ملفوظ 433: مؤکلات کو مسخر کرنے کی خواہش اور حضرت مولانا یعقوبؒ کا جواب

مؤکلات کو مسخر کرنے کی خواہش اور حضرت مولانا یعقوبؒ کا جواب فرمایا کہ حضرت مولانا محمد یعقوبؒ نے ایک بات فرمائی تھی دل میں گڑ گئی از دل خیزد بر دل ریزد کا مصداق ہے – حالانکہ وہ زمانہ بچپن کا تھا کچھ زیادہ ایسی باتوں کا ہوش نہ تھا ـ میں نے عرض کیا تھا کہ حضرت کوئی ایسا بھی عمل ہے کہ جس سے مؤکلات مسخر ہو جائیں فرمایا ہاں ہے اور آسان بھی ہے کر بھی سکتے ہو – میں بتلا بھی سکتا ہوں مگر تم پہلے یہ بتلاؤ کہ تم خدا بننے کو پیدا ہوئے یا بندہ بننے کو – مجھ کو اسی وقت سے ان باتوں سے نفرت ہو گئی اب جو کوئی تعویذ وغیرہ کو آتا ہے لکھ تو دیتا ہوں اور وہ بھی اسلئے کہ حضرت صاجی صاحبؒ نے فرمایا تھا کہ اگر کوئی تعویذ وغیرہ کو آیا کرے لکھ دیا کرنا – لیکن ان چیزوں سے مجھ کو مناسبت قطعا نہیں مثلا کسی کو مسخر کرنا کسی کو تابع بنانا کسی پر زور چلانا حکومت کرنا کیا یہ عبدیت ہے عبدیت تو اسی میں ہے کہ فنا کر دے – عاجزی انکساری اختیار کرے حق تعالی کے یہاں اسی کی قدر ہے حق تعالی کی ذات تو بڑی ہی رحیم اور کریم ہے مخلوق بھی عاجزی ہی کو پسند کرتی ہے – اس پر ایک حکایت یاد آئی – ایک مہاجن کی لڑکی پر ایک جن عاشق تھا بڑے بڑے عامل آئے مگر ناکامیاب رہے بعض جن بڑا ہی سرکش اور قوی ہوتا ہے جو عامل جاتا صحیح سلامت واپس نہ ہوتا اکثر یہ حرکت کرتا کہ ہاتھ پکڑ کر چھت ابھار کر اس میں دبا دیتا – اب بیچارہ عامل ہے کہ لٹکا ہوا ہے ایسا ظالم تھا کسی نے اس مہاجن سے ویسے ہی بطور تمسخر کے کہدیا کہ فلاح مسجد میں جو مؤذن ہیں بہت ہی بڑے عامل ہیں وہ مہاجن ان بے چاروں کو جا لپٹا یہ ہر چند قسم کھاتا ہے مگر مہاجن ہے کہ پیروں پر گرا پڑتا ہے خوشامد کر رہا ہے جب یہ عاجز ہو گیا اس نے کہا کہ اچھا میں چلتا ہوں – یہ بتلاؤ کیا دو گے مہاجن نے کہا کہ جو کہو کہا کہ پانچ سو روپیہ اس نے کہا کہ منظور ! یہ سمجھا کہ دوہی باتیں ہیں یا تو کام بن گیا اور پانچ سو روپیہ مل گیا تو بڑی راحت اور عیش سے گذریگی اور اگر ماردیگا تو اس مصیبت سے اور پریشانی و ناداری کی زندگی سے مر جانا ہی بہتر ہے بے چارہ غریب تھا بسم اللہ پڑھ کر مہاجن کے ساتھ ہو لیا اس کے مکان پر پہنچا اس جن نے نہایت زور سے ڈانٹا کہ کیسے آیا ہے ہاتھ جوڑ کر قدموں میں گر گیا کہ حضور کی رعیت کا جولاہا ہوں حضور نہ میں عامل ہوں نہ عمل چلانے آیا ہوں ایک جاہل اور غریب آدمی ہوں یہ مہاجن جا کر سر ہو گیا ہر چند عذر کیا نہ مانا اس لئے مجبوری کو چلا آیا حضور کی بڑی پرورش ہو گی اگر حضور پانچ منٹ کے لیے اس لڑکی سے جدا ہو جائیں مجھ کو پانچ سو روپیہ مل جائیگا میں غریب آدمی ہوں میرا بھلا ہو جائیگا اور حضور کا کوئی نقصان نہ ہو گا پھر اگر دل چاہے آ جائیے – یہ سن کر جن بڑے زور سے قہقہ مار کر ہنسا اور یہ کہا کہ ہم تیری خاطر سے ہمیشہ کے لیے جاتے ہیں – حضرت اس مؤذن کی شہرت ہو گئی کہ بہت بڑا عامل ہے عمر بھر کی روٹیاں سیدھی ہو گئیں ـ اور عوام کے اعتقاد کا – یہی قاعدہ ہے کہ ایک مرتبہ رجسٹری ہو جائے کسی کے کمال کی پھر تو عقد فسخ ہوتا ہی نہیں یہ بات کا ہے کی بدولت نصیب ہوئی صرف عاجزی کی بدولت ! عاجزی بہت ہی عجیب چیز ہے –