(ملفوظ 117) مدعیِ بیدار مغز کی مثال

ایک سلسلۂ گفتگو میں فرمایا کہ جیسے آجکل مدعی (دعویدار) بیدار مغزی کے ہیں اور ملانوں کو حقیر سمجھتے ہیں پہلے بھی ایسے گذر چکے ہیں۔ ایک بادشاہ کی حکایت ہے کہ اسکا وزیر سے اس مسئلہ میں اختلاف رہا کرتا تھا کہ ملانے عاقل ہوتے ہیں یا بے عقل۔ بادشاہ انکا معتقد تھا۔ ایک دن بادشاہ حوض پر بیٹھے ہوئے تھے کہ دیکھا کہ ایک طرف سے ایک خستہ حال شکستہ بال طالبعلم بغل میں کتابیں دبائے آرہے ہیں۔ بادشاہ نے امتحان کیلئے ان طالبعلم کو بلایا اور وزیر سے سوال کیا کہ میاں وزیر یہ بتلاؤ کہ اس حوض میں کتنے کٹورے پانی آسکتا ہے۔ عرض کیا حضور کٹورہ کو مانپ مانپ کر پانی حوض میں بھرا جائے تب شمار میں آسکتا ہے کہ کتنے کٹورے حوض میں آسکتا ہے۔ بادشاہ نے طالبعلم سے کہا کہ مولوی صاحب آپ یہ بتلاسکتے ہیں کہ اس حوض میں کتنے کٹورے پانی آسکتا ہے۔ ان طالبعلم نے فی الفور جواب دیا کہ یہ سوال ہی مہمل ہے، اول تعین چاہئے کہ کٹورا کتنا بڑا ہے، اگر وہ حوض کے برابر ہے تو ایک کٹورا پانی آئے گا اور نصف ہے تو دو کٹورے اسی طرح سے نسبت سے حساب لگالیجئے۔ تب بادشاہ نے وزیر سے کہا کہ دیکھا بیدار مغزی، ایک آپکا جواب بالکل ناکافی، طالبعلم نے ایک مختصر جواب میں سب جھگڑا ختم کردیا، بتلاؤ زیادہ عاقل کون ہے؟

ان مدعیوں کو یہ دھوکہ اسلئے ہوجاتا ہے کہ یہ تجربہ اور عقل کو ایک سمجھتے ہیں۔ تجربہ اور چیز ہے عقل اور چیز ہے۔ تو ان ملانوں کو چونکہ تجربہ کے کاموں سے سابقہ نہیں پڑتا اسلئے انکو تجربہ نہیں ہوتا اور ویسے کامل العقل ہوتے ہیں۔ ایک بڑی دلیل انکے عاقل ہونے کی یہ ہے کہ یہ بات عقل ہی کی تو ہے کہ انجام اور آخرت کی فکر ہے اور وہ عقل جسکو آجکل کے بیدار مغز عقل کہتے ہیں اس سے بیشک ان صاحبوں کو بُعد ہے مگر وہ واقع میں بُعد ہی کی قابل بھی ہے، مولانا اسی کو فرماتے ہیں۔

آزمودم عقل دور اندیش را – بعد ازیں دیوانہ سازم خویش را

(میں عقل دور از اندیش کو آزمانے کے بعد دیوانہ بنا ہوں)

ایسی عقل سے تو یہ دیوانگی ہی مبارک ہے اسلئے کہ جو اپنے محبوب کے راستہ میں سدِ راہ ہوا اس سے زیادہ مبغوض اور منحوس اور کیا چیز ہوگی۔ کسی عاشق سے پوچھو اسی کو نقل فرماتے ہیں۔

باز دیوانہ شدم من اے حبیب – باز سودائی شدم من اے طبیب

(میں عقل کا تجربہ کرنے کے بعد اے محبوب پھر تیرا دیوانہ بن گیا ہوں اور اے طبیب میں پھر اسی محبوب کا سودائی بن گیا ہوں۔)

اور فرماتے ہیں۔

اوست دیوانہ کہ دیوانہ نہ شد – مرعسس را دید در خانہ نہ شد

(میرے خیال میں جو محبوب کا دیوانہ نہیں بنا (حقیقت میں) وہی پاگل ہے اور اسکی مثال ایسی ہے کہ کوتوال کو آتے دیکھا اور پھر بھی اس سے بچنے کی کوشش نہیں کی)۔

تو ان مدعیوں کا مبلغِ پرواز محض تجربہ اور فیشن ہے یہ تجربہ کو اور کوٹ پتلون پہن لینے کو عقل سمجھتے ہیں تو یہ کوئی عقل کی بات نہیں البتہ اسکو اکل کہہ سکتے ہیں ایسے لوگ عاقل کہلائے جانے کے قابل نہیں البتہ آکل ہیں کہ ہر وقت پیٹ بھرنے کی فکر ہی کا غلبہ رہتا ہے، پھر اس پر دوسروں پر بے عقلی کا الزام۔

(ملفوظ 116) اعمال صالحہ سے عقل میں نور پیدا ہوتا ہے

ایک صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ آج کل کے نیچری اور لیڈر اکثر عقل سے کورے ہیں، جب عقل صحیح ہی نہیں پھر ایسی عقل میں احکامِ اسلام کیسے آویں۔ عقل ہو تو بقدر ضرورت آویں بھی اجمالاً باتفصیلاً، پھر نماز نہیں، زہد نہیں، تقوٰی نہیں، ان اعمال سے بھی عقل میں نور پیدا ہوتا ہے، اس پر احکامِ شرعیہ پر شبہ کہ ہماری عقل میں نہیں آتے۔ اس کی ایسی مثال ہے جیسے کوئی اندھا کہے کہ ہم کو تو یہ نظر نہیں آتا کہ یہ چیز سفید ہے یا سرخ، تو اس پر یہی کہا جائے گا کہ اگر نگاہ ہو تو نظر آئے، جب نگاہ ہی نہیں تو نظر کیسے آئے۔ اسی طرح یہاں بھی جواب دیا جائے گا کہ عقل ہو تو کچھ عقل میں آئے جیسے اگر مشکیزہ یا پیالہ ہو تو اس میں پانی آئے اور جب یہ ہی نہ ہوں تو پانی کس چیز میں آئے۔ قصور تو اپنا اور الزام اور اعتراض احکامِ اسلام پر۔

جیسے ایک حبشی سفر میں چلا جارہا تھا دیکھا کہ راستہ میں ایک آئینہ پڑا ہے اس کو اٹھا کر جو دیکھا تو اس میں ایک کالی بھیانک صورت، موٹے موٹے ہونٹ، بھدی اور بیٹھی ہوئی ناک، عجیب ایک بدصورت شکل نظر آئی اس نے آئینہ کو دور پھینک مارا اور کہا کہ ایسا بدصورت اور بد شکل نہ ہوتا تو تجھ کو یہاں کون پھینک جاتا۔ اب بتلائیے کہ کیا یہ آئینہ کا قصور تھا؟ اس میں کونسی ایسی چیز تھی کہ جس پر الزام اور اعتراض کیا۔ جناب ہی کی صورت تھی جس کے یہ اوصاف خود ہی بیان کئے۔ اسی طرح احکامِ شریعت تو آئینہ ہیں اور بالکل بے غبار اور صاف شفاف صیقل شدہ، ان میں کونسا نقص ہے سب نقص جناب ہی کے اندر ہیں ۔

دوسری مثال غلط بینی کی اور سنئے اکثر دیکھا ہوگا کہ جب اسٹیشن پر دو گاڑیوں کا میل ہوتا ہے تو ایک پہلے چھوڑی جاتی ہے تو بعض اوقات جو گاڑی کھڑی ہے اس کے مسافروں کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ چل رہی ہے اور چلنے والی گاڑی کھڑی ہے۔ تو چل تو رہا ہے اپنا دماغ اور دیوانے خود ہیں، عقل اپنے اندر نہیں، بد فہمی کُوٹ کُوٹ کر اپنے اندر بھری ہوئی ہے اور عیب ناک سمجھتے ہیں دوسروں کو۔

ایک تیسری مثال سنئے، مثلاً ایک شخص کہے کہ میاں تمام زمین آسمان گھوم رہے ہیں، تمام درخت اور سڑک اور مکانات حرکت میں ہیں۔ اس سے کہا جائے گا کہ بھائی تمہارا سر گھوم رہا ہے، چکر تمہارے دماغ میں ہے تمہارا دماغ خراب ہورہا ہے۔ اس پر وہ کہے کہ کیا غضب ہے کہ تم میرے مشاہدے کی تکذیب کرتے ہو؟ اس پر حقیقت شناس کہے گا کہ تیرے مشاہدہ کی تکذیب نہیں، مشاہدہ تیرا صحیح ہے مگر مشاہدہ کا آلہ ماؤف ہے۔ تو جناب حقیقت کے عدم انکشاف پر انسان کچھ سے کچھ سمجھنے لگتا ہے اور حقیقت سے دور جا پڑتا ہے۔

 تو یہی حالت آج کل کے عقلاء کی ہے۔ پھر اس پر دعوٰی ہے کہ ہم قوم کی کشتی کے ناخدا ہیں۔ ایسوں ہی کی بدولت مسلمانوں کو نقصان پہنچ رہا ہے ہر روز ایک نیا لباس بدل کر پلیٹ فارموں اور ممبروں پر آکھڑے ہوتے ہیں، ہر روز ایک نئی قسم کا لیکچر ہوتا ہے، ہر روز ایک نیا ترانہ اور نیا نغمہ سناتے ہیں جس میں ترقی کے لئے بہت زور لگا چکے ہیں اور لگا رہے ہیں اور لگادیں گے مگر مسلمانوں کا بجائے ترقی کے تنزل ہی کی طرف رخ جارہا ہے۔ میں کہتا ہوں کہ اگر مقصود ترقی ہے اور چاہتے ہو کہ قوم کی فلاح اور بہبود کا سامان ہو اور اسی کے لئے تم یہ سب کچھ کررہے ہو تو عقل کے دشمنوں جیسے تم یہ مُختَرَع (اختراع کردہ) تدابیر اختیار کر رہے ہو اور تجربہ سے غلط ثابت ہو رہی ہیں آخر خدا اور رسول کی بتلائی ہوئی تدابیر سے تم کو کیوں ضد اور نفرت ہے اور ان کو کیوں نہیں اختیار کرتے۔ چند روز کے لئے ان کو بھی تو باعتقادِ دین نہیں بلکہ تدابیر ہی کا درجہ سمجھ کر اختیار کرکے تو دیکھ لو یعنی اگر اس خیال سے اختیار کرنے کی ہمت نہ ہو کہ ان کا دین میں کیا درجہ ہے اور اس پر خدا اور رسول کی خوشنودی ہوگی تو محض بطور امتحان ہی کے کر کے دیکھ لو، اسی کو مولانا فرماتے ہیں۔

سالہا تو سنگ بودی دل خراش  –  آزموں را یک زمانے خاک باش

بہت دن بتوں کی پرستش کرتے ہوئے ہو گئے سوائے ذلت اور خواری کے کچھ پلے نہ پڑا اب ذرا خدا کو راضی کرکے اور انکے سامنے ناک ماتھا رگڑ کر دیکھ لو میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ چند روز میں کایا پلٹ ہو جائے گی اسی کی تعلیم ہے۔

چند خوانی حکمت یونانیاں  –   حکمت ایمانیاں راہم بخواں

اور وجہ اس کی یہ ہے کہ یہ بات تحقیق کو پہنچ چکی ہے کہ بدون مشروع تدابیر کے اختیار کئے ہوئے مسلمانوں کی فلاح اور بہبود مشکل بلکہ محال ہے اور یہ میرا دعوٰی بلا دلیل نہیں اور دلیل بھی ایسی کہ جس کا تم مشاہدہ کررہے ہو کہ اس وقت تک غیر مشروع تدابیر اختیار کرنے پر تم کو ناکامی ہی ناکامی رہی بھلا غیر مشروع تدابیر میں خیر و برکت کہاں؟ کیونکہ یہ سب اسباب تو اُنہیں کے قبضۂ قدرت میں ہیں بدون اُن کی مشیت کے نِری تدابیر و اسباب سے ہوتا کیا ہے؟ اسی کو مولانا فرماتے ہیں۔

خاک و باد و آپ و آتش بندہ اند  –   بامن و تو مردہ باحق زندہ اند

(خاک، ہوا، پانی، آگ سب خدا کے بندے ہیں۔ ہمارے تمہارے سامنے مردہ ہیں مگر حق تعالٰی کے سامنے زندہ ہیں۔)

اور اُنکی مشیّت اہل ایمان کیلئے عادتاً بدون رضا کے ہوتی نہیں پھر کامیابی کہاں؟ اگر تم  نے یہ طریقہ اختیار نہ کیا تو تمہاری ان تدابیرِ غیر مشروع پر یہ حالت ہوگی کہ بجائے کسی بہبود اور فلاح کے خسارہ ہی خسارہ ہوگا۔ پس ترقی کی تدابیر بھی اہل دین ہی سے حاصل کرو وہی تمہارے سچے خیر خواہ ہیں اور اگر ان سے حاصل نہیں کرتے تو سمجھ لو کہ ابھی تمہاری فلاح اور بہبود کے دن نہیں آئے اور تدبیر کے متعلق بالمشینہ ہونے کے ہزاروں واقعات ہیں کہ قاعدے سے تدبیر صحیح مگر اثر کا ترتب ندارد۔ مولانا نے مثنوی میں پہلی حکایت میں اسی کا بیان فرمایا ہے کہ ایک بادشاہ ایک کنیز پر عاشق تھا، وہ بیمار ہوئی بادشاہ نے اپنے قلمرو کے تمام طبیبوں کو جمع کرلیا اور یہ کہا اگر میری محبوبہ صحتیاب ہوگئی تو میری بھی زندگی ہے ورنہ میری بھی موت ہے اس پر تمام اطباء اور ڈاکٹروں نے بالاتفاق عرض کیا جسکو مولانا فرماتے ہیں۔

جملہ گفتندش کہ جانبازی کیتم   –  فہم گرد آریم انبازی کینم

ہر یکے ازما مسیحے عالمے ست  –  ہر الم را در کف ما مرہمے ست

(سب نے کہا کہ ہم باہم مشورہ کرکے اور خوب سوچ سمجھ کر کوشش کرتے ہیں۔ ہم میں کا ہر ایک مسیح العالم ہے ہر بیماری کی ہمارے ہاتھ دوا ہے.)

مولانا انکی مادہ پرستی کو بیان فرماتے ہیں۔

گر خدا خواہد نہ گفتند از بطر  –  پس خدا بنمود شاں عجز بشر

(ان طبیبوں نے ان شاء اللہ۔ بوجہ تکبر کے نہیں کہا۔ لہٰذا حق تعالٰی نے انکا عاجز ہونا دکھلادیا۔)

اور اس پر جو نتیجہ ہوا اس کو فرماتے ہیں۔

ہر چہ کردند از علاج و از دوا     –   رنج افزوں گشت و حاجت ناروا

شربت و ادویہ و اسباب او     –     از طبیباں برو یکسر آبرو

از قضا سرکنگبیں صفرا فزود   –   روغنِ بادام خشکی می نمود

(جس قدر علاج اور دوا کی، تکلیف بڑھتی رہی اور صحت نہ ہوئی۔ تمام دوائیں اور انکے اسباب سب ہی جمع کردئیے مگر طبیبوں کی آبرو بالکل جاتی رہی۔ حکمِ الہٰی سے سرکہ کی انگبیں صفراء کو بڑھاتی تھی اور روغنِ بادام سے خشکی بڑھتی تھی۔)

یعنی نفع کچھ نہ ہوا اور مرض میں ترقی ہرتی رہی اس کے بعد بیان فرمایا ہے کہ کوئی بزرگ بابرکت تشریف لائے اور انہوں نے الہامی تدبیر کی اور کامیابی ہوگئی۔ غرض تدابیر کی تاثیر موقوف ہے مَشِیَّت پر اور مَشِیَّت مسلمان کے لئے موقوف ہے رضاء پر، اس لئے کہتا ہوں کہ بدون حق جل شانہ کو راضی کئے ہوئے اور مشروع تدابیر کو اختیار کئے ہوئے مسلمانوں کو فلاح اور بہبود میسر ہونا محال یے۔ اسکا صرف ایک ہی علاج ہے جو میں تم کو بتلاچکا ہوں کہ اللہ اور رسول کو راضی کرنے کی فکر اور مشروع تدابیر کو اختیار کرو۔ اپنے دوست دشمن کو پہچانو، سلیقہ اور طریقہ سے کام کرو اور جو کام بھی کرو متحد ہر کر کرو ہر مسلمان دوسرے مسلمان سے اپنے کو چھوٹا سمجھے اور یہ چھوٹا سمجھنا ہی صورت اتفاق کی ہے۔

اور آج کل کی یہ ساری خرابیاں بڑے بننے کی ہیں اور یہ سب ضروری تفصیل ہے تدابیر مشروعہ کی ان کو اختیار کرو پھر ان شاء اللہ تعالٰی فتح اور نصرت تمہاری لونڈی غلام بن کر تمہارے ساتھ ہوگی۔ کیا تم نے اپنے سلف کے کارنامے نہیں سنے کہ مادیات کا ان کے پاس نام و نشان نہ تھا ہر طرح کی بے سرو سامانی تھی مگر بڑے بڑے قیصر و کسری اور بڑی بڑی جماعتیں منظم غیر مسلم اقوام کی ان سے لرزاں اور ترساں تھیں۔ آخر کیا چیز ان کے پاس تھی؟ وہ صرف ایک ہی چیز تھی جس کا نام تعلق مع اللہ ہے۔ ان کا اللہ تعالٰی کے ساتھ صحیح تعلق تھا بس سب اس کی برکت تھی۔ ہمارے اندر اسی کی کمی ہے اس لئے ذلیل اور خوار ہیں۔ حق تعالٰی فہم سلیم عطاء فرمائیں کہ صحیح طریق پر چلیں اور دارین کی فلاح پر فائز ہوں۔

(ملفوظ 101)بعض بزرگ بھولے ہوتے ہیں

(ملفوظ ۱۰۱) ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ بعض بزرگ بولے ہوتے ہیں مگر انبیاء علیہم السلام میں سے کوئی نبی بھولے نہیں ہوئے سب کے سب کامل العقل ہوتے ہیں اگر وہ حضرات بھولے ہوتے تو بڑے بڑے کفار ان کے سامنے پانی نہ بھرتے۔