ سے اپنے آپ کو کہتا ہے عشق باز اے رو سپاہ تجھ سے تو یہ بھی نہ ہو سکا اگر کوئ شخص تبلیغ کرے اور سو برس کی کوشش میں ایک شخص بے نمازی سے نمازی ہو جاۓ تو کو شش بیکا ر نہیں گئ کار آمد ہوئ کچھ تو ہوا کچھ نہ ہونے سے نہتر ہوا بلکہ میں تو توسع کر کے کہتا ہوں کہ اگر ساری عمر کی کوشش کا بھی بظاہر کوئ نتیجہ نہ نکلے مثلا ایک نمازی بھی نا ہوا تب بھی کوشش بیکار نہیں کار آمد ہے ظاہر کی قید میں نے اس لیۓ لگائ کہ باطن میں اس کا نفع ہو ہی رہا ہے یعنی ثواب مل رہا ہے مگر آج کل لوگوں کی عجیب حالت ہے جس کو ماموں صاحب فرمایا کرتے تھے کہ یہ وہ زمانہ ہے کہ نہ آپ چلیں نہ دوسرے کو چلنے دیں حتی کہ کام کرنے والے کو بد دل کر دیتے ہیں ـاس پر ایک حکایت بیان فرمایا کرتے تھے کہ غدر کے زمانہ میں ایک میدان میں کچھ لاشیں پڑی ہوئ تھیں ان میں ایک زخمی سپاہی بھی پڑا ہوا تھا اس سپاہی کو خیال ہوا کہ دن تو جس طرح بھی ہو گا گزر جاۓ گا مگر تنہا شب کا کاٹنا مشکل پڑے گا مزاحا فرمایا اس سپاہی کو تنہائ کی ضرورت نہ تھی تنہا کی ضرورت نہ تھی ـ ( یعنی کئ تن کی) ایک لالہ جی اس طرف سےگزر رہے تھے سپاہی نے آواز دی ـ لالہ جی آواز سن کر گبھراۓ ہ لاشوں میں کیسی آواز ہے اس سپاہی نے کہا کہ ڈر مت مرا نہیں زخمی ہو گیا ہوں اور میری کمر میں ایک ہمیانی بندھی ہے اگر میں مر گیا یونہی بیکار جاۓ گئ تم کھول کر لے جاؤ تمہارے ہی کام آۓ گی لالہ جی کے روپیہ کا نام سن کر منہ میں پانی بھر آیا اور ڈرتے ڈرتے سپاہی کے قریب پہنچے سپاہی نے کہا کہ مجھ میں تو کھول کر دینے کی قوت نہیں ہے تم خود کھول لو جب لالہ جی بالکل قریب ہو گۓ سپاہی نے برابر سے تلوار اٹھا کر لالہ جی کے پیروں پر رسید کی ، گر پڑے پھر بھی ہمیانی ٹٹولی مگر وہاں کچھ بھی نہیں تھا تب سپاہی سے پوچھا کہ یہ کیا کیا سپاہی نے کہا لالہ جی بیوقوف ہوۓ ہوۓ ہو میدان جنگ میں کوئ ہمیانی روپوں کی بھی باندھ کر آیا کرتا ہے ـ یہ تو ایک تدبیر تھی تم کو اپنے پاس رکھنے کی شام قریب ہونے کو تھی خیال ہوا کہ رات کو دل گھبراویگا کسی کو پاس رکھوں تم نظر آگۓ اب بات چیت میں رات گزرے گی ـ تب لالہ جی نے کہا کہ اوت کا اوت نہ آپ چلے نہ اور کو چلنے دے تو یہ زمانہ وہی ہے کہ نہ خد کوئ کام کریں ـ نہ دوسروں کو کرنے دیں اگر خاموش ہی رہیں تو اچھا ہے نہیں خاموش نہیں بیٹھا جاتا بلکہ اور کام میں روڑے اٹکاتے ہیں ـ
