(ملفوظ ۸۸) ایک صاحب نے فرض کیا کہ فلاں قصبہ کے شریف خاندانوں کے لڑکے سرکاری سکولوں میں تعلیم پاتے ہیں اچھی خاصی عمر کے لڑکے ہیں مگر کلمہ تک نہیں پڑھ سکتے نماز روزہ تو بڑی چیز ہے فرمایا ایسی حالت سن کربے حد صدمہ ہوتا ہے آج کل اکثر امراء تعلیم انگریزی تو بچوں کو دیلاتے ہیں مگر تعلیم دین کی طرف قطعاََ توجہ نہیں کرتے یہ سمجھتے ہیں کہ علم دین پڑھ کر سوائے ملا بننے کے اور کیا نتیجہ فرمایا کہ الہ آباد میں ایک لڑکا دیکھا تھا عمر تقریباََ گیارہ بارہ سال کی ہوگی بی اے کی جماعت میں تعلیم پا رہا تھا مجھ سے بڑے فخر سے کہا گیا کہ یہ عمر ہے اور یہ تعلیم ۔ اتفاق سے میرے سامنے اس وقت قرآن مجید کا ایک اشتہار تھا اس میں نمونہ کے لئے ایک طرف الحمد شریف لکھی ہوئے تھی اور ایک طرف اشتتہار کا مضمون تھا میں نے اس لڑکے سے کہا کہ اس کو پڑھو اس نے دیکھ کر صاف انکار کیا کہ میں نہیں پڑھ سکتا میں نے کہا کہ ہجے ہی کر کے پڑھ لووہ یہ بھی نہ کر سکا میں نے کہا کہ اچھا الگ الگ حروف بتلادو اس نے کہا کہ میں یہ بھی نہیں بتلا سکتا اور بیچارہ کیا کرے جب ایک چیز اس کو سکھلائی ہی نہیں گئی تو دنیوی تعلیم کس دینی تعلیم کس درجہ کی فرمایا کہ میرے ایک ملنے والے تھے اسکندریہ میں جاکران کا انتقال ہوا انہوں نے اپنے بچے کو انگریزی زبان سکھانے کی غرض سے ایک انگریز عورت کے سپرد کر دیا تھا اور اس عورت کو تنخواہ دیتے تھے جب ان کے کوئی دوست ملنے اتے تھے وہ اس بچہ کو ان کے سامنے فخراََ پیش کرتے تھے دیکھنے کہ باوجود یہ کہ اس بچہ نے ایک میم کے آغوش میں پرورش پائی ہے مگر اس کو کلمہ بھی یاد ہے اور کلمہ سنوادیتے تھے غرض ان امراء کو دین سے اس قدر بعد (دوری) ہو گیا ہے کہ بلکل اس طرف التفات ہی نہیں پھر دوسروں پر اعتراض ہے کہ علم دین پڑھ کر بھیک مانگتے پھرتے ہیں میں پوچھتا ہوں کہ قصور کس کا ہے تمہارا یا ان بھیک مانگنے والوں کا جب علم دین بھیک مانگنے والے پڑھیں گے تو وہ بھیک ہی مانگیں گے سو یہ تو انتخاب کی غلطی ہے تم اپنے بچوں کو علم دین کیوں نہیں پڑھاتے ہو تاکہ وہ بھیک نہ مانگیں اور حوصلہ ہوں۔
(نوٹ) ہیاں تک وہ ملفوظات جو ۱۴ شوال ۱۳۵۰ھ سے شروع ہوئے ہیں اور درمیاں میں چھوٹ گئے تھے ختم ہوگئے۔مدیر

You must be logged in to post a comment.