ملفوظ 409: “” منظوم مناجات ،،

“” منظوم مناجات ،، میری بارکیوں دیر اتنی کرے ایک صاحب نے عرض کیا کہ حضرت ایک مناجات منظوم ہے چھپی ہوئی جس میں جگہ جگہ یہ مصرعہ ہے کہ میری بارکیوں دیر اتنی کرے فرمایا کہ جی ہاں ! سنا ہے نہایت گستاخی کا طرز ہے اور جناب اس کا تو کوئی جاہل مصنف معلوم ہوتا ہے بعض کو اہل علم ہونے کا دعوے ہے ان کی تصانیف میں ایسی خرافات ہیں جن کو دیکھنے اور پڑھنے سے رونگٹا کھڑا ہوتا ہے ـ اور ایسے مضامین اکثر فضائل نبویہ میں بیان کئے جاتے ہیں جو دوسرے انبیاء علیہم السلام کی تنقیص کے موہم ہو جاتے ہیں ـ اور حضور کو اور انبیاء پر فضیلت دینے میں اکثر عنوان نہایت گستاخانہ ہو جاتا ہے بات یہ ہے کہ انبیاء میں اور حضور میں کامل اور اکمل بلکہ اکمل اور اکمل الکاملین کا تفاوت ہے ـ کامل اور ناقض کا تفاوت نہیں بات یہ ہے کہ ایک فضائل تو ہیں منصوص ان کے بیان کرنے میں کوئی حرج نہیں اور ایک ہیں مستنبط اس میں سخت احتیاط کی حاجت ہے انبیاء علیہم السلام کے تفاضل کا مسئلہ نہایت ہی نازک ہے اور مصنفین اسی کو بڑے زور سے قیاس کی بناء پر بگھارتے ہیں ـ میں اس کے متعلق ایک معیار بیان کیا کرتا ہوں کہ اگر فرضا تمام انبیاء علیہم السلام مع حضورؐ کے سب ایک جگہ جمع ہوں تم یہ سوچو کہ وہ اپنے مضامین تفاضل کے متعلق اس مجلس میں بھی سب حضرات کے سامنے پڑھ سکتے ہو یا کہہ سکتے ہو ـ اس معیار کو مستحضر کر کے وہی کلام منہ سے نکلا لو جس کو سب کے سامنے بلکہ حساب کے روز حق تعالی کے سامنے بھی عرض کر سکو یہ ایک مراقبہ ہے یہ میں نہیں کہتا کہ نیت بھی تنقیص کی ہے مگر دیکھ لیجئے کہ اس کا مدلول کیا ہے ـ اسی سلسلہ میں فرمایا کہ ہمارے حضرت حاجی صاحبؒ فرمایا کرتے تھے کہ ایک چشتی اور ایک قادری میں جھگڑا ہوا کہ حضرت غوث پاک کا مرتبہ افضل ہے یا خواجہ اجمیری صاحب کا حضرت نے فیصلہ فرمایا کہ بھائی یہ جھگڑے کی بات نہیں قادریوں کے تو حضرت غوث پاک باپ ہیں اور خواجہ صاحب چچا ـ اور چشتیوں کے حضرت خواجہ صاحب باپ ہیں اور حضرت غوث صاحب چچا تعلق خواہ باپ سے زیادہ ہو مگر تنقیص چچا کی بھی جائز نہیں ـ ان قادری صاحب نے کہا کہ جب حضرت غوث پاک نے فرمایا قدمی ھذہ علی رقاب اولیاء اللہ ( میرا یہ قدم اولیاء اللہ کی گردنوں پر ہے ) تو حضرت خواجہ صاحب نے گردن جھکا دی اور فرمایا بل علی راسی و عینی (بلکہ میرے سر آنکھوں پر 12) تو اس میں خود خواجہ صاحب نے اقرار فرمایا ان کی فضیلت کا ـ حضرت نے جواب میں فرمایا کہ اس سے تو اس کے عکس پر بھی استدلال ہو سکتا ہے کہ ان کا عروج بڑھا ہوا تھا اور ان کا نزول اور طریق میں اور نزول افضل ہے عروج سے پھر فرمایا ( یعنی صاحب ملفوظ نے ) کہ اگر ان بزرگوں میں کسی وجہ سے لڑائی بھی ہو تو ایسا ہے جیسے دو شیر لڑتے ہیں اور گیدڑ صاحب فیصلہ کے لیے بیچ میں کودیں ـ اسی تفاضل کے سلسلہ میں فرمایا کہ ایک شخص حضرت حافظ صاحبؒ سے مرید تھے اور حضرت حاجی صاحب کی مجلس میں حاضر تھے ان کے دل میں خطرہ ہوا کہ معلوم نہیں حضرت حاجی صاحبؒ اور حضرت حافظ صاحبؒ میں سے بڑا کون ہے اللہ کے نزدیک حضرت حاجی صاحبؒ اس خطرہ پر مطلع ہوئے فرمایا کہ میاں ایسا خیال بہت بری بات ہے تمہیں سیراب کرنے کے لیے تو دونوں کافی ہیں تمہیں اس کی کیا ضرورت ہے کون بادل بڑا ہے اور کس میں پانی زیادہ ہے ـ