(ملفوظ۱۱۳) ایک مولوی صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ خلاصہ اس تمام فن کا دو الفاظ میں ہے ایک یہ کہ افعال ضروری اور مقصود ہیں دوسرا یہ کے انفعلات غیر ضروری اور غیر مقصود ہیں یہ نہایت ہی کام کی بات ہے اور تمام فن اس میں حل ہوگیا مگر فلاں مولوی صاحب ندوی جنہوں نے طریق کی تحقیق کے لئے مجھ سے کچھ خط و کتابت کی تھی اس کو سُن کر خود طریق ہی سے گھبراگئے اور لکھا کہ تمام مکاتیب سے معلوم ہوا کہ یہ فن برا مشکل ہے حالانکہ یہ خلاصہ ہی بیَّن دلیل ہے اس کے سہل ہونے کی مگر پھر سہل کو مشکل سمجھنے کی وجہ یہ ہے کہ چاہتے یہ ہیں کہ کچھ کرنا نہ پڑے ان مکاتیب سے معلوم ہوا کہ اس میں کچھ کرنا پڑے گا بس گھبرا گئے۔
اس کی ایسی مثال ہے جیسے بچہ دودھ بھی نہ پئے جو نہایت سہل ہے اور یوں کہے کہ مجھ کو کچھ کرنا نہ پڑے بلکہ دوسرا ہی کسی طرح دودھ پلا دے حالانکہ جس کو ملا ہے کرنے ہی سے ملا ہے اور جہاں بدون کچھ کئے صورۃََ کچھ ہوگیا ہے وہاں بھی پہلے کچھ کر لیا ہے تب ہی کچھ ملا ہے گو بعض جگہ کرنے والے کو بھی حقیقت معلوم نہ ہوئی ہو جیسے ایک شخص نے عنت(نامردی) کی شرمندگی میں سنکھیا کھا لیا موادر مہلک تھی مگر مزاج اس قدر بارد تھا کہ اسکا متحمل ہوگیا اور عورت پر قادر ہوگیا مگر ایسا شاذونادر ہے.
بعض کو شبہ ہوجاتا ہے کہ اکثر اہل علم کو جلد نفع ہوتا ہے گویا بے کئے ہی مقصود حاصل ہوتا ہے اس سے آپ یہ سمجھتے ہوں گے کہ بدون مجاہدہ کے کام ہوگیا ،گر ایسا ہرگز نہیں وہ جو دس برس یا بیس برس تک کتاب کو سامنے رکھ کر آنکھیں سینکتے رہے ہیں اور تمام تمام شب اور تمام تمام دن رشتے رہے ہیں یہ کیا تھوڑا مجاہدہ ہے اسی مجاہدہ سے ان میں استعداد پیدا ہو گئی سو کام مجاہدہ ہی سے ہوا اول مجاہدہ ہوا پھر مقصود کی اہلیت و استعداد پیدا ہو گئی اور کسی کامل کی توجہ سے وہ مستقل اور راسخ ہو گئی باقی اگر نِری توجہ سے کوئی کیفیت پیدا ہو گئی تو وہ مستقل نہ ہو گی ایک عارضی کیفیت ہوگی جیسے جب تک لحاف میں رہے گرمی ہے باہر نکلے پھر وہی ٹھنڈے کے ٹھنڈے کیونکہ وہ گرمی عارضی بات تھی اور ایک گرمی انڈے کا حلوہ کھانے سے ہوتی تھی، سو یہ گرمی مستقل ہوگی.
سو نری توجہ کوئی چیز نہیں بلکہ اصل چیز تربیت ہے سو ان میں عمل کی تعلیم لازم ہے اور بدون تربیت اور مشاہدہ کے انسان قطب اور غوث تو ہوسکتا ہے مگر مقصود حاصل نہیں کرسکتا اور مجاہدہ بھی کو ئی معین مدت کا نہیں بلکہ شرط یہ ہے کہ آدمی ساری عمر اسی ادھیڑ بن میں لگا رہے اور یہ لگا رہنا ہی بڑی نعمت ہے اسی کو فرماتے ہیں
اندریں رہ می تراش ومی خراش
تادم آخر دمے فارغ مباش
اور عشاق کی تو مجاہدہ دائمی میں یہی شان ہوتی ہے کہ ان کی ساری عمر رونے پیٹنے میں کٹتی ہے آنکھ دل سے جس کا سرچشمہ وہی عشق و محبت ہے اسی کو کسی نے خوب کہا ہے۔
یارب چہ چشمہ الیت محبت کہ من ازاں
یک قطرہ آب خوردم و دریا گر یستم
(اللہ یہ محبت کیسا چشمہ ہے کہ میں نے ایک قطرہ اس کا پیا تھا اور آنکھوں سے رورو کر دریا بہادیئےہیں)
اور واقعی محبت ایسی عجیب چیز ہے کہ اس کا ایک قطرہ اخیر میں دریا سے بھی بڑھ جاتا ہے اس عاشق کو اگر قطبیت ملتی ہے تو کہتا ہے کہ حضرت معاف فرمایئے اس لئے کہ عاشق کو ان چیزوںسے کیا تعلق اس کی تو یہ شان ہے۔
ھنیاََ لارباب النعیم نعیمھم
وللعاشق المسکین مایتجرع
(راحت والوں کو ان کی راحت مبارک ہو۔ اور عاشق مسکین کے لئے وہ گھونٹ(غم کے) مبارک ہوں جو پی رہا ہے)
بعض اہل ظاہر نے
وَلَا تَلقُوا بِاَیدِیکُم اِلَی التَّھلُکَۃِ
سے استدلال کیا ہے ان مجاہدات اور ریاضات کی ممانعت پر کہ اس میں ہلاکت ہے کیونکہ ان کے نزدیک یہ مجاہدہ ہلاکت ہے اس لئے اس سے منع کرتے ہیں مگر حضرت حاجی صاحبؒ فرماتے تھے کہ اسی سے ترغیب مجاہدہ پر استدلال کرتے ہیں کیونکہ عشاق کے نزدیک ترک مجاہدہ ہلاکت ہے اس لئے وہ ترک سے منع کرتے ہیں عجیب لطیف جواب ہے غرض کام کرنا ضروری ٹھہرا مگر اخلاص کے ساتھ.
پھر اگر کوئی مالمت کرے یا ریاء وغیرہ کا شبہ کرے پرواہ بھی نہ کرنا چاہئے اس پر ایک لطیفہ یاد آیا ایک نقشبندی کی ایک چشتی سے گفتگو ہوئی نقشبندی نے کہا کہ ہم نے سنا ہے کہ تم ذکر جہر کرتے ہو چشتی نے کہا ہم نے سنا ہے تم ذکر خفی کرتے ہو مطلب نقشبندی کا اعتراض کرنا تھا کہ جہر میں ریاء اور اظہار ہے حتی کہ اس کی خبر ہم تک پہنچ گئی اور چشتی کے جواب کا حاصل یہ تھا کہ تمہارے خفی کی خبر بھی ہم تک پہنچ گئی سو یہ بھی ریاء ہےتو ہم اور تم دونوں اس میں برابر ہوگئے.
حضرت مولانا گنگوہیؒ نے ایک شخص کو ذکر جہر کی تعلیم فرمائی اس نے عرض کیا کہ حضرت اس سے ریاء ہوجائے گی ذکر خفی کر لیا کروں فرمایا کہ جی ہاں اس میں ریاء نہیں ہے کہ گردن جھکا کر بیٹھ گئے چاہے سو ہی رہے ہوں مگر دیکھنے والا سمجھے کہ نہ معلوم عرش و کرسی کی سیر کر رہے ہیں یا لوح و قلم کی تو صاحب اظہار کا نام ریاء نہیں ہے جب اظہار کا قصد ہو اس کا نام ریاء ہے اور اگر ریاء ایسی ہی سستی ہے تو اسلام اخفاء کیوں نہیں کرتے جو اصل جڑ ہے.
ایک نقشبندی درویش سے میری گفتگو ہوئی اور میری طالب علمی کا زمانہ تھا لڑکپن تھا انہوں نے کہا کہ ذکر جہر میں ریاءہے میں نے کہا کہ کیا اذان میں بھی ریاء ہے چپ رہ گئے حالانکہ یہ جواب محض ایک طالب علمانہ جواب تھا کیونکہ اس کا مقصود تو بدون جہر کے حاصل ہی نہیں ہوسکتا یعنی اعلان وقت نماز مگر لڑکپن کا زمانہ ایسا ہی ہوتا ہے.
ایک صاحب نے عرض کیا کہ حضرت اذان سے تو مقصود صرف وقت کا اعلان ہی ہے یا ذکر بھی ہے فرمایا کہ دونوں ہیں ذکر بھی اعلان بھی اور خیر یہ قیل و قال تو نکتے ہیں مگر جہر میں اصل مصلحت یہ ہے کہ خطرات نہ آویں اس لئے ہلکے ہلکے آواز سے ہوتا کہ مقصود بھی حاصل ہوجائے اور دوسروں کو بھی تکلیف نہ ہو قصدالسبیل میں اس کی ضروری بحث بہت اچھی ہے اس کو دیکھ لیا جائے۔

You must be logged in to post a comment.