ایک سلسلۂ گفتگو میں فرمایا کہ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ جو کام خالص مذہبی ہوگا اسکی طرف اولاً اہلِ دنیا کو رغبت نہ ہوگی پس جس کام کی طرف اولاً اہلِ دنیا متوجہ ہوں وہ خالص مذہبی نہیں اور جسکی طرف اولاً اہلِ دین، اہلِ تقوٰی متوجہ ہوں وہ خالص مذہبی اور خالص دین ہوگا۔ اس معیار پر یہ تحریکات خالص مذہبی اور دینی تحریکات نہ تھیں کیونکہ زیادہ اور غالب اس میں ایسے ہی طالبِ دنیا تھے جنکی نیت زیادہ اغراض دنیویہ کی تھی دین کی خدمت مقصود نہ تھی “الا ماشاءاللہ”۔ یہی وجہ تھی کہ کسی کام میں نور نہ تھا، خیر و برکت نہ تھی۔ زمانۂ فتنۂ ارتداد میں میرا ایک وعظ اینچولی ضلع میرٹھ میں ہوا تھا، بعضے دیہات میں راجپوت مسلمان شدھ ہونے والے تھے اس وعظ میں ان لوگوں کو خصوصیت سے بلایا گیا تھا۔ اس تقریر میں میں نے اسکے متعلق بھی ایک مضمون بیان کیا تھا وہ مضمون یہ تھا کہ ان تحریکات میں شرکت کرنیوالوں نے فتنۂ ارتداد کے زمانہ میں بذریعۂ اشتہار یہ اعلان کیا تھا کی یہ تحریک خالص مذہبی تحریک ہے اسلئے اس میں ہر شخص اور ہر طبقے کے لوگوں کو شریک ہونا چاہئے تو اس سے صاف اسکا اقرار نکلا کہ دوسری تحریکات مذہبی نہ تھیں۔ جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے۔ غرض خالص مذہبی اور دینی تحریک میں اہلِ دنیا شرکت نہیں کرتے ہاں نخالص تحریک اگر ہو تو اس میں وہ بھی شریک ہوجاتے ہیں اور یہ نخالص وہ نہیں جسکو گاؤں والے استعمال کرتے ہیں کہ یہ گھی نخالص ہے کیونکہ انکا مقصود تو خالص بتلانا ہے مگر وہ خالص کو نخالص بولتے ہیں سو یہ تحریکات ایسی نخالص تھیں بلکہ بمعنیٰ غیر خالص تھیں۔ یہ تھی وہ تحریک جس میں شرکت نہ رکھنے والوں کو فاسق فاجر کہا جاتا تھا اور اس تحریک کو فرض و واجب کہا جاتا تھا۔ پس اسکے متعلق بھی میں نے بسط کیساتھ بیان کیا۔ اس میں یہ بھی کہا کہ قاعدہ عقلیہ و نقلیہ ہے کہ جو تحریک مرکب ہو اسلامی اور غیر اسلامی سے وہ کبھی خالص اسلامی تحریک نہیں ہو سکتی اور نہ اسکو فرض و واجب کہا جا سکتا ہے۔
اس تحریک کے اجزاء دیکھنے سے وہ اسی رنگ کی ثابت ہوئی ہے اور یہ بھی کہا کہ تم دوسروں کی ترقی کو دیکھ کر کیوں للچاتے ہو؟ تم کو تو اتنی بڑی دولت سے نوازا گیا ہے کہ جسکے سامنے تمام دنیا و مافیہا گرد ہیں وہ دولت ایمان کی ہے اگر تمام عالم کی حکومت بھی کسی کے ہاتھ آجائے مگر اس دولت کے سامنے محض بے حقیقت ہے سو اس ناپائدار اور فانی گندی دنیا کے نسبت تو مسلمانوں کی یہ شان ہونا چاہیئے۔
اے دل آں بہ خراب از مئے گلگوں باشی – بر زروگنج بصد حشمت قاروں باشی
( اے دل بہتر یہی ہے کہ عشق حقیقی کی شراب سے تو مست رہے اور بغیر خزانہ اور روپیہ پیسہ کے بذریعہ صفت استغناء کے قارون سے بھی زیادہ تجھ کو عزت حاصل ہو۔)
تو حضرت اس دولتِ ایمان کے مقابلے میں یہ دنیا مردار ناپائدار اور اسکی ترقی ہے ہی کیا بلا اور میں ترقی کو منع نہیں کرتا ترقی کرو مگر طریقۂ کار وہ اختیار کرو جو مشروع ہو اس میں دنیوی کامیابی بھی ان شاء اللہ سامنے دست بستہ کھڑی ہے اور اگر خدانخواستہ یہ نہیں تو پھر ہم یہی کہیں کے گہ کس کے پیچھے اپنی عمر عزیز کو کھوتے ہو یہ کبھی وفا نہیں کر سکتی ہزاروں لاکھوں اس گرداب میں پھنس کر غرق ہوچکے اور خسر الدنیا ولاخرۃ کا مصداق بن چکے اور عذاب الہٰی کو اپنی گردنوں پر لے گئے۔ فرعون نے کیا تھوڑی ترقی کی، نمرود نے، شدّاد نے، قارون نے کیا کچھ کسر اٗٹھا رکھی، آخرت کو برباد کیا، دنیا کو حاصل کیا نتیجہ جو کچھ ہے سامنے ہے۔ خود تم ہی اسلامی حیثیت سے ان ترقی یافتوں کی ترقی کو مردود کہتے ہو اور ساتھ ہی انکو بھی کہتے ہو جس کی اصل یہی ہے کہ ان کو وہ ترقی حدود سے تجاوز کرکے حاصل ہوئی خدا اور رسولﷺ کی مرضی کے خلاف انکا طریقہ کار تھا اسی لئے میں کہا کرتا ہوں کہ ہر ترقی محمود نہیں۔
ایک نظیر مادیات میں پیش کرتا ہوں اگر ہر ترقی محمود ہے تو بعض اوقات انسان کے جسم میں بوجہ مرض کے ورم آجاتا ہے جس سے اس کی فربہی بڑھ جاتی ہے تو اس کو مذموم کیوں سمجھتے ہو اور طبیب اور ڈاکٹروں سے اس کے ازالہ کی کیوں درخواست کرتے ہون اس سے معلوم ہرا کہ ہر ترقی محمود نہیں بلکہ اس کے اصول ہیں، حدود ہیں۔ چنانچہ اس مبحوث عنہ ترقی کے بھی کچھ اصولِ شرعی ہیں جنکا حاصل یہ ہے کہ مذہب اسلام میں جو ایک حصہ سیاسیات کا ہے وہ مدوّن ہے۔ اس تدوین کے موافق اس کو اختیار کرو وہ بہت کافی ہے اور وہ خالص مذہبی سیاست ہے۔ اس میں گڑبڑ کرنے سے اور کتربیونت سے کام لینا جائز نہیں جیسا کہ آجکل کے طبائع میں یہ مرض عام ہوگیا ہے کہ ہر جگہ اپنی رائے کو دخل دینا چاہتے ہیں اور اس دخل سے احکام میں نہ کوئی تغیر ہوسکتا ہے نہ احکام کو اس سے کوئی مضرت بلکہ اپنا ہی ضرر ہے۔ اسکی بالکل ایسی مثال ہے کہ جیسے کوئی مریض طبیب کے پاس جائے طبیب نبض دیکھ کر نسخہ تجویز کرے، یہ گھر آکر اس نسخہ میں کتر بیونت کرے تو اس سے فن اور نسخہ کا کیا ضرر؟ ضرر تو اسکا ہے اور جیسا کہ آجکل مرض ہورہا ہے کہ احکام میں رائے دیکھ کر اپنی مرضی کے مسائل گھڑ لیتے ہیں اس عمل کی اس سے زیادہ وقعت نہیں جیسے چند ڈاکو جمع ہوکر اور ڈکیتی کی دفعہ کو جو تعزیراتِ ہند میں جرم ہے اسکے متعلق یہ پاس کر لیں کہ ہم اس دفعہ کو منسوخ یا اس میں اپنی مرضی کے موافق تاویل کرکے ڈاکہ کو جائز سمجھتے ہیں۔ تو اسکا جو جواب عدالت سے ان لوگوں کو ملے گا وہی جواب تمہارے اس عمل کا دینگے بلکہ دینے سے پہلے ہی وہ جواب ہماری طرف سے سمجھ لیا جائے۔
اب یہ سن کو تو آنکھیں کھلی ہونگی کہ تمہارے اس عمل کا درجہ احکامِ اسلام کے مقابلے میں ہے کیا۔ تمہاری رائے ہی کیا اور تمہاری عقل ہی کیا اور ہو کس شمار میں؟ چہ نسبت خاک را با عالمِ پاک؟ تمہاری حقیقت اس باب میں ان کیڑوں سے زیادہ وقعت نہیں رکھتی جو خرد بین کے ذریعہ پانی کے اندر نظر آتے ہیں وہ اگر آپ ہی کے سامنے کھڑے ہو کر کہیں کہ فلاں قانون یا فلاں صنعت میں جو آپ کی یہ رائے ہے قابلِ تسلیم نہیں تو جو جواب انکو دوگے وہی ہماری طرف سے احکام کے مقابلہ میں اپنی رائے کے متعلق سمجھ لیا جائے اور جب احکام کی علوِ شان اور اپنی عقل کی نارسائی معلوم ہوگئی تو اب مولویوں پر یہ الزام کہ انکو احکام کے اسرار اور راز معلوم نہیں سراسر غلط ہے اسلئے کہ یہ قانون ساز نہیں جس کیلئے اسرار کا معلوم ہونا لازم ہے بلکہ قانون دان ہیں جس کیلئے علمِ اسرار لازم نہیں اس کو تو آپ بھی تسلیم کریں گے کہ اگر کسی وکیل سے تعزیراتِ ہند کی کسی دفعہ کے متعلق سوال کیا جائے کہ اس میں کیا حکمت ہے اگر وہ اپنے فن سے واقف ہے اور اس میں ماہر ہوگا یہ ہی جواب دے گا کہ میرے ذمہ اسکا جواب نہیں اسلئے کہ میں واضعِ قوانین یعنی قانون ساز نہیں محض قانون داں ہوں، یہ حکمت اور اسرار اور لِمَ واضعِ قوانین سے پوچھو اور اس جواب کو آپ کافی شافی سمجھیں گے اور اس جواب کر انکی کم علمی نہ سمجھیں گے تو پھر مولویوں ہی کا ایسے جواب میں کیا قصور ہے؟ یہ تو وکلاء اور بیرسٹر بھی نہیں بتلاسکتے بلکہ اگر انکو معلوم بھی ہو تب بھی تو تم کو کسی قاعدے سے اس سوال کا حق ہے اور اگر کہو گے کہ ہے تو اسکا یہ جواب بالکل معقول ہوگا جسطرح ہم کو حاصل ہوا اسی طرح تم بھی حاصل کرو کسی کی جوتیاں اٹھاؤ دس برس تک، کسی کے سامنے زانوۓ ادب تہ کرو، یوں تھوڑا ہی حاصل ہوتا ہے!
جیسے ایک خان صاحب کا قصہ ہے کہ ان کو کسی شخص نے بتلادیا کہ فلاں بزرگ کیمیا جانتے ہیں ان سے حاصل کرو۔ خان صاحب کو اس کی علت تھی، گئے جا کر پوچھا کہ تم کیمیا جانتے ہو؟ وہ بزرگ بڑے ظریف تھے کہہ دیا کہ ہاں جانتے ہیں کہا کہ ہم کو بتلادو کہا نہیں بتلاتے کوئی تمہارے باوا کے نوکر ہیں؟ ہم نے برسوں جاننے والوں کی خدمتیں کیں، تکلیفیں اٹھائیں تب جا کر کچھ حاصل ہوا تم بھی ہماری جوتیاں سیدھی کرو اگر کبھی مزاج خوش ہوگا بتلادیں گے۔ خان صاحب بیچارے چپ رہ گئے۔ پھر کھانے کا وقت آیا جنگلی پتوں کی بھجیا خان صاحب کے سامنے رکھی گئی۔ بہت کوشش کی کہ حلق سے نیچے اترے مگر وہ کہاں اترنے والی تھی۔ خان صاحب نے کہا کہ یہ تو میں نہیں کھا سکتا نہ میرے بس کی ہے۔ وہ بزرگ بولے کہ بس اس ہی بوتے پر گھر سے کیمیا سیکھنے چلے تھے، یہ تو اس کی پہلی منزل ہے اس سے آگے ہزاروں اس سے بھی بڑھ کر منزلیں ہیں ان سب کو طے کرنیکے بعد کہیں کیمیا کا پتہ چلے گا۔ خان صاحب بھاگ نکلے پھر ساری عمر کیمیا کا نام نہیں لیا۔
تو صاحب آپ بھی گھر میں بیٹھے ہوئے، گدے قالینوں اور کرسیوں میزوں پر استراحت اور آرام فرماتے ہوئے احکام کے حکم اور اسرار پر مطلع ہونا چاہتے ہیں سو یہ بالکل غیر ممکن ہے۔ اس کا یہ طریقہ نہیں ہے نہ اس سے یہ حکم لگا سکتے ہیں کہ یہ علماء اسرار سے بے خبر ہیں۔ ان میں وہ بھی ہیں کہ انکو سب کچھ معلوم ہے اسلئے عام طور پر آپ کو اس سمجھنے کا کچھ حق نہیں کہ انہیں کچھ آتا جاتا نہیں اور اگر یہ ہی سمجھ لو تو انکا کیا نقصان ہے؟ مثلاً اگر کسی کے پاس ایک لاکھ روپیہ ہو اور دوسرا شخص یہ کہے کہ تیرے پاس تو پائی بھی نہیں تو وہ اور خوش ہوگا کہ اچھا ہے یہی سمجھتا رہے تاکہ میرا مال محفوظ رہے۔ تو اس کا کیا نقصان ہوا؟ یہ تو زیادہ نفع کی صورت ہے اسی طرح ایسے حضرات بھی ہیں کہ ان کو اسرار معلوم بھی ہیں مگر نہیں بتلاتے۔ کسی نے خوب کہا ہے۔
مصلحت نیست کہ از پرہ بر دل افتد راز
ورنہ در مجلس رنداں خبرے نیست کہ نیست
(اس کا بیان کرنا خلاف مصلحت ہے ورنہ رندوں کی مجلس میں وہ کونسی بات ہے جس کی انکو خبر نہ ہو۔)

You must be logged in to post a comment.