ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ اکثر لوگ مولانا کہنے سے بڑے خوش ہوتے ہیں ہمارے بزرگ ایسے ایسے بٹے علامہ گزرے ہیں بہت سے بہت مولوی صاحب کا لقب ہوتا تھا مولانا بہت کم کسی کسی کے لئے اورادب تو اس قدر انقلاب ہوا کہ مولانا سے بڑھ کرکوئی شیخ الحدیث ہے کوئی شیخ التفسیر ہے مجھ کو تو یہ باتیں پسند نہیں ۔ سادگی میں لطف ہے وہ ان تکلفات میں کہاں ، ہمارا اکابر اپنے کو مٹائے ہوئے رکھتے تھے یہ بھی نہیں معلوم ہوتا تھا کہ یہاں پرکوئی ہے یا نہیں زیادہ تر یہ معتقدین حضرت حضرت مولانا مولانا مزاج بگاڑ دیتے ہیں ، ایسے ہی تعظیم وتکریم کی نسبت مولانا رومی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں
نفس از بس مدحما فرعون شد کن ذلیل النفس ہونا لا تسد
( نفس زیادہ تعریفوں سے فرعون ہوگیا ہے کبھی کبھی اس کو ذلیل لرلیا کرو )
حقیقت یہ ہے کہ شہرت ہوجانا اور بڑا بن جانا اکثر دین کے لئے تومضر اور ضررساں ہے ہی دنیا میں بھی اس کی بدولت بہت سی آفات کا سامنا ہوتا ہے مولانا فرماتے ہیں
حشمہا و حشمہا و رشکہا بر سرت ریزد چو آب از مشکہا
( لوگوں کے غصے اور نگاہ تیرے سرپر اس طرح گریں گے جیسے مشک سے پانی گرتا ہے )
