ایک صاحب کی غلطی پر مو خذہ فرماتے ہوئے فرمایا کہ آپ نے جو برتاؤ کیا ہے آپ کی شکایت نہیں کیونکہ میں جس جماعت میں سے ہو یعنی ملُا لوگ اس کو تمام دنیا حقیر سمجھتی ہے کہ حتیٰ کہ بھنگی اور چمار بھی اس لئے آپکا قصور نہیں زمانہ کا رنگ اور رفتار ہی یہی ہے، جس لائق میں تھا آپ نے برتاؤ کیا اگر دل میں وقعت ہوتی تو ایسا نہ کرتے۔ مثال تو ساری سامنے رکھ دی وہ بھی ایسی جس کے سر نہ پیر اگر آپ سے سمجھنے کے لئے اس کے متلعق کچھ دریافت کرتا ہو ں تو جواب ہی ندارد آخر کب تک تغیر نہ ہو تشریف لیجایئے اور اپ کو اس کی اجازت دیتا ہو کہ یہاں سے مجھ کو خوب بدنام کیجئے عرض کیا معاف کردیجئے گا، فرمایا معاف کیا مگر جو تکیف تم نے پہنچائی ہے اس کا اظہار بھی نہ کروں اور کیا معافی سے اس کا اثر بھی جاتا رہتا ہے کسی کے سوئی چبھودی اور وہ چلانا شروع کرے اور معافی چاہے پر معاف کردے تو کیا معافی کے الفاظ سے اس کی سوزش بھی ختم ہوجائےگی اور حضرت حاجت تو وہ چیز ہے کہ بھنگی کے پاس بھی اگر حاجت لے جائے اسکو بھی ذلیل نہ سمجھنا چاہئے جناب کو تو بدمزاجی میں بدنام کیا جاتا ہے مگر جیسی نرم مزاجی اور خوش مزاجی آپ چاہئتے ہیں مجھ سے نہیں ہوسکتی یہ تو اچھی خاصی غلامی ہے سو نرم مزاجی اور چیز ہے اور غلامی اور چیز ہے اب یہ صاحب جا کر کہیں گے کہ ذرا سی بات تھی اس قدر خفا ہوا جی ہاں سوئی بھی ذراسی چبھوئی جاتی ہے اگر اس کے چبھونے پر کوئی کہے کہ آہ تو اس پر کہا جاتا ہے کہ اینٹ تھوڑا ہی ماری ہے جو آہ کرتے ہو خبر بھی ہے کہ اینٹ اندر نہیں گھسی تھی اور سوئی کھال کے اندر گھسی ہے –
ایک صاحب نے عرض کیا کہ قصد تو غالبا اذیت پہچانے کا نہ ہوگا فرمایا کہ میں اس کی تکذیب نہیں کرتا نہ حالا نہ قالا میں خود کہا کرتا ہوں کہ اذیت پہچانے کا قصد تو نہیں ہوتا مگر اس کا بھی قصد اور اہتمام نہیں کہ دوسرے کو اذیت نہ پہچے شکایت تو اس کی ہے –
7 ذیقودہ 1350 ھ مجلس بعد نماز یوم چہارم شنبہ

You must be logged in to post a comment.