اللہ تعالی فرماتا ہے ان الصلوۃ تنہی عن الفحشاء والمنکر یعنی بے شک نماز روک دیتی ہے بے حیائی اور گناہ سے۔ غرض یہ ہے کہ نماز باقاعدہ پڑھنے سے ایسی برکت ہوتی ہے جس سے نمازی تمام گناہوں سے باز رہتا ہے۔ اگرچہ اور بھی بعض عبادتیں ایسی ہیں جن سے یہ برکت حاصل ہوتی ہے مگر نماز کو اس میں خاص دخل ہے اور نماز کو اس باب میں اعلی درجہ کی تاثیر ہے۔ مگر یہ ضرور ہے کہ نماز سنت کے موافق عمدہ طور سے ادا کی جائے۔ نمازی کے دل میں اللہ پاک کی عظمت پائی جائے ظاہر اور باطن سکون و عاجزی سے بھرا ہو۔ ادھر ادھر نہ دیکھے۔ جس درجہ نماز کو کامل ادا کرے گا اسی درجہ کی برکت حاصل ہو گی۔ کوئی عبادت نماز سے زیادہ محبوب حق تعالی کو نہیں ہے پس مسلمان کو ضرور ہے کہ ایسی عبادت جو تمام گناہوں سے روک دے اور دوزخ سے نجات دلادے اس کو نہایت التزام سے ادا کرے اور کبھی قضا نہ کرے۔ حضرت امام حسن بصری رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے حضرت امام حسن بصری بڑے درجہ کے عالم اور درویش ہیں اور صحابہ کے دیکھنے والے ہیں۔ حافظ محدث ذہبی نے ان کے حالات میں ایک مستقل رسالہ لکھا ہے کہ فرمایا جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ جس شخص نے ایسی نماز پڑھی کہ اس نماز نے اس نمازی کو بے حیائی کے کاموں اور گناہ کی باتوں سے نہ روکا تو وہ شخص اللہ تعالی سے دوری کے سوا اور کسی بات میں نہ بڑھا۔ اس نماز کے سبب یعنی اس کو نماز کے سبب قرب خداوندی اور ثواب میسر نہ ہو گا۔ بلکہ اللہ میاں سے دوری بڑھے گی اور یہ سزا ہے اس بات کی کہ اس نے ایسی پیاری عبادت کی قدر نہ کی اور اس کا حق ادا نہ کیا۔ پس معلوم ہوا کہ نماز قبول ہونے کی کسوٹی اور پہچان یہ ہے کہ نمازی نماز پڑھنے کے سبب گناہوں سے باز رہے اور اگر کبھی اتفاق سے کوئی گناہ ہو جائے تو فورا توبہ کر لے۔
حضرت عبداللہ بن مسعود یہ بڑے درجہ کے صحابی اور بڑے عالم اور متقی ہیں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ بے شک حال یہ ہے کہ اس نمازی کی نماز مقبول نہیں ہوتی اور اس کو ثواب نہیں ملتا گو بعضی صورتوں میں فرض سر سے اتر جاتا ہے اور کچھ ثواب بھی مل جاتا ہے جو نماز کی تابعداری نہ کرے اور نماز کی تابعداری کی پہچان یا اس کا اثر یہ ہے کہ نماز نمازی کو بے حیائی کے کاموں اور گناہ کی باتوں سے روک دے۔ اور حدیث میں ہے کہ ایک مرد جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ تحقیق فلاں شخص رات کو نماز پڑھتا ہے یعنی شب بیدار اور عبادت گزار ہے پھر جب صبح ہوتی ہے تو چوری کرتا ہے۔ آپ نے فرمایا بے شک عنقریب نماز اس کو اس کام سے روک دے گی جسے تو بیان کرتا ہے۔ یعنی چوری کرنا چھوڑ دے گا اور گناہ سے باز آئے گا اخرجہ احمد وابن حبان والبیہقی عن ابی ہریرۃ رضی اللہ تعالی عنہ بلفظ قال ای ابوہریرۃ جاء رجل الی النبی صلی اللہ علیہ وسلم فقال ان فلانا یصلی باللیل فاذا اصبح سرق قال انہ سینہاہ ماتقول اوردہ الامام السیوطی فی الدر المنثور۔
حضرت عبادۃ بن الصامت یہ صحابی ہیں سے روایت ہے کہ فرمایا جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس وقت بندہ وضو کرتا ہے پس عمدہ وضو کرتا ہے یعنی سنت کے موافق اچھی طرح وضو کرتا ہے پھر نماز کے لیے کھڑا ہوتا ہے پس پورے طور پر نماز کا رکوع کرتا ہے اور پورے طور پر نماز کا سجدہ کرتا ہے اور پورے طور پر نماز میں قرآن پڑھتا ہے یعنی رکوع سجدہ قرات اچھی طرح ادا کرتا ہے تو نماز کہتی ہے اللہ تعالی تیری حفاظت کرے جیسی تو نے میری حفاظت کی یعنی میرا حق ادا کیا مجھے ضائع نہ کیا پھر وہ نماز آنکھوں کی طرف چڑھائی جاتی ہے اس حال میں کہ اس میں چمک اور روشنی ہوتی ہے اور اس کے لیے آنکھوں کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں تاکہ اندر پہنچ جائے اور مقبول ہو جائے اور جبکہ بندہ اچھی طرح وضو نہیں کرتا اور رکوع اور سجدہ اور قرات اچھی طرح ادا نہیں کرتا تو وہ نماز کہتی ہے خدا تجھے ضائع کرے جیسا کہ تو نے مجھے ضائع کیا۔ پھر وہ آنکھوں کی طرف چڑھائی جاتی ہے اس حال میں کہ اس پر اندھیرا ہوتا ہے اور دروازے آنکھوں کے بند کر دیئے جاتے ہیں تاکہ وہاں نہ پہنچے اور مقبول نہ ہو پھر لپیٹ دی جاتی ہے جیسے کہ پرانا کپڑا جو بیکار ہوتے ہی لپیٹ دیا جاتا ہے۔ پھر وہ نمازی کے منہ پر ماری جاتی ہے۔ یعنی قبول نہیں ہوتی اور اس کا ثواب نہیں ملتا حضرت عبداللہ بن مغفل صحابی سے روایت ہے کہ فرمایا جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چوروں میں بڑا چور وہ ہے جو اپنی نماز چراتا ہے۔ عرض کای گیا یا رسول اللہ کس طرح اپنی نماز چراتا ہے۔ فرمایا پورے طور سے اس کا رکوع اور اس کا سجدہ نہیں ادا کرتا۔ اور بخیلوں میں بڑا بخیل وہ شخص ہے جو سلام سے بخل کرے رواہ الطبرانی فی الثلثۃ ورجالہ ثقات کذا فی مجمع الزوائد غرض یہ ہے کہ نماز جیسی سہل اور عمدہ عبادات کا حق ادا نہ کرنا بڑی چوری ہے جس کا گناہ بھی بہت بڑا ہے۔
مسلمانوں کو غیرت چاہیے کہ نماز پورے طور ادا نہ کرنے سے ان کو ایسا برا خطاب دیا گیا حضرت انس بن مالک یہ صحابی ہیں جن کا ذکر ضمیمہ حصہ اول میں گزر چکا ہے ان سے روایت ہے کہ باہر تشریف لائے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پس دیکھا ایک مرد کو مسجد میں کہ اپنا رکوع اور سجدہ پورے طور سے ادا نہیں کرتا۔ سو فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں قبول کی جاتی نماز اس مرد کی جو پورے طور سے اپنا رکوع اور اپنا سجدہ نہیں ادا کرتا۔ رواہ الطبرانی فی الاوسط والصغیر وفیہ ابراہیم بن عبداد الکرمانی ولم اجد من ذکرہ کذا فی مجمع الزوائد حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ۔ یہ بڑے درجے کے عالم اور بڑے عبادت گزار اور بڑے ذکر کرنے والے اور صحابی ہیں۔ صحابہ میں حضرت ابن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ ان سے زیادہ حدیث کے جاننے والے تھے اور کوئی صحابی ابوہریرہ سے زیادہ حدیث کا جاننے والا نہ تھا۔ ان کا نام عبدالرحمن ہے ابوہریرہ کنیت ہے اور ابتدائے حال میں یہ تنگدست تھے یہاں تک کہ فاقوں اور بھوک کی تکلیف بھی اٹھائی۔ ان کے اسلام لانے کا قصہ طویل ہے۔ ابتداء میں باوجود ضرورت کے بوجہ تنگدستی کے نکاح بھی نہ کر سکے۔
پھر بعد وفات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ان کی دنیاوی حالت درست ہو گئی اور مال میں ترقی ہوئی اور مدینہ منورہ کے حاکم مقرر کیے گئے۔ حاکم ہونے کی حالت میں لکڑیوں کا گٹھہ لے کر بازار میں گزرتے تھے اور فرماتے تھے کہ راستہ کشادہ کر دو حاکم کے لیے یعنی میرے نکلنے کے لیے راستہ چھوڑ دو۔ دیکھو باوجود اتنے بڑے عہدے دار ہونے کے اپنا کام اور وہ بھی اس طرح کہ معمولی عزت دار آدمی اس طرح کام کرنے سے اپنی ذلت سمجھتا ہے۔ خود کرتے تھے اور ذرا بڑائی کا خیال نہ تھا کہ میں کلکٹر ہوں کسی ماتحت یا نوکر سے یہ کام لے لوں۔ یہ طریقہ ہے ان حضرات کا جنہوں نے سالار انبیاء احمد مجتبیٰ محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلیم پائی تھی اور آپ کی صحبت اٹھائی تھی۔ ہر شخص اپنے کو ذرا سا رتبہ حاصل ہونے پر بہت بڑا سمجھنے لگتا ہے اور پھر دعوی محبت رسول مقبول کرتا ہے۔ مگر حقیقت میں محبت رسول اسی کو ہے جو آپ کے احکام کی تعمیل کرتا ہے اور آپ کی سنت کی ہر کام میں تابعداری کرتا ہے خوب کہا ہے
وکل یدعی وصلا بلیلی
ولیلی لا تقرلہم بذاک
یعنی ہر شخص دعوی کرتا ہے کہ مجھے لیلے کا وصال ہو گیا۔ اور لیلی اس بات کا ان لوگوں کے لیے اقرار نہیں کرتی۔ سو ان لوگوں کا دعوی کیسے صحیح ہو سکتا ہے۔ اسی طرح جو شخص اللہ و رسول کی محبت کا مدعی ہو۔ اور حدیث و قرآن کے خلاف عمل کرے۔ اور اللہ و رسول اس کے دعوی کی تکذیب کریں تو اس کا دعوی کیسے صحیح ہو سکتا ہے۔ حدیث میں صاف مذکور ہے کہ طریق حق وہ ہے جس پر میں یعنی رسول اللہ اور میرے صحابہ ہیں۔ اس حدیث سے خوب واضح ہے کہ جو طریقہ خلاف طریق رسول ہو وہ گمراہی ہے اور اس پر عمل کرنے والے سے رسول اللہ سخت ناخوش ہیں اور حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ میں نے پرورش پائی اس حال میں کہ میں یتیم تھا۔ اور میں نے ہجرت کی مدینہ کو اس حال میں کہ میں مسکین تھا اور میں غزوان کی بیٹی کا نوکر تھا۔ کھانے کی عوض اور اس شرط پر کہ کبھی سفر میں پیدل چلوں اور کبھی سوار ہو لوں۔ میں ان کے اونٹ ہانکتا تھا شعر پڑھ کر عرب میں اشعار پڑھ کر اونٹوں کو چلاتے ہیں جس سے اونٹ بسہولت چلے جاتے ہیں اور میں لکڑیاں لاتا تھا ان کے یعنی اپنے مالک کے گھر والوں کے لیے جب وہ اترتے تھے یعنی کہیں پڑاؤ ڈالتے تھے پس شکر ہے اس اللہ کا جس نے دین کو مضبوط کیا۔ اور ابوہریرہ کو امام اور پیشوا بنایا۔ یعنی دین اسلام قبول کر کے یہ دولت حاصل ہوئی کہ امامت دین میسر ہوئی اور یہ خدا کی نعمت کا شکر ادا فرمایا۔ بطور تکبر اور فخر کے اپنے کو پیشوا نہیں کہا۔ اور خدا کی نعمت کا اظہار کرنے اور اس کا شکریہ ادا کرنے کو جتنا درجہ انسان کو حاصل ہوا س کا ظاہر کرنا ثواب ہے اور با اعتبار فخر و تکبر منع اور حرام ہے۔ اور حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ تم ان غنیمتوں کے مال میں سے ہم سے کیوں نہیں مانگتے۔
پس میں نے عرض کیا میں آپ سے یہ مانگتا ہوں کہ آپ مجھے علم سکھلائیں اس علم میں سے جو اللہ تعالی نے آپ کو سکھلایا ہے۔ سو اتار لیا آپ نے اس کملی کو جو میری پشت پر تھی یعنی میں اس کو اوڑھے ہوئے تھا پھر اسے بچھایا میرے اور اپنے درمیان یہاں تک کہ گویا کہ تحقیق میں دیکھتا ہوں جوؤں کی طرف جو چلتی تھیں اس پر پھر آپ نے مجھ سے کچھ کلمات فرمائے تبرکاً یہاں تک کہ جب آپ وہ کلمات پورے فرما چکے تو فرمایا کہ اس کو اکٹھا کر لے سمیٹ لے پھر اس کو اپنے سینے سے لگا لے۔ ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ اس کا یہ نتیجہ ہوا کہ میں ایسا ہو گیا کہ میں ایک حرف نہیں ساقط کرتا ہوں اس علم سے جو مجھ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا یعنی حافظہ بہت عمدہ ہو گیا اور حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ میں اللہ تعالی سے توبہ استغفار بارہ ہزار بار روز کرتا ہوں یعنی استغفراللہ واتوب الیہ یا اس کی مثل کچھ اور الفاظ بارہ ہزار بار روز پڑھتے تھے۔ اور ان کے پاس ایک ڈورا تھا جس میں دو ہزار گرہ لگی تھیں سوتے نہیں تھے جب تک کہ اس قدر یعنی دوہزار بار سبحان اللہ نہ پڑھ لیتے۔ یعنی سونے سے پہلے اس قدر سبحان اللہ پڑھتے تھے۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ جو بڑے درجہ کے صحابی اور عالم ہیں اور سنت کی تابعداری کا اس قدر شوق تھا کہ آپ نے طریقہ سنت کا اس قدر تلاش کیا کہ لوگوں کو یہ اندیشہ تھا کہ اس محنت میں شاید ان کی عقل جاتی رہے۔ اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ نعم الرجل عبداللہ لوکان یصلی من اللیل یعنی اچھا مرد ہے عبداللہ ابن عمر کاش کہ نماز پڑھتا تہجد کی۔ جب سے آپ نے تہجد کی نماز کبھی نہیں چھوڑی اور رات کو کم سوتے تھے سو وہ فرماتے ہیں کہ اے ابوہریرہ تم بے شک زیادہ رہنے والے تھے ہم لوگوں یعنی صحابہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اور زیادہ جاننے والے تھے ہم لوگوں میں آپ کی حدیث کے۔
حضرت طفاوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں چھ ماہ تک ابوہریرہ کا مہمان رہا سو نہ دیکھا میں نے کسی مرد کو صحابہ میں سے کہ بہت مستعد ہو اور بہت خدمت کرے مہمان کی ابوہریرہ سے زیادہ۔ اور حضرت ابو عثمان نہدی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں سات روز تک حضرت ابوہریرہ کا مہمان رہا۔ سو ابوہریرہ اور آپ کی بیوی اور آپ کا خادم یکے بعد دیگرے رات کے تین حصوں میں نوبت بنوبت جاگتے تھے یعنی ایک شخص نماز پڑھتا تھا پھر دوسرے کو جگاتا تھا اور خود آرام کرتا تھا پس وہ نماز پڑھتا تھا دوسرا آرام کرتا تھا اور تیسرے کو جگاتا تھا اور وہ نماز پڑھتا تھا یہ قصے تذکرۃ الحفاظ بخاری وغیرہ سے لکھے گئے ہیں سو ان سے روایت ہے کہ فرمایا جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اگر تم میں کسی کی یہ ستون ملک ہوتا تو وہ شخص اس بات کو برا جانتا کہ وہ ستون خراب کر دیا جائے سو کیونکر تم میں سے کوئی ایسا کام کرتا ہے کہ اپنی نماز خراب کرتا ہے ایسی نماز کہ وہ اللہ کے لیے ہے پس تم پورے طور پر باقاعدہ اپنی نماز ادا کرو اس لیے کہ بے شک اللہ نہیں قبول کرتا مگر کامل کو یعنی ناقص نماز اور تمام ناقص عبادتیں مقبول نہیں ہوتیں رواہ الطبرانی فی الاوسط حضرت عبداللہ بن عمرو سے جو صحابی ہیں روایت ہے کہ تحقیق ایک مرد حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ سے پوچھا افضل اعمال سے یعنی افضل عمل دین میں کون سا ہے بعد ایمان کے سو فرمایا جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز فرض
اس نے عرض کیا پھر اس کے بعد کونسا عمل افضل ہے فرمایا کہ نماز۔ اس نے عرض کیا پھر کون سا عمل افضل ہے فرمایا نماز یہ ارشاد تین بار فرمایا نماز کی فضیلت اس قدر تاکید سے نماز کے عظیم الشان ہونے کی وجہ سے آپ نے بیان فرمائی تاکہ لوگ اس کا خوب اہتمام کریں اور ضائع نہ ہونے دیں پھر جب غلبہ کیا اس نے آپ پر یعنی بار بار پوچھا کہ اس کے بعد کون سا عمل افضل ہے۔ اور یہ سوال بظاہر چوتھی بار ہو گا تو فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاد اللہ کے راستہ میں یعنی نماز کے بعد کافروں سے لڑنا اس لیے کہ خدا کا دین غالب ہو نہ اس لیے کہ مجھے کچھ نفع مال تعریف وغیرہ حاصل ہو اگرچہ مال وغیرہ مل جائے لیکن نیت یہ نہ ہونی چاہیے۔ سو یہ سب اعمال سے بعد فرض نماز کے افضل ہے اس مرد نے عرض کیا پھر یہ گذارش ہے کہ میرے والدین زندہ ہیں ان کے بارے میں کیا ارشاد ہے فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میں تجھے والدین سے بھلائی کرنے کا حکم کرتا ہوں یعنی ان سے نیکی کر اور ان کو تکلیف نہ پہنچا کہ ان کو تکلیف دینا حرام ہے اس قدر حق والدین کا فرض اور ضروری ہے کہ جس کام میں ان کو تکلیف ہو وہ نہ کرے۔ بشرطیکہ وہ کوئی ایسا کام نہ ہو جس کا درجہ والدین کے حق ادا کرنے سے بڑا ہو اور اس میں حق تعالی کی نافرمانی نہ ہو اور تکلیف سے مراد وہ تکلیف ہے جس کو شریعت نے تکلیف شمار کیا ہے۔ اور اس سے زیادہ حق ادا کرنا مستحب ہے ضرور نہیں خوب سمجھ لو۔ اس مسئلہ میں عام لوگ بڑی غلطی کرتے ہیں۔
اور اس کو مفصل طور پر رسالہ ازالۃ الرین عن حقوق الوالدین میں بیان کیا ہے اس مرد نے عرض کیا کہ قسم اس ذات کی جس نے آپ کو نبی برحق بنا کر بھیجا ہے میں البتہ ضرور جہاد کروں گا اور بے شک ضرور ان دونوں والد اور والدہ کو چھوڑ جاؤں گا فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو خوب جاننے والا ہے یعنی والدین کے ساتھ نیکی کرنے اور جہاد کرنے میں سے جس طرف تیری طبیعت راغب ہو اس کو کر۔ اور اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ جہاد کا درجہ والدین کے ساتھ نیکی کرنے سے بڑھ کر ہے۔ اور بعضی حدیثوں میں بعد نماز فرض کے حقوق والدین کے ادا کرنے کا بڑا درجہ وارد ہوا ہے۔ اس کے بعد جہاد کا مرتبہ۔ سو جواب یہ ہے کہ یہاں جہاد سے حقوق والدین کے افضل ہونے کے یہ معنی ہیں کہ حقوق والدین چونکہ بندوں کے حق ہیں جو بغیر معافی بندوں کے معاف نہیں ہو سکتے۔ اس اعتبار سے ان کا مرتبہ جہاد سے بڑھ کر ہے کہ اگر کوئی فرض جہاد ادا نہ کرے اور اس کا وقت نکل جائے تو توبہ کر لینے سے یہ گناہ معاف ہو جائے گا مگر حقوق العباد فقط توبہ سے معاف نہیں ہوتے۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ جناب رسول مقبول کی خدمت میں مختلف قسم کے سائل حاضر ہوتے تھے اور آپ ہر شخص کو اس کی حالت کے موافق جواب دیتے تھے رواہ احمد و فیہ ابن لہیعۃ زنۃ فعیلۃ وہو ضعیف وقد حسن لہ الترمذی و بقیۃ رجالہ رجال الصحیح کذا فی مجمع الزوائد حضرت ابو ایوب انصاری یہ صحابی ہیں مدینہ میں اول ان ہی کے مکان میں حضور سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے نزول فرمایا تھا جب مکہ سے ہجرت فرما کر مدینہ تشریف لائے تھے سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلعم فرماتے تھے کہ بے شک ہر نماز نمازی کے ان گناہوں کو جو اس نماز کے آگے ہیں ( رواہ احمد باسناد حسن) مطلب یہ ہے کہ ہر نماز پڑھنے سے وہ گناہ صغیرہ معاف ہو جاتے ہیں جو اس نماز سے دوسری نماز پڑھنے تک کرے۔
حضرت ابوامامہ باہلی صحابی سے روایت ہے کہ میں نے سنا ہے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ فرماتے تھے ایک فرض نماز دوسری نماز کے ساتھ مل کر مٹا دیتی ہے ان گناہوں کو جو اس نماز سے پہلے ہوئے یعنی اس نماز سے پہلے جو گناہ صغیرہ ہوئے وہ معاف ہو گئے۔ اسی طرح اور دوسری نماز تک جو گناہ صغیرہ ہوئے وہ اس سے معاف ہو گئے اور نماز جمعہ مٹا دیتی ہے ان گناہوں کو جو اس جمعہ سے پہلے ہوئے یہاں تک کہ دوسرا جمعہ پڑھے۔ اور بعضی حدیثوں میں اس سے آگے تین دن آگے تک گناہ معاف ہو جانا وارد ہے یعنی جمعہ کی نماز سے تین دن آگے کے گناہ صغیرہ معاف کیے جاتے ہیں اور روزہ ماہ رمضان کا مٹا دیتا ہے ان گناہوں کو جو اس رمضان سے پہلے ہوئے۔ یہاں تک کہ دوسرے رمضان کے روزے رکھے اور حج مٹا دیتا ہے ان گناہوں کو جو اس سے پہلے ہوئے یہاں تک کہ دوسرا حج کرے۔ پھر کہا راوی نے فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں جائز ہے کسی مسلمان عورت کو حج کرنا مگر ہمراہ خاوند کے یا ذی محرم کے (رواہ الطبرانی فی الکبیر وفیہ المفضل بن صدقۃ وہو متروک الحدیث) اگر کوئی کہے جس شخص سے گناہ صغیرہ نہ ہوں تو اس کو کیا فضیلت حاصل ہو گی۔ دوسرے یہ کہ نمازوں کے ادھر ادھر کے سب گناہ معاف ہوئے تو جمعہ وغیرہ سے کون سے گناہ معاف ہوں گے اب تو کوئی گناہ ہی نہ رہا جو صغیرہ ہو۔ جواب یہ ہے کہ ان دونوں صورتوں میں درجے بلند ہوں گے۔
حضرت ابوامامۃ سے روایت ہے کہ فرمایا جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مثال پانچوں نمازوں کی ایسی ہے جیسے میٹھے غیر کھاری پانی کی نہر جو جاری ہو تم میں سے کسی کے دروازے پر اور وہ نہائے اس میں روز مرہ پانچ بار سو کیا باقی رہے گا اس پر کچھ میل (رواہ الطبرانی فی الکبیر وفیہ عفیر بن معد ان وہو ضعیف جدا کذا فی مجمع الزوائد )حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ فرمایا جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بے شک اول وہ چیز کہ اس کا بندہ سے حساب لیا جائے گا روز قیامت وہ اس کی نماز ہے۔ پس اگر درست ہو گی حساب میں درست ہوں گے اس کے باقی اعمال اس لیے کہ نمازی کے نماز کے سوا باقی اعمال بھی نماز کی برکت سے درست ہو جاتے ہیں اور اگر خراب ہو گی تو خراب ہوں گے اس کے باقی اعمال پھر فرمائے گا حق تعالی دیکھو اے فرشتوں کیا میرے بندہ کی کچھ نفل نمازیں بھی نامہ اعمال میں ہیں۔ سو اگر ہوں گی اس کی کچھ نفل نمازیں تو ان نفلوں سے فرض نماز کی خرابی کو پور اکیا جائے گا۔ پھر باقی فرائض بھی اسی طرح حساب لیے جائیں گے اور نوافل سے کمی پوری کی جائے گی جیسے فرض روزہ نفل روزہ فرض صدقہ نفل صدقہ وغیرہ بسبب مہربانی اور رحمت اللہ کے یعنی یہ خدا کی رحمت ہے کہ فرض کو نفل سے پورا کیا جائے گا۔ ورنہ قاعدہ تو یہی چاہتا ہے کہ فرض نفل سے پورا نہ ہو۔ اور جب پورا نہ ہو تو عذاب دیا جائے۔ مگر سبحان اللہ کیا رحمت خداوندی ہے۔ اور جس کے فرائض درست نہ ہوں گے اور نوافل بھی نہ ہوں گے تو اسے عذاب دیا جائے گا۔ ہاں اگر خدائے تعالی رحم کر دے تو یہ دوسری بات ہے۔
(رواہ ابن عساکر بسند حسن کذا فی کنزالعمال آج )حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ فرمایا جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ نماز افضل ان عبادتوں کی ہے جن کو اللہ نے بندوں پر مقرر فرمایا ہے۔ سو جو طاقت رکھے بڑھانے کی سو چاہیے کہ بڑھا دے یعنی کثرت سے پڑھے تاکہ ثواب کثرت سے ملے۔ حضرت عبادۃ بن الصامت سے روایت ہے کہ فرمایا جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے پاس جبرئیل اللہ تبارک و تعالی کے پاس سے آئے پس کہا اے محمد تحقیق اللہ عزوجل فرماتا ہے بے شک میں نے تیری امت پر پانچ نمازیں فرض کر دیں جس شخص نے ان کو پورا ادا کیا ان کے وضو کے ساتھ اور ان کے وقتوں کے ساتھ اور ان کے رکوع کے ساتھ اور ان کے سجدہ کے ساتھ ہو گیا اس کے لیے ذمہ بسبب ان نمازوں کے اس بات کا کہ میں اس کو داخل کروں بسبب ان نمازوں کے جنت میں اور جو ملا مجھ سے اس حال میں کہ بے شک کمی کی ہے اس نے اس میں سے کچھ سو نہیں ہے اس کے لیے میرے پاس ذمہ اگر چاہوں اسے عذاب دوں اور اگر چاہوں اس پر رحم کروں۔ کنزالعمال حدیث میں ہے کہ جس نے وضو کیا اور اچھا وضو کیا۔ پھر نماز پڑھی دو رکعت اس طرح کہ نہ بھولے اور سہو نہ ہو۔ ان دونوں میں بخش دے گا اللہ اس کے گذشتہ گناہ ( رواہ احمد و ابو داود و الحاکم عن زید بن خالد الجہنی کذا فی الکنز) دو رکعت نماز پڑھنی اس اہتمام سے کہ اس میں سہو نہ ہو ممکن ہے اور سہولت سے ادا ہو سکتی ہے۔ غرض یہ ہے کہ غفلت سے نہ ہو۔ اکثر سہو غفلت سے ہی ہوتا ہے۔ حدیث میں ہے مرد و عورت کی نماز نور پیدا کرتی ہے سو جو چاہے تم میں سے روشن کرے اپنے دل کو حدیث میں ہے کہ بے شک اللہ تعالی نے نہیں فرض کی کوئی چیز زیادہ بزرگ توحید یعنی خدا کو اس کی ذات و صفات و افعال میں یکتا ماننا اور نماز سے اور اگر اس مذکور سے افضل کوئی چیز ہوتی۔
البتہ فرض کرتا اس کو اپنے فرشتوں پر کوئی ان فرشتوں میں سے رکوع کر رہا ہے اور کوئی ان میں سے سجدہ کر رہا ہے۔ یعنی فرشتے چونکہ پاکیزہ اور اللہ کے مقرب بندے ہیں اور ان میں عبادت ہی کا مادہ رکھا گیا ہے جس سے ان کو عبادت سے بہت بڑا تعلق ہے سو اگر کوئی عبادت نماز سے افضل ہوتی تو ان پر فرض کی جاتی اور یہ بھی اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مجموعی ہیئت سے نماز جس طرح ہم پر فرض ہے اس طرح ملائکہ پر نہیں بلکہ اس نماز کے بعض اجزاء بعض ملائکہ پر فرض ہیں۔ سو ہماری کیسی خوش نصیبی ہے کہ وہ اجزاء نفیسہ عبادت کے جو ملائکہ کو تقسیم کیے گئے مجموعی ہیئت سے ہم کو عطا ہوئے سو اس نعمت کی بڑی قدر کرنی چاہیے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ حضور سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ اپنی نماز میں موت کو یاد کر اس لیے کہ بے شک مرد یا عورت جب موت کو یاد کرے گا اپنی نماز میں البتہ لائق ہے وہ اس بات کے کہ اچھی نماز ادا کرے اور نماز پڑھ اس مرد کی جیسی نماز جو نہیں گمان کرتا ہے نماز پڑھنے کا سو اس نماز کے جسے ادا کر رہا ہے اور بچا تو اپنی ذات کو ایسے کام سے معذرت کی جاتی ہے یعنی ایسا کام نہ کر جس سے ندامت ہو اور معذرت کرنی پڑے( رواہ الدیلمی عن انس مرفوعا وحسنہ الحافظ ابن حجر ) حدیث میں ہے کہ افضل نماز وہ ہے کہ جس میں قیام طویل ہو یعنی قیام زیادہ ہو اور قرآن زیادہ پڑھا جائے( رواہ الطحاوی و سعید بن منصور ) حدیث میں ہے کہ اس کی نماز کامل نہیں ہوتی جو اپنی نماز میں عاجزی نہیں کرتا۔ تخشع کا لفظ جو حدیث میں ہے جس کا ترجمہ عاجزی سے کیا گیا۔ اصل یہ ہے کہ اس کے معنی سکون کے ہیں مگر چونکہ سکون کے ساتھ نماز پڑھنا بغیر عاجزی کے میسر نہیں ہو سکتا اس لیے عاجزی سے ترجمہ کیا گیا۔
کیونکہ یہ زیادہ مشہور ہے اور سکون بغیر عاجزی اس لیے میسر نہیں ہو سکتا کہ جب آدمی بے دھڑک اور بیباکی سے اٹھے بیٹھے تو یہ نہیں ہو سکتا کہ ادھر ادھر نہ دیکھے بلا ضرورت ہلے جلے نہیں بلکہ زیادہ رہے گا اور جب عاجزی ہو گی تو ادب کے ساتھ بغیر ادھر ادھر دیکھے اچھی طرح نماز ادا کرے گا۔ حضرت علی سے بسند صحیح روایت ہے کہ آخر کلام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ تھا کہ اہتمام رکھو نماز کا اور خدا س ڈرو لونڈی غلاموں کے بارے میں (کنزل العمال) یہ دونوں باتیں اس قدر اہتمام کے لائق تھیں کہ حضور سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا سے روانگی کے وقت بھی اس کا اہتمام فرمایا اس لیے کہ نماز میں لوگ کوتاہی زیادہ کرتے ہیں۔ نیز لونڈی غلاموں نوکر بیوی بچوں کے تکلفاً دینے اور ان کو حقیر سمجھنے کو بھی معمولی بات خیال کرتے ہیں۔ پس مسلمانوں کو اس طرح بڑا اہتمام کرنا چاہیے اللہ پاک کے بعضے نیک اور بزرگ بندوں کو تو نماز سے اس قدر شوق تھا کہ حضرت منصور بن زاذان تابعی رضی اللہ تعالی عنہ کے حال میں لکھا ہے کہ آیت نکلنے سے عصر تک برابر نماز پڑھتے تھے۔ ظاہر ہے کہ فرض تو اس درمیان میں فقط دو نمازیں تھیں۔ ظہر اور عصر باقی نفل پڑھتے تھے۔ پر بعد عصر مغرب تک سبحان اللہ پڑھتے رہتے تھے۔ پھر مغرب پڑھتے تھے اور ان کی یہ حالت تھی کہ اگر ان سے کہا جاتا کہ ملک الموت دروازے پر ہیں تو اپنے عمل میں کچھ زیادتی نہ فرما سکتے تھے یعنی اپنے دینی کاموں کو موت کے قریب ہونے سے بڑھا نہیں سکتے تھے اس لیے کہ بڑھا وہ سکتا ہے جو موت سے غافل ہو اور تمام وقت یاد الٰہی میں صرف نہ کرتا ہو۔ تو جب وہ موت کا نزدیک آنا سنے گا عمل میں ترقی کرے گا۔ اور جس کا کوئی وقت ہی خالی نہیں اور ہر وقت یاد حق میں مصروف ہے اور موت کو ہر وقت پاس ہی سمجھتا ہے سو وہ کس طرح ترقی کرے اور یہ عالم بھی بڑے تھے اور بڑے بڑے علماء نے ان سے حدیث حاصل کی ہے۔
اور حضرت مخصور بن المعتمر یہ بھی تابعی اور بڑے عالم اور پارسا ہیں۔ ان کے حال میں لکھا ہے کہ چالیس سال تک ان کا یہ حال رہا ہے کہ یہ دن کو روزہ رکھتے اور رات کو جاگتے تھے یعنی عبادت کرتے تھے اور تمام رات گناہوں کے عذاب کے خوف سے روتے تھے۔ اگر ان کو کوئی نماز پڑھتے دیکھتا تو یہ خیال کرتا کہ ابھی مر جائیں گے یعنی اس قدر آہ و زاری و اہتمام سے نماز ادا کرتے تھے اور جب صبح ہوتی تو دونوں آنکھوں میں سرمہ لگاتے اور دونوں ہونٹوں کو آبدار یعنی تر کر لیتے اور سر میں تیل ڈالتے پس ان کی ماں ان سے فرماتیں کہ کیا تم نے کسی کو مار ڈالا ہے جو ایسی صورت بناتے ہو کہ رات کو عبادت کرنے اور رونے سے جو صورت ہو گئی اس کو بدلتے ہو سو عرض کرتے میں خوب جانتا ہوں اس چیز کو جو میرے نفس نے کیا ہے یعنی نفس کو خواہش ہے یا اس کا احتمال ہے کہ یہ خواہش کرے کہ میری شہرت ہو۔ لوگوں میں عبادت کا چرچا ہو بزرگ سمجھیں اور صورت سے عبادت کرنا ثابت ہو جائے یا یہ مطلب کہ میرے نفس نے کچھ عبادت اچھی نہیں کی سو وہ کس شمار میں ہے اور میری صورت سے عبادت گزاری معلوم ہوتی ہے سو لوگ دیکھ کر دھوکہ میں پڑیں گے اور مجھے بزرگ سمجھیں گے۔ حالانکہ میں ایسا نہیں اس لیے صورت بدلتا ہوں اور یہ روتے روتے اندھے ہو گئے تھے۔ امیر عراق نے ان کو بلایا کہ ان کو کوفہ ایک شہر کا نام ہے ملک شام میں اس کا قاضی بنا دے انہوں نے انکار کیا تو ان کے بیڑیاں ڈالی گئیں پھر چھوڑ دیا گیا۔ اور بعضوں نے کہا ہے کہ دو مہینے مجبوری کو قاضی رہے یہ دونوں قصے تذکرۃ الحفاظ جلد اول میں ہیں صاحبو ذرا غور کرو کہ ان بزرگ کو خدا کی عبادت سے کیسی کچھ رغبت تھی اور دنیا سے کیسی نفرت تھی کہ حکومت کا عہدہ ان کو بغیر طلب اور بغیر کوشش کیے ملتا تھا جس میں بہت بڑی عزت اور آمدنی تھی اور جس کے لیے لوگ بڑی بڑی کوشش کرتے ہیں۔ مگر انہوں نے پرواہ نہ کی اور بیڑیاں ڈلوانی گوارہ کیں۔
مسلمان کو ایسا ہی ہونا چاہیے کہ بقدر ضرورت کھانے پہننے کا بندوبست کرے باقی وقت یاد الٰہی میں صرف کرے۔ حدیث میں ہے کہ جس نے بارہ رکعت نماز دن رات میں ایسی پڑھی جو فرض نہیں ہے یہاں سنت موکدہ مراد ہیں دو فجر کی چھ ظہر کی یعنی چار قبل ظہر اور دو بعد ظہر اور دو بعد مغرب اور دو بعد عشاء تو اللہ تعالی اس کے لیے ایک مکان جنت میں تیار کریں گے (رواہ فی الجامع الصغیر بسند صحیح) حدیث میں ہے جس نے مغرب اور عشاء کے درمیان چھ رکعت پڑھیں اس طرح کہ ان کے درمیان کوئی بری بات نہ کی تو وہ بارہ برس کی نفل عبادت کی برابر ثواب میں کی جائیں گی۔ (رواہ فی الجامع الصغیر بسند ضعیف) یعنی ان چھ رکعات پڑھنے کا ثواب بارہ سال کی نفل عبادت کے برابر ہو گا۔ حدیث میں ہے کہ جس نے دو رکعت نماز پڑھی تنہا جگہ میں جہاں نمازی کو اللہ کے سوا اور ان فرشتوں کے جو ہر وقت ساتھ رہتے ہیں اور پیشاب و پاخانہ و جماع کے وقت جدا ہو جاتے ہیں ان کے سوا کوئی اس نمازی کو نہیں دیکھتا لکھی جائے گی اس کے لیے نجات دوزخ سے۔ (رواہ الامام السیوطی بسند ضعیف) یعنی گناہ سے بچنے کی توفیق ہو جائے گی جس سے جہنم میں نہ جائے گا مگر پڑھتا رہے جب یہ برکت حاصل ہو گی۔ حدیث میں ہے جس نے چار رکعت چاشت اور چار رکعت سوائے سنت موکدہ کے قبل ظہر پڑھیں اس کے لیے جنت میں ایک مکان بنایا جائے گا۔ ( رواہ الطبرانی باسناد حسن) حدیث میں ہے جو مغرب اور عشاء کے درمیان میں بیس رکعت نفل پڑھے تو اللہ تعالی اس کے لیے ایک مکان جنت میں بنائیں گے۔ ( رواہ الامام السیوطی باسناد ضعیف) حدیث میں ہے من صلی قبل العصر اربعا حرمہ اللہ علی النار یعنی جس نے نماز نفل پڑھی عصر سے پہلے چار رکعت حرام کر دے گا اس کو اللہ تعالی دوزخ پر (رواہ الطبرانی عن ابن عمرو مرفوعا باسناد حسن) مطلب یہ ہے کہ اس نماز کو ہمیشہ پڑھنے سے نیکی کرنے اور بدی سے بچنے کی توفیق ہو گی جس کی برکت سے جہنم سے نجات ملے گی۔
مگر یہ ضرور ہے کہ عبادت اس قدر کرے جس کا نباہ ہمیشہ ہو سکے اگرچہ تھوڑی ہی ہو۔ یوں کبھی کسی مجبوری سے ناغہ ہو جائے وہ دوسری بات ہے۔ سو جب نوافل پڑھنا شروع کرے تو ہمیشہ اس کو نباہنا ضروری ہے۔ شروع کر کے چھوڑ دینا بہت بری بات ہے۔ اور شروع نہ کرنے سے یہ فعل زیادہ برا ہے۔ حدیث میں ہے رحم اللہ امرا صلے قبل العصر اربعا یعنی رحم کرے اللہ اس مرد عورت پر جس نے نماز پڑھی قبل عصر کے چار رکعت (رواہ الامام السیوطی باسناد صحیح) اے مسلمان بھائیو اور اے دینی بہنو اس حدیث کے مضمون پر فدا ہو جاؤ۔ دیکھو تھوڑی سی محنت میں کس قدر درجہ ملتا ہے کہ حضور سرور عالم کی دعا کی برکت اور گناہوں سے بچنے کی توفیق۔ اس کی جو کچھ بھی قدر کی جائے اور جس قدر بھی ایسی عبادت مقرر کرنے پر حق تعالی کا شکریہ ادا کیا جائے وہ کم ہے۔ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی دعا کسی خوش نصیب ہی کو میسر ہوتی ہے۔ دونوں وقت یعنی صبح و شام ہمارے نامہ اعمال حضرت رسول مکرم نبی معظم احمد مجتبے محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیے جاتے ہیں جو شخص نیکی کرتا ہے اور آپ کی رغبت دلائی ہوئی عبادت بجا لاتا ہے اس سے آپ بہت خوش ہوتے ہیں اور آپ کی خوشنودی اور رضا مندی سے دونوں جہان میں رحمت اور چین میسر ہوتا ہے خوب کہا ہے
فان من جودک الدنیا وضرتہا
ومن علومک علم اللوح والقلم
یعنی آپ کی سخاوت اور بخشش میں تو دنیا اور اس کے مقابل یعنی آخرت موجود ہے اور آپ کے علوم میں لوح محفوظ یعنی جس میں قیامت تک جو کچھ ہونے والا ہے وہ لکھا ہوا ہے اس کا علم موجود ہے۔ غرض یہ ہے کہ آپ کی توجہ اور سخاوت سے دین و دنیا کی نعمتیں میسر آ سکتی ہیں۔ اور آپ کی تعلیم سے لوح محفوظ کا علم میسر ہو سکتا ہے اور اس علم کے میسر ہونے کی دو صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ آپ کی فرمائی ہوئی حدیثوں میں غیبی اسرار موجود ہیں اور اللہ کے خاص بندوں کو منکشف ہوتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ علاوہ ان اسرار کے حق تعالی کی عنایت اور آپ کی احادیث پڑھنے کی برکت اور اس پر عمل کرنے کے سبب اور غیبی بھید بھی طالبان حق پر کھل جاتے ہیں۔ خوب سمجھ لو اور عمل کرو۔ فقط پڑھنے سے بغیر عمل کچھ زیادہ فائدہ نہیں۔ اصل فائدہ تو پڑھنے سے اس پر عمل کرنے سے حاصل ہوتا ہے۔ حدیث میں ہے کہ رات کی نماز یعنی تہجد کی اپنے اوپر لازم کر لو۔ اگرچہ ایک ہی رکعت ہو ( رواہ الامام السیوطی بسند صحیح) مطلب یہ ہے کہ تہجد کی نماز اگرچہ تھوڑی ہی ہو مگر ضرور پڑھ لیا کرو اس لیے کہ اس کا ثواب بہت ہے گو فرض نہیں ہے اور یہ غرض نہیں کہ ایک رکعت پڑھ لو۔ اس لیے کہ ایک رکعت نماز کا پڑھنا درست نہیں کم ازکم دو رکعت پڑھے۔ حدیث میں ہے کہ رات کے قیام کو یعنی نماز تہجد کو اپنے ذمہ لازم کر لو اس لیے کہ وہ عادت ان نیکوں کی ہے جو تم سے پہلے تھے اور نزدیکی کرنے والی ہے اللہ تعالی کی طرف اور گناہ سے روکنے کا ذریعہ ہے اور مٹاتی ہے گناہوں (صغیرہ) کو ہٹانے والی ہے مرض کو جسم سے (رواہ السیوطی بسند صحیح) ذرا غور کرو کہ کس قدر نفع ہے اس نماز کے پڑھنے میں کہ ثواب بھی گناہوں کی معافی اور گناہوں سے روک دینا بھی اور جسمانی مرض کی شفا بھی۔ اور باطنی بیماریوں کی تو شفا ہے ہی۔
اس لیے کہ حدیث میں ہے خدا کا ذکر دلوں کی بیماری کے لیے شفا ہے اور نماز اعلی درجہ کا ذکر ہے اور کچھ دشوار بھی نہیں۔ تہجد کے وقت خاص طور پر دعا قبول ہوتی ہے ضرور پڑھنا چاہیے۔ حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے چالیس سال تک عشاء کے وضو سے صبح کی نماز پڑھی ہے۔ رات بھر خدا کی عبادت کرتے تھے۔ حدیث میں ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ پاک سے روایت فرماتے ہیں کہ حق تعالی فرماتے ہیں کہ اے ابن دم تو چار رکعت نفل پڑھ میرے لیے یعنی اخلاص سے اول دن میں تو میں تجھے تیرے کاموں میں کفایت کروں گا آخر تک ( رواہ الترمذی) وغیرہ یہ اشراق کی نماز کی فضیلت ہے اور اس کے پڑھنے کا طریقہ اصل کتاب بہشتی زیور میں تحریر ہو چکا ہے۔ دیکھو ثواب بھی ملتا ہے اور اللہ تعالی سب کاموں کو پورا بھی فرماتے ہیں۔ دین و دنیا کی نعمتیں میسر آتی ہیں۔ لوگ مصیبت میں ادھر ادھر مارے پھرتے ہیں۔ مخلوق کی خوشامد کرتے ہیں کاش کہ وہ حق تعالی کی طرف توجہ کریں اور اس کے بتلائے ہوئے وظیفے اور نمازیں پڑھیں تو دنیا کے کام بھی خوب درست ہو جائیں اور ثواب بھی میسر ہو اور مخلوق کی خوشامد کی ذلت سے بھی نجات ملے۔ ایک بزرگ فرماتے ہیں کہ ہر قوم کا ایک پیشہ ہے جس سے وہ لوگ معاش حاصل کرتے ہیں اور ہمارے پیشہ تقوی اور توکل ہے۔ تقوی پرہیز گاری اور اللہ تعالی کے حکم کی تعمیل کو کہتے ہیں۔ اور توکل کے معنے ہیں خدا پر بھروسہ کرنا اور اس کا مفصل بیان ساتویں حصہ کے ضمیمہ میں آئے گا انشاء اللہ تعالی۔ غرض یہ ہے کہ دینداری سے دنیا کی مشقتیں اور مصیبتیں جاتی رہتی ہیں۔
