ایک سلسہ گفتگو میں فرمایا کہ میری عادت مدعیان علم وفہم کے ساتھ معاملات کی گفتگو میں تسامح و رعایت کی نہیں اس سے ان کو دھوکا ہوتا ہے کہ یہ دبتا ہے اور اس خیال سے ان کا جہل بڑھتا ہے میں جب تک ضرورت نہ ہونے تک درگزر کرتا ہوں ِ،کرتا ہوں مگر جس وقت گفتگو کیلۓ متوجہ ہوتا ہوں اس وقت اللہ تعلی مدد فرماتے ہیں فلاں مدرسہ کا مجلس شوری کے ارکان آۓ ہوۓ ہیں ان لوگوں نے اس کے قبل ایک دل آزار خط لکھا تھا اس کے متعق ان سے گفتگو ہوئ انہوں نے چاہا تھا کہ مدرسہ کی دوسری جزئیات میں گفتگو کریں میں نے منع کر دیا اور صاف کہہ دیا کہ میں اس بیہودہ تحریر سے منقبض ہوں اور رہوں گا ـ اول اس کو صاف کیجیۓ اور میں نے ان کو اجازت دی کہ اس میں گفتگو کر لی جاۓ اس پر جواب دیا گیا کہ جن صاحب کی طرف سے وہ تحریر آئ ہے ان کا طرز تحریر ہی ایسا ہے باقی دل میں کوئ بات نہیں میں نے کہا کہ میں اس کی تکذیب نہیں کرتا مگر باوجود اس علم کے کہ ایک شخص کی تحریر کا یہ طرز ہے اس سے کیوں لکھوایا میں نے یہ بھی لکھ دیا کہ یہ معاملہ کی گفتگو ہے میں صافصاف کہوں گا اور اس وقت میرا کلام آزد نہ ہو گا کہنے لگے پھر اب اس کا کیا تدارک ہو میں نے کہا کہ میرا ہی معاملہ اور مجھ سے ہی تدارک کی تدبیر پوچھی جاۓ ہاں اگر کسی اور کا معاملہ ہوتا تو مجھ سے اس سوال کا مضائقہ نہ ہوتا میری غیرت کا اقتضا نہیں کہ میں اپنے متعلق تدارک کی تدبیر بتلاؤں اس پر ان ہی میں سے ایک صاحب نے سب کو مخاطب کر کے کہا کہ آپ لوگوں کو خود تدارک تجویز کرنا چاہیۓ میں نے کہا کہ میں اتنی ہی رعایت کر سکتا ہوں کہ جو تدارک آپ لوگ تجویز کریں گے اس کے کافی ہونے نہ ہونے کو میں ظاہر کر دوں گا اواصولا تو صورت یہ ہونا چاہیۓ کہ آپ تدارک بھی تجویز کریں اور اس کا اعلان بھی کریں اس وقت میں اپن راۓ کا اظہار کروں کہ یہ کافی ہوا یا نہیں اور کافی نہ ہونے کی صورت میں کہوں کہ اور کوئ تدارک کیجیۓ ـ مگر میں اعلان سے قبل ہی محض آپ کی تجویز کے بعد ہی کافی ہونے نہ ہونے کو ظاہر کردوں گا اور یہ میرا تبرع اور احسان ہو گا اس کے بعد ایک صاحب کے ذہن میں وہی بات آئ جو میں تجویز کرتا یعنی یہ کہ اس تحریر کا رد لکھا جاۓ بس یہ تدارک کی کافی صورت ہے اور اس سے پہلے دو صورتیں بیان کی تھیں مجھ کو یاد نہیں اخیر صورت یہ تجویز ہوئ یعنی کہ اس غلطی کو چھپوا کر شائع کر دیں اس کی نسبت مجھ سے میں نے کہا بالکل کافی ہے پھر اس پر سوال ہوا کہ رسالہ”” النور اور الہادی “” میں شائع کر دیا جاۓ میں نے کہا وہ رسالے تو میرے کہلاتے ہیں کہا کہ اخباروں میں شائع کر دیا جاۓ میں نے کہا مجھ کو یہ بھی گوارا نہیں ـ اس لیۓ کہ اخباروں کا زیادہ حصہ نا اہلوں اور بد دینوں کے ہاتھ میں جاتا ہے میں اس کو گوارا نہیں کر سکتا کہ آپ دینداروں کی بد دینوں میں سبکی ہو ـ ہاں ایک اور صورت ہے وہ یہ کہ مستقل چھپوا کر شائع کیجۓ تقسیم کیجیۓ یہ بات تو ختم ہو گئ پھر میں نے یہ بھی کہہ دیا مجھ کو اس کے تدارک کے اعلان کا انتظار نہ ہو گا اگر جی چاہے اور یہاں سے جا کر دوسرے حضرات کے مشورہ کے بعد بھی یہی راۓ رہے جو اس وقت طے ہوئ اور اس میں مدرسہ کی اور اپنی مصلحت بھی ہو تو شائع کیجۓ ورنہ جانے دیجۓ مگر مجھ کو بھی اپنے حال پر رہنے کی اجازت دینا پڑے گی اور یہ جو اس وقت میں کچھ کہا ہے محض آپ کے آنے کی وجہ سے اور آپ کی خواہش پر ورنہ اس میں بھی میری کوئ غرض نہیں اس کے بعد مدسہ کی سرپرستی کا مسئلہ پیش ہوا ایک صاحب نے کہا میری ذاتی راۓ ہے کہ کلی اختیارات سرپرست کو ہونے چاہئیں وہ جو مصلحت اور مناسبت سمجھے احکام صادر کرے اس پر ایک صاحب نے کہا اس کے معنی تو یہ ہیں کہ شوری بالکل حذف کر دیا جاۓ میں نے کہا یہ معنی نہیں جو آپ سمجھے بلکہ مصلحت یہی ہے کہ شوری ہوا ـ خلفا ء راشدین کا بھی یہی معلوم رہا کہ شوری ہوتا تھا خد جناب رسول مقبول صل اللہ علیہ وسلم صحابہ سے مشورہ فرمایا کرتے تھے باقی یہ کہ جب کل اختیارات ایک ہی کو ہوں گے پھر وہ کون سی مصلحت ہے جو شوری میں ہے وہ مصلحت یہ ہے کہ مختیار مطلق کی نظر کو محیط بنا دیں اسلۓ کہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ہر وقت ہر چیز ایک شخص کی نظر محیط نہیں ہوتی اس لۓ اس کی ضرورت ہے کہ سب اپنی اپنی رائے پیش کردیا کریں تاکہ اس محتیار مطلق کی نظر میں سب پہلو آجاویں پھر اس کے بعد یہ حق کسی کو نہ ہوگا کہ وہ سر پرست سے اس کا سوال کریں کہ آپ نے تجویز کی ہے میں کیا مصلحت اور کیا حکمت ہے اگر ایسا ہوا کہ وہ انہیں سمجھائیں یہ انہیں سمجھائیں تو یہ ایک مناظرہ کی صورت ہوگی اور ایسے معلامات جو ذوق اور وجدان کے ماتحت ہوتے ہیں مناظرہ اور مکالمہ سے طے نہیں ہوا کرتے ایک صاحب نے کہا کہ اگر بالکیہ احتیار سر پرست کودے دیئے جائیں تو ممکن ہے کہ کوئی اہل غرض آکر سر پرست کی رائے کو بدل دے – میں نے کہا کہ یہ تو اہل شوری میں بھی احتمال ہے کہ کوئی غرض آکر ان کی رایوں کو بدل دے اور ایسے کو سر پر ست بنایا ہی کیو جاوے جس سے اس قسم اندیشہ ہو اور شبہ ہو بلکہ ایسے کو سرپرست بنایئے جہاں اور جہاں یہ شبہ نہ اور اس پر اعتماد ہو اور وہ متدین ہو بس اس کو ایسے اختیارات دیئے جائیں اور جس میں یہ باتیں نہ تو جو قواعد سابقہ سرپرست کے متعلق ہوں ان کو حذف کر کےس دوسرے قوعد تجویز کر لئے اس سے سب شقوق کا فیصلہ ہوگیا اب یہ کام آپ صاحبوں کا ہے جس کو سرپرست بنایا جائے دیکھ لیا جاوے اور یہ میں آپکو اطمینان دلائے دیتا ہوں کہ مجھ کو شوق نہ سر پرستی کا اور نہ احتیارات کا جو کچھ ہے مدرسہ ہی کی مصلحت کے واسطے ہے ورنہ بات تو میری یہ ہے کہ میں بکھیڑوں سے گھبراتا ہوں خصوصی ذمہ داری کے کاموں سے بس طبیعت آزادی اور یکسوئی کو چاہتی ہے – میری اس تقریر کے بعد اس ہی مجلس میں میری سر پرستی کے متعلق گفتگو شروع کردی میں نے کہا کہ اپنے مستقر پر جاکر اس کو طے کیجئے اور اگر یہاں ہی طے کرنا ہے تو مجھ کو اجازت دی جائے میں اس جگہ سے علیحدی ہوجاؤں میں اس مجلس میں شرکت نہ کروں گا جس میں میرے متعلق گفتگو ہو اور بہتر وہ پہلی شق ہے کہ وہاں ہی جاکر کو طے کریں تاکہ سب کی رائے اطمینان سے پیش ہو کر معاملہ ھوجائے ایسے کاموں میں جوش اور عجلت سے کام نہ لینا چاہئے قرائن سے معلوم ہوتا تھا کہ بات سب کی سمجھ میں آگئی میں نے یہ بھی کہا کہ میں نہ متعارف متواضع ہوں کہ خواہ مخواہ تکیف کی راہ سے اپنی نااہلیت ک ادعوی یا اقرار کروں اور نہ بحمد اللہ متکبر ہوں کہ خواہ مخواہ دعوی اہلیت کا کرکے بڑائی کی خواہش کروں میں دل سے راضی ہوں کہ جس کو مدرسہ کے لئے مصلحت سمجھا جائے سر پرست بنایئں مقصود کام کا ہونا ہے کام ہونا چاہئے کام کرنے والا کوئی بھی ہو – ہاں اس کو ضرور جی چاہتا ہے کہ مدرسہ میں سے جاتی رہی تو ہونا نہ ہونا برابر ہے اور میں اس کا بھی اطمینان دلاتا ہوں کہ میں اختلاف رائے سے دلگیر نہ ہوں گا اب اس کی دعا کرتا ہوں کہ مدرسہ کے واسطے جو بہتر ہو اس پر سب کا اتفاق ہوجائے بس مجلس گفتگو ختم ہوگئی –
5 ذیقعدہ 1350 ھ مجلس بعد نماز ظہر یوم دو شنبہ

You must be logged in to post a comment.