ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ اپنے دوستوں کو بھی مشورہ دیتا ہوں اور خود بھی اس پر عامل ہوں کہ حق تعالیٰ سے اپنی بہود اور فلاح کی دعا کریں اور یہ بڑا عمل ہے اور اس سے بڑا عمل یہ ہے کہ خدا کے راضی کرنے کی فکر میں لگ جائیں اگر مسلمان ایسا کریں تو چند روز میں انشا ء اللہ کا یاپلٹ ہوجائے حقیقی مالک ملک کے حق تعالیٰ ہی ہیں تو ملک جن کی ملک ہے انہیں سے مانگو اور اس کا صحیح طریق یہی ہے کہ ان کو راضی کرو – اور راضی کرنے کا طریقہ یہ کہ گزشتہ نافرمانیوں سے تائب ہوکر آئندہ کے لئے عزم اعمال صالحہ کا کرو دیکھو پھر کیا ہوتا ہے کیونکر تدابیر بھی وہی ذہنوں میں پیدا فرماتے ہیں اور پھر ان تدابیر کو مؤثر بھی وہی بناتے ہیں تو ان کو راضی رکھنے سے تد بیریں بھی صحیح اور مؤثر سمجھ میں آتی ہیں یہ بات یقین کے درجہ کی ہے کہ اگر مسلمان ایسا کریں تو ان کے تمام مصائب اور آلام ختم ہوجائیں یہ مصائب کا سامنا خدا کو ناراض کرنے ہی کی بدولت ہورہا ہے اور جو تدابیر اس وقت اختیار کر رکھی ہیں چونکہ ان اکا اکثر حصہ غیر مشروع ہے اس لئے بجائے کسی کامیابی کے اور الٹی ذلت اور نامی گلو گیر ہوجاتی ہے لوگ کہتے ہیں کہ ( انگریزوں کی ) شروع سلطنت کے زمانہ میں اس کا مشورہ ہواتھا کہ ہندوستان کو نکما بنان چاہئے اور اس کی تدبیر یہ نکلی کہ مذہبی حمیت کو برباد کردینا شاہئے بس میں اسی حمیت کو کہتا ہوں کہ اپنے اندر پیدا کرو لیجئے اثر ہوتا ہے اس وقت کثرت سے لوگوں کو مذہب سے بے گانہ کردیا گیا یہ نہایت باریک حربہ ہے بس اس کے مقابلہ میں کرنے کاکام یہ یے کہ مذہب کی اہمیت قلوب میں پیدا کیجائے مگر مشکل یہ ہے کہ جو کام کرنے کے ہیں ان کو تو مسلمان کرتے نہیں دوسرے جھگڑوں اور قصوں میں پڑ کر اپنا مال اور جان اپنا وقت برباد کررہے ہیں حقیقی تدابیر سے بھاگتے ہیں صاحبو اگر اعتقاد سے کرتے تو آزمانے ہی طریق پر کر کے دیکھ لو اسی کو فرماتے ہیں –
سالہا تو سہنگ بودی دل خراش آزموں رایک زمانے خاک باش
( برسوں تک تو سخت پتھر بنا رہا آزمائش کے لئے کچھ روز خاک ہوکر بھی دیکھ 12 )
ان رسموں تک تو سخت پتھر بنا رہا آزمائش کے لئے کچھ روز خاک میں سر رکھ کر بھی دیکھ لو حکمت یونانی کا نسخہ تو بہت زمانہ تک استعمال کرلیا اب حکمت ایمانی بھی استعمال کر کے دیکھ لو انشاءاللہ تعالٰی تمام امراض کا فور ہوجائیں گے اور میں تدابیر ظاہرہ کا مخالف نہیں ہوں بشرطیکہ غیر مشروع نہ شکایت تو اس کی ہے کہ تدبیر ظاہری کے اس قدر پیچھے کیوں پڑ گۓ کہ حقیقت سے بھی دور جا پڑے اس لیۓ ضرورت ہے کہ اب طت ایمانی نسخہ استعمال کرو فرماتے ہیں
چند خوانی حکمت یونانیاں حکمت ایمانیاں راہم بخواں
(یونانیوں کی حکمت کب تک پڑھو گے ایمان والوں کی حکمت بھی پڑھ لو)
خلاصہ یہ ہے کہ طبیب جسمانی کی تدبیر پر تو عمل کر چکے اور اس کا نتیجہ بھی دیکھ چکے اب طبیب روحانی یعنی جناب رسول مقبول صل اللہ علیہ وسلم کے فرماۓ ہوۓ نسخوں پر عمل کر کے دیکھو کینکہ یہ مرض ان اطمینان ظاہری کی سمجھ سے باہر ہے تو ان کی تدبیر کیسے کافی ہو گی اسی کی نظیر میں مولانا فرماتے ہیں ـ
گفت ہر دارو کہ ایشاں کر دہ اند آن عمارت نیست ویران کردہ اند
بے خبر بود نداز حال دروں استعیز اللہ مما یفترون
( مرد غیبی نے کہ جو دوا ان لوگوں نے کی ہے وہ مرض کو بڑھانے والی تھی ـتندرست کرنے والی نہ تھی ـ وہ لوگ اندرونی حالت سے بے خبر تھے جو دوائیں وہ گھڑ رہے تھے ان سے اللہ کی پناہ ماگتاہوں – 12 )
دیکھۓ صحابہ کرام کی جمعیت کچھ ایسی زائد نہ تھی مادی اسباب پاس نہ تھے مگر طبیب روحانی کے نسخوں پر ان کا عمل تھا دیکھ لو کیا سے کیا کر کے دیکھا گۓ یرموک میں جب اول روز لشکر اسلام کے مقابلہ میں حبلہ بن ایہم غسانی ساٹھ ہزار لشکر لے کر آیا ہے تو حضرت خالد بن علید رضی اللہ عنہ اس کے مقابلہ اول تیس آدمی پھا دوسروں کے کہنے سننے ساٹھ آدمی منتخب کر کے میدان میں لے گۓ حبلہ یہ سمجھا کہ خالد بن ولید صلح کیلۓ آۓ ہیں وہ دیکھ کر ہنسا حضرت خالد بن ولید نے گنگ کا اعلان کر دیا شام تک تلوار چلی کفار کی ساٹھ ہزار کی جمعیت کو ہزمیت ہوئ اور میدان چھوڑ کر بھاگ گۓ صحابہ میں پانچ یا چھے تو شہید ہوۓ اور پانچ گرفتار ہوۓ جب لاشیں بھی نہیں ملیں جب گرفتاری کا گمان ہوا تو چھے لاکھ کے لشکر میں جو باہان ارمنی کے زیرے کمان تھا ان کے چھوڑانے کیلۓ سو سپاہیوں کے ساتھ تشریف لے گۓ اور باہان کی اطلاع واجازت کے بعد جب آگۓ بڑھے تو تخت کے قریب دیبا و حریر کا فرش تھا حضرت خالد بن ولید ساتھیوں سے فرمایا کہ اس کو اولٹ دو باہان ارمنی کے کہا کہ میں نے تو آپ کی عزت کی اور حریر کا فرش بچھانے کا حکم دیا آپ نے اس کی کچھ قدر نہ کی آپ نے فرمایا کہ
ولارض فرشنھا فنعم الماھدون “”
خدا کا فرش تیرے فرش سے اچھا ہے باہان ارمی نے کہا کہ ہم اور تم بھائ بھائ ہو جائیں حضرت خالد بن ولید نے فرمایا کہ اسلام قبول کر لے ہم اور تو بھائ بھائ ہو جائیں گے اور اگر اسلام قبول نہ کرے گا تو وہ دن مجھے قریب نظر آتا ہے تیری گردن میں رسی ہو گی اور لوگ کھینچ کر تجھ کو امیرالمئومنین کے سامنے کھڑا کریں گے یہ سن کر باہان ارمنی آگ ہو گیا اور حکم دیا کہ ان کو پکڑو حضرت خالد بن ولید نے تلوار کھینچ کر ساتھیوں کی طرف دیکھ کر فرمایا کہ تم بھی تیار ہو جاؤ اور اس کی جرار کرار فوج کی طرف نظر نہ کرو اور اس وقت آپس میں ایک دوسرے کو نہ دیکھو اب انشااللہ آب کوثر پر ملاقات ہو گی بس باہان ڈھیلا ہو گیا اور کہنے لگا میں تو ہنستا تھا تو یہ کیا چیز تھی وہی حمیت مذہبی تھی بس اعداء دین تدبیر سے اس کو مٹانا چاہتے ہیں اس کا اثر یہ ہوا اب خد لوگ اپنا مذہب چھوڑ دینے پر آمادہ ہیں مگر پھر اعداء اعداء ( دشمن دشمن ) میں فرق ہے ایک قوم ( انگریز ) کی دشمنی آئین کے ساتھ ہے اور دوسری قوم ( ہندو ) کی صریح ظلم کے ساتھ ـ اگر کہیں ان( ہندوؤں ) کا تسلط ہو جاۓ تو یہ تو زبردستی مسلمانوں کو مرتد بنائیں ـ اب باوجود حکمت نہ ہونے کے جہاں قدرت ہوتی ہے جبر کرتے ہیں جہاں جہاں ان کی اکثریت اور کچھ قوت ہے اور مسلمانوں کی آبادی کم ہے ان کو ارتداد پر مجبور کیا جاتا ہے ـ

You must be logged in to post a comment.