(ملفوظ 120) اسرارِ احکام معلوم کرنا انکارِ نبوت کے مترادف ہے

ایک سلسۂ گفتگو میں فرمایا کہ آجکل ایک مرض تو ان جدید تعلیم یافتوں میں خاص طور پر پھیل گیا ہے وہ یہ کہ احکام کی لِمَ اور اسرار معلوم کرنے کیلئے ہر وقت پیچھے پڑے رہتے ہیں جسکا منشاء یا حاصل احکام کا اتباع چھوڑ کر اپنی رائے اور عقل کا اتباع ہے۔ اگر کوئی حکم عقل میں آگیا اور رائے کے موافق ہوا تو وہ بھی عمل کے درجہ میں نہیں بلکہ تسلیم کے درجہ میں قبول کرلیا ورنہ صاف انکار۔ حضرت مجدد صاحب نے فرمایا ہے کہ احکام کے اسرار اور لِمَ مرادف ہے انکارِ نبوت کا، یعنی یہ شخص نبی کیطرف سے احکام کا اتباع کرنا نہیں چاہتا بلکہ اپنی عقل اور رائے کا اتباع کرتا ہے، بڑے کام کی بات فرمائی۔ حقیقت یہی ہے جو مجدد صاحب نے فرمائی اور آجکل تو بہت لوگوں نے اپنی اس عقل اور رائے کو بھی ایک طاغوت (گاندھی) کی رائے میں فنا کردیا۔ اب تو اسی کے اتباع کو باعثِ فلاح اور بہبود سمجھتے ہیں۔ اللہ و رسول کے احکام قرآن و حدیث کو بھی اسی کی رائے کے موافق ہونے پر تسلیم کرتے ہیں۔ آپ ہی بتلائیں کہ کہاں تک خاموشی اختیار کیجاسکتی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم جس چیز کو فرمائیں وہ قابل عمل نہ ہو اور اسکو اسوقت تک تسلیم نہ کیا جائے جب تک کہ اس کے اسرار اور لِمَ اور مصالح نہ معلوم ہوجائیں یا کوئی طاغوت اسکی موافقت نہ کرے اور وہ طاغوت جو بھی زبان سے بک دے وہ بلا چوں و چراں قابلِ تسلیم ہوجائے اور غضب یہ کہ اسکی زبان سے نکلے ہوئے مضمون کو قرآن و حدیث سے ثابت کرنے کی کوشش کریں اور افسوس تو یہ ہے کہ اس مرض میں بعض مولوی بھی مبتلا ہوگئے جنکو اہل اللہ اور خاصانِ حق کی صحبت میسر نہیں ہوئی یا اگر میسر ہوئی تو کبھی انہوں نے اپنی اصلاح کی فکر نہیں کی اور ویسے مولانا مفتد انا شیخ المشائخ سب کچھ ہیں مگر یہ سب ظاہری ٹیپ ٹاپ ہے دل میں کچھ اور ہی بھرا ہوا ہے اسی کو ایک حکیم فرماتے ہیں۔

از بروں چوں گورِ کافر پُر خلل – واندروں قہرِ خدائے عزوجل

از بروں طعنہ رنی بر بار یزید – و زد رونت ننگ می دارد یزید

دراصل بات وہ ہے جو میں کہا کرتا ہوں کہ بدوں کسی کامل کی صحبت میں بیٹھے ہوئے اور بدون جوتیاں کھائے ہوئے انسانیت نہیں پیدا ہوتی نہ قلب میں دین راسخ ہوتا ہے جو لوگ اس سے محروم ہیں ایسے لوگوں کا کچھ اعتبار نہیں گھڑی میں کچھ گھڑی میں کچھ، جیسا دیکھا ویسا ہی گانا بجانا شروع کردیا۔ اب اس بد فہمی اور بد عقلی کی کوئی انتہا ہے کہ جو شخص توحید اور رسالت کا منکر ہو وہ مسلمانوں کا ہمدرد اور خیر خواہ سمجھا جائے کون عاقل اسکو تسلیم کرسکتا ہے۔ پھر سمجھانے والوں کر الزام لگایا جاتا ہے کہ یہ اسلام اور مسلمانوں کے دشمن ہیں۔ اب بتاؤ کون دشمن ہے طاغوت کا ماننے والا یا نہ ماننے والا؟ کہتے ہیں کہ وہ طاغوت بڑا عاقل ہے کچھ خبر بھی ہے اگر وہ عاقل ہوتا تو سب سے پہلے آخرت کی فکر ہوتی یعنی ایمان لاتا اور اگر چالاکی کے معنے عقل ہے تو شیطان اس سے زیادہ عاقل ہے اسکی چالاکی کی بدولت دنیا کا اکثر حصہ اسکے اتباع میں مصروف ہے۔ میں تو ایسے عقلاء کو کہتا ہوں کہ عاقل نہیں آکل ہیں، عقل سے ان لوگوں کو کیا تعلق البتہ اکل کے امام ہیں ہر وقت پیٹ کے دھندے میں لگے ہوئے ہیں جیسے اکثر ہندو ہر وقت سود بٹے کی ہی فکر میں رہتے ہیں جسکی حقیقت دنیا ہے اور دنیا بھی ایسی کہ دوسروں کی دنیا کو تباہ کرکے اپنی دنیا بناتے ہیں اسی لئے انکو تو تم بھی عاقل نہیں کہتے بلکہ اور برا بھلا کہتے ہو اسلئے کہ جب ایک کے دو یا تین یا چار دینے پڑتے ہیں تو جھلاتے ہو اور کہتے ہو کہ انہوں نے مسلمانوں کی مالی حالت تباہ اور برباد کردی تو جو شخص ملک کا خواستگار ہو جو میزان اکل ہے دنیا کی اسکو عاقل کیسے کہتے ہو جب دو چار سو روپیہ سود بٹے میں کمانے والے کو عاقل نہیں کہتے تو جو شخص لاکھ دو لاکھ روپیہ یا ایک صوبہ یا ملک کی فکر میں ہو اسکو عاقل کیسے کہتے ہو؟ اتنی موٹی بات بھی سمجھ میں نہیں آتی آخر مطلوب تو دونوں کا دنیا ہے تو دونوں میں فرق کیا ہے؟ ایک عاقل کیوں ہے اور دوسرا عاقل کیوں نہیں؟ آگے اس سے ترقی کرکے کہتا ہوں کہ یہ صرف ہمارا ہی دعوٰی نہیں ہے ان دنیاداروں کے غیر عاقل ہونے کا بلکہ انکا خود بھی اقرار ہے چنانچہ ان اہل دنیا کا اپنے لئے خود مسلمہ مقولہ ہے جو اکثر زبان زد ہے کہ سو روپیہ میں ایک بوتل کا نشہ ہوتا ہے اور نشہ کی خاصیت ہے کہ عقل کو زائل کردیتا ہے تو یہ مسئلہ تمہارا تسلیم کردہ ہے تم خود ہی اقراری مجرم ہو تو اگر کسی شخص کے پاس ایک ہزار روپیہ ہو تو اس میں دس بوتلوں کا نشہ ہوگا تو دس بوتل کے نشہ کے بعد عقل کہاں؟

غرض جب بقول تمہارے ہی جو مہاجن یا ساہوکار دوچار روپیہ تم سے اینٹھنے کی فکر میں ہو اور مال کا تم کو نقصان پہنچائے وہ کم عقل اور تمہارا دشمن اور جو سارے ملک کا قبضہ کرنا چاہے اور تمہارے ایمان کو برباد کرنے کی فکر میں ہو وہ عاقل اور ہمدرد اور خیر خواہ۔ دو چار روپیہ میں اور ملک میں جو نسبت ہے اسی نسبت سے اسکو کم عقل بلکہ اس سے آگے سمجھنا چاہئے یعنی بدفہم بدعقل بدنیت بددین، وہ کیا مسلمانوں اور اسلام کا خیر خواہ ہوسکتا ہے۔ جب تم خود اپنے دشمن ہو تو وہ کیا تمہارا دوست ہوگا؟ بتائی ہوئی بات اور رنگی ہوئی داڑھی کہیں چھپتی ہے؟َ بڑے بڑے لیڈر مسلمانوں نے کیا کچھ اس طاغوت کے ساتھ نہیں کیا حتٰی کہ مقولے تو ایسے مشہور ہیں کہ ان سے تو کفر تک کی جھلک مارتی ہے اللہ معاف کرے مگر ان میں بعض نے آخر ساتھ چھوڑ دیا جبکہ اسکے اندرونی جذبات انکو معلوم ہوگئے کہ یہ تو جانی دشمن ہے اسلام اور مسلمانوں کا۔ خیر یہ بھی غنیمت ہے اور سلامتئ طبع کی دلیل ہے کہ یہ معلوم ہونے پر تو انہوں نے ساتھ چھوڑ دیا ورنہ ابھی تک ایسے بدعقل اور فاسد دماغ کے بھی لوگ مسلمانوں میں موجود ہیں کہ اسکو خیر خواہ اور ہمدرد ہی سمجھتے ہیں۔

مسلمانو! عقل سے کام لو اپنے دوست اور دشمن کو پہچانو ورنہ پچھتاؤگے اور اب بھی پچھتا رہے ہو اسلئے کہ جو کچھ نقصان دنیا کا پہنچا وہ تو پہنچا ہی مگر ہزاروں مسلمانوں کے ایمان اس فتنہ کے زمانہ میں تباہ اور برباد ہوگئے جو مصداق ہو گئے خسر الدنیا ولآخرۃ کے۔ توبہ کرو اور اگر کفریہ کلمات نکل گئے ہیں پھر تجدیدِ ایمان کرو اور اپنے اللہ کی یاد کرو اور جو کچھ اپنی حاجتیں اور ضرورتیں ہیں انکے ہی سامنے پیش کرو اس ہی دربار سے فضل ہوگا وہی تمکو سب کچھ عطاء فرمادیں گے ایسا کرکے تو دیکھو، اگر اعتقاد سے نہیں تو بطور امتحان ہی سہی بت پرستی تو کرکے دیکھ لی ہزاروں کو خدا بنا کر دیکھ لیا، اب ذرا اس طرف بھی ناک ماتھا رگڑ کر دیکھ لو آخر حرج ہی کیا ہے؟ مقصود تو فلاح اور بہبود ہے تو جیسے اور تدابیر اپنے مقصود کی کامیابی کیلئے اختیار کیں منجملہ اوروں کے ایک تدبیر یہ بھی سہی کہ خدا کو راضی کرکے بھی دیکھ لو آخر اسی تدبیر سے کیوں اعراض ہے؟ بات کیا ہے؟

اجی ایک مریض ہے وہ صحت کا طالب ہے تو طبیب سے، ڈاکٹر سے علاج کراتا ہے۔ ایک شخص کہتا ہے کہ میاں ہمارے پاس ایک تعویذ ہے ذرا اسکو بھی باندھ کر دیکھ لو تو کیا ہوتا ہے؟ میاں مرض کے دور ہونے سے غرض ہے تو اس تدبیر میں کیا تمکو ہوّا نظر آتا ہے؟ اس سے کیوں وحشت ہے؟ اور اگر اپنی نافرمانیوں کی کثرت پر نظر کرکے مایوسی ہو تو سمجھ لو کہ انکی وہ شانِ رحمت ہے کہ ایک شخص بت کے سامنے پیٹھا ہوا صنم صنم رٹ رہا تھا، ایک مرتبہ بلا قصد بھولے سے صمد نکل گیا فوراً آواز آئی لبیک یا عبدی بندے کو کیا چاہیئے میں موجود ہوں۔ بس سنتے ہی اس شخص نے اس بت کے ایک لات ماری اور یہ کہا کہ کمبخت ساری عمر تیری پرستش میں ختم کردی مگر کبھی بھی کچھ نہ ہوا، آج بھولے سے اپنے حقیقی رب کا نام نکل گیا فوراً جواب آیا۔ تو حضرت ان کی تو شان ہی اور ہے۔ کیوں اپنے پیدا کنندہ سے اعراض کرتے ہو اسکے سوا اور کوئی نہ نفع پہنچا سکتا ہے نہ نقصان۔ اُنہی سے طلب کرو وہی حاجت روائی کریں گے، اُنکی ایک سیکنڈ اور ایک منٹ کی رحمت تم کر مالا مال کردے گی ذرا آؤ تو سہی بھاگتے کیوں ہو؟ اور اسلام کی قیود سے گھبراتے ہو تو اسکا جواب یہ ہے کہ مجازی بادشاہی کے قوانین کو دیکھ لیجئے اس میں کیا قیود ہیں آخر انکی پابندی کرتے ہی ہو اور اگر ایسا ہی گھبرانا ہے تو کھانے کی پابندی بھی تو ایک قید ہے اس پر ممکن ہے کوئی بیدار مغز یہ فرمائیں کہ اس پر تو زندگانئ دنیا کا مدار ہے یہ قید کیسے چھوڑی جاسکتی ہے بس یہی ہم کہتے ہیں کہ جب اسکو اسلئے نہیں چھوڑتے کہ اس پر مدارِ حیات ہے اور یہ زندگانئ دنیا کے اسباب میں سے ہے تو وہ چیزیں کیسے چھوڑ دیں جن پر مدار ہے حیاتِ آخرت کا، زندگانئ دائمی گا۔ دنیا سے صبر کیوں نہیں آخرت سے صبر کیوں ہے؟ اسی کو مولانا فرماتے ہیں۔

ایکہ صبرت نیست از فرزندوزن – صبر چوں داری زرب ذوالمنن

ایکہ صبرت نیست از دنیائے دوں – صبر چوں داری ز نعم الماہدون

(اے مخاطب! تجھکو بال بچوں کے بغیر تو صبر آتا نہیں، پھر حق تعالٰی سے بے تعلقی کی حالت میں کسطرح صبر آتا ہے۔ اور تجھکو کمینی دنیا کے بغیر صبر نہیں آتا تو حق تعالٰی کے بغیر کیونکر صبر آتا ہے؟)

اور اس توجہ اور تعلق مع اللہ کا بس ایک ہی طریق ہے وہ یہ کہ قلب کو دوسروں سے خالی کرو پھر سب کچھ ہو سکتا ہے، مگر خالی کرنے کے متعلق اسکا انتظار غلطی ہے کہ پہلے دنیا سے یا دنیا کے تعلقات سے قلب کو خالی کرلیں پھر تب یادِ الہی میں مشغول ہوں گے۔ اسکی صحیح تدبیر یہ ہے کہ کام شروع کردو اس سے وہ آپ سے آپ خالی ہوتا رہے گا مگر کام کا مؤثر ہونا محبت سے ہوتا ہے اسلئے پہلے حق تعالٰی سے محبت پیدا کرو اور محبت پیدا کرنے کا طریق یہ ہے کہ اہلِ محبت کہ صحبت اختیار کرو انکی صحبت سے قلب میں ایک آگ پیدا ہوگی جو سب ماسوا کو فنا کردے گی۔ اسی کو مولانا فرماتے ہیں۔

عشق آں شعلہ است کو چوں بر فروخت – ہر چہ جز معشوق باقی جملہ سوخت

(عشق وہ آگ ہے جب یہ بھڑکتی ہے تو معشوق کے سوا سب کو جلا پھونک دیتی ہے)

اور اگر اس تدبیرِ مذکور سے قلب کو خالی نہ کیا بلکہ تعلق مع اللہ کیساتھ ماسوی اللہ کے تعلقاتِ مانعہ کو بھی جمع رکھنا چاہا تو سمجھ لو کہ قلب کیا ہوا مراد آباد اسٹیشن کا اسلامی مسافرخانہ ہوا کہ نگینہ والے بھی اس میں ہیں، بچھراؤں والے بھی اس میں ہیں، بریلی والے بھی، سہارنپور والے بھی غرض قلب کیا سرائے ہے جسکو دیکھو وہاں پر موجود ہے اور سب کا دارالقیام بنا ہوا ہے پس ہر مقصود کو اسکے صحیح طریقہ سے حاصل کرو۔