ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ میں ایک دوست کے مدعو کرنے پر حیدر آباد دکن گیا تھا وہاں تقریبا چور ہ روز قیام کیا ایک صاحب نے مجھ سے اپنے گھر میں کے لئے بیعت کرنے کی درخواست کی میں نے قبول کرلی چنانچہ انہوں نے ایک وقت مکان پر لے جانے کا متعین کیا اور اس وقت پر سواری کر آگے – میں مکان پر پہنچا اور مردانہ میں جاکر بیٹھ گیا پھر پردہ کر کرا گھر میں لے گئے اور ایک دالان میں میں بٹھلادیا اور وہاں ہی سب عورتیں برقع اوڑہے ہوئے بیٹھی تھیں مجھ کو یہ بھی ناگوار ہوا مگر چونکہ خیر ضروری پردہ تھا اس صبر کرکے بیٹھ گیا اب ان حضرات کوجوش اٹھا اور رسوم مروجہ کا غلبہ ہوا جن کو آج کل کے رسمی اور جاہل پیروں نے جائز کررکھا ہے وہ یہ کہ عورتوں سے کہا کہ منہ کھول دو میں نے سوچا کہ اگر اول ان سے بحث کی تو عورتوں بے پردہوچکیں گی اس لئے میں نے عورتوں سے کہا کہ کرگز منہ مت کھولنا اب وہ بیچاری بڑی کشمکش میں ادھر گھر کے مالک کا ایک حکم ادھر اس کے خلاف پیر کا کا حکم ـ کہنے لگے کہ وجہ اور کفین تو ستر نہیں میں کہا ضرورت میںیا بلا ضرورت بھی کہنے لگے کہ یہاں پر تو ضرورت ہے میں کہا کہ وہ ضرورت کیا ہے کہنے لگے کہ آگر آپ دیکھیں گے نہیں تو ان کی طرح توجہ کس طرح ہوگی – میں نے کہا توجہ دیکھنے پر موقوف ہے آخر عورتوں سے کہا اچھا بھائی یہ کیا کسی کی مانیں گے – اس کے بعد نے عورتوں کی طرف رومال بڑھ دیا کہ وہ پردہ میں سے اس کا گوشہ تھام لیں – اس پر ان صاحب کو پھر جوش اٹھا اور فرمانے لگے ہاتھ میں ہاتھ لے کر بیعت کیجئے – میں نے کہا کہ حدیث شریف میں تصریح موجود ہے پ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں کو ہاتھ میں ہاتھ میں لے کر بیعت نہ فرماتے تھے کہنے لگے اچھا صاحب یہی سہی – غرض اللہ کے فضل سے میں ہی غالب رہا اور یہ شخص ماشااللہ عالم صوفی مصنف سب کچھ تھے – مگر خدا ناس کرے ان رسوم کا ان میں وہ بھی مبتلا تھے – اورعام لوگ ان رسمی پیروں اور دکانداروں کی بدولت ان خرافات میں مبتلا ہیں جس سے اس طریق کی حقیقت تو بالکل ہی مستور ہوگئی اور ان بزرگ کا ان امور پر جو کچھ بھی اصرار تھا شرارت سے نہ تھا بلکہ انتھائی عقیدت اور خوش نیتی پر مبنی تھا جو حیدرہ آباد کے بڑے طبقہ کا جز ولا نیفک ہوگیا ہے چنانچہ ماموں امداد علی صاحب فرمایا کرتے تھے کہ حیدرہ آباد کے فقراء تو دوزخی اور امراء جنتی اور اس کی وجہ بیان کیا کرتے کہ فقراء تو امراء سے تلعق پیدا کرتے ہیں دنیا کے واسطے اور امراء فقراء سے تلعق پیداکرتے ہیں دین کے واسطے اور ظاہر ہے دین کا طالب جنتی اور دنیا کا طالب دوزخی – اس خوش اعتقادی کی یہاں تک نوبت پہنچ گئی ہے لہ ایک پیر صاحب کی حکایت ہے کہ ایک عورت کا مجمع میں بیھٹے ہوئے جس میں اس کا خاوند بھی موجود تھا پکڑ کر کھینچ لیا اور بوسہ لے لیا خاوند بے حیا کہتا ہے کہ اب تو تم متبرک ہوگیئں تم ہماری رسائی کہاں کیا ٹھکا نا ہے اس بے حیائی اور گمراہی کا –

You must be logged in to post a comment.