(ملفوظ 97)اہل اللہ کا قلب صاف ہوتا ہے

(ملفوظ ۹۷) ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ بؑض لوگوں کو یہ مرض ہوتا ہے کہ دوسروں کو ترغیب دیتے ہیں کہ فلاں بزرگ سے بیعت و تلقین کا تعلق پیدا کرلو مجھ کو اس سے بےحد نفرت ہے اس میں شبہ ہوتا ہے کہ شاید ان بزرگ نے اس کام کے لئے آدمی چھوڑ رکھے ہیں کہ بہکا بہکا کر لاؤاس لئے مجھ کو تو اس سے بڑی ہی غیرت آتی ہے اور علاوہ غیرت طبعی کے عقلاّّ بھی مضر ہے اور اس سے زیادہ کیا مضرت ہوگی کہ طالب کو مطلوب اور مطلوب کو طالب بنایا جاتا ہے ایک ایسے ہی نادان معتقد نے اس سے بڑھ کر کیا کہ مجنون کو یہاں بھیج دیا اور یقین دلایا کہ وہاں کے تعویذ سے اچھے ہوجاؤگےاس نے آکر مجھ سے تعویذ مانگا چونکہ میں جنون کا تعویذ نہیں جانتا میں نے انکار کردیا وہ خفا ہوکر چالا گیا اور قصبہ ہی میں ایک دکان پر بیٹھ کر کہا میں اوزار لایا ہوں قتل کروں گا مجھ کو تعویذ نہیں دیا یہ مضرتیں ہیں بیہودہ باتوں مین دین کا بھی ضرر اور دنیا کا بھی ضرر کسی غرض کے لئے کسی سے کسی کا نام لینا یہ بہت ہی برا طریقہ ہے۔ ایک خیر خواہ صاحب کو اس کا بہت شوق ہے وہ شب وروز اس ہی فکر میں رہتے ہیں کہ ساری دنیا کا تعلق یہاں ہوجائے نیت تو بری نہیں مگر طریقہ کار برا ہے میں نے ان سے کہا کہ جس مقصود کے لئے آپ ایسا کرتے ہیں اس کا ایک بہت اچھا طریقہ ہے وہ یہ کہ میں پانچ چھ نام بتلائے دیتا ہوں طالب کو بجائے کسی ایک معین کے متعدد نام بتلائے جائیں پھر اس کا جس طرف رجحان ہو یہ طریق زیادہ بہتر اور نافع ہے اس میں کوئی مفسدہ بھی نہیں۔ چونکہ وہ اہل فہم ہیں انہوں نے بھی سن کر پسند کیا اور انتخاب و ترجیح کا طریقہ بھی بتلادیا جائے وہ یہ کہ سب کے پاس اپنے حالاتکے خطوط لکھو جس کا جواب شافی ہو اس سے تعلق پیدا کرلو سو اس طرح کے مشورہ میں کوئی حرج نہیں تم خود تعین مت کرو اس سے غیرت آتی ہے نیزبوجہ مفاسد کے یہ بناءالفاسد علی الفاسد ہے یہ تعلق ہی بنارہے آئندہ کے تمام معملات کی اگر یہی ٹھیک نہ ہوئی تو پھر وہ مثل ہوجاوے گی کہ

خشت اول چوں نہد معمارکج

تاثریامی رود دیوار کج

کچی یا ٹیڑھی بنیاد رکھنا نہایت برا ہے ہمیشہ خرابی ہی رہے گی اور میں نے جو نئےآدمی کے لئے یہ قید تجویز کی ہے کہ چند روز یہاں پر آکر قیام کرو اور اس زمانہ قیام میں نہ مکاتبت کرو نہ مخاطبت اس کا حاصل بھی یہی ہے کہ وہ انے والے مجھ کو دیکھ لیں اور میں ان کو اس بعد اگر مناسبت ہو طرفین میں تو پھر تعلق کی درخواست کا مضائقہ نہیں سو اس تجویز سے لوگوں کو بےحد نفع ہوا۔ اسی طرح ایک اور رسم ہے کہ سفارش لاتے ہیں یہ بھی برا ہے اسکا حاصل تو یہ ہے کہ دوسرے کو مقید کرنا اور کسی بڑے اثر سے مجبور کرنا سو یہ بہت وجوہ سے برا ہونے کے علاوہ ادب کے بھی خلاف ہے اس طریق میں ایسا واسطہ ٹھیک ہی نہیں بلاواسطہ ہی تعلق ٹھیک ہی کیونکہ ہر شخص سے جدا معاملہ ہوتا ہے اس لئے کہ ہر شخص کی جدا حالت ہوتی ہے تو سفارش میں آزادی نہیں رہتی لیکن اس سے ہر واسطہ کا مضر ہونا نہ سمجھا جائے بعض جگہ واسطہ رحمت ہوتا ہے اور عدم واسطہ خطرناک ہوتا ہے جیسے علوم کہ وحی کے واسطہ سے رحمت محضہ ہیں اور بدون اس واسطہ کے خطرناک و محتمل ابتلاء۔چنانچہ جو علم انبیاء کو بلاواسطہ ہوتا ہے اس میں اندیشہ ابتلاء کا ہوتا ہے اور وہ خطرناک ہوتا ہے اور جو بواسطہ وحی ہوتا ہے اس میں فقط رحمت ہوتی ہے کوئی اندیشہ اور خطرہ نہیں ہوتا یہ تو وحی کے واسطہ کی خاصیت ہے لیکن اگر محض استدلال عقلی کا واسطہ ہو اور اس کی صحت کی شہادت شرع سے نہ ہو وہ واسطہ محض لاشےوناقابل اعتبار ہے مولانا اسی واسطہ کے متعلق فرماتے ہیں۔

علم کان نبود زحق بےواسطہ

درنپاید ہمچورنگ مساشطہ

خلاصہ یہ کہ نہ واسطہ کا وجود فی نفسہ مقصود ہے نہ واسطہ کا عدم جہاں واسطہ کا وجود نافع ہو وہاں واسطہ مقصود ہے اور جہاں واسطہ کا عدم نافع ہو وہاں واسطہ کا عدم مقصود ہے تو حکم کا مدار نفع وضرر ہے نہ کہ خود واسطہ کا وجود یا عدم۔ البتہ اگر الہام متائد بالشرع ہو اس تائید کے سبب وہ بھی رحمت ہے کیونکہ اہل اللہ کا قلب صاف ہوتا ہے اس پر واردات ہوتے ہیں یعنی ان کے قلب میں جو الہامات ہوتے ہیں وہ حق تعالی کے خطاب خاص ہیں جاننے والے کہتے ہیں کہ ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے کوئی بول رہا ہے یا بیٹھا ہوا بتلارہا ہے مگر شرط اس میں وہی ہے کہ قواعد شرعیہ کے خلاف نہ ہو ورنہ اس الہام رحمانی اور القاء ربانی نہ کہیں گے بلکہ اس کو حدیث النفس یا وسوسہ شیطانی سے تعبیر کریں گے بعض کا الہام تو یہاں تک بڑھ جاتاہے کہ ہر وقت الہام ہوتا ہے کہ یہ کرو یہ نہ کرو یہ مت کھاؤ یہ مت پیئو اس سے ہدیہ لو اس سے نہ لو اس کو بیعت کرو اور اس کو مت کرو اب اس کے مقتضا پر اگر وہ کسی کی درخواست قبول کرنے سے انکار کرتا ہے تو اس پر اعتاضات ہوتے ہیں کہ فلاں کو قبول کرلیا فلاں کو قبول نہیں کیا فلاں سے ہدیہ لے لیا فلاں سے نہیں لیا مگر اس پر جواب میں بھی کہنا پڑے گا۔

درنیا حال پختہ ہیچ خام

پس سخن کوتاہ باید والسلام