(ملفوظ 114)سفر زیارتِ روضہ اقدس عشق و محبت کی رو سے فرض ہے

ایک سلسلۂ گفتگو میں فرمایا کہ بعضے غیر مقلدین بڑے ہی بے ادب ہوتے ہیں ان میں بیباکی بہت بڑھی ہوئی ہوتی ہے، بعضوں کو دیکھا بالکل روکھے روکھے ہر بات میں کہرا پن، چہروں سے معلوم ہوتا ہے کہ ذرا ملاحت نہیں تو یہ ظاہری رنگ ہے اور باطنی رنگ یہ کہ فہم میں عمق (گہرائی) نہیں۔

اس پر ایک حکایت یاد آئی کہ ہمارے حضرت حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے مکہ معظمہ میں ایک غیر مقلد عالم کی گفتگو ہوئی، حضرت نے ان سے پوچھ لیا کہ مدینہ منورہ جانے کا ارادہ ہے یا نہیں اس پر وہ نہایت خشکی سے کہنے لگے کہ مدینہ منورہ جانا کچھ فرض تو نہیں جس کا اہتمام کیا جائے۔ حضرت نے فرمایا کہ بےشک فتوے سے تو فرض نہیں مگر عشق و محبت کی رو سے تو فرض ہے۔ پھر حضرت نے فرمایا معلوم بھی ہے کہ بناء ابراہیمی تو قبلہ ہو، بناء داؤدی و سلیمانی قبلہ ہو اور حضور ﷺ کی بناء قبلہ نہ ہو، وہ ضرور قبلہ ہوتی مگر حضور ﷺ کی شانِ عبدیت کے غلبہ سے حکمت الٰہیہ نے اس کو منظور نہیں فرمایا ورنہ سب قبلے منسوخ ہو کر حضور ﷺ ہی کی بناء قبلہ ہوتی۔

اس پر کہنے لگے کہ خیر تو حضور ﷺ کی بناء یعنی مسجدِ نبوی کی زیارت کے قصد سے جانے کی فضیلت مسلّم ہےباقی قبر شریف کی زیارت کے قصد سے سفر نہ کرنا چاہئے۔ حضرت نے فرمایا کہ اس مسجد میں تو شرف حضور ﷺ ہی کے طفیل سے ہوا تو جس کی اصلی فضیلت ہو اس کا تو قصد جائز نہ ہو اور جس کی فضیلت فرعی ہو اس کا جائز ہو عجیب بات ہے۔ یہ مکالمہ طویل تھا میں نے مختصر نقل کیا ہے۔ اخیر میں وہ بالکل خاموش ہو گئے۔

زیارت قبر کے متعلق ایک واقعہ یاد آگیا۔ ایک شخص نے حضرت مولانا گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ سے سفر زیارت قبور کے متعلق سوال کیا تھا آپ نے کیسی عجیب سلامتی اور ادب کی بات فرمائی کہ اگر خود انسان احتیاط کرے یعنی خود نہ جائے مگر منع کرنے میں دوسروں پر تشدد تو نہ کرنا چاہئے. ہمارے حضرات کے اعتدال کا یہ طرز تھا افسوس پھر ان حضرات کو بدعتی بدنام کرتے ہیں کہ یہ حضور ﷺ کی تنقیص کرتے ہیں اور بزرگوں کے مخالف ہیں۔ استغفر اللہ، ایسا الزام محض جہل اور بددینی ہے جو بُری بلا ہے۔ غرض افراط اور تفریط سے دونوں طبقے خالی نہیں یعنی بدعتی اور غیر مقلدین۔

میں ایک مرتنہ قنوج گیا ہوا تھا ایک غیر مقلد نے میری دعوت کی میں نے قبول کرلی، بعض احباب نے منع کیا کہ خلافِ احتیاط ہے میں نے کہا کہ اگر ایسی کوئی بات ہوئی تو ہمارے دین کا کیا نقصان ہے اس کا دین تباہ ہوگا۔ مقصود میرے اس کہنے کا یہ ہے کہ ہم تو بلاوجہ بدگمانی کسی کی طرف نہیں کرتے اور یہ ہماری طرف بلادلیل بدگمانی اور بدزبانی دونوں کرتے ہیں، یہ کون سے دین اور عقل کی بات ہے۔