(ملفوظ۷۹) ایک صاحب نووارد حاضر ہوئے اور کچھ چیزیں بطور ہدیہ اپنے ہمراہ لائے تھے اس ہدیہ میں ایک ایسے صاحب کا بھی ہدیہ تھا کہ جن کو حضرت والا سے خصوصیت کا تعلق ہے ان آنے والے صاحب سے حضرت والا کے ضروری تعارف کے متعلق دریافت فرمانے پر بھی انہوں نے اپنا پورا تعارف نہیں کرایا اس لئے حضرت والا نے ہدیہ قبول فرمانے سے عزر فرمادیا اور صاحب خصوصیت کا ہدیہ بھی واپس کردیا اور فرمایا کہ پہلی ملاقات میں یا اس کے بعد بھی جب تک کہ باہم بے تکلفی پیدا نہ ہو کسی شخص کا ہدیہ قبول کرنا میرے معمول کے خلاف ہے اور آپ نے تو عدم تعلق کی مانعیت کے علاوہ آتے ہی اذیت پہنچانا شروع کردی اور مجھ کو ستایا بھلا اس شخص کے ہدیہ سے کیا جی بھلا ہو سکتا ہے اور ان صاحب خصوصیت کے ہدیہ کی نسبت فرمایا کہ جن حضرات کا مجھ سے خصوصیت کا تعلق ہوں ان کو بھی ایسے شخص کے ہاتھ ہدیہ بھیجنا نہ چاہیے جو پہلی مرتبہ آ رہا ہو یہ اصول کے خلاف ہے اس لئے کہ نامعلوم اس آنے والے کی مصلحت کی بنا پر اس سے کیا برتاؤ کیا جائے اور کیا معاملہ کیا جائے اور محسن کی وجہ سے واسطہ احسان کو بھی رعایت کرنا پڑتی ہے اور اس وجہ سے جانبین کی مصلحت برباد ہوتی ہے کیونکہ اس سے بعض اوقات اس کے اخلاق خراب ہوتے ہیں پھر ان نووارد کے متعلق فرمایا کہ یہاں تو صدق اور خلوص کی ضرورت ہے لوگ سمجھتے ہیں فلوس سے کام چلتا ہے اس لئے بیچارے ہدیہ لائے تھے بلکہ ان صاحب کو چاہیے تھا کہ جب پہلے سے مجھ سے خط وکتابت جاری ہے تو بجائے ہدیہ کہ وہ خطوط اپنے ہمراہ لاتے اس سے بڑی سہولت ہوتی تعارف میں مدد ملتی آکر وہ خطوط دکھلا دینے سے ان سوالات کی نوبت ہی نہ آتی مگر خدا ناس کرے اس بے فکری اور بد سلیقکی کا کہ اس کی بدولت لوگ بے اصول طریق اختیار کرکے خود سیدھے اور صاف معاملہ کو الجھا لیتے ہیں پھر مجھ کو بد نام کرتے ہیں ۔ دوسرے یہ کہ بدون تعلق اور محبت کے کہیں جانا فضول ہے آدمی جس کے پاس جائے کم از کم دل میں اس کی محبت و عظمت تو ہو ورنہ کیا فائدہ جانے سے۔ نیز میں چاہتا ہوں کہ بات بالکل صاف اور اس قدر صاف ہو کہ پھر گنجائش ہی نہ رہے صاف کرنے کی اور لوگ ہیں کہ وہ اس کو اس قدر خفا( پوشیدہ ) اور ا لجھن میں رکھنا چاہتے ہیں کہ صاف کو بھی گڑ بڑ میں ڈال دیتے ہیں آخری نتیجہ اس کا لڑائی ہی ہے یہ ہیں وہ معاملات جن پر مجھ کو سخت مشہور کیا گیا ہے آپ لوگ دیکھ رہے تھے کہ میں نے ہر بات میں ان صاحب کو کتنی گنجائش اور وسعت دی کہ یہ بسہولت اپنے مالی الضمیر کو ظاہر کردیں مگر نہین وہی ایچ پیچ۔ اتنا بڑا سفر کیا خرچ کیا سفر کی صعوبت ( تکلیف)برداشت کی تو کیا گھر سے بلا تعین مقصود چل دیئے تھے یہ ذہن میں نہ تھا کہ میرا مقصود اس سفر سے کیا ہے سو جس مقصود کا اس وقت ارادہ کر کے اور قلب میں اس کا تعین کرکے چلے تھے وہی مجھ پر ظاہر کردینا چاہئے تھے اور خود تو کیا ظاہر کرتے میرے دریافت کرنے پر بھی نہ بتلایا کہ میں کہاں سے آیا ہوں اور کون ہوں اور کیا کام کرتا ہوں ادھر ادھر کی ہانکنا شروع کردیا میری رعایت اور سہولت کی یہ قدر کی کہ اور الجھن پیدا کرتے رہے ،جہاں تک پہنچے بات کو بڑھایا ہی گھٹایا نہیں یہ فرماکر اس نے فرمایا کہ اسلم یہ ہے کہ آپ اس وقت واپس وطن تشریف لیجائیں اور وہاں سے خط و کتابت کرکے معاملہ طے کریں بشرطیکہ آپ کا بھی جی چاہے ورنہ میری کوئی غرض نہیں نہ مجھ کو انتظار ہوگا وہ صاحب مجلس سے اٹھ کر چل دئے فرمایا ایسے ایسے کوڑ مغز یہاں آتے ہیں میں نے تو ان کی شیروانی کی قدر کی تھی ( وہ شیرونی پہنے ہوئے تھے اور معززہیت میں تھے ) مگر ان کے اخلاق گرگ (بیھڑیا) جیسے نکلے شیرونی نہ نکلے ( اس میں گرگ اور شیر کے تقابل کا لطیفہ ہے)

You must be logged in to post a comment.