(ملفوظ 125)قیمتی کپڑوں سے نفرت

ایک مولوی صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ کپڑے کے مادہ کو زینت میں زیادہ دخل نہیں زیادہ کپڑے کی صورت و ہیئت سے زینت ہوتی ہے کپڑا خواہ کتنا ہی قیمتی ہو مگر اس کی ہیئت و تراش تکلف کی نہ ہوگی تو زینت نہ ہوگی مجھ کو قیمتی کپڑے سے نفرت نہیں بلکہ اس کی تراش و خراش سے نفرت ہے اس بناؤ سنوار ہی سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی جنٹلمین یا بڑی شان والے ہیں اور یہ شان اور اکڑ کپڑا پہننے والے کے طرز ہی سے معلوم ہوجاتی ہے کہ اس کو اس سے تفاخر مقصود ہے یا نہیں اور یہ تزین و تجمل بھی آج کل کے فیشن میں داخل ہوگیا ہے گو کوٹ پتلون نہ ہو ثقہ ہی لباس ہو مگر ہر لباس میں مادہ قلب میں وہی ہے کہ ہر وقت بناؤ سنوار ہو،  اپنی دیکھ بھال ہو۔  جیسے بازاری عورت جس کو  ہر وقت دکانداری ہی کا اہتمام رہتاہے ۔غرض ہر ہیئت میں تو مادہ قلب میں وہی ہے جو کوٹ پتلون میں ہے جس پر طرز و  انداز نمایاں دلالت کرتی ہے اور اسی دلالت کی فرع ہے کہ ایک ہی چیز کا مادہ ایک شخص میں اور ہے دوسرے میں اور اسی لیے میں جس کیلئے جو مناسب سمجھتا ہوں اس کو وہی تعلیم کرتا ہوں اور ایک کی حالت پر دوسروں کی حالت کو قیاس کرنا سخت نادانی ہے جیسے بعض لوگ بزرگوں کا لباس دیکھ کر خود بھی اس کی نقل کرنے لگتے ہیں مگر دونوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے دو شخصوں کا ایک ہی فعل ہو دونوں کی ظاہری ایک ہی صورت ہے مگر زمین وآسمان کا فرق ہوتا ہے مولانا (جلال الدین رومی رح)اسی کو فرماتے ہیں

گفت منصور آناالحق گشت مست  – گفت فرعونے اناالحق گشت پست

(منصور نے اناالحق کہا تو وہ محبت حق کا مست ہوگیا اور فرعون نے اناالحق کہا تو وہ پست ہوتا چلاگیا)

لفظی صورت ایک ظاہر میں دونوں کا دعویٰ ایک مگر ایک مقبول اور ایک مردود۔اسی وجہ سے مولانا یہ بھی فرماتے ہیں کہ اپنی حالت پر دوسروں کی حالت کو قیاس مت کرو۔

کارپاکاں راقیاس از خود مگیر  – گرچہ ماند در نوشتن شیر وشیر

(پاک لوگوں کے کاموں پر اپنے کاموں کو قیاس مت کرو۔(دیکھو شیر جانور)اور شیر (بمعنی دودھ) ایک ہی طرح لکھے جاتے ہیں مگر دونوں میں حقیقت کے اعتبار سے کس قدر فرق ہے)

تو اہل اللّہ اور خاصان حق کا کھانا پہننا چلنا پھرنا اٹھنا بیٹھنا ہنسنا رونا بولنا خاموش رہنا سب اللّہ ہی کے واسطے ہوتا ہے اور

قل ان صلوتی ونسکی ومحیای ومماتی للّہ رب العالمین

کا مصداق ہوتا ہے ان کے اچھے لباس کو دیکھ کر ان کے سامان کو دیکھ کر نہ ان پر معترض ہوں نہ ہر موقع پر ان کی نقل کرو۔ اسی بناء پر جس کیلئے جو مناسب سمجھتا ہوں تعلیم کرتا ہوں سب کو ایک لکڑی سے نہیں ہانکتا اور یہ بھی سمجھنے کی بات ہے کہ کسی نعمت کا استعمال مذموم اور برا نہیں جس قدر اس کی طرف درجہ مقصودیت میں التفات کا رہنا برا ہے اس لئے کہ ایسا التفات تو منعم کی طرف ہونا چاہیے۔

(ملفوظ 124) حزب البحر اخلاص سے پڑھنا چاہئیے

فرمایا کہ ایک خط آیا لکھا ہے کہ حزب البحر میں اس وجہ نہیں پڑھتا کہ ایک مولوی صاحب نے مجھ سے یہ کہا تھا کہ میں بھی اس کو چھوڑنے والا ہوں اور وجہ یہ بیان کی کہ اس نے مجھ کو مفلس بنادیا اور اس پر فرمایا کہ اکثر لوگ حزب البحر اس لئے پڑھتے ہیں کہ غنا حاصل  ہو غنا نہ ہوگا تو چھوڑنے کو تیار ہوگئے خدا معلوم کیسے مولوی ہیں جن کو اتنی بھی سمجھ نہیں۔ آج کل مولوی بھی تو  ہزاروں ہوگئے پھر فرمایا کہ میں نے جواب یہ لکھا ہے کہ اس سے افلاس تو نہیں ہوتا لیکن اس نیت سے پڑھنے سے اخلاص بھی نہیں ہوتا اللہ تعالیٰ کا نام اخلاص سے لینا چاہیے

(ملفوظ123) بے رحم حکمران قوموں کی مثال

 

ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا جو قوم بے رحم اور خود غرض ہوگی ان سے کوئی خوش نہیں ہوگا کیونکہ وہ اس بے رحمی کی وجہ سے اپنے اغراض کو مقدم رکھیں گے کسی کی رعایت نہ کریں گے اور کہیں کرینگے بھی تو اس میں بھی اپنی غرض مضمر ہوگی خالص رعایت نہ ہوگی ایک مولوی صاحب نے کہا تھا کہ ہر بے رحم حکمران قومیں دو طرح کی ہیں بعض کی مثال تودق کی سی ہے جس میں مریض گھل گھل کر ختم ہو جاتا ہے اور دس پانچ برس ٹھہر کر مر جاتا ہے اور بعض کی مثال ہیضہ کی سی ہے چٹ پٹ معاملہ ختم۔

(ملفوظ 122) آہستہ بولنے پر حضرت کو سخت ایذا

ایک صاحب کی غلطی پر مواخذہ فرماتے ہوئے فرمایا کہ یہ ایک دوسری ایذا ہے کہ اسطرح  بولتے ہیں کہ جیسے کوئی والی ملک نواب ہوتے ہیں کہ آواز بھی نہیں نکلتی۔ جب میں سنوں گا ہی نہیں تو جواب کیا خاک دوں گا، تم لوگوں کی عقلیں کہاں گئیں آخر؟ میں کمبخت کہاں تک برداشت کروں اور کہاں تک ضبط کروں کوئی حد بھی ہے؟ آپ نے دیکھا میں نے کیسا سیدھا سوال کیا تھا اس کا جواب ندارد اور خود اپنی طرف سے مجذوبوں والی بڑ ہانکتے ہیں اور وہ بھی ایسے طریقے سے کہ پورے طور سے کوئی سن ہی نہ سکے یہ حرکت بھی ایک مرض کے ماتحت ہے وہ مرض کمبخت کبر کا ہے کہ زور سے بولوں گا تو بات کھلے گی ممکن ہے کہ بات ہو بے ڈھنگی تو اتنے لوگوں میں سبکی ہوگی اس لئے آہستہ بولتے ہیں کہ دوسرا کوئی نہ سن لے اور یہ گول مول ہی بات رہ کر معاملہ ایک طرف ہو یہ ہے وہ بناء جو آہستہ بولنے کی دل میں تعلیم  دے رہی ہے اور ہاں چادر سے منہ چھپا رکھا ہے جیسے چورہوتے ہیں ایک تو آپکی آواز ہی بہت بلند ہے اور اوپر سے اسکو چادر سے لپیٹ  دیا جس سے وہ اور بھی سمجھ میں نہیں آتی ۔  یہ چادر لپیٹ کر منہ ڈھانپ کر بولنا یہ بھی آجکل علامت بزرگی کی ہے کیا کریں ویسے تو آدمیت سے کورے ہیں اس کے چھپانے کے لئے ظاہری ٹیپ ٹاپ بناؤ سنگھار میں بھی رہتے ہیں اور بولنے میں بھی اسکے چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔ غرض ہر پہلو سے اپنے عیوب کو چھپاتے پھرتے ہیں مگر یہاں آکر قواعد کی برکت سے بحمداللہ سب راز فاش ہوجاتا ہے۔ (مزاحاً فرمایا اور دل قاش (تراشیدہ ) ہوجاتا ہے۔) اگر یہ برتاؤ نہ ہو تو اصلاح کیسے ہو۔ اور معلوم نہیں ساری دنیا ہی میں بد فہم لوگوں کی زیادہ آبادی ہے یا میرے ہی حصہ میں چھنٹ چھنٹ کر آتے ہیں کہ کوئی مدرسہ ہے بدفہمی کا کہ اس میں تعلیم پاکر اور سند لیکر آتے ہیں اب اگر کچھ کہتا ہوں تو بدنام ہوتا ہوں اور نہیں کہتا تو اصلاح نہیں ہوتی۔اور کہنے میں میری کوئی مصلحت تھوڑا ہی ہے ان ہی کی بہبود ان ہی کی مصلحت سے ایسا کرتا ہوں کہ یہ آدمی نہیں حیوانیت سے نکلیں اب اس موقع پر معترض حضرات آئیں اور واقعہ مرتب دیکھ کر فیصلہ کریں کہ ظالم کون ہے اور مظلوم کون   اور یوں یہ گھر بیٹھے فیصلہ کردینا کونسا مشکل ہے مجھ کو بد خلق کہتے ہیں ان موذیوں کے اخلاقِ حمیدہ کو بھی تو دیکھ لیا کریں۔

اس پر ان صاحب نے عرض کیا کہ میری وجہ سے حضرت کو تکلیف پہنچی ہے معافی چاہتا ہوں فرمایا بس مہربانی کرکے چپ ہی رہو اب بھلی زبان کھلی دیکھو کیسے صاف بولے نوابی اور سرداری سب ختم ہوگئی، بدون داروگیر دماغ درست نہیں ہوتا یہ دار و گیر ان لوگوں کی غذا ہے میں ان کی نبضیں خوب پہچانتا ہوں یہ تجربہ کی باتیں ہیں جب یہ حالت ہے تو میں کسی کے کہنے سننے سے اپنے طرز کو کیسے بدل دوں۔ آپ ہی انصاف کریں کہ یہی صاحب تھوڑی دیر پہلے کیا تھے اور چند منٹ میں کیا ہو گئے یہ فرما کر ان صاحب سے دریافت کیا کہ پہلے ہی اسطرح کیوں نہیں بولے تھے عرض کیا قصور ہوا معاف کردیجئے اب ایسا نہ کروں گا۔فرمایا یہ میرے سوال کا جواب نہیں ہوا معاف تو ہے اور آئندہ ایسا کروگے بھی نہیں مگر اسکا جواب دو کہ ایسا کیا کیوں ؟ اسکا منشاء کیا تھا؟ عرض کیا کہ واقعی دل میں یہی بات تھی جو حضرت نے فرمائی کہ اور لوگ نہ سنیں کہیں مجھ کو بدعقل اور بدتمیز سمجھیں۔ فرمایا لیجئے سن لیجئے پھر دریافت فرمایا کہ کہیں اس میں تو جھوٹ نہیں بول رہے کہ میری خاطر سے خلاف ِ واقعہ کہہ دیا۔ عرض کیا کہ میں قسم کھاتا ہوں یہ ہی بات تھی۔ فرمایا کہ خیر تمہاری اس سچائی کی وجہ سے کہ تم نے اپنے مرض کا اقرار کرلیا تم کو خیر خواہانہ مشورہ دیتا ہوں کہ تم کو میں مصلح کا نام بتلائے دیتا ہوں ان سے اپنی اصلاح کراؤ اور میرے پاس ویسے آنے کی اجازت ہے مگر یہاں پر آکر خاموش بیٹھے رہنا ہوگا مکاتبت مخاطبت کی قطعاً اجازت نہیں ہوگی اور آنے سے پہلے اجازت حاصل کرلینا ضروری ہوگا  کہ کبھی گڑبڑ کرو ۔ اور اس کی صورت یہ ہے کہ تم   ایک پرچہ پر  اپنا  نام اور پورا پتہ اور اس واقعہ کا اجمالی ذکر اور یہ درخواست کہ مصلح کا پتہ  بتلادیا جائے یہ سب اس پرچہ پر لکھ کر بکس میں ڈال دینا جو سہ دری میں لگا ہے پھر اس پرچہ کا جب میں جواب دوں گا جس پر مصلح کا پتہ بھی لکھ دوں گا وہ جواب کا پرچہ اور ایک اور پرچہ جس میں یہ لکھنا کہ مجھ میں کبر کا مرض ہے اور میں اس کے (یعنی میرے) پاس گیا تھا اوراس نے تمہارا پتہ بتلادیا اور مجھ سے یہ غلطی ہوئی تھی یہ سب صاف صاف لکھ کر تجویز شدہ مصلح کے پاس بھیج دینا پھر وہاں سے جو تعلیم ہو اس پر عمل کرنا اور ان سے بیس بار خط و کتابت کرنے کے بعد وہ سب خطوط مجھ کو دکھلانا اس کے بعد میں اسکو دیکھ کر پھر جو تمہارے لئے مناسب ہوگا تجویز کروں گا اس سے قبل مجھ سے اصلاح کے معاملہ میں خط و کتابت نہ کرنا ہاں اگر کبھی خیریت معلوم کرنے کو جی چاہے اسکی اجازت ہے مگر یہ شرط ہے کہ اس میں اور کوئی مضمون نہ ہو ۔ پھر فرمایا کہ ان کے اقرار کرنے نے میرے دل سے ساری کلفت دھودی اور فوراً طرز بدل گیا، اس پر لوگ مجھ کو سخت گیر اور بد اخلاق کہتے ہیں، کیا یہ بد اخلاقی ہے جس کو آپ صاحبوں نے دیکھا؟

(ملفوظ 121) مذہبی کام پرکھنے کا عجیب اصول

ایک سلسلۂ گفتگو میں فرمایا کہ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ جو کام خالص مذہبی ہوگا اسکی طرف اولاً اہلِ دنیا کو رغبت نہ ہوگی پس جس کام کی طرف اولاً اہلِ دنیا متوجہ ہوں وہ خالص مذہبی نہیں اور جسکی طرف اولاً اہلِ دین، اہلِ تقوٰی متوجہ ہوں وہ خالص مذہبی اور خالص دین ہوگا۔ اس معیار پر یہ تحریکات خالص مذہبی اور دینی تحریکات نہ تھیں کیونکہ زیادہ اور غالب اس میں ایسے ہی طالبِ دنیا تھے جنکی نیت زیادہ اغراض دنیویہ کی تھی دین کی خدمت مقصود نہ تھی “الا ماشاءاللہ”۔ یہی وجہ تھی کہ کسی کام میں نور نہ تھا، خیر و برکت نہ تھی۔ زمانۂ فتنۂ ارتداد میں میرا ایک وعظ اینچولی ضلع میرٹھ میں ہوا تھا، بعضے دیہات میں راجپوت مسلمان شدھ ہونے والے تھے اس وعظ میں ان لوگوں کو خصوصیت سے بلایا گیا تھا۔ اس تقریر میں میں نے اسکے متعلق بھی ایک مضمون بیان کیا تھا وہ مضمون یہ تھا کہ ان تحریکات میں شرکت کرنیوالوں نے فتنۂ ارتداد کے زمانہ میں بذریعۂ اشتہار یہ اعلان کیا تھا کی یہ تحریک خالص مذہبی تحریک ہے اسلئے اس میں ہر شخص اور ہر طبقے کے لوگوں کو شریک ہونا چاہئے تو اس سے صاف اسکا اقرار نکلا کہ دوسری تحریکات مذہبی نہ تھیں۔ جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے۔ غرض خالص مذہبی اور دینی تحریک میں اہلِ دنیا شرکت نہیں کرتے ہاں نخالص تحریک اگر ہو تو اس میں وہ بھی شریک ہوجاتے ہیں اور یہ نخالص وہ نہیں جسکو گاؤں والے استعمال کرتے ہیں کہ یہ گھی نخالص ہے کیونکہ انکا مقصود تو خالص بتلانا ہے مگر وہ خالص کو نخالص بولتے ہیں سو یہ تحریکات ایسی نخالص تھیں بلکہ بمعنیٰ غیر خالص تھیں۔ یہ تھی وہ تحریک جس میں شرکت نہ رکھنے والوں کو فاسق فاجر کہا جاتا تھا اور اس تحریک کو فرض و واجب کہا جاتا تھا۔ پس اسکے متعلق بھی میں نے بسط کیساتھ بیان کیا۔ اس میں یہ بھی کہا کہ قاعدہ عقلیہ و نقلیہ ہے کہ جو تحریک مرکب ہو اسلامی اور غیر اسلامی سے وہ کبھی خالص اسلامی تحریک نہیں ہو سکتی اور نہ اسکو فرض و واجب کہا جا سکتا ہے۔

اس تحریک کے اجزاء دیکھنے سے وہ اسی رنگ کی ثابت ہوئی ہے اور یہ بھی کہا کہ تم دوسروں کی ترقی کو دیکھ کر کیوں للچاتے ہو؟ تم کو تو اتنی بڑی دولت سے نوازا گیا ہے کہ جسکے سامنے تمام دنیا و مافیہا گرد ہیں وہ دولت ایمان کی ہے اگر تمام عالم کی حکومت بھی کسی کے ہاتھ آجائے مگر اس دولت کے سامنے محض بے حقیقت ہے سو اس ناپائدار اور فانی گندی دنیا کے نسبت تو مسلمانوں کی یہ شان ہونا چاہیئے۔

اے دل آں بہ خراب از مئے گلگوں باشی – بر زروگنج بصد حشمت قاروں باشی

( اے دل بہتر یہی ہے کہ عشق حقیقی کی شراب سے تو مست رہے اور بغیر خزانہ اور روپیہ پیسہ کے بذریعہ صفت استغناء کے قارون سے بھی زیادہ تجھ کو عزت حاصل ہو۔)

تو حضرت اس دولتِ ایمان کے مقابلے میں یہ دنیا مردار ناپائدار اور اسکی ترقی ہے ہی کیا بلا اور میں ترقی کو منع نہیں کرتا ترقی کرو مگر طریقۂ کار وہ اختیار کرو جو مشروع ہو اس میں دنیوی کامیابی بھی ان شاء اللہ سامنے دست بستہ کھڑی ہے اور اگر خدانخواستہ یہ نہیں تو پھر ہم یہی کہیں کے گہ کس کے پیچھے اپنی عمر عزیز کو کھوتے ہو یہ کبھی وفا نہیں کر سکتی ہزاروں لاکھوں اس گرداب میں پھنس کر غرق ہوچکے اور خسر الدنیا ولاخرۃ کا مصداق بن چکے اور عذاب الہٰی کو اپنی گردنوں پر لے گئے۔ فرعون نے کیا تھوڑی ترقی کی، نمرود نے، شدّاد نے، قارون نے کیا کچھ کسر اٗٹھا رکھی، آخرت کو برباد کیا، دنیا کو حاصل کیا نتیجہ جو کچھ ہے سامنے ہے۔ خود تم ہی اسلامی حیثیت سے ان ترقی یافتوں کی ترقی کو مردود کہتے ہو اور ساتھ ہی انکو بھی کہتے ہو جس کی اصل یہی ہے کہ ان کو وہ ترقی حدود سے تجاوز کرکے حاصل ہوئی خدا اور رسولﷺ کی مرضی کے خلاف  انکا طریقہ کار تھا اسی لئے میں کہا کرتا ہوں کہ ہر ترقی محمود نہیں۔

ایک نظیر مادیات میں پیش کرتا ہوں اگر ہر ترقی محمود ہے تو بعض اوقات انسان کے جسم میں بوجہ مرض کے ورم آجاتا ہے جس سے اس کی فربہی بڑھ جاتی ہے تو اس کو مذموم کیوں سمجھتے ہو اور طبیب اور ڈاکٹروں سے اس کے ازالہ کی کیوں درخواست کرتے ہون اس سے معلوم ہرا کہ ہر ترقی محمود نہیں بلکہ اس کے اصول ہیں، حدود ہیں۔ چنانچہ اس مبحوث عنہ ترقی کے بھی کچھ اصولِ شرعی ہیں جنکا حاصل یہ ہے کہ مذہب اسلام میں جو ایک حصہ سیاسیات کا ہے وہ مدوّن ہے۔ اس تدوین کے موافق اس کو اختیار کرو وہ بہت کافی ہے اور وہ خالص مذہبی سیاست ہے۔ اس میں گڑبڑ کرنے سے اور کتربیونت سے کام لینا جائز نہیں جیسا کہ آجکل کے طبائع میں یہ مرض عام ہوگیا ہے کہ ہر جگہ اپنی رائے کو دخل دینا چاہتے ہیں اور اس دخل سے احکام میں نہ کوئی تغیر ہوسکتا ہے نہ احکام کو اس سے کوئی مضرت بلکہ اپنا ہی ضرر ہے۔ اسکی بالکل ایسی مثال ہے کہ جیسے کوئی مریض طبیب کے پاس جائے طبیب نبض دیکھ کر نسخہ تجویز کرے، یہ گھر آکر اس نسخہ میں کتر بیونت کرے تو اس سے فن اور نسخہ کا کیا ضرر؟ ضرر تو اسکا ہے اور جیسا کہ آجکل مرض ہورہا ہے کہ احکام میں رائے دیکھ کر اپنی مرضی کے مسائل گھڑ لیتے ہیں اس عمل کی اس سے زیادہ وقعت نہیں جیسے چند ڈاکو جمع ہوکر اور ڈکیتی کی دفعہ کو جو تعزیراتِ ہند میں جرم ہے اسکے متعلق یہ پاس کر لیں کہ ہم اس دفعہ کو منسوخ یا اس میں اپنی مرضی کے موافق تاویل کرکے ڈاکہ کو جائز سمجھتے ہیں۔ تو اسکا جو جواب عدالت سے ان لوگوں کو ملے گا وہی جواب تمہارے اس عمل کا دینگے بلکہ دینے سے پہلے ہی وہ جواب ہماری طرف سے سمجھ لیا جائے۔

اب یہ سن کو تو آنکھیں کھلی ہونگی کہ تمہارے اس عمل کا درجہ احکامِ اسلام کے مقابلے میں ہے کیا۔ تمہاری رائے ہی کیا اور تمہاری عقل ہی کیا اور ہو کس شمار میں؟ چہ نسبت خاک را با عالمِ پاک؟ تمہاری حقیقت اس باب میں ان کیڑوں سے زیادہ وقعت نہیں رکھتی جو خرد بین کے ذریعہ پانی کے اندر نظر آتے ہیں وہ اگر آپ ہی کے سامنے کھڑے ہو کر کہیں کہ فلاں قانون یا فلاں صنعت میں جو آپ کی یہ رائے ہے قابلِ تسلیم نہیں تو جو جواب انکو دوگے وہی ہماری طرف سے احکام کے مقابلہ میں اپنی رائے کے متعلق سمجھ لیا جائے اور جب احکام کی علوِ شان اور اپنی عقل کی نارسائی معلوم ہوگئی تو اب مولویوں پر یہ الزام کہ انکو احکام کے اسرار اور راز معلوم نہیں سراسر غلط ہے اسلئے کہ یہ قانون ساز نہیں جس کیلئے اسرار کا معلوم ہونا لازم ہے بلکہ قانون دان ہیں جس کیلئے علمِ اسرار لازم نہیں اس کو تو آپ بھی تسلیم کریں گے کہ اگر کسی وکیل سے تعزیراتِ ہند کی کسی دفعہ کے متعلق سوال کیا جائے کہ اس میں کیا حکمت ہے اگر وہ اپنے فن سے واقف ہے اور اس میں ماہر ہوگا یہ ہی جواب دے گا کہ میرے ذمہ اسکا جواب نہیں اسلئے کہ میں واضعِ قوانین یعنی قانون ساز نہیں محض قانون داں ہوں، یہ حکمت اور اسرار اور لِمَ واضعِ قوانین سے پوچھو اور اس جواب کو آپ کافی شافی سمجھیں گے اور اس جواب کر انکی کم علمی نہ سمجھیں گے تو پھر مولویوں ہی کا ایسے جواب میں کیا قصور ہے؟ یہ تو وکلاء اور بیرسٹر بھی نہیں بتلاسکتے بلکہ اگر انکو معلوم بھی ہو تب بھی تو تم کو کسی قاعدے سے اس سوال کا حق ہے اور اگر کہو گے کہ ہے تو اسکا یہ جواب بالکل معقول ہوگا جسطرح ہم کو حاصل ہوا اسی طرح تم بھی حاصل کرو کسی کی جوتیاں اٹھاؤ دس برس تک، کسی کے سامنے زانوۓ ادب تہ کرو، یوں تھوڑا ہی حاصل ہوتا ہے!

جیسے ایک خان صاحب کا قصہ ہے کہ ان کو کسی شخص نے بتلادیا کہ فلاں بزرگ کیمیا جانتے ہیں ان سے حاصل کرو۔ خان صاحب کو اس کی علت تھی، گئے جا کر پوچھا کہ تم کیمیا جانتے ہو؟ وہ بزرگ بڑے ظریف تھے کہہ دیا کہ ہاں جانتے ہیں کہا کہ ہم کو بتلادو کہا نہیں بتلاتے کوئی تمہارے باوا کے نوکر ہیں؟ ہم نے برسوں جاننے والوں کی خدمتیں کیں، تکلیفیں اٹھائیں تب جا کر کچھ حاصل ہوا تم بھی ہماری جوتیاں سیدھی کرو اگر کبھی مزاج خوش ہوگا بتلادیں گے۔ خان صاحب بیچارے چپ رہ گئے۔ پھر کھانے کا وقت آیا جنگلی پتوں کی بھجیا خان صاحب کے سامنے رکھی گئی۔ بہت کوشش کی کہ حلق سے نیچے اترے مگر وہ کہاں اترنے والی تھی۔ خان صاحب نے کہا کہ یہ تو میں نہیں کھا سکتا نہ میرے بس کی ہے۔ وہ بزرگ بولے کہ بس اس ہی بوتے پر گھر سے کیمیا سیکھنے چلے تھے، یہ تو اس کی پہلی منزل ہے اس سے آگے ہزاروں اس سے بھی بڑھ کر منزلیں ہیں ان سب کو طے کرنیکے بعد کہیں کیمیا کا پتہ چلے گا۔ خان صاحب بھاگ نکلے پھر ساری عمر کیمیا کا نام نہیں لیا۔

تو صاحب آپ بھی گھر میں بیٹھے ہوئے، گدے قالینوں اور کرسیوں میزوں پر استراحت اور آرام فرماتے ہوئے احکام کے حکم اور اسرار پر مطلع ہونا چاہتے ہیں سو یہ بالکل غیر ممکن ہے۔ اس کا یہ طریقہ نہیں ہے نہ اس سے یہ حکم لگا سکتے ہیں کہ یہ علماء اسرار سے بے خبر ہیں۔ ان میں وہ بھی ہیں کہ انکو سب کچھ معلوم ہے اسلئے عام طور پر آپ کو اس سمجھنے کا کچھ حق نہیں کہ انہیں کچھ آتا جاتا نہیں اور اگر یہ ہی سمجھ لو تو انکا کیا نقصان ہے؟ مثلاً اگر کسی کے پاس ایک لاکھ روپیہ ہو اور دوسرا شخص یہ کہے کہ تیرے پاس تو پائی بھی نہیں تو وہ اور خوش ہوگا کہ اچھا ہے یہی سمجھتا رہے تاکہ میرا مال محفوظ رہے۔ تو اس کا کیا نقصان ہوا؟ یہ تو زیادہ نفع کی صورت ہے اسی طرح ایسے حضرات بھی ہیں کہ ان کو اسرار معلوم بھی ہیں مگر نہیں بتلاتے۔ کسی نے خوب کہا ہے۔

مصلحت نیست کہ از پرہ بر دل افتد راز

ورنہ در مجلس رنداں خبرے نیست کہ نیست

(اس کا بیان کرنا خلاف مصلحت ہے ورنہ رندوں کی مجلس میں وہ کونسی بات ہے جس کی انکو خبر نہ ہو۔)

(ملفوظ 120) اسرارِ احکام معلوم کرنا انکارِ نبوت کے مترادف ہے

ایک سلسۂ گفتگو میں فرمایا کہ آجکل ایک مرض تو ان جدید تعلیم یافتوں میں خاص طور پر پھیل گیا ہے وہ یہ کہ احکام کی لِمَ اور اسرار معلوم کرنے کیلئے ہر وقت پیچھے پڑے رہتے ہیں جسکا منشاء یا حاصل احکام کا اتباع چھوڑ کر اپنی رائے اور عقل کا اتباع ہے۔ اگر کوئی حکم عقل میں آگیا اور رائے کے موافق ہوا تو وہ بھی عمل کے درجہ میں نہیں بلکہ تسلیم کے درجہ میں قبول کرلیا ورنہ صاف انکار۔ حضرت مجدد صاحب نے فرمایا ہے کہ احکام کے اسرار اور لِمَ مرادف ہے انکارِ نبوت کا، یعنی یہ شخص نبی کیطرف سے احکام کا اتباع کرنا نہیں چاہتا بلکہ اپنی عقل اور رائے کا اتباع کرتا ہے، بڑے کام کی بات فرمائی۔ حقیقت یہی ہے جو مجدد صاحب نے فرمائی اور آجکل تو بہت لوگوں نے اپنی اس عقل اور رائے کو بھی ایک طاغوت (گاندھی) کی رائے میں فنا کردیا۔ اب تو اسی کے اتباع کو باعثِ فلاح اور بہبود سمجھتے ہیں۔ اللہ و رسول کے احکام قرآن و حدیث کو بھی اسی کی رائے کے موافق ہونے پر تسلیم کرتے ہیں۔ آپ ہی بتلائیں کہ کہاں تک خاموشی اختیار کیجاسکتی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم جس چیز کو فرمائیں وہ قابل عمل نہ ہو اور اسکو اسوقت تک تسلیم نہ کیا جائے جب تک کہ اس کے اسرار اور لِمَ اور مصالح نہ معلوم ہوجائیں یا کوئی طاغوت اسکی موافقت نہ کرے اور وہ طاغوت جو بھی زبان سے بک دے وہ بلا چوں و چراں قابلِ تسلیم ہوجائے اور غضب یہ کہ اسکی زبان سے نکلے ہوئے مضمون کو قرآن و حدیث سے ثابت کرنے کی کوشش کریں اور افسوس تو یہ ہے کہ اس مرض میں بعض مولوی بھی مبتلا ہوگئے جنکو اہل اللہ اور خاصانِ حق کی صحبت میسر نہیں ہوئی یا اگر میسر ہوئی تو کبھی انہوں نے اپنی اصلاح کی فکر نہیں کی اور ویسے مولانا مفتد انا شیخ المشائخ سب کچھ ہیں مگر یہ سب ظاہری ٹیپ ٹاپ ہے دل میں کچھ اور ہی بھرا ہوا ہے اسی کو ایک حکیم فرماتے ہیں۔

از بروں چوں گورِ کافر پُر خلل – واندروں قہرِ خدائے عزوجل

از بروں طعنہ رنی بر بار یزید – و زد رونت ننگ می دارد یزید

دراصل بات وہ ہے جو میں کہا کرتا ہوں کہ بدوں کسی کامل کی صحبت میں بیٹھے ہوئے اور بدون جوتیاں کھائے ہوئے انسانیت نہیں پیدا ہوتی نہ قلب میں دین راسخ ہوتا ہے جو لوگ اس سے محروم ہیں ایسے لوگوں کا کچھ اعتبار نہیں گھڑی میں کچھ گھڑی میں کچھ، جیسا دیکھا ویسا ہی گانا بجانا شروع کردیا۔ اب اس بد فہمی اور بد عقلی کی کوئی انتہا ہے کہ جو شخص توحید اور رسالت کا منکر ہو وہ مسلمانوں کا ہمدرد اور خیر خواہ سمجھا جائے کون عاقل اسکو تسلیم کرسکتا ہے۔ پھر سمجھانے والوں کر الزام لگایا جاتا ہے کہ یہ اسلام اور مسلمانوں کے دشمن ہیں۔ اب بتاؤ کون دشمن ہے طاغوت کا ماننے والا یا نہ ماننے والا؟ کہتے ہیں کہ وہ طاغوت بڑا عاقل ہے کچھ خبر بھی ہے اگر وہ عاقل ہوتا تو سب سے پہلے آخرت کی فکر ہوتی یعنی ایمان لاتا اور اگر چالاکی کے معنے عقل ہے تو شیطان اس سے زیادہ عاقل ہے اسکی چالاکی کی بدولت دنیا کا اکثر حصہ اسکے اتباع میں مصروف ہے۔ میں تو ایسے عقلاء کو کہتا ہوں کہ عاقل نہیں آکل ہیں، عقل سے ان لوگوں کو کیا تعلق البتہ اکل کے امام ہیں ہر وقت پیٹ کے دھندے میں لگے ہوئے ہیں جیسے اکثر ہندو ہر وقت سود بٹے کی ہی فکر میں رہتے ہیں جسکی حقیقت دنیا ہے اور دنیا بھی ایسی کہ دوسروں کی دنیا کو تباہ کرکے اپنی دنیا بناتے ہیں اسی لئے انکو تو تم بھی عاقل نہیں کہتے بلکہ اور برا بھلا کہتے ہو اسلئے کہ جب ایک کے دو یا تین یا چار دینے پڑتے ہیں تو جھلاتے ہو اور کہتے ہو کہ انہوں نے مسلمانوں کی مالی حالت تباہ اور برباد کردی تو جو شخص ملک کا خواستگار ہو جو میزان اکل ہے دنیا کی اسکو عاقل کیسے کہتے ہو جب دو چار سو روپیہ سود بٹے میں کمانے والے کو عاقل نہیں کہتے تو جو شخص لاکھ دو لاکھ روپیہ یا ایک صوبہ یا ملک کی فکر میں ہو اسکو عاقل کیسے کہتے ہو؟ اتنی موٹی بات بھی سمجھ میں نہیں آتی آخر مطلوب تو دونوں کا دنیا ہے تو دونوں میں فرق کیا ہے؟ ایک عاقل کیوں ہے اور دوسرا عاقل کیوں نہیں؟ آگے اس سے ترقی کرکے کہتا ہوں کہ یہ صرف ہمارا ہی دعوٰی نہیں ہے ان دنیاداروں کے غیر عاقل ہونے کا بلکہ انکا خود بھی اقرار ہے چنانچہ ان اہل دنیا کا اپنے لئے خود مسلمہ مقولہ ہے جو اکثر زبان زد ہے کہ سو روپیہ میں ایک بوتل کا نشہ ہوتا ہے اور نشہ کی خاصیت ہے کہ عقل کو زائل کردیتا ہے تو یہ مسئلہ تمہارا تسلیم کردہ ہے تم خود ہی اقراری مجرم ہو تو اگر کسی شخص کے پاس ایک ہزار روپیہ ہو تو اس میں دس بوتلوں کا نشہ ہوگا تو دس بوتل کے نشہ کے بعد عقل کہاں؟

غرض جب بقول تمہارے ہی جو مہاجن یا ساہوکار دوچار روپیہ تم سے اینٹھنے کی فکر میں ہو اور مال کا تم کو نقصان پہنچائے وہ کم عقل اور تمہارا دشمن اور جو سارے ملک کا قبضہ کرنا چاہے اور تمہارے ایمان کو برباد کرنے کی فکر میں ہو وہ عاقل اور ہمدرد اور خیر خواہ۔ دو چار روپیہ میں اور ملک میں جو نسبت ہے اسی نسبت سے اسکو کم عقل بلکہ اس سے آگے سمجھنا چاہئے یعنی بدفہم بدعقل بدنیت بددین، وہ کیا مسلمانوں اور اسلام کا خیر خواہ ہوسکتا ہے۔ جب تم خود اپنے دشمن ہو تو وہ کیا تمہارا دوست ہوگا؟ بتائی ہوئی بات اور رنگی ہوئی داڑھی کہیں چھپتی ہے؟َ بڑے بڑے لیڈر مسلمانوں نے کیا کچھ اس طاغوت کے ساتھ نہیں کیا حتٰی کہ مقولے تو ایسے مشہور ہیں کہ ان سے تو کفر تک کی جھلک مارتی ہے اللہ معاف کرے مگر ان میں بعض نے آخر ساتھ چھوڑ دیا جبکہ اسکے اندرونی جذبات انکو معلوم ہوگئے کہ یہ تو جانی دشمن ہے اسلام اور مسلمانوں کا۔ خیر یہ بھی غنیمت ہے اور سلامتئ طبع کی دلیل ہے کہ یہ معلوم ہونے پر تو انہوں نے ساتھ چھوڑ دیا ورنہ ابھی تک ایسے بدعقل اور فاسد دماغ کے بھی لوگ مسلمانوں میں موجود ہیں کہ اسکو خیر خواہ اور ہمدرد ہی سمجھتے ہیں۔

مسلمانو! عقل سے کام لو اپنے دوست اور دشمن کو پہچانو ورنہ پچھتاؤگے اور اب بھی پچھتا رہے ہو اسلئے کہ جو کچھ نقصان دنیا کا پہنچا وہ تو پہنچا ہی مگر ہزاروں مسلمانوں کے ایمان اس فتنہ کے زمانہ میں تباہ اور برباد ہوگئے جو مصداق ہو گئے خسر الدنیا ولآخرۃ کے۔ توبہ کرو اور اگر کفریہ کلمات نکل گئے ہیں پھر تجدیدِ ایمان کرو اور اپنے اللہ کی یاد کرو اور جو کچھ اپنی حاجتیں اور ضرورتیں ہیں انکے ہی سامنے پیش کرو اس ہی دربار سے فضل ہوگا وہی تمکو سب کچھ عطاء فرمادیں گے ایسا کرکے تو دیکھو، اگر اعتقاد سے نہیں تو بطور امتحان ہی سہی بت پرستی تو کرکے دیکھ لی ہزاروں کو خدا بنا کر دیکھ لیا، اب ذرا اس طرف بھی ناک ماتھا رگڑ کر دیکھ لو آخر حرج ہی کیا ہے؟ مقصود تو فلاح اور بہبود ہے تو جیسے اور تدابیر اپنے مقصود کی کامیابی کیلئے اختیار کیں منجملہ اوروں کے ایک تدبیر یہ بھی سہی کہ خدا کو راضی کرکے بھی دیکھ لو آخر اسی تدبیر سے کیوں اعراض ہے؟ بات کیا ہے؟

اجی ایک مریض ہے وہ صحت کا طالب ہے تو طبیب سے، ڈاکٹر سے علاج کراتا ہے۔ ایک شخص کہتا ہے کہ میاں ہمارے پاس ایک تعویذ ہے ذرا اسکو بھی باندھ کر دیکھ لو تو کیا ہوتا ہے؟ میاں مرض کے دور ہونے سے غرض ہے تو اس تدبیر میں کیا تمکو ہوّا نظر آتا ہے؟ اس سے کیوں وحشت ہے؟ اور اگر اپنی نافرمانیوں کی کثرت پر نظر کرکے مایوسی ہو تو سمجھ لو کہ انکی وہ شانِ رحمت ہے کہ ایک شخص بت کے سامنے پیٹھا ہوا صنم صنم رٹ رہا تھا، ایک مرتبہ بلا قصد بھولے سے صمد نکل گیا فوراً آواز آئی لبیک یا عبدی بندے کو کیا چاہیئے میں موجود ہوں۔ بس سنتے ہی اس شخص نے اس بت کے ایک لات ماری اور یہ کہا کہ کمبخت ساری عمر تیری پرستش میں ختم کردی مگر کبھی بھی کچھ نہ ہوا، آج بھولے سے اپنے حقیقی رب کا نام نکل گیا فوراً جواب آیا۔ تو حضرت ان کی تو شان ہی اور ہے۔ کیوں اپنے پیدا کنندہ سے اعراض کرتے ہو اسکے سوا اور کوئی نہ نفع پہنچا سکتا ہے نہ نقصان۔ اُنہی سے طلب کرو وہی حاجت روائی کریں گے، اُنکی ایک سیکنڈ اور ایک منٹ کی رحمت تم کر مالا مال کردے گی ذرا آؤ تو سہی بھاگتے کیوں ہو؟ اور اسلام کی قیود سے گھبراتے ہو تو اسکا جواب یہ ہے کہ مجازی بادشاہی کے قوانین کو دیکھ لیجئے اس میں کیا قیود ہیں آخر انکی پابندی کرتے ہی ہو اور اگر ایسا ہی گھبرانا ہے تو کھانے کی پابندی بھی تو ایک قید ہے اس پر ممکن ہے کوئی بیدار مغز یہ فرمائیں کہ اس پر تو زندگانئ دنیا کا مدار ہے یہ قید کیسے چھوڑی جاسکتی ہے بس یہی ہم کہتے ہیں کہ جب اسکو اسلئے نہیں چھوڑتے کہ اس پر مدارِ حیات ہے اور یہ زندگانئ دنیا کے اسباب میں سے ہے تو وہ چیزیں کیسے چھوڑ دیں جن پر مدار ہے حیاتِ آخرت کا، زندگانئ دائمی گا۔ دنیا سے صبر کیوں نہیں آخرت سے صبر کیوں ہے؟ اسی کو مولانا فرماتے ہیں۔

ایکہ صبرت نیست از فرزندوزن – صبر چوں داری زرب ذوالمنن

ایکہ صبرت نیست از دنیائے دوں – صبر چوں داری ز نعم الماہدون

(اے مخاطب! تجھکو بال بچوں کے بغیر تو صبر آتا نہیں، پھر حق تعالٰی سے بے تعلقی کی حالت میں کسطرح صبر آتا ہے۔ اور تجھکو کمینی دنیا کے بغیر صبر نہیں آتا تو حق تعالٰی کے بغیر کیونکر صبر آتا ہے؟)

اور اس توجہ اور تعلق مع اللہ کا بس ایک ہی طریق ہے وہ یہ کہ قلب کو دوسروں سے خالی کرو پھر سب کچھ ہو سکتا ہے، مگر خالی کرنے کے متعلق اسکا انتظار غلطی ہے کہ پہلے دنیا سے یا دنیا کے تعلقات سے قلب کو خالی کرلیں پھر تب یادِ الہی میں مشغول ہوں گے۔ اسکی صحیح تدبیر یہ ہے کہ کام شروع کردو اس سے وہ آپ سے آپ خالی ہوتا رہے گا مگر کام کا مؤثر ہونا محبت سے ہوتا ہے اسلئے پہلے حق تعالٰی سے محبت پیدا کرو اور محبت پیدا کرنے کا طریق یہ ہے کہ اہلِ محبت کہ صحبت اختیار کرو انکی صحبت سے قلب میں ایک آگ پیدا ہوگی جو سب ماسوا کو فنا کردے گی۔ اسی کو مولانا فرماتے ہیں۔

عشق آں شعلہ است کو چوں بر فروخت – ہر چہ جز معشوق باقی جملہ سوخت

(عشق وہ آگ ہے جب یہ بھڑکتی ہے تو معشوق کے سوا سب کو جلا پھونک دیتی ہے)

اور اگر اس تدبیرِ مذکور سے قلب کو خالی نہ کیا بلکہ تعلق مع اللہ کیساتھ ماسوی اللہ کے تعلقاتِ مانعہ کو بھی جمع رکھنا چاہا تو سمجھ لو کہ قلب کیا ہوا مراد آباد اسٹیشن کا اسلامی مسافرخانہ ہوا کہ نگینہ والے بھی اس میں ہیں، بچھراؤں والے بھی اس میں ہیں، بریلی والے بھی، سہارنپور والے بھی غرض قلب کیا سرائے ہے جسکو دیکھو وہاں پر موجود ہے اور سب کا دارالقیام بنا ہوا ہے پس ہر مقصود کو اسکے صحیح طریقہ سے حاصل کرو۔

 

(ملفوظ 119) مدعیانِ اجتہاد کی تفسیر دانی کی مثال

ایک سلسۂ گفتگو میں فرمایا کہ جب کوئی کام بے قاعدہ اور بے اصول کیا جائے گا اسکا انجام بجائے کسی منفعت اور نفع کے ضرر ہی ہوگا۔ آجکل اسی کی ایک فرع یہ بھی ہے کہ عوام بھی قرآن کا ترجمہ خود دیکھتے ہیں کسی استاد سے نہیں پڑھتے۔ پھر اس میں فن نہ جاننے کیوجہ ہے اگر شبہات پیدا ہوتے ہیں تو انکو کسی جاننے والے سے پوچھتے بھی نہیں اس سے وہ شبہات ذہن نشین ہوجاتے ہیں اور اچھے خاصے ملحد ہوجاتے ہیں۔ ان سے کوئی پوچھے کہ انگریزی جاننے کے واسطے کیوں استاد تلاش کرتے ہو اور کیوں برسوں وقت ضائع کرتے ہو؟ زبان میں مناسبت پیدا کرنے کیلئے تو صرف چھ ماہ کافی ہیں اور زیادہ سے زیادہ ایک سال رکھ لو، یہ دس دس برس کیوں کالجوں اور اسکولوں میں دماغ مارتے ہو؟ تو پھر قرآن شریف کے واسطے استاد اور وقت کی ضرورت کیوں نہیں؟ اُس میں اور اِس میں فرق کی کیا وجہ ہے؟

مشاہدہ شاہد ہے کہ قرآن شریف کا ترجمہ گو اردو ہی میں ہو خود دیکھنا اور کسی استاد سے سبقاً سبقاً نہ پڑھنا بجائے ہدایت کے سبب گمراہی کا ہوجاتا ہے دیکھئے اردو میں تو اقلیدس بھی ہے اسکی شکلوں وغیرہ کو بدون اسکے ماہر استاد کے کیوں نہیں سمجھ لیا جاتا؟ یقینی بات ہے کہ بدون استاد اور ماہرِ فن کے تو ہمیشہ غلطیاں ہی کرے گا جیسے ایک شخص نے اس شعر کا لفظی ترجمہ دیکھ کر اجتہاد بگھاڑا تھا۔

دوست آن باشد کہ گیرد دستِ دوست – در پریشان حالی و در ماندگی

(دوست وہی ہے جو دوست کی پرشان حالی اور عاجز ہونے کے وقت دستگیری اور امداد کرے)

اس شخص کو ایک جگہ ایک دوست کسی دوسرے شخص سے لڑتا ہوا ملا جو بقر قدرت انتقام بھی لے رہا تھا یہ جو پہنچے انہوں نے جاکر دوست کے ۔۔۔۔۔۔ دونوں ہاتھ پکڑ لئے، بس اس احمق کی بدولت اس غریب کی خوب کافی مرمت ہوئی اور خوب زد و کوب کیا گیا۔ بعد میں اس دوست بے دریافت کیا کہ جناب یہ کیا حرکت تھی تو فرمایا کہ شیخ سعدی جیسا تجربہ کار بزرگ اور دانشمند فرماگیا ہے کہ۔

دوست آن باشد کہ گیرد دستِ دوست – در پریشان حالی و درماندگی

غنیمت ہے دست کا ترجمہ ہاتھ ہی سمجھا کہیں دیکھ لیا ہوگا ورنہ دوست کا پاخانہ ہی اٹھا کر لایا کرتا۔ بس یہی حالت آجکل کے مدعیوں کی ہے جو قرآنِ مجید کا ترجمہ دیکھ کر خود اجتہاد کرتے ہیں وہ اجتہاد اس شعر کے سمجھنے والے سے کم نہیں۔ ایسوں ہی کی بدولت یہ دین کی گت بنی ہے انکی بالکل ایسی مثال ہے جیسے ایک بڑھیا کے گھر میں شاہی باز جا گرا، لمبی چونچ خم کھائے ہوئے اور بڑے بڑے پنجے دیکھ کر کہنے لگی ہائے یہ کس طرح کھاتا ہوگا کیسے چلتا ہوگا، چونچ اور پنجے کاٹ ڈالے بیچارہ اپاہج ہوکر رہ گیا۔ تو جسطرح اس بڑھیا بدفہم بدعقل نے اس باز کے ساتھ خیر خواہی اور ہمدردی کی تھی ایسی ہی ان لوگوں کی خیر خواہی اور ہمدردی اسلام کے ساتھ ہے اگر ایسے ہی مجتہد اور عقلاء ہوں گے تو بس دین کا اللہ ہی حافظ ہے انکے متعلق کسی نے خوب کہا ہے۔

گرگ میرو سگ وزیر و موش را دیوان کنند – ایں چنیں ارکان دولت ملک را ویران کنند

(ملفوظ 118) خاصانِ حق کی صحبت کے فرضِ عین ہونے کا فتوٰی

ایک سلسلۂ گفتگو میں فرمایا کہ آجکل زمانہ نہایت پُرفتن ہے اس میں تو لوگوں کے ایمان کے لالے پڑے ہوئے ہیں، چہار طرف سے بددین ملحد زندیق بنانے کی سعی اور کوشش کی جارہی ہے اسلئے بزرگوں کی صحبت کی سخت ضرورت ہے اور اس موجودہ زمانہ کی حالت کو دیکھتے ہوئے میں تو خاصانِ حق کی صحبت کے فرضِ عین ہونے کا فتوٰی دیتا ہوں انکے ساتھ وابستہ رہنے سے لوگ اپنے ایمانوں کو سلامت تو رکھ سکیں گے۔ تو جو چیز شرط ہو دین اور ایمان کی حفاظت کی اسکے فرضِ عین ہونے میں کیا کسی کو شبہ ہو سکتا ہے۔

(ملفوظ 117) مدعیِ بیدار مغز کی مثال

ایک سلسلۂ گفتگو میں فرمایا کہ جیسے آجکل مدعی (دعویدار) بیدار مغزی کے ہیں اور ملانوں کو حقیر سمجھتے ہیں پہلے بھی ایسے گذر چکے ہیں۔ ایک بادشاہ کی حکایت ہے کہ اسکا وزیر سے اس مسئلہ میں اختلاف رہا کرتا تھا کہ ملانے عاقل ہوتے ہیں یا بے عقل۔ بادشاہ انکا معتقد تھا۔ ایک دن بادشاہ حوض پر بیٹھے ہوئے تھے کہ دیکھا کہ ایک طرف سے ایک خستہ حال شکستہ بال طالبعلم بغل میں کتابیں دبائے آرہے ہیں۔ بادشاہ نے امتحان کیلئے ان طالبعلم کو بلایا اور وزیر سے سوال کیا کہ میاں وزیر یہ بتلاؤ کہ اس حوض میں کتنے کٹورے پانی آسکتا ہے۔ عرض کیا حضور کٹورہ کو مانپ مانپ کر پانی حوض میں بھرا جائے تب شمار میں آسکتا ہے کہ کتنے کٹورے حوض میں آسکتا ہے۔ بادشاہ نے طالبعلم سے کہا کہ مولوی صاحب آپ یہ بتلاسکتے ہیں کہ اس حوض میں کتنے کٹورے پانی آسکتا ہے۔ ان طالبعلم نے فی الفور جواب دیا کہ یہ سوال ہی مہمل ہے، اول تعین چاہئے کہ کٹورا کتنا بڑا ہے، اگر وہ حوض کے برابر ہے تو ایک کٹورا پانی آئے گا اور نصف ہے تو دو کٹورے اسی طرح سے نسبت سے حساب لگالیجئے۔ تب بادشاہ نے وزیر سے کہا کہ دیکھا بیدار مغزی، ایک آپکا جواب بالکل ناکافی، طالبعلم نے ایک مختصر جواب میں سب جھگڑا ختم کردیا، بتلاؤ زیادہ عاقل کون ہے؟

ان مدعیوں کو یہ دھوکہ اسلئے ہوجاتا ہے کہ یہ تجربہ اور عقل کو ایک سمجھتے ہیں۔ تجربہ اور چیز ہے عقل اور چیز ہے۔ تو ان ملانوں کو چونکہ تجربہ کے کاموں سے سابقہ نہیں پڑتا اسلئے انکو تجربہ نہیں ہوتا اور ویسے کامل العقل ہوتے ہیں۔ ایک بڑی دلیل انکے عاقل ہونے کی یہ ہے کہ یہ بات عقل ہی کی تو ہے کہ انجام اور آخرت کی فکر ہے اور وہ عقل جسکو آجکل کے بیدار مغز عقل کہتے ہیں اس سے بیشک ان صاحبوں کو بُعد ہے مگر وہ واقع میں بُعد ہی کی قابل بھی ہے، مولانا اسی کو فرماتے ہیں۔

آزمودم عقل دور اندیش را – بعد ازیں دیوانہ سازم خویش را

(میں عقل دور از اندیش کو آزمانے کے بعد دیوانہ بنا ہوں)

ایسی عقل سے تو یہ دیوانگی ہی مبارک ہے اسلئے کہ جو اپنے محبوب کے راستہ میں سدِ راہ ہوا اس سے زیادہ مبغوض اور منحوس اور کیا چیز ہوگی۔ کسی عاشق سے پوچھو اسی کو نقل فرماتے ہیں۔

باز دیوانہ شدم من اے حبیب – باز سودائی شدم من اے طبیب

(میں عقل کا تجربہ کرنے کے بعد اے محبوب پھر تیرا دیوانہ بن گیا ہوں اور اے طبیب میں پھر اسی محبوب کا سودائی بن گیا ہوں۔)

اور فرماتے ہیں۔

اوست دیوانہ کہ دیوانہ نہ شد – مرعسس را دید در خانہ نہ شد

(میرے خیال میں جو محبوب کا دیوانہ نہیں بنا (حقیقت میں) وہی پاگل ہے اور اسکی مثال ایسی ہے کہ کوتوال کو آتے دیکھا اور پھر بھی اس سے بچنے کی کوشش نہیں کی)۔

تو ان مدعیوں کا مبلغِ پرواز محض تجربہ اور فیشن ہے یہ تجربہ کو اور کوٹ پتلون پہن لینے کو عقل سمجھتے ہیں تو یہ کوئی عقل کی بات نہیں البتہ اسکو اکل کہہ سکتے ہیں ایسے لوگ عاقل کہلائے جانے کے قابل نہیں البتہ آکل ہیں کہ ہر وقت پیٹ بھرنے کی فکر ہی کا غلبہ رہتا ہے، پھر اس پر دوسروں پر بے عقلی کا الزام۔

(ملفوظ 116) اعمال صالحہ سے عقل میں نور پیدا ہوتا ہے

ایک صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ آج کل کے نیچری اور لیڈر اکثر عقل سے کورے ہیں، جب عقل صحیح ہی نہیں پھر ایسی عقل میں احکامِ اسلام کیسے آویں۔ عقل ہو تو بقدر ضرورت آویں بھی اجمالاً باتفصیلاً، پھر نماز نہیں، زہد نہیں، تقوٰی نہیں، ان اعمال سے بھی عقل میں نور پیدا ہوتا ہے، اس پر احکامِ شرعیہ پر شبہ کہ ہماری عقل میں نہیں آتے۔ اس کی ایسی مثال ہے جیسے کوئی اندھا کہے کہ ہم کو تو یہ نظر نہیں آتا کہ یہ چیز سفید ہے یا سرخ، تو اس پر یہی کہا جائے گا کہ اگر نگاہ ہو تو نظر آئے، جب نگاہ ہی نہیں تو نظر کیسے آئے۔ اسی طرح یہاں بھی جواب دیا جائے گا کہ عقل ہو تو کچھ عقل میں آئے جیسے اگر مشکیزہ یا پیالہ ہو تو اس میں پانی آئے اور جب یہ ہی نہ ہوں تو پانی کس چیز میں آئے۔ قصور تو اپنا اور الزام اور اعتراض احکامِ اسلام پر۔

جیسے ایک حبشی سفر میں چلا جارہا تھا دیکھا کہ راستہ میں ایک آئینہ پڑا ہے اس کو اٹھا کر جو دیکھا تو اس میں ایک کالی بھیانک صورت، موٹے موٹے ہونٹ، بھدی اور بیٹھی ہوئی ناک، عجیب ایک بدصورت شکل نظر آئی اس نے آئینہ کو دور پھینک مارا اور کہا کہ ایسا بدصورت اور بد شکل نہ ہوتا تو تجھ کو یہاں کون پھینک جاتا۔ اب بتلائیے کہ کیا یہ آئینہ کا قصور تھا؟ اس میں کونسی ایسی چیز تھی کہ جس پر الزام اور اعتراض کیا۔ جناب ہی کی صورت تھی جس کے یہ اوصاف خود ہی بیان کئے۔ اسی طرح احکامِ شریعت تو آئینہ ہیں اور بالکل بے غبار اور صاف شفاف صیقل شدہ، ان میں کونسا نقص ہے سب نقص جناب ہی کے اندر ہیں ۔

دوسری مثال غلط بینی کی اور سنئے اکثر دیکھا ہوگا کہ جب اسٹیشن پر دو گاڑیوں کا میل ہوتا ہے تو ایک پہلے چھوڑی جاتی ہے تو بعض اوقات جو گاڑی کھڑی ہے اس کے مسافروں کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ چل رہی ہے اور چلنے والی گاڑی کھڑی ہے۔ تو چل تو رہا ہے اپنا دماغ اور دیوانے خود ہیں، عقل اپنے اندر نہیں، بد فہمی کُوٹ کُوٹ کر اپنے اندر بھری ہوئی ہے اور عیب ناک سمجھتے ہیں دوسروں کو۔

ایک تیسری مثال سنئے، مثلاً ایک شخص کہے کہ میاں تمام زمین آسمان گھوم رہے ہیں، تمام درخت اور سڑک اور مکانات حرکت میں ہیں۔ اس سے کہا جائے گا کہ بھائی تمہارا سر گھوم رہا ہے، چکر تمہارے دماغ میں ہے تمہارا دماغ خراب ہورہا ہے۔ اس پر وہ کہے کہ کیا غضب ہے کہ تم میرے مشاہدے کی تکذیب کرتے ہو؟ اس پر حقیقت شناس کہے گا کہ تیرے مشاہدہ کی تکذیب نہیں، مشاہدہ تیرا صحیح ہے مگر مشاہدہ کا آلہ ماؤف ہے۔ تو جناب حقیقت کے عدم انکشاف پر انسان کچھ سے کچھ سمجھنے لگتا ہے اور حقیقت سے دور جا پڑتا ہے۔

 تو یہی حالت آج کل کے عقلاء کی ہے۔ پھر اس پر دعوٰی ہے کہ ہم قوم کی کشتی کے ناخدا ہیں۔ ایسوں ہی کی بدولت مسلمانوں کو نقصان پہنچ رہا ہے ہر روز ایک نیا لباس بدل کر پلیٹ فارموں اور ممبروں پر آکھڑے ہوتے ہیں، ہر روز ایک نئی قسم کا لیکچر ہوتا ہے، ہر روز ایک نیا ترانہ اور نیا نغمہ سناتے ہیں جس میں ترقی کے لئے بہت زور لگا چکے ہیں اور لگا رہے ہیں اور لگادیں گے مگر مسلمانوں کا بجائے ترقی کے تنزل ہی کی طرف رخ جارہا ہے۔ میں کہتا ہوں کہ اگر مقصود ترقی ہے اور چاہتے ہو کہ قوم کی فلاح اور بہبود کا سامان ہو اور اسی کے لئے تم یہ سب کچھ کررہے ہو تو عقل کے دشمنوں جیسے تم یہ مُختَرَع (اختراع کردہ) تدابیر اختیار کر رہے ہو اور تجربہ سے غلط ثابت ہو رہی ہیں آخر خدا اور رسول کی بتلائی ہوئی تدابیر سے تم کو کیوں ضد اور نفرت ہے اور ان کو کیوں نہیں اختیار کرتے۔ چند روز کے لئے ان کو بھی تو باعتقادِ دین نہیں بلکہ تدابیر ہی کا درجہ سمجھ کر اختیار کرکے تو دیکھ لو یعنی اگر اس خیال سے اختیار کرنے کی ہمت نہ ہو کہ ان کا دین میں کیا درجہ ہے اور اس پر خدا اور رسول کی خوشنودی ہوگی تو محض بطور امتحان ہی کے کر کے دیکھ لو، اسی کو مولانا فرماتے ہیں۔

سالہا تو سنگ بودی دل خراش  –  آزموں را یک زمانے خاک باش

بہت دن بتوں کی پرستش کرتے ہوئے ہو گئے سوائے ذلت اور خواری کے کچھ پلے نہ پڑا اب ذرا خدا کو راضی کرکے اور انکے سامنے ناک ماتھا رگڑ کر دیکھ لو میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ چند روز میں کایا پلٹ ہو جائے گی اسی کی تعلیم ہے۔

چند خوانی حکمت یونانیاں  –   حکمت ایمانیاں راہم بخواں

اور وجہ اس کی یہ ہے کہ یہ بات تحقیق کو پہنچ چکی ہے کہ بدون مشروع تدابیر کے اختیار کئے ہوئے مسلمانوں کی فلاح اور بہبود مشکل بلکہ محال ہے اور یہ میرا دعوٰی بلا دلیل نہیں اور دلیل بھی ایسی کہ جس کا تم مشاہدہ کررہے ہو کہ اس وقت تک غیر مشروع تدابیر اختیار کرنے پر تم کو ناکامی ہی ناکامی رہی بھلا غیر مشروع تدابیر میں خیر و برکت کہاں؟ کیونکہ یہ سب اسباب تو اُنہیں کے قبضۂ قدرت میں ہیں بدون اُن کی مشیت کے نِری تدابیر و اسباب سے ہوتا کیا ہے؟ اسی کو مولانا فرماتے ہیں۔

خاک و باد و آپ و آتش بندہ اند  –   بامن و تو مردہ باحق زندہ اند

(خاک، ہوا، پانی، آگ سب خدا کے بندے ہیں۔ ہمارے تمہارے سامنے مردہ ہیں مگر حق تعالٰی کے سامنے زندہ ہیں۔)

اور اُنکی مشیّت اہل ایمان کیلئے عادتاً بدون رضا کے ہوتی نہیں پھر کامیابی کہاں؟ اگر تم  نے یہ طریقہ اختیار نہ کیا تو تمہاری ان تدابیرِ غیر مشروع پر یہ حالت ہوگی کہ بجائے کسی بہبود اور فلاح کے خسارہ ہی خسارہ ہوگا۔ پس ترقی کی تدابیر بھی اہل دین ہی سے حاصل کرو وہی تمہارے سچے خیر خواہ ہیں اور اگر ان سے حاصل نہیں کرتے تو سمجھ لو کہ ابھی تمہاری فلاح اور بہبود کے دن نہیں آئے اور تدبیر کے متعلق بالمشینہ ہونے کے ہزاروں واقعات ہیں کہ قاعدے سے تدبیر صحیح مگر اثر کا ترتب ندارد۔ مولانا نے مثنوی میں پہلی حکایت میں اسی کا بیان فرمایا ہے کہ ایک بادشاہ ایک کنیز پر عاشق تھا، وہ بیمار ہوئی بادشاہ نے اپنے قلمرو کے تمام طبیبوں کو جمع کرلیا اور یہ کہا اگر میری محبوبہ صحتیاب ہوگئی تو میری بھی زندگی ہے ورنہ میری بھی موت ہے اس پر تمام اطباء اور ڈاکٹروں نے بالاتفاق عرض کیا جسکو مولانا فرماتے ہیں۔

جملہ گفتندش کہ جانبازی کیتم   –  فہم گرد آریم انبازی کینم

ہر یکے ازما مسیحے عالمے ست  –  ہر الم را در کف ما مرہمے ست

(سب نے کہا کہ ہم باہم مشورہ کرکے اور خوب سوچ سمجھ کر کوشش کرتے ہیں۔ ہم میں کا ہر ایک مسیح العالم ہے ہر بیماری کی ہمارے ہاتھ دوا ہے.)

مولانا انکی مادہ پرستی کو بیان فرماتے ہیں۔

گر خدا خواہد نہ گفتند از بطر  –  پس خدا بنمود شاں عجز بشر

(ان طبیبوں نے ان شاء اللہ۔ بوجہ تکبر کے نہیں کہا۔ لہٰذا حق تعالٰی نے انکا عاجز ہونا دکھلادیا۔)

اور اس پر جو نتیجہ ہوا اس کو فرماتے ہیں۔

ہر چہ کردند از علاج و از دوا     –   رنج افزوں گشت و حاجت ناروا

شربت و ادویہ و اسباب او     –     از طبیباں برو یکسر آبرو

از قضا سرکنگبیں صفرا فزود   –   روغنِ بادام خشکی می نمود

(جس قدر علاج اور دوا کی، تکلیف بڑھتی رہی اور صحت نہ ہوئی۔ تمام دوائیں اور انکے اسباب سب ہی جمع کردئیے مگر طبیبوں کی آبرو بالکل جاتی رہی۔ حکمِ الہٰی سے سرکہ کی انگبیں صفراء کو بڑھاتی تھی اور روغنِ بادام سے خشکی بڑھتی تھی۔)

یعنی نفع کچھ نہ ہوا اور مرض میں ترقی ہرتی رہی اس کے بعد بیان فرمایا ہے کہ کوئی بزرگ بابرکت تشریف لائے اور انہوں نے الہامی تدبیر کی اور کامیابی ہوگئی۔ غرض تدابیر کی تاثیر موقوف ہے مَشِیَّت پر اور مَشِیَّت مسلمان کے لئے موقوف ہے رضاء پر، اس لئے کہتا ہوں کہ بدون حق جل شانہ کو راضی کئے ہوئے اور مشروع تدابیر کو اختیار کئے ہوئے مسلمانوں کو فلاح اور بہبود میسر ہونا محال یے۔ اسکا صرف ایک ہی علاج ہے جو میں تم کو بتلاچکا ہوں کہ اللہ اور رسول کو راضی کرنے کی فکر اور مشروع تدابیر کو اختیار کرو۔ اپنے دوست دشمن کو پہچانو، سلیقہ اور طریقہ سے کام کرو اور جو کام بھی کرو متحد ہر کر کرو ہر مسلمان دوسرے مسلمان سے اپنے کو چھوٹا سمجھے اور یہ چھوٹا سمجھنا ہی صورت اتفاق کی ہے۔

اور آج کل کی یہ ساری خرابیاں بڑے بننے کی ہیں اور یہ سب ضروری تفصیل ہے تدابیر مشروعہ کی ان کو اختیار کرو پھر ان شاء اللہ تعالٰی فتح اور نصرت تمہاری لونڈی غلام بن کر تمہارے ساتھ ہوگی۔ کیا تم نے اپنے سلف کے کارنامے نہیں سنے کہ مادیات کا ان کے پاس نام و نشان نہ تھا ہر طرح کی بے سرو سامانی تھی مگر بڑے بڑے قیصر و کسری اور بڑی بڑی جماعتیں منظم غیر مسلم اقوام کی ان سے لرزاں اور ترساں تھیں۔ آخر کیا چیز ان کے پاس تھی؟ وہ صرف ایک ہی چیز تھی جس کا نام تعلق مع اللہ ہے۔ ان کا اللہ تعالٰی کے ساتھ صحیح تعلق تھا بس سب اس کی برکت تھی۔ ہمارے اندر اسی کی کمی ہے اس لئے ذلیل اور خوار ہیں۔ حق تعالٰی فہم سلیم عطاء فرمائیں کہ صحیح طریق پر چلیں اور دارین کی فلاح پر فائز ہوں۔