بسم اللہ الرحمن الرحیم
حامدا و مصلیا
التماس آشفتہ حال
1357 ھ
رازے کہ بر خلق نہفتیم و نلتقیم با دوست بگوئیم کہ او محرم راز ست
اے مجلسیاں ! سوز دل حافط مسکین از شمع پیر سید کہ در سوذ و گدازست
مجھ میں آشفتہ حالی اور بیقراری کیوں ؟ سینے مین سوزش جگر میں ٹیس اور دل میں
بیتابی واضطراب کس سبب سے ہے ؟ خود میری سمجھ میں نہیں آتا – کیا بتاؤں – کیا جواب
دوں – ہر غیر کی صحبت سے پریشانی پیدا ہوجاتی ہے – کسی دوسرے کے ذکر سے طبیعت
گھبرانے لگتی ہے – ہر وقت یہی تمنا کہ اس کے پاس بیٹھو جو اپنے ساقی کا ذکر کرتا ہو – ہر لمحہ
یہی آرزو کہ اپنے ہم مشرب رندوں کے سوا دوسروں سے بات بھی نہ کروں – اس بزم میں
حاضر رہو جہاں اپنا ساقی قاسی گرمی کرتا ہو – سر میں یہی سودا کہ ہر وقت اپنے ہی ساتھی کا
تذکرہ ہو – آنکھیں ڈھونٹی ہیں تو میخانہ امدادیہ کے انوار و برکات کو نظروں کو تجسس ہے تو
تھانہ بھون کے درخشاں ذرات کی تابش کی کان سننا چاہتے ہیں تو ان پر اثر الفاظ اور پر کیف
کلمات کو جو ساقی بادۃ الست کے لب و دہب سے نکلے ہوئے ہوں – قوت شامہ کو ہوس ہے تو
صرف اس پھول کی خوشبو کی جو گلستان شریعت میں مہک کر تما عالم کو مست و بیخود بنا رہا ہو –
ہاتھ ان مبارک ہاتھوں کے جو یا ہیں جن کے زریعے کبھی کوئی عہدہ و پیمان لیا گیا تھا – پاؤں
اس منزل کی طرف چلنا چاہتے ہیں جو میرے ساقی کی بناتی اور دکھائی ہوئی ہو خیالات متحمل
ہیں تو ایسے مالک بہار عالم حسن کے تصور کے جس کے لئے کہا گہا ہے
بہار عالم حسنش دل و جاں تازہ می دارد
برنگ اصحاب صورت رابہ بوار باب معنی را
مجھے نہیں معلوم کیا ہوگیا ہے سودائی ہوگیا ہوں یا بنادیا گیا ہوں – کسی وقت چین نہیں
سکون نہیں تمام جسم میں آگ لگی ہوئی ہے یا لگادی گئی ہے کسی طرح نہیں بجھتی بلکہ میں دیکھتا
ہوں کہ روز بروز تیز ہوتی جاتی ہے – جبان مجذوب
سے سوختہ جان ! پھونک دیا کیا مرے دل میں
ہے شعلہ زن اک آگ کا دریا مرے دل میں
اب تو یہ حالت ہے کہ اگر چند دن کے لئے تھانہ بھون سے باہر جاتا ہوں تو اپنے قابو
میں نہیں رہتا چاہتاہوں کہ ہر گھڑی یہیں بسر ہو اور ہر پل خدمت ساقی میں گزرے ساقی کا
جادہ جہاں آرا سامنے ہو اور دور چل رہا ہو –
ابھی زمانہ نہیں گزرا یہی عالم تھا – دیوانگی نے بڑھنا شروع کیا تھا کہ پنجشنبہ 13 جمادی الاخریٰ
1357 ھ مطابق 11 اگست 1938 ء کو میرے ساقی – میرے آقا – میرے مولا – میرے ہادی
میرے رہبر – میرے حامی میرے یارو شیخ الشیوخ عالم فیوض و برکات مجسم – قطب یگانہ –
غوث زمانہ حضرت حکیم الامت سراپا رحمت مولانا حاجی حافظ قاری شاہ محمد اشرف علی صاحب
تھانوی مدظہلم اللہ قوی بغرض علاج رونق افروز لکھنو ہوئے – علاج شروع ہوا – بحمد اللہ مرض
میں بھی افاقہ ہوا – طاقت بھی آنے لگی – قیام گاہ پر بے تکلف اصحاب کو حاضری کی بھی اجازت
دے دی گئی ٓ پھر مسجد خواص کے حجرے کے پاس نشست بھی ہونے لگی – مفلوظات کا سلسلہ بھی
جاری ہوا – معارف و حقائق کی بارش ہو رہی تھی فیوض و برکات کا دریا موجزن تھا کہ میرے دل
نے مجبور کیا اور میں نے ارادہ کرلیا جس طرح بھی ہو زمانہ قیام لکھنؤ کے ملفوظات قلمبند ہو
جائیں گے – اور خدا بزرگ و بر تر نے توفیق دی اور اس کی مدد شامل ھال ہوئی تو طبع کرا کر
شائع بھی کردیئے جائیں گے – تاکہ خلق اللہ کو ان سے فائدہ پہنچے – دور افتادہ تشنہ کاموں کو جام
فیوض کا ہدیہ بھیجا جائے اور حضوری سے معذور بیقراروں کے لئے مایہ تسکین فراہم کیا جائے –
چنانچہ اسی دھن میں میں نے اپنے سرکار مدظلہم العالی سے اجازت حاصل کی – مولوی جمیل احمد
صاحب تھانوی سے اپنی تمنا ظاہر کی – ممدوح نے اپنے لطف و کرم سے خود اس کام کی انجام دہی
کا ذمہ لیا – لیکن اسی کے ساتھ یہ بھی فرمایا کہ ایک اور شخص بھی ہونا چاہئے جو میری عدم موجودگی
میں اس کو جاری رکھے – کیونکہ میں ہر وقت موجود بھی نہیں رہ سکتا – اس کو سن کر میں نے عزیزی
مولوی حافظ ابرار الحق سلمہ ابن جناب مولوی محمدود الحق صاحب بی اے ایل ایل بی ایڈوکیٹ
ہر دوئی و مجاز صحبت حضرت اقدس مدظہلم العالی کے سپرد یہ خدمت کی انہوں نے طیب خاطر
اس کو منظور کر لیا – بلکہ باعث برکت و سعادت سمجھا اور اس طرھ جو ملفوظات قلبند ہوسکے ان کا
ایک اچھا خاصہ مجموعہ تیار ہوگیا لیکن اس کی ضرورت تھی کہ حضرت اقدس کے ملا حظہ سے گزر
جائے – اس لئے یہ مجموعہ میں میں نے تھانہ بھون کی واپسی کے بعد حضرت اقدس کے حضور میں
ملا حظہ کی مؤدبانہ درخواست کے ساتھ پیش کردیا – حضرت والا نے سر سری نظر سے ملا حظہ فرماکر
ارشاد فرمایا کہ مولوی جمیل احمد کے قلمبند کردہ ملفوظات کی تصحیح تو آسان ہے لیکن مولوی ابرار الحق
کے لکھئے ہوئے ملفوظات کی صحت دشوار ہے – انہوں نے میرے الفاظ کو نقل نہیں کیا – یادواشت
لکھ کر میری گفتگو کو بطور روایت بالمعنیٰ کے اپنی عبارت میں لکھا ہے اور سی وجہ سے الفاظ
مطلب واقعہ غرض وغایت سب میں کچھ فرق آگیا – میرے لئے اس ضعف میں نئے سرے
سے دماغ پر زور ڈال کر واقعے کو سوچنا اور لکھنا غیر ممکن ہے – اس کے معلوم ہونے پر جس قدر
مجھے پریشانی ہوئی وہ بیان میں ہیں آسکتی – خدا وند تعالیٰ بڑے کریم وکار ساز ہیں – دیکھتا کیا
ہوں کہ محترمی جناب مولوی اسعد اللہ صاحب مدرس مدرسہ مظاہر العلوم سہانپور و مجاز طریقت
حضرت اقدس مدظلہم العالیٰ تشریف لا رہے ہیں – معلوم ہوا کہ پورا رمضان المبارک کا مہینہ
تھانہ بھون ہی میں ختم ہوگا – عید کی نماز پڑھ کر واپس جائیں گے – ان سے مولوی ابرار الحق
سلمہ کے تحریر کردہ ملفوظات کی کوتاہیں بتا کر تکمیل کی استدعا کی – اور موصوف نے انتہائی محبت و
مسرت کیساتگ اس کو قبول و منظور فرمایا اور خاص توجہ و کوشش کے ساتھ ان کی تحریر کو بغور ملاحظہ کر
کے جا بجا صاحب ملفوظ سے تحقیق کر کے درست کیا مربوط اور صاف کر کے تمام خامیوں کو نکال
کر رمضان شریف کے اندر ہی مجھے دیدئے – خدا کا شکر ہے کہ حضرت والا نے ان کو پسند فرما
لیا اور اس طرح میری دعا مقبول اور رتمنا کامیاب ہوگئی –
میں چاہتا تھا کہ ملفوظات کی صحت ہوجائے اور یہ فورا طبع کرا کے شائع کردیئے جائیں –
حضرت اقدس نے میری بے تابی کی حالت ملا حظہ فرما کر جلد سے جلد نظر اصلاحی کے کام کو ختم
فرمادیا اور اپنی کاص شفقت سے جامع کے ناموں کی مناسبت پر غور فرماتے ہوئے مولوی جمیل
احمد صاحب کے جمع کردہ ملفوظات کا نام جمیل الکلام اور مولوی ابرار الحق سلمہ کے جمع کردہ
ملفوظات کا پہلا نام نزول الابرار اور جناب مولوی اسعد اللہ صاحب کی تصیح کے بعد دونوں جامع
کے ناموں کی رعایت سے دوسرا اخیر نام اسعد الا برار تجویز فرمایا –
اسی گزشتہ رمضان المبارک میں میں بھی برابر حاضر تھانہ بھون رہا – میں نے ارادہ کیا کہ
ان ملفوظات کے شروع میں مختصر سادیباچہ لکھ کر شامل کردوں جس میں لکھنو کے سفر کا ضمنا
ٹزکرہ بھی ہو – لیکن جس وقت لکھنے بیٹھا ہوں تو اس وقت کچھ حالات ہی اور ہوگئی – لکھنو کے
سفر کے ساتھ ایک اور سفر کا خیال آگیا وہ لاہور کا سفر تھا – جو لکھنو کے سفر سے پہلے قریب تر
زمانے میں ہوا تھا – دل میں ایک جوش پیدا ہوگیا کہ کسی طرح وہاں کے حالات معلوم ہوں
اور دیباچے میں ان کا بھی اضافہ ہوجائے –
دور چلے دور چلے ساقیا اور چلے اور چلے ساقیا
تمنا تو یہ تھی کہ تمام عمر اور عمر کی ہر ساعت اپنے آقا ہی کا تذکرہ لکھتا رہوں – مخلتف عنوان
سے اس کا ذکر کیا جایا کرے زبان سے اپنے آقا ہی کا بیان ہو – اور تحریر میں اپنے آقاہی
کے مناقب و فضائل ہوں – اپنے آقا ہی کا تصور رہے – اور اپنے آقا ہی کی دھن – وہ کون
آقا جس جس کےحسن کی خوبیوں کا تحریر میں لانا آسان کام نہیں اور حسن بھی کیسا حسن خداداد ۔
دلفریبان نباتی ہمہ زیور بستند دلبر ماست کہ با حسن خدادا آمد
میں نے بسم اللہ کہہ کر سفر لاہور کے حالات دریافت کرنا شروع کئے – اتفاق وقت اور
میری خوش قسمتی سے مخدومی جناب مولانا خیر محمد صاحب جالندھری محترمی جناب مولوی محمد
حسن صاحب امر تسری مکرمی جناب حیکم عبد الخالق صاحب امر تسری مشفقی جناب مولوی ظہور
الحسن صاحب عطونی جناب مولوی اسعد اللہ صاحب مدرسین مدرسہ مظاہر العلوم سہانپور
( کہ ان حضرات نے اس سفر کے حالات کا مشاہدہ فرمایا تھا ) اسی رمجان المبارک میں
تشریف لے ائے اور میرے ممدو مواعن ہوئے – میں نے اپنی پوری جدوجہد سے ان سے
سوالات پر سوالا کر کے حالات دریافت کئے ان سے یادواشت لکھوئی اور اس طرح
سفر نامے کے لئے کافی مواد فراہم کرلیا – حضرت اقدس کے ناسازی مزاج کے حالات آغاذ
اور بہت کچھ سفر لاہور کے متعلق واقعات کے لکھنے میں مخدومی جناب مولوی شبیر علی صاحب
نے میری امداد فرمائی – سفر لکھنو کے حالات کے سلسلے میں بہت سی یاد دوشتیں جناب مولوی
اجمل احمد صاحب تھانوی سے حاصل ہوئیں اور با وجود اس کے کہ میں نے اس سفر نامہ کو بہت
مختصر کرنا چاہا میرے ذوق میرے جزبات اور میرے طبعی جوش کی وجہ سے وہ ایک اچھا خاصہ
رسالہ ہوگیا – میں تو چاہتا تھا ہر ادائے حسن کو ظاہر کردوں مگر اس کی بھلا کس کو قدرت تھی –
گر مصور صورت آن دلستان خواہد کشیدہ لیک حیرانم کہ نازش راچساں خواہد کشید
اور سچ تو یہ ہے کہ کس کس چیز کو ظاہر کرتا
خوبی ہمیں کرشمہ و ناز خرام نیست بیسار شیوہ ہاست بتاں راکہ نام نیست
روحی فداہ
آفا قہا گردیدہ ام مہر بتاں ور زیدہ ام بسیار خوباں دیدہ ام لیکن تو چیزے دیگری
یہ ذکر اور تذکرہ تو ایسا تھا کہ تمام عمر لکھتا اور تمام نہ ہوتا – خیر خدا تبارک و تعالیٰ کا ہزار
ہزار شکر ہے کہ اس نے اس قدر ذخیرہ فراہم کردیا جو میرے لئے موجب صد افتخار ہے ورنہ کہاں
مجھ سا بے بضاعت اور کہاں حضرت حیکم الامت مدظلہم العالیٰ کے سفر کے حالات کا جمع کرنا
کہاں میں اور کہاں یہ نکہت گل نسیم صبح ! تیری مہربانی
ملفوظات کی طرح اس سفر نامے کو بھی میں نے آپنے آقا کے حجور میں پیش کردیا وہاں
سے اس کا مسودہ خلعت صحت کے ساتھ واپس عطا ہوا – اس کے بعد احتیاطا میں نے وہی
مسودہ اپنے محترم سراپا لطف و کرم جنان خان بہادر خواجہ عزیز الحسن صاحب غوری بی اے
انسپکڑ مدارس آلٰہ آباد مؤلف اشرف السوالخ کی خدمت میں بھیج دیا – وہاں سے بھی نظر ثانی
سے مزین ہو کر میرے پاس آگیا – اب میں حضرت اقدس کی منظوری کے بعد اس کو
ارمغان جادواں کے تاریخی نام سے موسوم کرتا ہوں – اور حضرت اقدس کی غایت شفقت
و تجویز گرامی سے ان ہرسہ اجزا یعنی ارمغان جادواں جمیل الکلام اور اسعد لا برار کے مجموعہ کا
نام الاسفار عن برکات بعض الاسفار ملقب بہ الفصل للوصل قرار پایا ہے جو لوح پر زینت
و برکت کے لئے درج کردیا گیا ہے – علاوہ اس کے جب یہ خیال تھا کہ صرف لکھنؤ کے سفر
کے حالات جمع کئے جائیں اس وقت اس مجموعہ کا نام بہار لکھنو رکھا گیا تھا لیکن جب لاہور
اور دونوں جگہ کے سفر کے حالات جمع ہوگئے تو حضرت والا نے اپنی زبان فیض ترجمان سے
یہ مصرع ارشاد فرمایا ع لاہور و بہار لکھنو اس مصرع کو سن کر راقم لحروف نے پہلا
مصرع ؛؛ بے بہازیبا نفیس و دلفزا ملا دیا جس سے پورا شعر تاریخی ہوگیا – اب اس کو یوں
پڑھئے اور عیسوی تاریخ کا شمار کیجئے
بے بہا زیبا نفس نفیس و دلفزا باغ لاہور و بہار لکنھو
368 1938 ء 1570
یہ شعر بھی لوح پر درج کردیا گیا – خدا کرے یہ مجموعہ جلد
شائع ہو کر خلق خدا کے لئے فائفہ مند اور کار آمد ثابت ہو –
اب مجھے سب سے پہلے خالق جل وعلیٰ کے فضل و توفیق کا ہر بن مو سے شکر ادا کرنا ہے – ومن
شکر فانما یشکر لنفسہ ومن کفر فان اللہ غنی حمید اس بے بضاعت ابان سے
شکر – بس کا احصی ثناء علیک انت اثنیت علی نفس – اس کے بعد اپنے
آقا و مولانا حضرت حکیم الامت مدظلہم العالیٰ کے بے پایاں الطاف و بے نہایت کرم بے کراں
شفقت اور توجہ خاص کا شکر ادا کرنا چاہئے جن کی بدولت آج یہ مجموعہ مرتب ہو کر طباعت کے لئے
بھیجا جارہا ہے – لیکن اس کے لئے الظاف کہاں سے لاؤں بے جانہ ہوگا اگر یہ عرض کروں –
شکر نعمت ہائے تو چنداں کہ نعمت ہائے تو
اسی کے ساتھ مذکور الصدر اخوان میکدہ کی مخلصانہ نوازشوں پر ہدیہ تشکر پیش کرنے کا اعزاز
حاصل کرتا ہوں –
گر قبول اتتدز عز و شرف
آخر میں مجھے اتنا اور عرض کرنا ہے کہ ارمغان جادواں اور اس التماس آشفتہ حال میں کئی
جگہ میرے قلم نے وہ انداز اختیار کیا ہے جس کا تعلق صرف میرے جزبات میری عقیدت اور
میرے ذوق سے ہے نہ شاعری کی گئی ہے اور نہ مبالغے کا اس میں دخل ہے – جو کچھ لکھا ہے
میں نے اپنی عقیدت کے تحت میں – جو آواز بلند کی ہے وہ اپنے دلی جزبات کے اثر سے اور
صرف اہل ذوق کے سننے اور لطف اٹھانے کے لئے میرے مخاطب یہی حضرات ہیں – غیر
سے واسطہ نہیں – اب اس کے بعد کوئی کچھ کہے میری ذمہ داری نہیں – کسی عارف کا قول ہے
بامدعی مگوئید اسرار عشق و مستی بگزارتا بمبیرد در رنج خود پرستی
اور میں تو ان حضرات سے یہ عرض کروں گا
گفتہ بودم فساد در مستی تو شنبدی چراز عالم ہوش
والسلام
اؤارہ دشت گمنامی
احقر کونین سید مقبول حسین وصل بلگرامی غفرلہ اللہ السامی
خانقاہ امدادیہ تھانہ بھون
