(ملفوظ ۸۵) ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ پورب کے بعض اضلاع میں علماء لےلئے بہت کچھ لوگ تکلفات کرتے تھے وہاں کے بعض علماء نے لوگوں کو اس قسم کی عادتیں ڈال رکھی تھیں ادھر ایک مولوی صاحب تھے جو اچھی خاصی حکومت کرتے تھے ان ہی مولوی صاحب کا واقعہ ہے کہ ایک مقام پر گئے کسی نے حاکم کے یہاں درخواست دیدی کہ فلاں مولوی صاحب آئے ہیں ان کے وعظ سے اندیشہ بلوہ کا ہے حاکم نے کوتوال کو حکم دیا کہ تم جاکر مولوی صاحب سے آنے کی وجہ معلوم کرو اور اس کا انتظام کرو کہ کوئی فساد نہ ہو کوتوال مولوی صاحب کے پاس آیا مولوی صاحب نے صورت دیکھتے ہی خدام کو حکم دیا کہ اس کی داڑھی جو چڑھی ہوئی ہے اس کو اتار دو اور گٹوں سے نیچا پاجامہ ہے اس کو کاٹ ڈالو فوراََ کوتوال صاحب کی داڑھی اتاردی گئی اور پاجامہ کے پائینچے کاٹ دیئے گئے اور اس کے بعد مولوی صاحب نے فرمایا کہ جاؤ ہم تم کو کوئی جواب دینا نہیں چاہتے جب بلوہ ہوگا اس وقت گرفتار کرنے کے لئے آنا وہ بےچارہ جان بچا کر بھاگا مگر ہمارے بزرگوں کا یہ طرز نہ تھا غرض وہاں کا یہ رنگ تھا اور ایسے حضرات کے لئے خوب تکلفات ہوتے تھے پھر جب سے میں ان اطراف میں جانے لگا یہ تکلفات بہت کم ہوگئے پہلے یہ حالت تھی کہ کوئی عالم پہنچ گیا تو اس کے ساتھ پچاس پچاس آدمیوں کی دعوتیں ہوتی تھی میں نے اس رسم کو اس ترکیب سے مٹایا کہ میں کہ دیتا تھا میں تنہا کھاؤں گا کسی کے ساتھ نہ کھاؤں گا اس حالت میں دوسروں کی مستقل دعوت کون کرتا ۔ غریب لوگ اس پر بہت خوش ہوئے اس لئے کہ وہ بےچارے پچاس آدمیوں کی دعوت کی ہمت نہ رکھتے تھے مگر رسم سے مجبور تھے نتیجہ یہ ہوتا کہ وہ دعوت کرکے اظہار محبت سے محروم رہتے اور ایک یہ رسم تھی کہ واعظ صاحب کے چلنے کے وقت ایک شخص آگے آگے چلتا تھا راستہ صاف کرتا ہوا۔ ہٹو بچو۔ میرے ساتھ بھی اول یہی برتاؤ ہوا ہم غریب لوگ نہ ایسی باتیں خود پسند کریں اور نہ اپنے بزرگوں کو ایسا کرتے دیکھا میں نے اس کا انسداد اس طرح کیا کہ اول ان سے کہا کہ یہ کیا بے ادبی ہے آگے آگے مجھ سے چلتے ہو کہنے لگے کہ راہگیروں کے ہجوم سے آپ کو تکلیف ہوگی میں نے کہا کہ کیا راستہ آپ کی یا میری ملک ہے اگر وہ نہ بچیں گے ہم بچ جائیں گے یہ رسم ختم ہوئی ایک رسم یہ تھی کہ وہاں پر اکثر راستہ پالکی میں چلنا ہوتا تھا میں پالکی میں بیٹھا جا رہا تھا کہ چند لوگ کچھ داہنے اور کچھ بائیں پالکی کے ساتھ دوڑ رہے ہیں میں نے پوچھا یہ کیا حرکت ہے کہا کہ آپ کے ساتھ رہنے کی وجہ سے دوڑ رہے ہیں شاید راستہ میں کوئی ضرورت ہو۔ میں نے کہا کہ تو اس کی کیا ضرورت ہے کہ برابر ہی دوڑو کیا پیچھے رہکر نہیں دوڑ سکتے اس کہنے سے وہ سب پیچھے ہوگئے تھوڑی دیر میں جو دیکھتا ہوں تو دوڑنے والوں میں سے ایک بھی نہ تھا وہ تو سب میرے دکھلانے کے واسطے دوڑ رہے تھے کہ ہم بھی ایسے جانثارہیں یہ رسم بھی ختم ہوئی ایک مقام ہے ضلع اعظم گڑھ میں ندواسرائے ۔ میں وہاں بلایا گیا تھا وہاں کے زمیندار نے رخصت کے وقت رومال میں بندھے ہوئے غالباََ دو سو روپیہ بطور نذرانہ پیش کئے میں نے دریافت کیا کہ کیا یہ آپ کی طرف سے ہے کہنے لگے کہ سب گاؤں کی طرف سے ہے یہاں پر دستور ہے کہ جب کوئی عالم آتا ہے تو رخصت کے وقت گاؤں کی طرف سے نذرانہ دیا جاتا ہے میں نے دریافت کیا کہ وہ خود دیتے ہیں یا مانگنے پر دیتے ہیں کہا کہ ان سے جمع کیا جاتا ہے میں نے کہا میں اس کو جائز نہیں سمجھتا یہ رقم جن جن کی ہے سب کو واپس کردی جائے اور کہہ دیا جائے جس کو دینا ہو یہاں سے ایک میل کے فاصلے پر فلاں مقام ہے آج وہاں ٹھروں گا وہاں آکر دیں اس لئے کہ لینے والے کو تو معلوم ہوکہ فلاں شخص نے یہ چیز دی اگر قبول کرلی جائے تو اس کو بھی خوشی ہو چنانچہ سب رقم واپس کردی گئی مگر اس کے بعد ایک بھی تو نہیں آیا یہ رسم بھی ختم ہوئی۔ بات یہ ہے کہ جن بزرگوں کی آنکھیں دیکھی ہیں یہ سب ان کی برکت ہے ان حضرات کو اس ہی طرز پر دیکھا وہی باتیں پسند ہیں میرا اس میں کوئی کمال نہیں انہیں حضرات کی صحبت کی برکت ہے اور اسی کا یہ اثر ہے ۔
گلے خوشبوئے درحمام روزے رسیداز دست محبوبے بدستم
بدو گفتم کہ مشکی یا عبیری کہ از بوئے دل آویز تو مستم
بگفتا من گل ناچیز بودم ولیکن مدتے باگل نشستم
جمال ہمنشیں در من اثر کرد وگرنہ من ہماں خاکم کہ ہستم
( ایک روز ایک خوشبودار مٹی ایک حمام میں ایک محبوب کے ہاتھ سے مجھ کو ملی ۔ میں نے اس مٹی سے کہا کہ تو مشک ہے یا عنبر ہے کہ تیری دل بسانے والی خوشبو سے میں مست ہوگیا ۔ مٹی نے کہا میں تو ناچیز مٹی ہی تھی مگر ایک عرصہ تک پھولوں میں رہی ہوں ۔ لہذا ہمنشیں خوشبو نے مجھ میں اثر کردیا ہے۔ ورنہ میں تو وہی خاک ہوں جو پہلے تھی)
اس مقام پر ایک اور بات بھی سمجھنے کی ہے وہ یہ کہ میں نے کہا ہے کہ سب بزرگوں کی برکت ہے کہ چھوٹوں کو تو یہی سمجھنا چاہئے مگر بزرگوں کو یہ ناز نہ ہونا چاہئے کہ یہ ہماری ہی سب برکتیں ہیں ان کو سمجھ لینا چاہئے کہ کبھی چھوٹوں کی بھی برکت ہوتی ہے ایک مرتبہ مجھ کو مہمان ہونے کی حالت میں ایک صاحب کے جاہ ومال کے پاس شب کو سونے کا اتفاق ہوا اسی روز جماعت تو بڑی چیز ہے نماز فجر میں احتمال ہوا کہ ادا بھی ہوئی یا کہ قضاء ہوگئی اس روز چھوٹوں کی برکت محسوس ہوئی کہ جن کو ہم اپنا چھوٹا سمجھتے ہیں ان ہی میں ملے جلے رہنے کی برکت ہے کہ نماز بھی وقت پر میسر ہوجاتی ہے مجھے تو چھوٹوں کی برکت آنکھوں سے نظر آتی ہے تو وہ ضابطہ سے چھوٹے ہیں ممکن ہے کہ خداتعالی کے نزدیک بڑے ہوں۔

You must be logged in to post a comment.