ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ مصلح محقق کی تعلیم اور تر بیت میں شہادت کرنا یا دخل دینا سخت غمطی ہے جیسے طیب حازق کی تجویز اور علاج میں دخل دینا حماقت ہے بعض امور وجدانی اور ذوقی ہوتے ہیں جس کو معالج ہی سمجھ سکتا ہے دوسرا نہیں سمجھتا –
ایک بزرگ کے پاس ایک شخص آئے شیخ کو قرائن اور فراست سے معلوم ہواکہ اس شخص کے قلب میں حب مال ہے دریافت فرمایا کہ تمہارے پاس کچھ مال ہے عوض کیا کہ سودینار ہیں فرمایا ان کو پھینک کر آؤ وہ چل دیئے بلا یا پوچھا کیا کروگے عرض کیا کسی کو دے دوںگا فرمایا نہیں اس سے تو نفس میں حظ (مزہ) ہوگا کہ ہم نے دوسرے کو نفع پہنچایا دریا میں ڈال آؤ وہ چلدیئے پھر بلایا پوچھا کس طرح ڈالوگے عرض کیا ایک دم پھینک آؤں گا فرمایا نہیں ایک دینار روزانہ ڈالو مطلب شیخ کا یہ تھا کہ روزانہ نفس پر آرہ چلے. بعض اہل ظاہر نے مجھ سے اس پر شبہ اور اعتراض کیا کہ یہ تواضاعت ہے مال کی میں نے کہا کہ اضاعت اسے کہتے ہیں کہ جہاں کوئی نفع نہ ہو اور یہاں نفع ہے وہی جو شیخ نے تجویز کیا –
میں بحمداللہ اسکا جو جواب دیا کسی کے کلام میں نہیں دیکھا حضرت یہ لوگ بھی مجتہد ہیں حکیم ہیں – ان کو حق تعالی ایک نور عطا فرماتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی نظر میں حقیتقت آجاتی ہے اسی سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ زمانہ تحریک خلافت میں مجھ پر قسم قسم کے الزامات لگائے گے۔ اور بعض عنایت فرماؤں نے دھمکی کے خطوط بھی لکھے کہ یا تو شریک ہوجاؤ ورنہ عنقریب تہمارے چراغ زنگی کو گل کردیا جائے گا غرض ایک ہڑبونگ مچاہوا تھا اس لئے کہ ایسے لوگوں کے نہ قلب میں دین تھا نہ خدا کا خوف نہ کوئی قاعدہ اور جو جی آیا کرلیا جو منہ میں آیا بک دیا میں اس زمانہ میں حسب معمول جنگل جایا کرتا تھا اب بھی چلا جاتا ہوں ایک دن ایک بوڑھا ہندو راجپوت جنگل میں ملا اس نے کہا کہ میاں کچھ خبر بھی ہے کہ کیا ہو رہا ہے یعنی تمہارے متعلق کیا کیا تجویزیں ہیں میں کہا کہ مجھ کو اس چیز کی بھی خبر ہے جس کی تمہیں خبر ہے اور ایک اور چیز کی بھی خبر ہے جس کی تمہیں خبر نہیں وہ یہ کہ بدون خدا کے حکم کے کوئی کچھ نہیں کرسکتا تو وہ ہندہ کہتا ہے کہ بس میاں تمہیں کچھ جوکھم یعنی خطرہ نہیں جہاں چاہو پھرو اسی طرح ان محققین کو سب چیزوں کی خبر ہے یعنی اس کی بھی جس کی معترض کو خبر ہے یعنی اشکال اور اس کی بھی جس کی معترض کو خبر نہیں یعنی اس اصلاح مذکورہ کی۔
اس نظیر میں ایک حکایت یاد آگئی بڑے کام کی چیز ہے اگر کوئی اس سے منتفع ہو – اگرچہ اس حکایت میں اصلاح کی نیت نہ تھی محض انتقام تھا لکین عبرت کے لئے تھوڑا سا اشتراک بھی کافی ہوتا ہے ایک ولایتی سرحدی پھٹان ریل میں سفر کررہا تھا جب گاڑی ٹونڈلہ میں ٹھہری اس پٹھان نے پلیٹ فارم پر کلی کی جس کی چھینٹیں ایک مغرور کافر کے پیروں پر پڑ گئیں جو پلیٹ فارم پر کھڑا تھا اس کو غصہ آیا اور غصہ میں کہا کہ سور ۔ بس جناب اتنا کہنا تھا کہ ولایتی نے گاڑی سے اتر کر اور اس کا کان پکڑ کر اور ریل کے ہر ڈبہ میں اس کا منہ دے کر کہا کہ کہو میں سور وہ مغرور ہر ڈبہ میں منہ دے کر کہتا تھا کہ میں سور ۔ اس سے اسکی عمر بھر کے لئے اصلاح ہو گئی کہ پھر تو کسی کو سور نہ کہا ہو گا تو بعض دفعہ اصلاح اسی طرح ہوتی ہے۔
پھر ولایتی مناسبت سے فرمایا کہ بعضے سرحدی لوگ بڑے ہی سخت ہوتے ہیں ان کی دوستی کا بھی اعتبار نہیں ۔ قاری عبد الرحمن صاحب پانی پتی رحمۃ اللہ علیہ کے پاس ایک سرحدی طالب علم پڑھا کرتا تھا ایک دفعہ جو وطن سے آیا تو قاری صاحب کے لئے ایک نئی دری لایا انہوں نے اس کو طالب علم اور غریب سمجھ کر لینے سے عذر کر دیا ۔ چلا گیا دوسرے روز پھر لایا تیسرے روز پھر لایا قاری صاحب نے یہ سمجھ کر کہ اصرار کر رہا ہے دل آزاری نہ ہو لے لی اس پر وہ طالب علم کہتا ہے کہ الحمد اللہ کہ آج دو جانیں بچ گئیں آج ہم چھرا لایا تھا کہ اگر آج تم نہ لیتا تو ہم ایک تمہارے اور ایک اپنے مار لیتا اور لینے سے دو جانیں بچ گئیں ۔
