ملفوظ 1: صبح کی مجلس خاص کا اجراء

بسم اللہ الرحمن الرحیم
فرمایا ! کہ صبح کو مجلس عام کی وجہ سے بے حد تعب ہوتا ہے جس کی برداشت نہیں ـ (اس
کے قبل صبح کو بھی مجلس عام ہوتی تھی ) اس لئے آج یہ سوچا ہے کہ بجائے مجلس عام کے صبح کو مجلس
خاص کردی جائے اور صورت اس کی یہ ذہن میں آئی ہے کہ جو لوگ خاص خاص ہیں جن میں اکثر
اہل علم ہیں وہ اگر آکر بیٹھا کریں تو اس سے مجھ پر کوئی تعب نہ ہوگا اس کی دو وجہ ہیں ایک تو یہ کہ مجمع
کم ہوگا ـ جب جی چاہے گا مجلس کو ختم کر دیا جائیگا ـ مجمع زائد نہ ہونے کی وجہ سے ختم کر دینے میں
کوئی گرانی بھی نہ ہو گی ـ دوسرے یہ کہ جب مجلس عام نہ ہوگی تو جس روز طبیعت صاف نہ ہوگی یا
جی نہ چاہے گا بالکل ہی موقوف رکھی جائے گی اور اس کی اطلاع اس روز کردی جایا کرے گی اور کبھی
کبھی عام بھی کردی جایا کرے گی جب کہ طبیعت اچھی ہو آج کل طبیعت بھی خاص نہیں کھانسی کی
وجہ سے تکلیف ہے اب ضرورت اس کی ہے کہ اس کا کوئی معیار ایا اصطلاح ہونی چاہیے جس سے
یہ معلوم ہوکہ اس وقت مجلس عام ہے یا مجلس خاص ـ اس کی صورت یہ سمجھ میں آئی ہے ( اور احقر صغیر
احمد کی طرف حضرت والا نے مخاطب ہو کر فرمایا ) کہ ان حضرات کے نام کی ایک فہرست بنالی
جائے جو مجلس خاص میں شرکت کیا کریں گے ان کے نام میں بتا دوں گا جب میں کہوں ان کو
اطلاع کردی جائے اور مجلس عام کی اطلاع حافظ اعجاز کے ذریعہ سے ہوا کرے گی جس کی صورتیہ ہو گی کہ وہ لوگ حافظ اعجاز سے معلوم کرلیا کریں کہ تم کو اطلاع دی گئی ہے یا نہیں ـ اگر وہ کہیں کہ
دی گئی ہے تب تو آ جائیں اگر وہ کہیں نہیں دی گئی نہ آئیں یہ انتظام اس وجہ سے ہے کہ کبھی بعض
حضرات قیاس مع الفاروق پر عمل فرمائیں ـ دوسروں کو بیٹھے دیکھ کر آکر بیٹھنا شروع کر دیں ـ
میں سچ عرض کرتا ہوں مجھ کو اس کا بھی خیال ہے کہ لوگ محبت کی وجہ سے آتے ہیں
سب کے ساتھ برتاؤ میں مساوات رہے مگر جو بات قوت سے باہر ہے اس کا کس طرح تحمل کروں ـ
اگر کوئی اس عدم مساوات پر برا مانے مانا کرے مجھ کو اس کی برواہ نہیں ـ مولوی محمد حسن صاحب
امر تسری عرض نے کیا کہ ہم لوگوں کو تو بہت وقت مجالست کیلئے دیا جاتا ہے جو حضرت والا کی شفقت
اور محبت پر مبنی ہے اگر یہ حکم دیا جائے کہ سال بھر تک دروازہ پر کھڑے رہو ایک سال کے بعد
ملاقات کی اجازت ہوگی اس پر بھی ہم لوگوں کی خوش قسمتی ہے اور حضرت والا کا احسان ہے ـ
فرمایا یہ آپ کی محبت کی بات ہے میں تو خود ہی اس قسم کی رعایت اور اس کے دقائق
پیش نظر رکھتا ہوں ہاں اس کو ضرور جی چاہتا ہے کہ خدمت بھی ہوتی رہے اور کچھ وقت آرام کا بھی
ملے اور مجلس عام کی صورت میں آرام نہیں مل سکتا ـ وجہ یہ ہے کہ اگر کسی وقت اٹھ جانے کو جی چاہے
مجمع کی رعایت سے نہیں اٹھ سکتا ـ
نیز بعض مرتبہ مجمع کثیر ہونے کی وجہ سے تقریر میں آواز بلند ہو جاتی ہے اور یہ امر طبعی ہے
جی چاہتا ہے کہ سب سنیں جس کا اثر دیر تک دماغ پر رہتا ہے یہ بھی ایک تکلیف ہے باقی محکوم بن
کر رہنے کو تو جی گوارا نہیں کرتا ـ ظہر کے بعد کا وقت عصر تک بھی مجلس کے لئے کچھ کم نہیں کافی وقت
ہے ـ فرمایا کہ مولوی صاحب ! یہاں پر شروع میں جس وقت آئے تھے اس وقت سے یہ صبح کی مجلس
کی رسم قائم ہو گئی ان کی رعایت دو وجہ سے تھی ایک تو یہ کہ ان کا تعلق مولوی صاحب سے ہے یہ خیال
ہوا کہ مولوی صاحب کہیں یہ خیال نہ کریں کہ ہمارے آدمی کے ساتھ بے التفاتی کا برتاؤ کیا دوسرے
ان کو خود بھی مجھ سے محبت اور تعلق ہے اور مجھے تو بحمداللہ سب ہی کا خیال ہے مگر اب ضعف کے سبب
تحمل نہیں ـ اس کا میرے پاس کیا علاج ہے فرمایا پیشتر رمضان المبارک میں یہ معمول تھا کہ حالاتکا پرچہ بکس میں جو کہ مدرسہ میں لگا ہے ڈالنے کی عام اجازت تھی ـ مگر اب تجربہ سے معلوم ہوا کہ جن
کو قلت مناسبت ہوتی ہے ان کے پرچوں سے بھی اذیت پہنچتی ہے – اس لۓ اس مرتبہ یہ سمجھ
میں آیا کہ جس پر کچھ روز سے عملدرآمد بھی ہے کہ ایسے لوگ پرچہ بھی نہ ڈالا کریں-مخاطبت مکاتبت
دونوں بند رہیں بلکہ چند روز خاموش مجلس میں بیٹھے رہیں اور جس وقت مناسبت پیدا ہو جاۓ اس
وقت اس قسم کا سلسلہ زبانی یا تحریری اختیار کریں تو مضائقہ نہیں مگر پیشتر مناسبت پیدا کر لیں جس پر نفع
کا انحصار ہے اس صورت میں کام بھی ہوجاۓ گا اورکلفت بھی طرفین میں سے کسی کو نہ ہو گی- ایک
حکمت یہ بھی ہے کہ کام بھی کم ہو جائیگا اب زیادہ کام کی برداشت بھی نہیں ضرورت کے لحاظ سے
اور بہت سے تجربوں کے بعد یہاں پر قواعد مرتب ہوتے ہیں ان قواعد سے طرفین کی راحت رسانی
مقصود ہوتی ہے خدانخواستہ حکومت تھوڑا ہی مقصود ہے اور جیسا مجھے دوسروں کی اصلاح کا اہتمام ہے
اللہ تعالی کا لاکھ لاکھ شکر ہے اپنی اصلاح کا بھی خاص اہتمام ہے اور صاحب کون بے فکر ہو سکتا ہے
کس کو خبر ہے کہ آخرت میں میرے ساتھ کیا معاملہ ہوگا –