(ملفوظ ۹۸) ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ آج کل دنیا بدفہموں سے پر ہے یہ ایک عام اعتراض پیدا ہوگیا ہے کہ مل کر کام کرنا چاہئے اور چونکہ مولوی الگ رہتے ہیں اور کام کرنے والوں کے ساتھ شریک نہیں ہوتے اس وجہ سے ترقی نہیں ہوتی اعتراض کردینا تو آسان بات ہے مگر مشکل یہ ہے کہ شرکت کا کوئی معیار نہیں بتایا جاتا بدون معیار بتائے ہوئے علی الطلاق اپنا تابع بنانا چاہتے ہو سو یہ تو واقعہ ہے مولوی تمہارے تابع نہ بنیں گے اب رہا یہ کہ پھر مل کر کام کرنے کا طریقہ کیا ہے سو وہ میں عرض کرتا ہوں کہ وہ مل کر کام کرنے کی صورت یہ ہے کہ جو چیز تم کو معلوم نہیں یعنی احکام ان کو تم ہم سے پوچھ کر کرو اور جو ہم کو معلوم نہیں یعنی ملک کے واقعات وہ ہم تم سے پوچھ کر اس پر احکام بتلائیں یہ ہے شرکت کی صورت باقی یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ علوم شرعیہ اور احکام شرعیہ میں بھی آپ ہی کی رائے مانی جائے ظاہر ہے جیسا ہم قانون کے سمجھنے میں غلطی کرسکتے ہیں ایسے ہی آپ علوم شرعیہ میں غلطی کریں گے اس کا فیصلہ آپ ہی کر لیں کہ جس نے اپنی ساری عمر دین کی خدمت میں صرف کر دی ہو وہ زیادہ سمجھے گا یا وہ شخص جس نے کبھی عمر بھر دین کی طرف رخ بھی نہ کیا ہو عجیب بات ہے کہ مقدمات تو سب صحیح اور نتیجہ غلط اور جن علماء نے تمہارے ساتھ تمہارے تابع ہوکر کام کیا انہوں نے ہی کونسا انعام پایا۔بلکہ اپنی آخرت خراب وبرباد کیا

You must be logged in to post a comment.