ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ جب تک طالب خود نہ چاہے امراض کا اعلاج نہیں ہو سکتا اور نہ اخلاق کی اصلاح ہو سکتی ہے دہکھۓ خود جناب رسول مقبول صل اللہ علیہ وسلم نے چاہا کہ ابو طالب ایمان لائیں مگر چونکہ ابو طالب نے خود نہیں چاہا کچھ بھی نہ ہوا اب کسی ہادی اور مصلح کو دعوی ہو سکتا ہے کہ اس کے چاہنے سے اصلاح ہو جاتی ہے نیز ارادا کے اعلاوہ درستی اخلاق کیلۓ طلب صادق اور خلوص کی بھی ضرورت ہے ورنہ قدم قدم پر پریشانی کا سامنا کرنا پڑے گا جس کا اعلاج وہی طلب و خلوص ہے بدوں اس کے وہ مشقتوں کو برداشت ہی نہیں کر سکتا اور ایسی حالت میں اس راہ میں قدم رکھنا عبث ہے اب اگر کوئ شخص ڈاکٹر کے پاس آپریشن کیلۓ جاۓ مگر یہ کہے جہاں تک آپریشن کی ضرورت ہے وہاں تک نشتر نہ جانے پاۓ اب بتایۓ مادہ فاسد کس طرح نکلے گا اس کی بالکل وہی مثال ہے جیسی مولانا نے ایک حکایت میں لکھی ہے کہ ایک شخص نے بدن گودنے والے سے کہا کہ میری کمر پر شیر کی تصویر بنا دے اس نے سوئ لے کر جیسے ہی چبھوئتو کہتا ہے کہ ارے یہ کیا بنا رہا ہے اس نے کہا دم بناتا ہوں کہنے لگا کہ کیا بے دم کا شیر نہیں ہوتا اس دم نے تو میرا دم ہی نکالا ہوتا اس نے وہاں چھوڑ کر دوسری طرف سوئ چبھوئ اس نے پھر ایک آہ کی اب کیا بناتا یے اس نے کہا پیٹ بناتا ہوں کہنے لگا کیا یہ کھانا کھاۓ گا جو پیٹ کی ضرورت ہو اس نے یہ چھڑ کر تیسری جگہ سعئ چبھوئ اس نے کہا اب کیا بناتا ہے کہا کہ منہ بناتا ہوں کہا کہ ارے بھائی یہ تو تصویر ہے کوئی بولے گا تھوڑا ہی اسے بھی چھوڑا اس نے اسے بھی چھوڑا اور چوتھی جگہ سوئی چبھوئی پوچھا کہ اب کیا بناتا ہے کہا کہ کان بناتا ہوں اس نے کہا کہ شیر بوچابھی ہوتا ہے اس بھی چھوڑ اس نے جھلا کر سوئی پھینک دی اور کہا جس کو مولانا رومی رحمتہ اللہ علیہ نقل فرماتے ہیں –
شیر بے گو شم داشکم کہ دید ایں چنیں شیر لے خدا ہم نافرید
( بے کان ، بے سر اور بے پیٹ کا شیر بھی کسی نے دیکھا ہے ، ایسا شیر تو خدا نے بھی پیدا نہیں کیا 12 )
یعنی شیر تو خدا نے بھی نہیں بنایا جس کے کوئی عضو ہی نہ ہو اورشیر ہو تو میں تو کیا بنا سکتا ہوں آگے بطور ثمرہ اور نتیجہ کے فرمایا –
گر بہر زخمے تو پر کینہ شوی پس کجابے صیقل آئینہ شوی
یعنی جب تو ہر کوچنے پر چیختا اور پکارتا ہے اور برداشت نہیں کرسکتا مراد یہ کہ مصلح اور مرشد کی ہر تنبیہ پر تیرے نفس میں کدرت پیداہوتی ہے تو بدوں مانجھے ہوئے صاف اور توشن کیسے ہوگا اور اسی کو فرمایا ہیں –
چو نداری طاقت سوزن زون پس تو از شیر ژیاں ہم دم مزن
(جب تھہ کوسوئی چبھنے کا تحمل نہیں ہے تو شیر نر کی تصویر بنوانے کاخیال بھی چھوڑ دو 12 )
اس راہ میں قدم رکھنے کے لئے تو سب سے پہلی شرط یہ ہے جس کو فرماتے ہیں –
دررہ منزل لیلے کہ خطر ہاست بجال شرط اول قدم آنست کہ مجنوں باشی
( لیلی کی طلب میں جان کو اور بھی خطرات ہیں مگر اول شرط مجنوں بننا ہے )
میں ایک مرتبہ حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب گنج مرادی آباد رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت میں بغرض زیارت حاضر ہو اشب کو بے وقت پہنچا حضرت مولانا خفا ہوئے اور مجھ پر ڈانٹ ڈپت کی مولا نا نہ میرے استاد تھے نہ پیر کے پیر تھے حتی کہ جس سلسلہ میں میں یعنی چشتیہ میں مولانا اس سلسلہ میں نہ میں بھی نہ تھے کیوں کہ مولا نا کا سلسلہ نقشبندی تھا مگر مولا نا خفا ہونے کا میرے دل میں ذرہ برابر ثقل نہ تھا میں اپنے نفس کو عین کے وقت خوش پاتا تھا اور ذرا کدرت یا نفرت محسوس نہ کرتا تھا اس پر میں حق تعا لیٰ کے فضل اور رحمت کا شکرادا کیا یہ اللہ سے تلعق کی علامت ہے کہ اللہ والوں کی خفگی سے دل پر ہوئی ناگواری اثر پیدا نہیں ہوا – سو جب تک قلب میں خلوص نہ طلب صادق نہ ہوا ایسی چیزوں کو برداشت نہیں کرسکتا عاشق کو اس مذہب کے احتیار کی ضرورت ہے جس کو کہا ہے –
یا مکن پلیاں ناں دوستی یا بنا کن خانہ برا انداز پیل
یا مکش بر چہرہ نیل عاشقی یا فرو شو جامہ تقوی بہ نیل
( یا تو فیل بان سے دوستی نہ کرو – یا گھر ایسا بناؤ جس میں ہاتھی آسکے ، یا عاشقی کا دعوی نہ کرو ، اور اگر کرتے ہو تو جامہ تقویٰ کو دریائے نیل میں دھوڈالو )
اگر یہ نہیں تو جھوٹا دعوی کی اس سے زیادہ حقیقت نہیں جیسے خاتمہ مثنوی میں ایک حکایت لکھی ہے کہ ایک شخص ایک عورت کے پیچھے ہولیا – اس نے پوچھا کہ تو میرے پیچھے کیوں آرہا ہے اس نے کہا کہ میں تجھ پر عاشق ہوگیا ہوں اس عورت نے کہا کہ مجھ بد شکل ہوکر کیالے گا میرے پیچھے میری بہن مجھ سے بہت زیادہ خوبصورت آرہی ہے وہ عاشق ہونے کے قابل بو الہوس تو تھا ہی فورا پیچھے لوٹا اور منھ پھیر کر دیکھنے لگا اس عورت نے اس کے دھول رسید کی اور کہا –
گفت اے ابلہ اگر تو عاشقی در بیان دعوی خود ضادقی
پس چرا بر غیر افگندی ایں بود دعوی عشق اے بے ہنر
یعنی تو اپنے دعوی میں جھوٹا ہے اگر تو عاشق ہوتا تو غیر پر نظر کیوں کرتا محبت تو وہ چیز
ہے کہ جس دل میں ہوتی ہے محبوب کے سوا سب کو فنا کر دیتی ہے اصلی کو مولانا
فرماتے ہیں ۔
عشق آن شعلہ است کوچوں بر فروخت ہرچہ جز معشوق باقی جملہ سوخت
(عشق تو وہ شعلہ ہے کہ جب یہ بھڑکتا ہے تو مشرق کے سوا سب کو پھینک دیتا ہے )
اور یہ وہ چیز ہے ۔
ہمہ شہر پر زخوہان منم وخیال ما ہے چہ کنم کہ چشم ایک بیں نہ کند بہ کس نگاہے
(سارا شہر حسینوں سے بھرا ہوا ہے مگر میں ہوں کہ ایک چاند کے خیال میں مست ہوں ۔
کیا کروں کہ یہ آنکھ ایک کے سوا کسی کی طرف دیکھتی ہی نہیں ۔ 12)
جب عشق فانی کا یہ خاصہ ہے تو غیر محبوب نظر سے فنا ہو جاتا ہے تو عشق باقی کا تو کیا
پوچھنا اس میں تو خود بھی اپنی نظر سے فنا ہو جاتا ہے حتی کہ کتے اور سور کو اپنے سے افضل
سمجھنے لگتا ہے جس کی اصل حقیقت تو ذوقی اور جدانی ہے مگر ایک ظاہری وجہ استدلالی بھی
ہے کہ بہائم مامون العاقبہ (یعنی جانور عذاب سے امن میں ہیں ) ہیں اور انسان مامون
العاقبہ (عذاب سے مامون ) نہیں غرض فنا ہونا مٹنا خاک میں ملنا اس طریق کا اول قدم
ہے اور آخر دم توجہ ہے وہ جس کو اللہ تعالی عطا فرمادیں اور وہاں تک پہنچا دیں اس میں
کسب کو دخل نہیں محض موہبت و جذب کی ضرورت ہے جو محض ان کے فضل پر ہے ۔

You must be logged in to post a comment.