(ملفوظ 121) مذہبی کام پرکھنے کا عجیب اصول

ایک سلسلۂ گفتگو میں فرمایا کہ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ جو کام خالص مذہبی ہوگا اسکی طرف اولاً اہلِ دنیا کو رغبت نہ ہوگی پس جس کام کی طرف اولاً اہلِ دنیا متوجہ ہوں وہ خالص مذہبی نہیں اور جسکی طرف اولاً اہلِ دین، اہلِ تقوٰی متوجہ ہوں وہ خالص مذہبی اور خالص دین ہوگا۔ اس معیار پر یہ تحریکات خالص مذہبی اور دینی تحریکات نہ تھیں کیونکہ زیادہ اور غالب اس میں ایسے ہی طالبِ دنیا تھے جنکی نیت زیادہ اغراض دنیویہ کی تھی دین کی خدمت مقصود نہ تھی “الا ماشاءاللہ”۔ یہی وجہ تھی کہ کسی کام میں نور نہ تھا، خیر و برکت نہ تھی۔ زمانۂ فتنۂ ارتداد میں میرا ایک وعظ اینچولی ضلع میرٹھ میں ہوا تھا، بعضے دیہات میں راجپوت مسلمان شدھ ہونے والے تھے اس وعظ میں ان لوگوں کو خصوصیت سے بلایا گیا تھا۔ اس تقریر میں میں نے اسکے متعلق بھی ایک مضمون بیان کیا تھا وہ مضمون یہ تھا کہ ان تحریکات میں شرکت کرنیوالوں نے فتنۂ ارتداد کے زمانہ میں بذریعۂ اشتہار یہ اعلان کیا تھا کی یہ تحریک خالص مذہبی تحریک ہے اسلئے اس میں ہر شخص اور ہر طبقے کے لوگوں کو شریک ہونا چاہئے تو اس سے صاف اسکا اقرار نکلا کہ دوسری تحریکات مذہبی نہ تھیں۔ جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے۔ غرض خالص مذہبی اور دینی تحریک میں اہلِ دنیا شرکت نہیں کرتے ہاں نخالص تحریک اگر ہو تو اس میں وہ بھی شریک ہوجاتے ہیں اور یہ نخالص وہ نہیں جسکو گاؤں والے استعمال کرتے ہیں کہ یہ گھی نخالص ہے کیونکہ انکا مقصود تو خالص بتلانا ہے مگر وہ خالص کو نخالص بولتے ہیں سو یہ تحریکات ایسی نخالص تھیں بلکہ بمعنیٰ غیر خالص تھیں۔ یہ تھی وہ تحریک جس میں شرکت نہ رکھنے والوں کو فاسق فاجر کہا جاتا تھا اور اس تحریک کو فرض و واجب کہا جاتا تھا۔ پس اسکے متعلق بھی میں نے بسط کیساتھ بیان کیا۔ اس میں یہ بھی کہا کہ قاعدہ عقلیہ و نقلیہ ہے کہ جو تحریک مرکب ہو اسلامی اور غیر اسلامی سے وہ کبھی خالص اسلامی تحریک نہیں ہو سکتی اور نہ اسکو فرض و واجب کہا جا سکتا ہے۔

اس تحریک کے اجزاء دیکھنے سے وہ اسی رنگ کی ثابت ہوئی ہے اور یہ بھی کہا کہ تم دوسروں کی ترقی کو دیکھ کر کیوں للچاتے ہو؟ تم کو تو اتنی بڑی دولت سے نوازا گیا ہے کہ جسکے سامنے تمام دنیا و مافیہا گرد ہیں وہ دولت ایمان کی ہے اگر تمام عالم کی حکومت بھی کسی کے ہاتھ آجائے مگر اس دولت کے سامنے محض بے حقیقت ہے سو اس ناپائدار اور فانی گندی دنیا کے نسبت تو مسلمانوں کی یہ شان ہونا چاہیئے۔

اے دل آں بہ خراب از مئے گلگوں باشی – بر زروگنج بصد حشمت قاروں باشی

( اے دل بہتر یہی ہے کہ عشق حقیقی کی شراب سے تو مست رہے اور بغیر خزانہ اور روپیہ پیسہ کے بذریعہ صفت استغناء کے قارون سے بھی زیادہ تجھ کو عزت حاصل ہو۔)

تو حضرت اس دولتِ ایمان کے مقابلے میں یہ دنیا مردار ناپائدار اور اسکی ترقی ہے ہی کیا بلا اور میں ترقی کو منع نہیں کرتا ترقی کرو مگر طریقۂ کار وہ اختیار کرو جو مشروع ہو اس میں دنیوی کامیابی بھی ان شاء اللہ سامنے دست بستہ کھڑی ہے اور اگر خدانخواستہ یہ نہیں تو پھر ہم یہی کہیں کے گہ کس کے پیچھے اپنی عمر عزیز کو کھوتے ہو یہ کبھی وفا نہیں کر سکتی ہزاروں لاکھوں اس گرداب میں پھنس کر غرق ہوچکے اور خسر الدنیا ولاخرۃ کا مصداق بن چکے اور عذاب الہٰی کو اپنی گردنوں پر لے گئے۔ فرعون نے کیا تھوڑی ترقی کی، نمرود نے، شدّاد نے، قارون نے کیا کچھ کسر اٗٹھا رکھی، آخرت کو برباد کیا، دنیا کو حاصل کیا نتیجہ جو کچھ ہے سامنے ہے۔ خود تم ہی اسلامی حیثیت سے ان ترقی یافتوں کی ترقی کو مردود کہتے ہو اور ساتھ ہی انکو بھی کہتے ہو جس کی اصل یہی ہے کہ ان کو وہ ترقی حدود سے تجاوز کرکے حاصل ہوئی خدا اور رسولﷺ کی مرضی کے خلاف  انکا طریقہ کار تھا اسی لئے میں کہا کرتا ہوں کہ ہر ترقی محمود نہیں۔

ایک نظیر مادیات میں پیش کرتا ہوں اگر ہر ترقی محمود ہے تو بعض اوقات انسان کے جسم میں بوجہ مرض کے ورم آجاتا ہے جس سے اس کی فربہی بڑھ جاتی ہے تو اس کو مذموم کیوں سمجھتے ہو اور طبیب اور ڈاکٹروں سے اس کے ازالہ کی کیوں درخواست کرتے ہون اس سے معلوم ہرا کہ ہر ترقی محمود نہیں بلکہ اس کے اصول ہیں، حدود ہیں۔ چنانچہ اس مبحوث عنہ ترقی کے بھی کچھ اصولِ شرعی ہیں جنکا حاصل یہ ہے کہ مذہب اسلام میں جو ایک حصہ سیاسیات کا ہے وہ مدوّن ہے۔ اس تدوین کے موافق اس کو اختیار کرو وہ بہت کافی ہے اور وہ خالص مذہبی سیاست ہے۔ اس میں گڑبڑ کرنے سے اور کتربیونت سے کام لینا جائز نہیں جیسا کہ آجکل کے طبائع میں یہ مرض عام ہوگیا ہے کہ ہر جگہ اپنی رائے کو دخل دینا چاہتے ہیں اور اس دخل سے احکام میں نہ کوئی تغیر ہوسکتا ہے نہ احکام کو اس سے کوئی مضرت بلکہ اپنا ہی ضرر ہے۔ اسکی بالکل ایسی مثال ہے کہ جیسے کوئی مریض طبیب کے پاس جائے طبیب نبض دیکھ کر نسخہ تجویز کرے، یہ گھر آکر اس نسخہ میں کتر بیونت کرے تو اس سے فن اور نسخہ کا کیا ضرر؟ ضرر تو اسکا ہے اور جیسا کہ آجکل مرض ہورہا ہے کہ احکام میں رائے دیکھ کر اپنی مرضی کے مسائل گھڑ لیتے ہیں اس عمل کی اس سے زیادہ وقعت نہیں جیسے چند ڈاکو جمع ہوکر اور ڈکیتی کی دفعہ کو جو تعزیراتِ ہند میں جرم ہے اسکے متعلق یہ پاس کر لیں کہ ہم اس دفعہ کو منسوخ یا اس میں اپنی مرضی کے موافق تاویل کرکے ڈاکہ کو جائز سمجھتے ہیں۔ تو اسکا جو جواب عدالت سے ان لوگوں کو ملے گا وہی جواب تمہارے اس عمل کا دینگے بلکہ دینے سے پہلے ہی وہ جواب ہماری طرف سے سمجھ لیا جائے۔

اب یہ سن کو تو آنکھیں کھلی ہونگی کہ تمہارے اس عمل کا درجہ احکامِ اسلام کے مقابلے میں ہے کیا۔ تمہاری رائے ہی کیا اور تمہاری عقل ہی کیا اور ہو کس شمار میں؟ چہ نسبت خاک را با عالمِ پاک؟ تمہاری حقیقت اس باب میں ان کیڑوں سے زیادہ وقعت نہیں رکھتی جو خرد بین کے ذریعہ پانی کے اندر نظر آتے ہیں وہ اگر آپ ہی کے سامنے کھڑے ہو کر کہیں کہ فلاں قانون یا فلاں صنعت میں جو آپ کی یہ رائے ہے قابلِ تسلیم نہیں تو جو جواب انکو دوگے وہی ہماری طرف سے احکام کے مقابلہ میں اپنی رائے کے متعلق سمجھ لیا جائے اور جب احکام کی علوِ شان اور اپنی عقل کی نارسائی معلوم ہوگئی تو اب مولویوں پر یہ الزام کہ انکو احکام کے اسرار اور راز معلوم نہیں سراسر غلط ہے اسلئے کہ یہ قانون ساز نہیں جس کیلئے اسرار کا معلوم ہونا لازم ہے بلکہ قانون دان ہیں جس کیلئے علمِ اسرار لازم نہیں اس کو تو آپ بھی تسلیم کریں گے کہ اگر کسی وکیل سے تعزیراتِ ہند کی کسی دفعہ کے متعلق سوال کیا جائے کہ اس میں کیا حکمت ہے اگر وہ اپنے فن سے واقف ہے اور اس میں ماہر ہوگا یہ ہی جواب دے گا کہ میرے ذمہ اسکا جواب نہیں اسلئے کہ میں واضعِ قوانین یعنی قانون ساز نہیں محض قانون داں ہوں، یہ حکمت اور اسرار اور لِمَ واضعِ قوانین سے پوچھو اور اس جواب کو آپ کافی شافی سمجھیں گے اور اس جواب کر انکی کم علمی نہ سمجھیں گے تو پھر مولویوں ہی کا ایسے جواب میں کیا قصور ہے؟ یہ تو وکلاء اور بیرسٹر بھی نہیں بتلاسکتے بلکہ اگر انکو معلوم بھی ہو تب بھی تو تم کو کسی قاعدے سے اس سوال کا حق ہے اور اگر کہو گے کہ ہے تو اسکا یہ جواب بالکل معقول ہوگا جسطرح ہم کو حاصل ہوا اسی طرح تم بھی حاصل کرو کسی کی جوتیاں اٹھاؤ دس برس تک، کسی کے سامنے زانوۓ ادب تہ کرو، یوں تھوڑا ہی حاصل ہوتا ہے!

جیسے ایک خان صاحب کا قصہ ہے کہ ان کو کسی شخص نے بتلادیا کہ فلاں بزرگ کیمیا جانتے ہیں ان سے حاصل کرو۔ خان صاحب کو اس کی علت تھی، گئے جا کر پوچھا کہ تم کیمیا جانتے ہو؟ وہ بزرگ بڑے ظریف تھے کہہ دیا کہ ہاں جانتے ہیں کہا کہ ہم کو بتلادو کہا نہیں بتلاتے کوئی تمہارے باوا کے نوکر ہیں؟ ہم نے برسوں جاننے والوں کی خدمتیں کیں، تکلیفیں اٹھائیں تب جا کر کچھ حاصل ہوا تم بھی ہماری جوتیاں سیدھی کرو اگر کبھی مزاج خوش ہوگا بتلادیں گے۔ خان صاحب بیچارے چپ رہ گئے۔ پھر کھانے کا وقت آیا جنگلی پتوں کی بھجیا خان صاحب کے سامنے رکھی گئی۔ بہت کوشش کی کہ حلق سے نیچے اترے مگر وہ کہاں اترنے والی تھی۔ خان صاحب نے کہا کہ یہ تو میں نہیں کھا سکتا نہ میرے بس کی ہے۔ وہ بزرگ بولے کہ بس اس ہی بوتے پر گھر سے کیمیا سیکھنے چلے تھے، یہ تو اس کی پہلی منزل ہے اس سے آگے ہزاروں اس سے بھی بڑھ کر منزلیں ہیں ان سب کو طے کرنیکے بعد کہیں کیمیا کا پتہ چلے گا۔ خان صاحب بھاگ نکلے پھر ساری عمر کیمیا کا نام نہیں لیا۔

تو صاحب آپ بھی گھر میں بیٹھے ہوئے، گدے قالینوں اور کرسیوں میزوں پر استراحت اور آرام فرماتے ہوئے احکام کے حکم اور اسرار پر مطلع ہونا چاہتے ہیں سو یہ بالکل غیر ممکن ہے۔ اس کا یہ طریقہ نہیں ہے نہ اس سے یہ حکم لگا سکتے ہیں کہ یہ علماء اسرار سے بے خبر ہیں۔ ان میں وہ بھی ہیں کہ انکو سب کچھ معلوم ہے اسلئے عام طور پر آپ کو اس سمجھنے کا کچھ حق نہیں کہ انہیں کچھ آتا جاتا نہیں اور اگر یہ ہی سمجھ لو تو انکا کیا نقصان ہے؟ مثلاً اگر کسی کے پاس ایک لاکھ روپیہ ہو اور دوسرا شخص یہ کہے کہ تیرے پاس تو پائی بھی نہیں تو وہ اور خوش ہوگا کہ اچھا ہے یہی سمجھتا رہے تاکہ میرا مال محفوظ رہے۔ تو اس کا کیا نقصان ہوا؟ یہ تو زیادہ نفع کی صورت ہے اسی طرح ایسے حضرات بھی ہیں کہ ان کو اسرار معلوم بھی ہیں مگر نہیں بتلاتے۔ کسی نے خوب کہا ہے۔

مصلحت نیست کہ از پرہ بر دل افتد راز

ورنہ در مجلس رنداں خبرے نیست کہ نیست

(اس کا بیان کرنا خلاف مصلحت ہے ورنہ رندوں کی مجلس میں وہ کونسی بات ہے جس کی انکو خبر نہ ہو۔)

(ملفوظ 120) اسرارِ احکام معلوم کرنا انکارِ نبوت کے مترادف ہے

ایک سلسۂ گفتگو میں فرمایا کہ آجکل ایک مرض تو ان جدید تعلیم یافتوں میں خاص طور پر پھیل گیا ہے وہ یہ کہ احکام کی لِمَ اور اسرار معلوم کرنے کیلئے ہر وقت پیچھے پڑے رہتے ہیں جسکا منشاء یا حاصل احکام کا اتباع چھوڑ کر اپنی رائے اور عقل کا اتباع ہے۔ اگر کوئی حکم عقل میں آگیا اور رائے کے موافق ہوا تو وہ بھی عمل کے درجہ میں نہیں بلکہ تسلیم کے درجہ میں قبول کرلیا ورنہ صاف انکار۔ حضرت مجدد صاحب نے فرمایا ہے کہ احکام کے اسرار اور لِمَ مرادف ہے انکارِ نبوت کا، یعنی یہ شخص نبی کیطرف سے احکام کا اتباع کرنا نہیں چاہتا بلکہ اپنی عقل اور رائے کا اتباع کرتا ہے، بڑے کام کی بات فرمائی۔ حقیقت یہی ہے جو مجدد صاحب نے فرمائی اور آجکل تو بہت لوگوں نے اپنی اس عقل اور رائے کو بھی ایک طاغوت (گاندھی) کی رائے میں فنا کردیا۔ اب تو اسی کے اتباع کو باعثِ فلاح اور بہبود سمجھتے ہیں۔ اللہ و رسول کے احکام قرآن و حدیث کو بھی اسی کی رائے کے موافق ہونے پر تسلیم کرتے ہیں۔ آپ ہی بتلائیں کہ کہاں تک خاموشی اختیار کیجاسکتی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم جس چیز کو فرمائیں وہ قابل عمل نہ ہو اور اسکو اسوقت تک تسلیم نہ کیا جائے جب تک کہ اس کے اسرار اور لِمَ اور مصالح نہ معلوم ہوجائیں یا کوئی طاغوت اسکی موافقت نہ کرے اور وہ طاغوت جو بھی زبان سے بک دے وہ بلا چوں و چراں قابلِ تسلیم ہوجائے اور غضب یہ کہ اسکی زبان سے نکلے ہوئے مضمون کو قرآن و حدیث سے ثابت کرنے کی کوشش کریں اور افسوس تو یہ ہے کہ اس مرض میں بعض مولوی بھی مبتلا ہوگئے جنکو اہل اللہ اور خاصانِ حق کی صحبت میسر نہیں ہوئی یا اگر میسر ہوئی تو کبھی انہوں نے اپنی اصلاح کی فکر نہیں کی اور ویسے مولانا مفتد انا شیخ المشائخ سب کچھ ہیں مگر یہ سب ظاہری ٹیپ ٹاپ ہے دل میں کچھ اور ہی بھرا ہوا ہے اسی کو ایک حکیم فرماتے ہیں۔

از بروں چوں گورِ کافر پُر خلل – واندروں قہرِ خدائے عزوجل

از بروں طعنہ رنی بر بار یزید – و زد رونت ننگ می دارد یزید

دراصل بات وہ ہے جو میں کہا کرتا ہوں کہ بدوں کسی کامل کی صحبت میں بیٹھے ہوئے اور بدون جوتیاں کھائے ہوئے انسانیت نہیں پیدا ہوتی نہ قلب میں دین راسخ ہوتا ہے جو لوگ اس سے محروم ہیں ایسے لوگوں کا کچھ اعتبار نہیں گھڑی میں کچھ گھڑی میں کچھ، جیسا دیکھا ویسا ہی گانا بجانا شروع کردیا۔ اب اس بد فہمی اور بد عقلی کی کوئی انتہا ہے کہ جو شخص توحید اور رسالت کا منکر ہو وہ مسلمانوں کا ہمدرد اور خیر خواہ سمجھا جائے کون عاقل اسکو تسلیم کرسکتا ہے۔ پھر سمجھانے والوں کر الزام لگایا جاتا ہے کہ یہ اسلام اور مسلمانوں کے دشمن ہیں۔ اب بتاؤ کون دشمن ہے طاغوت کا ماننے والا یا نہ ماننے والا؟ کہتے ہیں کہ وہ طاغوت بڑا عاقل ہے کچھ خبر بھی ہے اگر وہ عاقل ہوتا تو سب سے پہلے آخرت کی فکر ہوتی یعنی ایمان لاتا اور اگر چالاکی کے معنے عقل ہے تو شیطان اس سے زیادہ عاقل ہے اسکی چالاکی کی بدولت دنیا کا اکثر حصہ اسکے اتباع میں مصروف ہے۔ میں تو ایسے عقلاء کو کہتا ہوں کہ عاقل نہیں آکل ہیں، عقل سے ان لوگوں کو کیا تعلق البتہ اکل کے امام ہیں ہر وقت پیٹ کے دھندے میں لگے ہوئے ہیں جیسے اکثر ہندو ہر وقت سود بٹے کی ہی فکر میں رہتے ہیں جسکی حقیقت دنیا ہے اور دنیا بھی ایسی کہ دوسروں کی دنیا کو تباہ کرکے اپنی دنیا بناتے ہیں اسی لئے انکو تو تم بھی عاقل نہیں کہتے بلکہ اور برا بھلا کہتے ہو اسلئے کہ جب ایک کے دو یا تین یا چار دینے پڑتے ہیں تو جھلاتے ہو اور کہتے ہو کہ انہوں نے مسلمانوں کی مالی حالت تباہ اور برباد کردی تو جو شخص ملک کا خواستگار ہو جو میزان اکل ہے دنیا کی اسکو عاقل کیسے کہتے ہو جب دو چار سو روپیہ سود بٹے میں کمانے والے کو عاقل نہیں کہتے تو جو شخص لاکھ دو لاکھ روپیہ یا ایک صوبہ یا ملک کی فکر میں ہو اسکو عاقل کیسے کہتے ہو؟ اتنی موٹی بات بھی سمجھ میں نہیں آتی آخر مطلوب تو دونوں کا دنیا ہے تو دونوں میں فرق کیا ہے؟ ایک عاقل کیوں ہے اور دوسرا عاقل کیوں نہیں؟ آگے اس سے ترقی کرکے کہتا ہوں کہ یہ صرف ہمارا ہی دعوٰی نہیں ہے ان دنیاداروں کے غیر عاقل ہونے کا بلکہ انکا خود بھی اقرار ہے چنانچہ ان اہل دنیا کا اپنے لئے خود مسلمہ مقولہ ہے جو اکثر زبان زد ہے کہ سو روپیہ میں ایک بوتل کا نشہ ہوتا ہے اور نشہ کی خاصیت ہے کہ عقل کو زائل کردیتا ہے تو یہ مسئلہ تمہارا تسلیم کردہ ہے تم خود ہی اقراری مجرم ہو تو اگر کسی شخص کے پاس ایک ہزار روپیہ ہو تو اس میں دس بوتلوں کا نشہ ہوگا تو دس بوتل کے نشہ کے بعد عقل کہاں؟

غرض جب بقول تمہارے ہی جو مہاجن یا ساہوکار دوچار روپیہ تم سے اینٹھنے کی فکر میں ہو اور مال کا تم کو نقصان پہنچائے وہ کم عقل اور تمہارا دشمن اور جو سارے ملک کا قبضہ کرنا چاہے اور تمہارے ایمان کو برباد کرنے کی فکر میں ہو وہ عاقل اور ہمدرد اور خیر خواہ۔ دو چار روپیہ میں اور ملک میں جو نسبت ہے اسی نسبت سے اسکو کم عقل بلکہ اس سے آگے سمجھنا چاہئے یعنی بدفہم بدعقل بدنیت بددین، وہ کیا مسلمانوں اور اسلام کا خیر خواہ ہوسکتا ہے۔ جب تم خود اپنے دشمن ہو تو وہ کیا تمہارا دوست ہوگا؟ بتائی ہوئی بات اور رنگی ہوئی داڑھی کہیں چھپتی ہے؟َ بڑے بڑے لیڈر مسلمانوں نے کیا کچھ اس طاغوت کے ساتھ نہیں کیا حتٰی کہ مقولے تو ایسے مشہور ہیں کہ ان سے تو کفر تک کی جھلک مارتی ہے اللہ معاف کرے مگر ان میں بعض نے آخر ساتھ چھوڑ دیا جبکہ اسکے اندرونی جذبات انکو معلوم ہوگئے کہ یہ تو جانی دشمن ہے اسلام اور مسلمانوں کا۔ خیر یہ بھی غنیمت ہے اور سلامتئ طبع کی دلیل ہے کہ یہ معلوم ہونے پر تو انہوں نے ساتھ چھوڑ دیا ورنہ ابھی تک ایسے بدعقل اور فاسد دماغ کے بھی لوگ مسلمانوں میں موجود ہیں کہ اسکو خیر خواہ اور ہمدرد ہی سمجھتے ہیں۔

مسلمانو! عقل سے کام لو اپنے دوست اور دشمن کو پہچانو ورنہ پچھتاؤگے اور اب بھی پچھتا رہے ہو اسلئے کہ جو کچھ نقصان دنیا کا پہنچا وہ تو پہنچا ہی مگر ہزاروں مسلمانوں کے ایمان اس فتنہ کے زمانہ میں تباہ اور برباد ہوگئے جو مصداق ہو گئے خسر الدنیا ولآخرۃ کے۔ توبہ کرو اور اگر کفریہ کلمات نکل گئے ہیں پھر تجدیدِ ایمان کرو اور اپنے اللہ کی یاد کرو اور جو کچھ اپنی حاجتیں اور ضرورتیں ہیں انکے ہی سامنے پیش کرو اس ہی دربار سے فضل ہوگا وہی تمکو سب کچھ عطاء فرمادیں گے ایسا کرکے تو دیکھو، اگر اعتقاد سے نہیں تو بطور امتحان ہی سہی بت پرستی تو کرکے دیکھ لی ہزاروں کو خدا بنا کر دیکھ لیا، اب ذرا اس طرف بھی ناک ماتھا رگڑ کر دیکھ لو آخر حرج ہی کیا ہے؟ مقصود تو فلاح اور بہبود ہے تو جیسے اور تدابیر اپنے مقصود کی کامیابی کیلئے اختیار کیں منجملہ اوروں کے ایک تدبیر یہ بھی سہی کہ خدا کو راضی کرکے بھی دیکھ لو آخر اسی تدبیر سے کیوں اعراض ہے؟ بات کیا ہے؟

اجی ایک مریض ہے وہ صحت کا طالب ہے تو طبیب سے، ڈاکٹر سے علاج کراتا ہے۔ ایک شخص کہتا ہے کہ میاں ہمارے پاس ایک تعویذ ہے ذرا اسکو بھی باندھ کر دیکھ لو تو کیا ہوتا ہے؟ میاں مرض کے دور ہونے سے غرض ہے تو اس تدبیر میں کیا تمکو ہوّا نظر آتا ہے؟ اس سے کیوں وحشت ہے؟ اور اگر اپنی نافرمانیوں کی کثرت پر نظر کرکے مایوسی ہو تو سمجھ لو کہ انکی وہ شانِ رحمت ہے کہ ایک شخص بت کے سامنے پیٹھا ہوا صنم صنم رٹ رہا تھا، ایک مرتبہ بلا قصد بھولے سے صمد نکل گیا فوراً آواز آئی لبیک یا عبدی بندے کو کیا چاہیئے میں موجود ہوں۔ بس سنتے ہی اس شخص نے اس بت کے ایک لات ماری اور یہ کہا کہ کمبخت ساری عمر تیری پرستش میں ختم کردی مگر کبھی بھی کچھ نہ ہوا، آج بھولے سے اپنے حقیقی رب کا نام نکل گیا فوراً جواب آیا۔ تو حضرت ان کی تو شان ہی اور ہے۔ کیوں اپنے پیدا کنندہ سے اعراض کرتے ہو اسکے سوا اور کوئی نہ نفع پہنچا سکتا ہے نہ نقصان۔ اُنہی سے طلب کرو وہی حاجت روائی کریں گے، اُنکی ایک سیکنڈ اور ایک منٹ کی رحمت تم کر مالا مال کردے گی ذرا آؤ تو سہی بھاگتے کیوں ہو؟ اور اسلام کی قیود سے گھبراتے ہو تو اسکا جواب یہ ہے کہ مجازی بادشاہی کے قوانین کو دیکھ لیجئے اس میں کیا قیود ہیں آخر انکی پابندی کرتے ہی ہو اور اگر ایسا ہی گھبرانا ہے تو کھانے کی پابندی بھی تو ایک قید ہے اس پر ممکن ہے کوئی بیدار مغز یہ فرمائیں کہ اس پر تو زندگانئ دنیا کا مدار ہے یہ قید کیسے چھوڑی جاسکتی ہے بس یہی ہم کہتے ہیں کہ جب اسکو اسلئے نہیں چھوڑتے کہ اس پر مدارِ حیات ہے اور یہ زندگانئ دنیا کے اسباب میں سے ہے تو وہ چیزیں کیسے چھوڑ دیں جن پر مدار ہے حیاتِ آخرت کا، زندگانئ دائمی گا۔ دنیا سے صبر کیوں نہیں آخرت سے صبر کیوں ہے؟ اسی کو مولانا فرماتے ہیں۔

ایکہ صبرت نیست از فرزندوزن – صبر چوں داری زرب ذوالمنن

ایکہ صبرت نیست از دنیائے دوں – صبر چوں داری ز نعم الماہدون

(اے مخاطب! تجھکو بال بچوں کے بغیر تو صبر آتا نہیں، پھر حق تعالٰی سے بے تعلقی کی حالت میں کسطرح صبر آتا ہے۔ اور تجھکو کمینی دنیا کے بغیر صبر نہیں آتا تو حق تعالٰی کے بغیر کیونکر صبر آتا ہے؟)

اور اس توجہ اور تعلق مع اللہ کا بس ایک ہی طریق ہے وہ یہ کہ قلب کو دوسروں سے خالی کرو پھر سب کچھ ہو سکتا ہے، مگر خالی کرنے کے متعلق اسکا انتظار غلطی ہے کہ پہلے دنیا سے یا دنیا کے تعلقات سے قلب کو خالی کرلیں پھر تب یادِ الہی میں مشغول ہوں گے۔ اسکی صحیح تدبیر یہ ہے کہ کام شروع کردو اس سے وہ آپ سے آپ خالی ہوتا رہے گا مگر کام کا مؤثر ہونا محبت سے ہوتا ہے اسلئے پہلے حق تعالٰی سے محبت پیدا کرو اور محبت پیدا کرنے کا طریق یہ ہے کہ اہلِ محبت کہ صحبت اختیار کرو انکی صحبت سے قلب میں ایک آگ پیدا ہوگی جو سب ماسوا کو فنا کردے گی۔ اسی کو مولانا فرماتے ہیں۔

عشق آں شعلہ است کو چوں بر فروخت – ہر چہ جز معشوق باقی جملہ سوخت

(عشق وہ آگ ہے جب یہ بھڑکتی ہے تو معشوق کے سوا سب کو جلا پھونک دیتی ہے)

اور اگر اس تدبیرِ مذکور سے قلب کو خالی نہ کیا بلکہ تعلق مع اللہ کیساتھ ماسوی اللہ کے تعلقاتِ مانعہ کو بھی جمع رکھنا چاہا تو سمجھ لو کہ قلب کیا ہوا مراد آباد اسٹیشن کا اسلامی مسافرخانہ ہوا کہ نگینہ والے بھی اس میں ہیں، بچھراؤں والے بھی اس میں ہیں، بریلی والے بھی، سہارنپور والے بھی غرض قلب کیا سرائے ہے جسکو دیکھو وہاں پر موجود ہے اور سب کا دارالقیام بنا ہوا ہے پس ہر مقصود کو اسکے صحیح طریقہ سے حاصل کرو۔

 

(ملفوظ 115) سیاسی تحریک پر گفتگو بے مقصود

ایک سلسلۂ گفتگو میں فرمایا کہ زمانہ تحریک میں ایک لیڈر مولوی صاحب نے مجھ سے بذریعۂ خط تحریکی مسائل پر گفتگو کرنے کے لئے آنے کی اجازت چاہی، میں نے لکھا کہ گفتگو سے دو مقصود ہو سکتے ہیں افادہ یا استفادہ۔ اگر افادہ مقصود ہے تو وہ تبلیغ ہے اس میں میرا کام صرف استماع ہوگا میرے ذمہ جواب نہ ہوگا جواب کا مطالبہ نہ کیجئے اور استفادہ مقصود ہے تو استفادہ ہوتا ہے تردد کے بعد تو پہلے اپنے تردد کا اقرار کیجئے یعنی بذریعہ اشتہار اعلان کردیجئے کہ مجھ کو اب تک تردد نہ تھا مگر اب ہوگیا۔ جواب آیا جو چاہو سمجھ لو مگر مجھ کو آنے دو، چنانچہ آئے اور خفیہ گفتگو کرنا چاہا۔ میں نے بعض مصالح سے اس کو پسند نہ کیا آخر خالی واپس چلے گئے۔

ایک واقعہ ایک اسکول کے ماسٹر کا ہے، انہوں نے بعض شبہات روافض کا جواب چاہا، میں نے لکھا کہ زبانی گفتگو کرلو۔ انہوں نے آنے پر رضامندی ظاہر کی اور ایک بیہودہ شرط لگائی کہ میں آپ کا کھانا نہ کھاؤں گا کیونکہ اس سے میں آپ کا نمک خوار ہوجاؤں گا پھر گفتگو نہ کرسکوں گا۔ بعضے آدمی بڑے ہی بد فہم ہوتے ہیں، چنانچہ میں اس پر راضی ہوگیا اور وہ خود ہی اس شرط سے دستبردار ہوگئے، الحمد اللہ شفا حاصل کرکے گئے۔ چلتے وقت میں نے ان کو مخالفین کی کتابیں دیکھنے سے منع کردیا۔

ایک واقعہ ایک غیر مقلد کی گفتگو کا ہے، بہت سے قیل و قال کے بعد آخر میں میں نے ان سے کہا کہ آپ لوگوں میں دو مرض ہیں، ایک بد گمانی ایک بد زبانی، اگر یہ نہ ہو تو آدمی تحقیق کرکے اس کی سمجھ میں جو حق ہو بشرطیکہ نیت خراب نہ ہو اور اصول شریعت سے تجاوز نہ ہو اس پر عمل کرے اس کو کون برا کہتا ہے گو تقلید کے مسئلہ میں وہ اختلاف ہی رکھے مگر شیعوں کی طرح تبرائی بننا یہ کسی طرح دین نہیں اس سے تو صاف بد نیتی کا پتہ چلتا ہے۔ یہ واقعہ قنوج کا ہے
اور وہاں ہی کا ایک اور واقعہ بھی ہے کہ میں ایک مرتبہ قنوج گیا وہاں کچھ لوگ غیر مقلد بھی ہیں حنفی انکو جامع مسجد میں آنے نہیں دیتے تھے اور وہ وعظ سننے کے لئے آنا چاہتے تھے۔ میں نے کہا کہ آنے دو اور آمین بالجہر کی بھی اجازت دے دی کیونکہ اگر طبیعتوں میں سلامتی ہو فساد نہ ہو تو اختلافی اعمال میں ہمارا حرج ہی کیا ہے مگر مشکل تو یہ ہے کہ اکثر امور میں فساد اور شرارت کی جاتی ہے حتٰی کے آمین بالجہر میں بھی نیت دوسروں کو مشتعل کرنے کی ہوتی ہے اسی لئے آمین بالجہر اس طرح کرتے ہیں گویا آمین کی اذان دیتے ہیں جو کہیں منقول نہیں۔
غرض نمازِ جمعہ کے بعد احباب کے اصرار پر جامع مسجد میں بیان کیا گیا اور اس میں میں نے یہ بھی کہا تھا کہ حضور سرور عالم ﷺ کی سنت کے موافق اپنی بیویوں سے کہہ دو اگر احکام کی اتباع نہ کریں تو اسی سنت پر عمل کرو۔ یہ میں نے قصداً اس لئے کہا کہ معلوم ہوا کہ رسوم متعارفہ ان لوگوں کے گھروں میں ہیں تو مقصود میرا یہ تھا کہ آمین اور رفع یدین میں تو اتباع سنت کا دعویٰ ہے اور رسوم میں اس سنت پر عمل کیوں نہیں۔ میں اس کی قدر کرتا ہوں کہ یہ سن کر اپنے گھر جاکر حنفیوں نے تو نہیں کہا مگر ٖغیر مقلدوں نے جاکر بالاتفاق کہہ دیا۔ عورتوں کے کان کھل گئے اور اصلاح ہوگئی.

اسی سلسلہ میں ایک غیر مقلد کا واقعہ یاد آیا کہ ان کا میرے پاس خط آیا کہ میں غیر مقلد ہوں اور بیعت کرنا چاہتا ہوں، میں نے لکھا کہ یہ بتلاؤ کہ میری بھی تقلید کروگے یا نہیں۔ بس گم ہوگئے کیونکہ ایک شق پر تو مقلد بنتے ہیں اور دوسری شق پر اعتراض ہوتا ہے کہ جب میرا کہنا نہ مانو گے تو بیعت کیسی اور اس لاجواب ہونے کی وجہ یہ تھی کہ ان صاحبوں میں سمجھ نہیں ہوتی، یونہی اوپر اوپر چلتے ہیں ورنہ اس کا جواب بہت آسان تھا یوں لکھتے کہ تمہاری تقلید کروں گا اور اس پر جو شبہ ہوتا کہ امام صاحب کی تو تقلید کرتے نہیں اور میری کروگے اس کا یہ جواب دیتے کہ امام ابو حنیفہ کی تقلید تو احکام میں کراتے ہیں اور تمہاری تقلید تدابیر میں ہوگی، مثل طبیب جسمانی کے کہ اس کی بتلائی ہوئی تدابیر پر عمل کرتے ہیں حالانکہ وہ بھی اجتہادی ہیں مگر احکام تو نہیں، مگر یہ چیز ان کے ذہن میں کہاں آسکتی ہیں۔

ایک نیچریوں لے مولوی صاحب سے علی گڑھ میں گفتگو ہوئی انہوں نے ایک حدیث کا راز پوچھا، میں نے کہا کہ احکام کے اسرار کی آخر غایت کیا ہے؟ مقصود عمل ہے نہ کہ تحقیق۔ اسرار گو اللہ کا شکر ہے کہ بزرگوں کی برکت سے بہت سی ایسی چیزیں بھی معلوم ہیں لیکن ہر چیز کے بتلانے پر میں اکثر یہ شعر پڑھا کرتا ہوں۔

مصلحت نیست کہ از پردہ بروں افتد راز       ورنہ در مجلس رنداں خبر لے نیست کہ نیست
(راز کا پردہ سے باہر آنا خلاف مصلحت ہے ورنہ رندوں کی مجلس میں ہر چیز موجود ہے)

باقی اہل تحقیقات اور ان کے غلام اس کی پروا نہیں کرتے کہ نہ بتلانے پر یہ کیا سمجھیں گے کہ ان کو کچھ آتا نہیں کچھ ہی سمجھا کریں ہاں کوئی وقت ایسا بھی ہوتا ہے کہ اس میں اسرار اور راز بھی بیان کردیتے ہیں ورنہ اصل مسلک ان کا وہی ہے جس کو فرماتے ہیں۔

با مدعی بگوئید اسرار عشق و مستی          بگزار تا بمیر و در رنج خود پرستی
(مدعی سے عشق و مستی کے اسرار بیان کرو۔ اس کو اپنی خود پرستی کہ مصیبت میں مرنے دو۔)

اور کسی کے معتقد غیر معقتد ہونے کی ان کو پرواہ ہی کیسے ہوتی ان پر تو عشق و فنا اس قدر غالب ہوتا ہے کہ اس سے ان حضرات کی شان ہی دوسری ہوجاتی ہے۔ ان کی ہر چیز اور ہر کام اور ہر بات میں اسی محبت اور عشق کی شان جھلکتی ہے ان کی ہر ادا سے دوسرے ہی عالم کا بتا چلتا ہے اور اس کے مصداق ہوتے ہیں۔

عشق آن شعلہ ست کو چوں برفروخت            ہر چہ چیز معشوق باقی جملہ سوخت

گلزار ابراہیم میں اسی کا ترجمہ ہے۔

عشق کی آتش ہے ایسی بد بلا           دے سوا معشوق کے سب کو جلا

غرض انکی وہ حالت ہوتی ہے کہ سوائے ایک کے سب کو فنا کئے ہوئے ہوتے ہیں پھر ان کو کسی کے اعتقاد و عدم اعتقاد سے کیا بحث اس لئے بلا ضرورت وہ علوم کو ظاہر نہیں کرتے ورنہ ان کے علم کی تو یہ شان ہوتی ہے جس کو مولانا فرماتے ہیں۔

بینی اندر خود علوم انبیاء            بے کتاب و بے معید و اوستا
(تم اپنے اندر بغیر کسی مددگار اور کتاب اور استاد کے انبیاء کے علوم پاؤگے)

اگر تم بھی ایسے اسرار معلوم کرنا چاہتے ہو تو اس کا یہ طریق نہیں ہے کہ ان حضرات کو پریشان کرو اور وہ کچھ بتلا بھی دیں تو اس سے کفایت نہیں ہوتی بلکہ اس کا بھی صرف یہی واحد طریق ہے جس طریق سے ان کو یہ دولت ملی یعنی خدا اور رسول کے احکام کا اتباع کرو، خدا کے برگزیدہ بنو اور اس اتباع کا صحیح طریق بزرگوں سے معلوم کرو ان کی صحبت اختیار کرو اور صحبت تو بڑی چیز ہے ان کا تو چہرہ دیکھنے سے بہت کچھ حاصل ہوجاتا ہے اور یہی صحبت اس راہ کے لئے منزل مقصود کی اول سیڑھی ہے، ان کا جلیس محروم نہیں رہتا اور اس کی برکت سے شبہات وغیرہ کافور ہوتے چلے جاتے ہیں۔ مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ اسی کو فرماتے ہیں اور سچ فرماتے ہیں۔

اے لقاء تو جواب ہر سوال             مشکل از تو حل شود بے قیل و قال
(وہ ذات جس کی ملاقات ہی ہر سوال کا جواب ہے اور تجھ سے ہر مشکل بغیر قیل و قال کے حل ہو جاتی ہے)۔

مگر اس کے نافع ہونے کی ایک شرط بھی ہے وہ ضرور یاد رہے اور وہ اخلاص و اعتقاد کے ساتھ اتباع ہے اور اگر اتباع نہیں تو پھر محض صوری قرب کی بالکل ایسی مثال ہے کہ کوئی شخص طبیب کے پاس بیٹھے مگر دوا نہ کرے اور کوئی سوال کرے کہ میاں طبیب کے دوست ہو کے بیمار رہتے ہو تو یہی جواب ہوگا کہ مرض کا ازالہ محض طبیب کے پاس بیٹھنے سے تھوڑا ہی ہوسکتا ہے۔ اس کے پاس بیٹھنے سے تو نسخہ معلوم ہوجائے گا اور وہ بھی اس وقت جب کہ تم اس کے سامنے پہنچ کر اپنا سب حال کہو، باقی صحت تو نسخہ کے استعمال سے ہوگی۔ اسی استعمال نسخہ کی نسبت مولانا فرماتے ہیں۔

قتال راہگزار مسرد حال شو            پیش مدرے کملے پامال شو۔