ایک سلسلہ گفتفگو میں فرمایا کہ کہنے کی تو ایسی کوئی بات نہ تھی مگر ذکر آگیا اس لئے کہتا ہوں آج ایک لفافہ آیا ہے اس میں جو جواب کے لئے لفافہ رکھا ہے اس پر نیئ قاعدہ کی رو سے پورے ٹکٹ نہیں ہیں اور جس وقت محصول بڑھا میں نے ایک روپیہ کے ٹکٹ منگا کر رکھ لیئے تھے اور برابر لوگوں کے جوابی کارڈ اور لفافوں پر چسپاں کرتا رہا اور یہ نیت کرلی تھی جس روز پوری ڈاک میں ٹکٹ پوری آنے لگیں گے پھر اس روز سے نہ لگاؤں گا سو جس روز ڈاک میں پوری ٹکٹ آئے ہیں اس روز ایک ٹکٹ بچا ہواتھا تو پہلے چونکہ ذہن میں ضرورت تھی ایک روپیہ خرچ کرنا بھی آسان تھا اور اب بعد رفع ضرورت یہاں دو پیسے بھی خرچ کرنا مشکل ہیں چنانچہ آج جو بچا ہوا ٹکٹ رکھا ہے اس کے کگانے کو جی نہیں چاہتا اس لیے کہ سب جگہ محصول کا بڑھنا معلوم ہوچکا تو اسکا خیال تو ہونا چاہیئے مگر پھر بھی خیال نہ ہونا نہایت غفلت کی بات ہے بات یہ ہے کہ مزاج میں بیفکری بہت ہے اور جس کو کبھئ اتفاق سے ایسا موقع پیش آجائے وہ تو اس قسم کی رعایت کر سکتا ہے اور جس کو روزانہ اسی قسم کا سابقہ پڑتا ہو وہ رعایت نہیں کرسکتاـ
2ذیقعدہ 1350 ہجری مجلس خاص بوقت صبح یوم جمعہ
بے فکری
(ملفوظ 95)بہائم اور انسان میں فرق صرف فکر کا ہے
(ملفوظ ۹۵)ایک شخص کی غلطی پر تنبیہ فرماتے ہوئے فرمایا کہ زیادہ تر جو تکلیف ہوتی ہے وہ بے عقلی سے نہیں ہوتی بلکہ بے فکری سے ہوتی ہے اگر فکر سے آدمی کام لے تو موٹی موٹی باتوں میں غلطی نہیں ہو سکتی اور عقلوں میں تفاوت ضرور ہوتا ہے مگر اس قدر نہیں کہ فکر سے کام لینے کی حالت میں اس سے دوسروں کو تکلیف پہنچے مگر جب فکر ہی سے کام نہ لیں تو پھر بہائم اور انسان میں فرق کیا رہ گیا کیونکہ جانور میں فکر نہیں ہے یعنی دوسری جانب کا احتمال اس کے ذہن میں حاضر نہیں ہوتا سو آدمی کو چاہئے کہ جو کام کرنا چاہے پہلے سوچ لے کہ نہ معلوم اس کا کوئی پہلو مصلحت کے خلاف ہو۔ اس شخص نے عرض کیا کہ میں معافی چاہتا ہوں فرمایا کہ معاف ہے خدانخواستہ کوئی انتقام تھوڑا ہی لے رہا ہوں مگر کیا منتبہ بھی نہ کروں بدون تنبیہ کے یہ کیسے معلوم ہوگا کہ ایسی حرکت کرنا غلطی ہے عرض کیا کہ میرے مقدر میں اسی طرح تھا فرمایا کہ یہ اور نامعقول عذر ہے معلوم ہوتا ہے کہ زیادہ بولنے کا بھی مرض ہے محض بے ہودہ ہو آپ کہتے ہیں کہ مقدر میں بھی تھا اس کے معنی تو یہ ہیں کہ خدا ہی کی تجویز ایسی ہے میں مجبور ہوں اپنے تبریہ(جان چھڑانا) کے لئے مقدر کو پیش کرنا کس قدر نالائق اور بےہودہ حرکت ہے اب تک تو میں نے نہیں کہا تھا مگر اب کہتا ہوں کہ تم کو مجھ سے مناسبت نہیں کہیں اور جاؤ
( ملفوظ 27 )بے فکری دور کرنے کے لئے مواخزہ
ایک صاحب نے عرض کیا کہ یہ سب پریشانیاں جیسی اس وقت ان صاحب کو ہورہی ہیں یہ سب بے فکری دور کرنے اور فکر کو پیدا کرنے میں معین ہوتی ہیں فرمایا کہ جی ہاں میری تو یہ ہی نیت یوتی ہے پہر فرمایا کہ بے اصول باتیں کر کے خود اپنے اوپر پابندیاں عائد کرتے ہیں اور ایک عجیب بات ہے کہاپنے بے اصول برتاؤ کی خوب تاؤیلیں کرلیتے ہیں مگر میری مواخزہ کی تاویل نہیں کرتے کیوں شکائتیں کرتے پھرتے ہیں حالا نکہ ان کی سب بے تمیزیاں ہی سبب ہیں اور میرا مواخذہ مسبب ہے ـ کیو نکہ وہ بعد میں ہوتا ہے مثلا میں سیدھی سیدھی بات پوچھتا ہوں اس میں چالا کیا کرتے ہیں وہ یہاں چلتی نہیں – جرح قد ہوتی ہے بات بڑھ جاتی ہے پہلے تو ایک ہی بات ہوتی ہے گڑ بڑ کرنے سے پھر کئی جمع ہوجاتی ہیں ایسی حرکتیں ہی کیوں کرتے ہیں جس کے تدارک کی ضرورت ہو اور میں ایسے امور کی سزا پہلے خود تجویز کردیا کرتا تھا اس پر مجھے بدنام کیا کہ سختی کرتا ہے اب میں نے تجویز کرنا چھوڑ دیا کہ دیتا ہوں کہ خود تجویز کرو اب یہ عقل مند میری تجویز سے زیادہ سخت سزا تجویز کرتے ہیں مگر چونکہ اپنی تجویز ہوتی ہے اس لئے اس کو سخت خیال نہیں کرتے پھر اس میں تخفیف کردیتا ہوں تو غنیمت سمجھتے ہیں –
4 ذیقعدہ 1350 ھ مجلس بوقت خاص صبح یوم یکشنبہ

You must be logged in to post a comment.