ملفوظ 473: سہل علاج کی درخواست پر حضرت کا جواب

سہل علاج کی درخواست پر حضرت کا جواب فرمایا کہ ایک خط آیا ہے کہ کوئی سہل علاج تجویذ فرمائیں اس پر فرمایا کہ یہ تو طبیب کی شفقت ہے کہ وہ سہل علاج تجویذ کر دے یا ایسی دوا تجویذ کر دے کہ وہ تلخ نہ ہو – جیسے حکیم مصطفے صاحب نے کنین کا مزہ بدل دیا ہے لیکن اگر طبیب اس کی رعایت نہ کرے تو مریض کو اس فرمائش کا کیا حق ہے کہ میرے لیے ایسی ایسی دوا تجویذ کر دے کہ وہ تلخ نہ ہو – پھر ضروری مراحل تو انسان طے کر لے پہلے سے پہلے ہی حکم ہوتا ہے کہ سہل علاج تجویذ کر دو – ان نائقوں کے بیگاری ہیں نا حکومت کرتے ہیں – ان خر دماغوں کو یہ معلوم کرانے کی ضرورت ہے کہ ملانوں میں اسپ دماغ ہیں – آخر اس بیہودہ لکھنے سے تو خاموش ہی رہتے تو اچھا ہوتا ممکن ہے کہ اس پر کوئی یہ شبہ کرے (اسلئے کہ آجکل عقلاء سے زمانہ پر ہے ) کہ اگر نہ لکھتے اور خاموش رہتے تو اصلاح کیسے ہوتی پہلے تو یہ معلوم کر لو کہ شیخ کے ذمہ کون سی اصلاح ہے بہت سی چیزیں تو فطری ہیں ان کی اصلاح کا شیخ ذمہ دار نہیں ـ اب یہاں پر لوگ آ تے ہیں ـ میں کسی کوتاہی یا غلطی پر مواخذہ کرتا ہوں تو کہتے ہیں کہ اصلاح ہی کی غرض سے تو حاضر ہوئے ہیں – یہ گویا بڑی ذیانت کا جواب ہے – میں جواب میں کہا کرتا ہوں کہ حوض کے کنارے پر پاجامہ کھول کر پاخانہ پھرنے بیٹھ جانا اور باز پرس کرنے پر کہہ دینا کہ احلاح ہی کی غرض سے تو آ ئے ہیں – سو اس کا کسی کے پاس کوئی جواب نہیں خوب سمجھ لو – شیخ ان چیزوں کی اصلاح کا ذمہ دار ہے جو تمہاری سمجھ میں نہ آئیں اور ایسی موٹی باتوں کی تو اصلاح کر کے آنا چاہئیے – پھر تعلیم سے پہلے شیخ یہ دیکھتا ہے کہ اس میں انقیاد اور طلب بھی ہے یا نہیں اور اس طریق کی حقیقت اس کے ذہن میں کیا ہے ویسے ہی سہل علاج بٹتے پھرتے ہیں – واللہ ! مجھ کو تو چاپلوسی کرتے ہوئے یا ایسا عنوان اختیار کرتے ہوئے جس سے چاپلوسی کا شبہ بھی ہو غیرت آتی ہے اور میں سچ عرض کرتا ہوں کہ اپنی ذات کی وجہ سے نہیں بلکہ طریق کی بے وقعتی اور بے حرمتی سے غیرت آتی ہے کم بخت دکانداروں نے اس طریق کو بدنام کر دیا اور بے وقعت بنایا اب تو اللہ کا شکر ہے کہ اکثر لوگ حقیقت سے باخبر ہو گئے –