(ملفوظ 7) رضاعی رشتہ بالکل حرام ہے

فرمایا کہ آج ایک رجسڑی آئی ہے اس میں ایک استفتاء آیا لکھا ہے کہ یہ
رضاعی رشتہ ہے اس کو ایک پیر نے جائز کردیا ہے خدا معلوم لوگ ایسے جاہلوں سے مسائل پوچھتے ہی کیوں ہیں باوجود اس کے آج کل علم کازمانہ ہے کثرت سے علماء ہیں مگر پھر بھی جاہلوں سے مسائل پوچھتے ہیں سمجھتے ہیں جب پیر ہوگئے تو سب کچھ ہوگے سر بھی ہوگے اور پیر بھی ہوگے فرمایا میں نے جواب لکھ دیا حرام بالکل باطل ہے اور یہ قول کہ مرضعہ کا دودھ ہندہ کی پیدائیش کے زمانہ کا نہ تھا اس لئے زید و ہندہ رضاعی بھائی بھن نہیں ہوئے بالکل ظلط بالکل باطل ہے ـزید کو چایہئے فورا ہندہ کو جدا کردے اور ان سب کو توبہ کرنی چایئے مع پیر صاحب سے ادب کے ساتھ کہنا چایئے کہ پیر ہی رہیں مولوی نہ بنیں اور فتوے نہ دیا کریں ان کمبختوںنے لوگوں کے دین کا ناس کردیا خود گمراہ ہوئے اور دوسروں کو گمراہ بناتے یہاں اس نواح میں تو بفضلہ تعالیٰ ان گمر ہیوں کا پتہ چلتا نہیں اپنے بزرگوں کا اثر ہے یہاں سےادھر ادھر جاکر دیکھے کیا خرافات برپا ہے ایک مرتبہ مبمئی میں وعظ کا اتفاق ہوا مجھ کو بڑا تردد ہوا کہ کیا بیان کروں اگر مسائل مسائل اختلافیہ بیان کرتا ہوں تو وحشت ہوگی متفق علیہ بیان کروں تو ان کو سب جا نتے ہیں یعنی نماز روزہ وغیرہ تو ضرورت کا بیان کونسا کیاجاوے پھر سوچکر میں نے آیت وضرب اللہ مثلا قریتۃ کانت امتہ مطمنۃ الخ
( اور اللہ تعالی ایک بستی والوں کی حالت عجیب بیان فرماتے ہیں کہ وا امن واطمینان میں تھے )
پڑ بکر اس کا بیان کیا کہ اللہ نے آپ کو بہت نعمتیں دی ہیں مگر آپ ان کا شکر ادا نہیں
کرتے یہ بیان کبھی ان کے بڑوں نے بھی نہ سنا ہوگا اس کو میں نے بھت اچھی طرح ثابت کیا میں نے بیان کرنے میں ایک شرط یہ بھی لگائی تھی کی عوام الناس کا وعظ میں اجتماع نہ ہو ہاں جو عمائد اور خوش فھم ہوں ان کو بلایا جاوے اس لئے کہ بڑے درجہ کے لوگ خواہ وہ دوسرے ہی مزہب کے ہوں عالی حوصلہ ہوتے ہیں اگر ان کے خلاف بھی بیان کیا جاوے وہ ناگواری کا اثر نہیں لیتے اور عوام الناس جاہل اکثر مفسد ہوتے ہیں خوص بمبئی کے عوام الناس تو نہایت ہی مفدس ہیں اہسئ جہگوں میں بیان کر کے دل خوش نہیں ہوتا اگر سامعین خالی الزہن ہوں نہ اعتقاد ہو نہ عناد ہو تو بھی مضائقہ نہیں مگر وہاں تو کثرت سے معاندین ہیںۤ ۤـ