(ملفوظ 46 )رشوت خوف خدا سے چھوڑنا چائی ہے

ایک صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ اس زمانہ میں اکثر اہل حکومت کی نظر میں کام کرنے والوں کی قدر نہیں وفاداری کی قدر نہیں ـ بھائ مرحوم کہا کرتے تھے کہ اگر کوئ رشوت خدا تعالی کے خوف سے چھوڑے تو ٹھیک ہے اور اگر اس خیال سے چھوڑے کہ اہل حکومت خوش ہونگے وہ بڑا ہی بے وقوف ہے کوئ قدر نہیں اور ایسے اہل حکومت کی طرف سے جو کچھ پبلک کی راحت رسانی کا سامان کیا گیا اور کیا جا رہا ہے
اس میں بھی نیت بخیر نہیں جیسے مذہبی جوش کو برباد کرنے کی سعی اور کوشش کی جارہی ہے اس کا اثر قوت باطنی پر پڑا ار ظاہری قوت کو ان اسباب عیش اور راحت سے برباد کر دیا جیسے ایک عورت کی حکایت ہے کہ سوتیلے بیٹے کو گود میں لے رکھا تھا اور اپنے بیٹے کو انگلی پکڑے پیدل لیۓ جاری تھی دیکھنے والوں نے کہا کہ کس قدر شفیق اور بے نفس طبیت عورت ہے سوتیلے بیتے کو گود میں اور اپنے بیٹے کو پیدل لۓ جارہی ہےاس عورت نے سن کر کہا اس میں بھی میری ایک حکمت ہے کہ یہ گود کا خوگر ہو کر اپاہچ ہو جاۓ اور میرا بچہ چلنا سیکھ جاۓ اور تندرست رہے یہی مثال خود غرض لوگوں کی ہے کہ ان کی دوستی کے پردہ میں دشمنی ہوتی ہے ـ

( ملفوظ 45 ) حق تعالٰی سے دعا کی ترغیب

ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ اپنے دوستوں کو بھی مشورہ دیتا ہوں اور خود بھی اس پر عامل ہوں کہ حق تعالیٰ سے اپنی بہود اور فلاح کی دعا کریں اور یہ بڑا عمل ہے اور اس سے بڑا عمل یہ ہے کہ خدا کے راضی کرنے کی فکر میں لگ جائیں اگر مسلمان ایسا کریں تو چند روز میں انشا ء اللہ کا یاپلٹ ہوجائے حقیقی مالک ملک کے حق تعالیٰ ہی ہیں تو ملک جن کی ملک ہے انہیں سے مانگو اور اس کا صحیح طریق یہی ہے کہ ان کو راضی کرو – اور راضی کرنے کا طریقہ یہ کہ گزشتہ نافرمانیوں سے تائب ہوکر آئندہ کے لئے عزم اعمال صالحہ کا کرو دیکھو پھر کیا ہوتا ہے کیونکر تدابیر بھی وہی ذہنوں میں پیدا فرماتے ہیں اور پھر ان تدابیر کو مؤثر بھی وہی بناتے ہیں تو ان کو راضی رکھنے سے تد بیریں بھی صحیح اور مؤثر سمجھ میں آتی ہیں یہ بات یقین کے درجہ کی ہے کہ اگر مسلمان ایسا کریں تو ان کے تمام مصائب اور آلام ختم ہوجائیں یہ مصائب کا سامنا خدا کو ناراض کرنے ہی کی بدولت ہورہا ہے اور جو تدابیر اس وقت اختیار کر رکھی ہیں چونکہ ان اکا اکثر حصہ غیر مشروع ہے اس لئے بجائے کسی کامیابی کے اور الٹی ذلت اور نامی گلو گیر ہوجاتی ہے لوگ کہتے ہیں کہ ( انگریزوں کی ) شروع سلطنت کے زمانہ میں اس کا مشورہ ہواتھا کہ ہندوستان کو نکما بنان چاہئے اور اس کی تدبیر یہ نکلی کہ مذہبی حمیت کو برباد کردینا شاہئے بس میں اسی حمیت کو کہتا ہوں کہ اپنے اندر پیدا کرو لیجئے اثر ہوتا ہے اس وقت کثرت سے لوگوں کو مذہب سے بے گانہ کردیا گیا یہ نہایت باریک حربہ ہے بس اس کے مقابلہ میں کرنے کاکام یہ یے کہ مذہب کی اہمیت قلوب میں پیدا کیجائے مگر مشکل یہ ہے کہ جو کام کرنے کے ہیں ان کو تو مسلمان کرتے نہیں دوسرے جھگڑوں اور قصوں میں پڑ کر اپنا مال اور جان اپنا وقت برباد کررہے ہیں حقیقی تدابیر سے بھاگتے ہیں صاحبو اگر اعتقاد سے کرتے تو آزمانے ہی طریق پر کر کے دیکھ لو اسی کو فرماتے ہیں –
سالہا تو سہنگ بودی دل خراش آزموں رایک زمانے خاک باش
( برسوں تک تو سخت پتھر بنا رہا آزمائش کے لئے کچھ روز خاک ہوکر بھی دیکھ 12 )
ان رسموں تک تو سخت پتھر بنا رہا آزمائش کے لئے کچھ روز خاک میں سر رکھ کر بھی دیکھ لو حکمت یونانی کا نسخہ تو بہت زمانہ تک استعمال کرلیا اب حکمت ایمانی بھی استعمال کر کے دیکھ لو انشاءاللہ تعالٰی تمام امراض کا فور ہوجائیں گے اور میں تدابیر ظاہرہ کا مخالف نہیں ہوں بشرطیکہ غیر مشروع نہ شکایت تو اس کی ہے کہ تدبیر ظاہری کے اس قدر پیچھے کیوں پڑ گۓ کہ حقیقت سے بھی دور جا پڑے اس لیۓ ضرورت ہے کہ اب طت ایمانی نسخہ استعمال کرو فرماتے ہیں
چند خوانی حکمت یونانیاں حکمت ایمانیاں راہم بخواں
(یونانیوں کی حکمت کب تک پڑھو گے ایمان والوں کی حکمت بھی پڑھ لو)
خلاصہ یہ ہے کہ طبیب جسمانی کی تدبیر پر تو عمل کر چکے اور اس کا نتیجہ بھی دیکھ چکے اب طبیب روحانی یعنی جناب رسول مقبول صل اللہ علیہ وسلم کے فرماۓ ہوۓ نسخوں پر عمل کر کے دیکھو کینکہ یہ مرض ان اطمینان ظاہری کی سمجھ سے باہر ہے تو ان کی تدبیر کیسے کافی ہو گی اسی کی نظیر میں مولانا فرماتے ہیں ـ
گفت ہر دارو کہ ایشاں کر دہ اند آن عمارت نیست ویران کردہ اند
بے خبر بود نداز حال دروں استعیز اللہ مما یفترون
( مرد غیبی نے کہ جو دوا ان لوگوں نے کی ہے وہ مرض کو بڑھانے والی تھی ـتندرست کرنے والی نہ تھی ـ وہ لوگ اندرونی حالت سے بے خبر تھے جو دوائیں وہ گھڑ رہے تھے ان سے اللہ کی پناہ ماگتاہوں – 12 )
دیکھۓ صحابہ کرام کی جمعیت کچھ ایسی زائد نہ تھی مادی اسباب پاس نہ تھے مگر طبیب روحانی کے نسخوں پر ان کا عمل تھا دیکھ لو کیا سے کیا کر کے دیکھا گۓ یرموک میں جب اول روز لشکر اسلام کے مقابلہ میں حبلہ بن ایہم غسانی ساٹھ ہزار لشکر لے کر آیا ہے تو حضرت خالد بن علید رضی اللہ عنہ اس کے مقابلہ اول تیس آدمی پھا دوسروں کے کہنے سننے ساٹھ آدمی منتخب کر کے میدان میں لے گۓ حبلہ یہ سمجھا کہ خالد بن ولید صلح کیلۓ آۓ ہیں وہ دیکھ کر ہنسا حضرت خالد بن ولید نے گنگ کا اعلان کر دیا شام تک تلوار چلی کفار کی ساٹھ ہزار کی جمعیت کو ہزمیت ہوئ اور میدان چھوڑ کر بھاگ گۓ صحابہ میں پانچ یا چھے تو شہید ہوۓ اور پانچ گرفتار ہوۓ جب لاشیں بھی نہیں ملیں جب گرفتاری کا گمان ہوا تو چھے لاکھ کے لشکر میں جو باہان ارمنی کے زیرے کمان تھا ان کے چھوڑانے کیلۓ سو سپاہیوں کے ساتھ تشریف لے گۓ اور باہان کی اطلاع واجازت کے بعد جب آگۓ بڑھے تو تخت کے قریب دیبا و حریر کا فرش تھا حضرت خالد بن ولید ساتھیوں سے فرمایا کہ اس کو اولٹ دو باہان ارمنی کے کہا کہ میں نے تو آپ کی عزت کی اور حریر کا فرش بچھانے کا حکم دیا آپ نے اس کی کچھ قدر نہ کی آپ نے فرمایا کہ
ولارض فرشنھا فنعم الماھدون “”
خدا کا فرش تیرے فرش سے اچھا ہے باہان ارمی نے کہا کہ ہم اور تم بھائ بھائ ہو جائیں حضرت خالد بن ولید نے فرمایا کہ اسلام قبول کر لے ہم اور تو بھائ بھائ ہو جائیں گے اور اگر اسلام قبول نہ کرے گا تو وہ دن مجھے قریب نظر آتا ہے تیری گردن میں رسی ہو گی اور لوگ کھینچ کر تجھ کو امیرالمئومنین کے سامنے کھڑا کریں گے یہ سن کر باہان ارمنی آگ ہو گیا اور حکم دیا کہ ان کو پکڑو حضرت خالد بن ولید نے تلوار کھینچ کر ساتھیوں کی طرف دیکھ کر فرمایا کہ تم بھی تیار ہو جاؤ اور اس کی جرار کرار فوج کی طرف نظر نہ کرو اور اس وقت آپس میں ایک دوسرے کو نہ دیکھو اب انشااللہ آب کوثر پر ملاقات ہو گی بس باہان ڈھیلا ہو گیا اور کہنے لگا میں تو ہنستا تھا تو یہ کیا چیز تھی وہی حمیت مذہبی تھی بس اعداء دین تدبیر سے اس کو مٹانا چاہتے ہیں اس کا اثر یہ ہوا اب خد لوگ اپنا مذہب چھوڑ دینے پر آمادہ ہیں مگر پھر اعداء اعداء ( دشمن دشمن ) میں فرق ہے ایک قوم ( انگریز ) کی دشمنی آئین کے ساتھ ہے اور دوسری قوم ( ہندو ) کی صریح ظلم کے ساتھ ـ اگر کہیں ان( ہندوؤں ) کا تسلط ہو جاۓ تو یہ تو زبردستی مسلمانوں کو مرتد بنائیں ـ اب باوجود حکمت نہ ہونے کے جہاں قدرت ہوتی ہے جبر کرتے ہیں جہاں جہاں ان کی اکثریت اور کچھ قوت ہے اور مسلمانوں کی آبادی کم ہے ان کو ارتداد پر مجبور کیا جاتا ہے ـ

( ملفوظ 44 )خلوص اور تواضع کی قدردانی

ایک سلسلہ میں فرمایا کہ یہاں تو خلوص اور تواضع کی قدر ہے اگر یہ نہیں تو پھر چاہے کتنا ہی بڑا ہو اس کی ذرہ برابر قدر نہیں ہوتی اور اس کو سمجھ لینا چاہئے کہ میں محروم ہوں نہ کوئی نفع ہو اور نہ ہوسکتا ہے یہ دوسری بات ہے کہ وہ نفع اور عدم نفع کا امتیاز ہی نہ کرتا ہو جیسے بعض علمی اداروں میں تکبر اور تر فع کو خود داری سمجھتے ہیں اب اگر کسی کے یہاں رذائل ہی کمالات سمجھے جاتے ہوں اور باعث فخر ہوں اس کا کسی کے پاس کیا علاج اس کی بالکل ایسی مثال ہے کہ مریض اپنے امراض ہی کمال سمجھے اور اس پر فخر کرے تو طبیب بیچارہ کیا تیر لگائے گا مگر انجام کا ہلاکت ہی ہے –
6 ذیقعدہ 1350 ھ مجلس خاص بوقت صبح یوم سہ شنبہ

( ملفوظ 43 ) حضرت میاں جی رحمتہ اللہ علیہ کی روشنی

ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ حضرت میاں جی صاحب رحمتہ اللہ فرمایا کرتے تھے کہ ہماری وفات کے بعد دیکھنا ہماری روشنی کس قدر پھلے گی -( چنانچہ مشاہدہ ہے )

( ملفوظ 41 )حضرت مولانا محمد یعقوب صاحب کا اپنا نام بھولنا کا واقعہ

ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ انسان کو کسی چیز پر بھی ناز نہ ہونا چاہئے محض ان کے فضل نہ ہو سب دھرا رہ جاتا ہے ایک مرتبہ حضرت مولانا یعقوب صاحب رحمتہ اللہ عیلہ فرماتے تھے کہ میں نے ایک مرتبہ خط لکھ کر اپنے دستخط کرنا چاہا مگر اپنا نام بھول گیا اور ایسی عجیب بات ہے کہ میں اگر خود مولانا سے نہ سنتا تو راوی کی تکزیب کرتا بھلا کیا کوئی دعوی یا ناز کرسکتا ہے جب اتنے بڑے عال کو ایسی بات بھلادی گئی جس کا بھولنا عادۃ محال ہے –

( ملفوظ 42 )تنعم طالب علمی کے خلاف

ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ والد صاحب نے ایک مرتبہ حضرت مولانا محمد یعقوب صاحب کے واسطے چائے بھیجی اور ایک خط بھی اس کے ہمرا ہ آیا اس میں لکھا تھا کہ کبھی اشرف علی کو بھی شریک فرمالیا کریں پھر اسی خط کے اخیر حصہ میں لکھتے ہیں کہ یہ میں نے بے سوچے لکھ دیا تھا ایسا تنعم طالب علمی کے خلاف ہے مولانا نے مجھ سے دریافت کیاکہ تمہارے والد کا خط ہے ایک خط ہی میں دو باتیں لکھی ہیں کون سی پر عمل کروں میں نے عرض کیا کہ حضرت آخر کی بات ناسخ ہوتی ہے اسی پر عمل فرمایا جائے۔ یہ حضرات باوجود اس کے کہ ان میں بعض دنیا دار بھی تھے مگر عرف اور رواج سے ملغوب نہ تھے صدق اور خلوص کا غلبہ تھا ورنہ ہدیہ کے متعلق یہ درخواست کہ اس میں سے میری اولاد کو بھی دیجئے عرف سے کس قدر بعید ہے۔

( ملفوظ 40 ) مدعیان علم و فہم سے گفتگو میں تسامح کی رعایت نہیں

ایک سلسہ گفتگو میں فرمایا کہ میری عادت مدعیان علم وفہم کے ساتھ معاملات کی گفتگو میں تسامح و رعایت کی نہیں اس سے ان کو دھوکا ہوتا ہے کہ یہ دبتا ہے اور اس خیال سے ان کا جہل بڑھتا ہے میں جب تک ضرورت نہ ہونے تک درگزر کرتا ہوں ِ،کرتا ہوں مگر جس وقت گفتگو کیلۓ متوجہ ہوتا ہوں اس وقت اللہ تعلی مدد فرماتے ہیں فلاں مدرسہ کا مجلس شوری کے ارکان آۓ ہوۓ ہیں ان لوگوں نے اس کے قبل ایک دل آزار خط لکھا تھا اس کے متعق ان سے گفتگو ہوئ انہوں نے چاہا تھا کہ مدرسہ کی دوسری جزئیات میں گفتگو کریں میں نے منع کر دیا اور صاف کہہ دیا کہ میں اس بیہودہ تحریر سے منقبض ہوں اور رہوں گا ـ اول اس کو صاف کیجیۓ اور میں نے ان کو اجازت دی کہ اس میں گفتگو کر لی جاۓ اس پر جواب دیا گیا کہ جن صاحب کی طرف سے وہ تحریر آئ ہے ان کا طرز تحریر ہی ایسا ہے باقی دل میں کوئ بات نہیں میں نے کہا کہ میں اس کی تکذیب نہیں کرتا مگر باوجود اس علم کے کہ ایک شخص کی تحریر کا یہ طرز ہے اس سے کیوں لکھوایا میں نے یہ بھی لکھ دیا کہ یہ معاملہ کی گفتگو ہے میں صافصاف کہوں گا اور اس وقت میرا کلام آزد نہ ہو گا کہنے لگے پھر اب اس کا کیا تدارک ہو میں نے کہا کہ میرا ہی معاملہ اور مجھ سے ہی تدارک کی تدبیر پوچھی جاۓ ہاں اگر کسی اور کا معاملہ ہوتا تو مجھ سے اس سوال کا مضائقہ نہ ہوتا میری غیرت کا اقتضا نہیں کہ میں اپنے متعلق تدارک کی تدبیر بتلاؤں اس پر ان ہی میں سے ایک صاحب نے سب کو مخاطب کر کے کہا کہ آپ لوگوں کو خود تدارک تجویز کرنا چاہیۓ میں نے کہا کہ میں اتنی ہی رعایت کر سکتا ہوں کہ جو تدارک آپ لوگ تجویز کریں گے اس کے کافی ہونے نہ ہونے کو میں ظاہر کر دوں گا اواصولا تو صورت یہ ہونا چاہیۓ کہ آپ تدارک بھی تجویز کریں اور اس کا اعلان بھی کریں اس وقت میں اپن راۓ کا اظہار کروں کہ یہ کافی ہوا یا نہیں اور کافی نہ ہونے کی صورت میں کہوں کہ اور کوئ تدارک کیجیۓ ـ مگر میں اعلان سے قبل ہی محض آپ کی تجویز کے بعد ہی کافی ہونے نہ ہونے کو ظاہر کردوں گا اور یہ میرا تبرع اور احسان ہو گا اس کے بعد ایک صاحب کے ذہن میں وہی بات آئ جو میں تجویز کرتا یعنی یہ کہ اس تحریر کا رد لکھا جاۓ بس یہ تدارک کی کافی صورت ہے اور اس سے پہلے دو صورتیں بیان کی تھیں مجھ کو یاد نہیں اخیر صورت یہ تجویز ہوئ یعنی کہ اس غلطی کو چھپوا کر شائع کر دیں اس کی نسبت مجھ سے میں نے کہا بالکل کافی ہے پھر اس پر سوال ہوا کہ رسالہ”” النور اور الہادی “” میں شائع کر دیا جاۓ میں نے کہا وہ رسالے تو میرے کہلاتے ہیں کہا کہ اخباروں میں شائع کر دیا جاۓ میں نے کہا مجھ کو یہ بھی گوارا نہیں ـ اس لیۓ کہ اخباروں کا زیادہ حصہ نا اہلوں اور بد دینوں کے ہاتھ میں جاتا ہے میں اس کو گوارا نہیں کر سکتا کہ آپ دینداروں کی بد دینوں میں سبکی ہو ـ ہاں ایک اور صورت ہے وہ یہ کہ مستقل چھپوا کر شائع کیجۓ تقسیم کیجیۓ یہ بات تو ختم ہو گئ پھر میں نے یہ بھی کہہ دیا مجھ کو اس کے تدارک کے اعلان کا انتظار نہ ہو گا اگر جی چاہے اور یہاں سے جا کر دوسرے حضرات کے مشورہ کے بعد بھی یہی راۓ رہے جو اس وقت طے ہوئ اور اس میں مدرسہ کی اور اپنی مصلحت بھی ہو تو شائع کیجۓ ورنہ جانے دیجۓ مگر مجھ کو بھی اپنے حال پر رہنے کی اجازت دینا پڑے گی اور یہ جو اس وقت میں کچھ کہا ہے محض آپ کے آنے کی وجہ سے اور آپ کی خواہش پر ورنہ اس میں بھی میری کوئ غرض نہیں اس کے بعد مدسہ کی سرپرستی کا مسئلہ پیش ہوا ایک صاحب نے کہا میری ذاتی راۓ ہے کہ کلی اختیارات سرپرست کو ہونے چاہئیں وہ جو مصلحت اور مناسبت سمجھے احکام صادر کرے اس پر ایک صاحب نے کہا اس کے معنی تو یہ ہیں کہ شوری بالکل حذف کر دیا جاۓ میں نے کہا یہ معنی نہیں جو آپ سمجھے بلکہ مصلحت یہی ہے کہ شوری ہوا ـ خلفا ء راشدین کا بھی یہی معلوم رہا کہ شوری ہوتا تھا خد جناب رسول مقبول صل اللہ علیہ وسلم صحابہ سے مشورہ فرمایا کرتے تھے باقی یہ کہ جب کل اختیارات ایک ہی کو ہوں گے پھر وہ کون سی مصلحت ہے جو شوری میں ہے وہ مصلحت یہ ہے کہ مختیار مطلق کی نظر کو محیط بنا دیں اسلۓ کہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ہر وقت ہر چیز ایک شخص کی نظر محیط نہیں ہوتی اس لۓ اس کی ضرورت ہے کہ سب اپنی اپنی رائے پیش کردیا کریں تاکہ اس محتیار مطلق کی نظر میں سب پہلو آجاویں پھر اس کے بعد یہ حق کسی کو نہ ہوگا کہ وہ سر پرست سے اس کا سوال کریں کہ آپ نے تجویز کی ہے میں کیا مصلحت اور کیا حکمت ہے اگر ایسا ہوا کہ وہ انہیں سمجھائیں یہ انہیں سمجھائیں تو یہ ایک مناظرہ کی صورت ہوگی اور ایسے معلامات جو ذوق اور وجدان کے ماتحت ہوتے ہیں مناظرہ اور مکالمہ سے طے نہیں ہوا کرتے ایک صاحب نے کہا کہ اگر بالکیہ احتیار سر پرست کودے دیئے جائیں تو ممکن ہے کہ کوئی اہل غرض آکر سر پرست کی رائے کو بدل دے – میں نے کہا کہ یہ تو اہل شوری میں بھی احتمال ہے کہ کوئی غرض آکر ان کی رایوں کو بدل دے اور ایسے کو سر پر ست بنایا ہی کیو جاوے جس سے اس قسم اندیشہ ہو اور شبہ ہو بلکہ ایسے کو سرپرست بنایئے جہاں اور جہاں یہ شبہ نہ اور اس پر اعتماد ہو اور وہ متدین ہو بس اس کو ایسے اختیارات دیئے جائیں اور جس میں یہ باتیں نہ تو جو قواعد سابقہ سرپرست کے متعلق ہوں ان کو حذف کر کےس دوسرے قوعد تجویز کر لئے اس سے سب شقوق کا فیصلہ ہوگیا اب یہ کام آپ صاحبوں کا ہے جس کو سرپرست بنایا جائے دیکھ لیا جاوے اور یہ میں آپکو اطمینان دلائے دیتا ہوں کہ مجھ کو شوق نہ سر پرستی کا اور نہ احتیارات کا جو کچھ ہے مدرسہ ہی کی مصلحت کے واسطے ہے ورنہ بات تو میری یہ ہے کہ میں بکھیڑوں سے گھبراتا ہوں خصوصی ذمہ داری کے کاموں سے بس طبیعت آزادی اور یکسوئی کو چاہتی ہے – میری اس تقریر کے بعد اس ہی مجلس میں میری سر پرستی کے متعلق گفتگو شروع کردی میں نے کہا کہ اپنے مستقر پر جاکر اس کو طے کیجئے اور اگر یہاں ہی طے کرنا ہے تو مجھ کو اجازت دی جائے میں اس جگہ سے علیحدی ہوجاؤں میں اس مجلس میں شرکت نہ کروں گا جس میں میرے متعلق گفتگو ہو اور بہتر وہ پہلی شق ہے کہ وہاں ہی جاکر کو طے کریں تاکہ سب کی رائے اطمینان سے پیش ہو کر معاملہ ھوجائے ایسے کاموں میں جوش اور عجلت سے کام نہ لینا چاہئے قرائن سے معلوم ہوتا تھا کہ بات سب کی سمجھ میں آگئی میں نے یہ بھی کہا کہ میں نہ متعارف متواضع ہوں کہ خواہ مخواہ تکیف کی راہ سے اپنی نااہلیت ک ادعوی یا اقرار کروں اور نہ بحمد اللہ متکبر ہوں کہ خواہ مخواہ دعوی اہلیت کا کرکے بڑائی کی خواہش کروں میں دل سے راضی ہوں کہ جس کو مدرسہ کے لئے مصلحت سمجھا جائے سر پرست بنایئں مقصود کام کا ہونا ہے کام ہونا چاہئے کام کرنے والا کوئی بھی ہو – ہاں اس کو ضرور جی چاہتا ہے کہ مدرسہ میں سے جاتی رہی تو ہونا نہ ہونا برابر ہے اور میں اس کا بھی اطمینان دلاتا ہوں کہ میں اختلاف رائے سے دلگیر نہ ہوں گا اب اس کی دعا کرتا ہوں کہ مدرسہ کے واسطے جو بہتر ہو اس پر سب کا اتفاق ہوجائے بس مجلس گفتگو ختم ہوگئی –
5 ذیقعدہ 1350 ھ مجلس بعد نماز ظہر یوم دو شنبہ

(ملفوظ 39 ) پھیکی روشنائ سے طویل خط سے تکلیف

فرمایا کہ ایک صاحب کا خط آیا ہے ایک دفتر بے معنی ہے اور روشنائ پھیکی ہے ـ میں نے جواب میں لکھ دیا ہے کہ اتنا طویل مضمون پھر روشنائ بھی پھیکی جس کے پڑھنے میں وقت بھی زیادہ صرف ہوا اور آنکھیں بھی ـ تو جس شخص کو بہت سا کام ہو وہ ایسی تکلیف برداشت نہیں کر سکتا ـ زبانی ارشاد فرمایا کہ کہ دس آنہ کا کام ڈھائ آنہ میں نکالنا چاہتے ہیں اگر یہی مضمون چار لففوں میں ہو تو شاید وہ بھی کیفایت نہ کرتے بعض لوگ بڑے ذہین ہوتے ہیں ایک شخص نے اس طویل کا عزر لکھا تھا کہ صاحب اگر کسی کے پاس پیسہ نہ ہو ـ میں نے لکھا کہ ہم سے منگا لو مگر ہمارے پاس خط طریقہ سے بھیجو چناچہ انہوں نے ٹکٹ کے دام بھیجنے کو لکھا میں نے ایک روپیہ بھیج دیا اور یہ لکھ دیا کہ جب یہ ختم ہو جاۓ پھر لکھو مگر ایک مرتبہ میں ایک رپیہ سے زائد نہ دوں گا حق تعالی کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ہر ایک عزر کا جواب قلب میں پیدا فرما دیا ہے ـ
5 ذیقعدہ 1450 ھ پونے آٹھ بجے صبح یوم دو شنبہ

( ملفوظ 38 ) الحسیلتہ الناجزہ کی تصنیف کا سبب

ایک سلسلہ گفتگو میں م فرمایا کہ آئے دن نیا فتفنہ پیدا ہوتا ہے اس وقت ایک بڑا فتنہ یہ پیدا ہوا کہ خاوندوں کی زیادتی اور ظلم کے سبب عورتوں میں ارتداد شروع ہوگیامعلوم ہواکہ قریب ہی زمانہ میں کئی ہزار عورتیں مرتد ہوچکیں بعض لوگ سوال کرتے ہیں کہ عورتوں کو جو مرد ستاتے ہیں اور ظلم کرتے ہیں یا مرد مجنون ہوگیا ہے یا عنین ہے یا مفقود الخبر ہے اس کے متعلق اسلام میں کیا احکام ہیں اور اعتراض کرتے ہیں کہ اسلام ایسی حالت میں مرد سے عورت کی نجات کیلۓ کوئ صورت نہیں کوئ امام ابو حنیفہ پر اعتراض کرتا ہے کہ ان کے مذہب میں ان مشکلات کا کوئ حل نہیں ہے ان ہی وجود سے ایک رسالہ مرتب کرا رہا ہوں اب یہ سوال ہوتا ہے کہ جب تک وہ رسالہ تیار ہو اور اس کی اشاعت ہو اس وقت تک مظلومہ کس طرح زندگی بسر کرے میں جواب دیتا ہوں اگر شروع میں نجات کی ایسی تدبیر نکل بھی آے مگر شوہر عدالت میں چارہ جوئ کرے کیونکہ وہ تدبیر قانون میں منظور شدہ نہیں تو عورت کو قانون کی زد سے بچنے کی کیا صورت کیا تدبیر ہو گی اس کا کسی نے آج تک جواب نہیں دیا دوسروں ہی پر اعترض کرنا آتا ہے اب جواب دیں یہ اس کا مصداق ہو گیا کہ میں الزام ان کو دیتا تھا قصور اپنا نکل آیا اب تک تو یہ شبہ تھا کہ علماء کے یہاں اس کا علاج نہیں علماء بتا نہیں سکتے اب بحمداللہ اس کا بھی جواب نکل آیا لیکن باوجود ایسے اعتراضات کے لغو ہونے کے ہمیں پھر بھی اس کی ضرورت ہے کہ ہم نجات کی سبیل بتلائیں اس بتلانے کے بعد دو جماعت کا قصور رہ جاوے گا ایک حکام کا کہ ایسا کوئ قانون نہیں بنایا کہ وہ مذہب کے بھی مطابق ہو اور ایک عوام کا کہ وہ کوشش کرکے اس شرعی تدبیر کو قانون میں کیوں نہیں داخل کرا لیتے جبسے میں نے یہ سنا ہے کہ کئ ہزار عورتیں کوئ سبیل نہ ہونے کی وجہ سے مرتد ہو گئیں اس سے بے حد دل پر اثر ہوا اور اس رسالہ کی تکمیل کی ضرورت محسوس ہوئ اور چونکہ اس رسالہ میں بعض تدابیر دوسرے ائمہ سے لی گئ ہیں اس لیۓ بعض علماء نے کہا ہے اس سے حنفیت جاتی رہے گی میں نے کہا (کیا خوب )چاہے اسلامیت جاتی رہے مگر حنفیت نہ جاۓ بعض نے کہا کہ مردوں کی قوامیت ( حکومت ) جاتی رہے گی میں نے کہا چاہے عورتوں کی اسلامیت جاتی رہے نیز میں نے کہا کہ کیا اس وسطے حکومت دی تھی کہ ظلم کیا کریں ـ اگر ایسی حکومت جاتی رہے تو اس کا جانا ہی اچھا ـ ( الحمد اللہ کہ وہ رسالہ تیار ہو کر چھپ گیا اس کا نام ہے الحسیلتہ الناجزہ للجلیلتہ العاجزہ )

( ملفوظ 37 )تجربات کے بعد اصول وقواعد متین ہونا

ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ میری یہاں جس قدر اصول اور قواعد مرتب ہوئے وہ بعد تجربوں کے ہوئے ہیں مثلا لوگ آتے ہیں اور استغنا ء وغیرہ ساتھ لاتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ فورا جواب لکھ دیا جائے میں اول تو یہ بات ہے کہ بعض مسئلہ ایسا ہوتا ہے کہ کتاب دیکھنے کی ضرورت پڑتی ہے اور دوسرے یہ کہ جلدی میں اندیشہ ہے کہ ذہول کے سبب جواب لکھا جائے – ایک دفعہ ایسا ہوچکا ہے ایک شخص فتوی لکھوانے آیا میں نے لکھ دیا اس میں غلطی ہوگئی یاد آنے پر اس قدر قلب پریشان اور مشوش ہوا کہ مسئلہ کہ بات ہے اب کیا ہو یہ بھی معلوم نہ تھا کہ وہ کہاں کا رہنے والا اور کس طرف کوگیا جب کچھ نہ بن پڑا دعا ء کی – تھوڑی دیر بعد دیکھتا ہوں کہ شخص فتوی ہاتھ میں لئے رہا ہے مجھ کو اس وقت بڑے مسرت ہوئی اور خدا کے فضل کا شکریہ ادا کیا اس شخص نے آکر کہا مولوی جی اس پر آپ نے مہر تو کی ہی نہیں میں نے کہا کہ بھائی مہر تو اب بھی نہ کروں گا مہر میرے پاس ہے ہی نہیں ہاںمسئلہ غلط لکھا گیا تھا اس کو صحیح کردوں گا غرض میں نے اس کو درست کردیا اور اس وقت سے قاعدہ مقرر کردیا کہ استفتاء اور اس کے ساتھ اپنا پتہ لکھ کر لفافہ جاؤ بذیعہ بیھج دیا جائے گا مسائل کا نازک معاملہ ہے اس کے بعد سے ایسا نہیں کرتا کہ فورا جواب لکھ کردے دوں – اس کے علاوہ اس میں ایک بات اور بھی ہے یہ وہ کہ جب تک کام لینے والا سر پر ہوتا ہے غور وفکر کا کام نہیں ہوتا ایک قسم کا تقاضا اور بوجھ ساقلب پر رہتا ہے کام لینے والے کے علاوہ چاہے جس قدر مجمع ہو اس قسم کا اثر نہیں ہوتا اس قسم کی باتیں وجدانی ہیں جو محض بیان سے دوسرے کی سمجھ میں نہیں آسکتیں کام کرنے والا ہی سمجھتا ہے ایک شاعر لندن میں تھا – مشہور تھا – اس کے اشعار مقبول بہت تھے ایک شخص نے شاعر سے کہا کہ اتنے ہزار روپیہ لے لو – اور اس سال کے اندر جتنے اشعار لکھو سب دے دو اس نے وعدہ لرلیا اسی وقت سے آمدہ بند ہوگی تب اس شاعر نے روپیہ لوٹا دیا اور کہا کہ میں ایسا وعدہ نہیں کرتا اسی وقت سے آمد شروع ہوگئی – اس کو تو کام کرنے والا ہی سمجھ سکتا ہے کہ کس چیز کا اثر ہوتا ہے دوسرے کو کیا خبر – ایک شخص یہاں پر بیٹھ گئے میں نے پوچھا کیسے بیٹھے ہو کہنے لگے کہ میں دیکھ رہا ہوں میں نے کہ اگر کوئی تم کو بیٹھ کر دیکھے تو کیا تم کو تکلیف نہ ہوگی کہا کہ مجھ کو تو کوئی تکلیف نہ ہوگی کہا کہ مجھ کو تو کوئی تکلیف نہ ہوگی میں نے کہا کہ میں تمہارے تکذیب نہیں کرتا تم کو نہ ہوتی ہوگی مگر مجھ کو ہوتی ہے یہاں سے جائے اس کو آپ نہیں سمجھتا ہوں خیر یہ تو ان کی بے حسی تھی مگر زیادہ تردد سری چیز ہے یعنی قلت اعتنا ء اور قلت اہتمام اس کی ہی نہیں کہ ہم سے دوسرے تکیف نہ ہو میں تو رات دن مشاہدہ کررہا ہوں مجھ کو تو سخت مزاج کہتے ہیں مگر اپنی نرم مزاجی کو ملا حظہ نہیں فرماتے – کہ بے فکری کے سبب ایذا ئیں دیتے ہیں غرض دنیا سے سلیقہ گم ہوگیا نہ عربی خوانوں میں رہا نہ انگریزی خوانوں میں رہا – باکل مفقود ہی ہوگیا اور کچہ نہیں صرف نے فکری کا غلبہ ہوگیا ہے یہ سبب اسی کے برکات ہیں اپنی طبیعت پر سوچنے کا بوجہ نہیں ڈالتے کہ دوسرا کو تکلیف نہ پہنچے –
اسلامیت جاتی رہے مگر حقیقت نہ جائے بعض نے کہا مردوں کی قوامیت ( حکومت )