ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ میری یہاں جس قدر اصول اور قواعد مرتب ہوئے وہ بعد تجربوں کے ہوئے ہیں مثلا لوگ آتے ہیں اور استغنا ء وغیرہ ساتھ لاتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ فورا جواب لکھ دیا جائے میں اول تو یہ بات ہے کہ بعض مسئلہ ایسا ہوتا ہے کہ کتاب دیکھنے کی ضرورت پڑتی ہے اور دوسرے یہ کہ جلدی میں اندیشہ ہے کہ ذہول کے سبب جواب لکھا جائے – ایک دفعہ ایسا ہوچکا ہے ایک شخص فتوی لکھوانے آیا میں نے لکھ دیا اس میں غلطی ہوگئی یاد آنے پر اس قدر قلب پریشان اور مشوش ہوا کہ مسئلہ کہ بات ہے اب کیا ہو یہ بھی معلوم نہ تھا کہ وہ کہاں کا رہنے والا اور کس طرف کوگیا جب کچھ نہ بن پڑا دعا ء کی – تھوڑی دیر بعد دیکھتا ہوں کہ شخص فتوی ہاتھ میں لئے رہا ہے مجھ کو اس وقت بڑے مسرت ہوئی اور خدا کے فضل کا شکریہ ادا کیا اس شخص نے آکر کہا مولوی جی اس پر آپ نے مہر تو کی ہی نہیں میں نے کہا کہ بھائی مہر تو اب بھی نہ کروں گا مہر میرے پاس ہے ہی نہیں ہاںمسئلہ غلط لکھا گیا تھا اس کو صحیح کردوں گا غرض میں نے اس کو درست کردیا اور اس وقت سے قاعدہ مقرر کردیا کہ استفتاء اور اس کے ساتھ اپنا پتہ لکھ کر لفافہ جاؤ بذیعہ بیھج دیا جائے گا مسائل کا نازک معاملہ ہے اس کے بعد سے ایسا نہیں کرتا کہ فورا جواب لکھ کردے دوں – اس کے علاوہ اس میں ایک بات اور بھی ہے یہ وہ کہ جب تک کام لینے والا سر پر ہوتا ہے غور وفکر کا کام نہیں ہوتا ایک قسم کا تقاضا اور بوجھ ساقلب پر رہتا ہے کام لینے والے کے علاوہ چاہے جس قدر مجمع ہو اس قسم کا اثر نہیں ہوتا اس قسم کی باتیں وجدانی ہیں جو محض بیان سے دوسرے کی سمجھ میں نہیں آسکتیں کام کرنے والا ہی سمجھتا ہے ایک شاعر لندن میں تھا – مشہور تھا – اس کے اشعار مقبول بہت تھے ایک شخص نے شاعر سے کہا کہ اتنے ہزار روپیہ لے لو – اور اس سال کے اندر جتنے اشعار لکھو سب دے دو اس نے وعدہ لرلیا اسی وقت سے آمدہ بند ہوگی تب اس شاعر نے روپیہ لوٹا دیا اور کہا کہ میں ایسا وعدہ نہیں کرتا اسی وقت سے آمد شروع ہوگئی – اس کو تو کام کرنے والا ہی سمجھ سکتا ہے کہ کس چیز کا اثر ہوتا ہے دوسرے کو کیا خبر – ایک شخص یہاں پر بیٹھ گئے میں نے پوچھا کیسے بیٹھے ہو کہنے لگے کہ میں دیکھ رہا ہوں میں نے کہ اگر کوئی تم کو بیٹھ کر دیکھے تو کیا تم کو تکلیف نہ ہوگی کہا کہ مجھ کو تو کوئی تکلیف نہ ہوگی کہا کہ مجھ کو تو کوئی تکلیف نہ ہوگی میں نے کہا کہ میں تمہارے تکذیب نہیں کرتا تم کو نہ ہوتی ہوگی مگر مجھ کو ہوتی ہے یہاں سے جائے اس کو آپ نہیں سمجھتا ہوں خیر یہ تو ان کی بے حسی تھی مگر زیادہ تردد سری چیز ہے یعنی قلت اعتنا ء اور قلت اہتمام اس کی ہی نہیں کہ ہم سے دوسرے تکیف نہ ہو میں تو رات دن مشاہدہ کررہا ہوں مجھ کو تو سخت مزاج کہتے ہیں مگر اپنی نرم مزاجی کو ملا حظہ نہیں فرماتے – کہ بے فکری کے سبب ایذا ئیں دیتے ہیں غرض دنیا سے سلیقہ گم ہوگیا نہ عربی خوانوں میں رہا نہ انگریزی خوانوں میں رہا – باکل مفقود ہی ہوگیا اور کچہ نہیں صرف نے فکری کا غلبہ ہوگیا ہے یہ سبب اسی کے برکات ہیں اپنی طبیعت پر سوچنے کا بوجہ نہیں ڈالتے کہ دوسرا کو تکلیف نہ پہنچے –
اسلامیت جاتی رہے مگر حقیقت نہ جائے بعض نے کہا مردوں کی قوامیت ( حکومت )

You must be logged in to post a comment.