(ملفوظ 125)قیمتی کپڑوں سے نفرت

ایک مولوی صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ کپڑے کے مادہ کو زینت میں زیادہ دخل نہیں زیادہ کپڑے کی صورت و ہیئت سے زینت ہوتی ہے کپڑا خواہ کتنا ہی قیمتی ہو مگر اس کی ہیئت و تراش تکلف کی نہ ہوگی تو زینت نہ ہوگی مجھ کو قیمتی کپڑے سے نفرت نہیں بلکہ اس کی تراش و خراش سے نفرت ہے اس بناؤ سنوار ہی سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی جنٹلمین یا بڑی شان والے ہیں اور یہ شان اور اکڑ کپڑا پہننے والے کے طرز ہی سے معلوم ہوجاتی ہے کہ اس کو اس سے تفاخر مقصود ہے یا نہیں اور یہ تزین و تجمل بھی آج کل کے فیشن میں داخل ہوگیا ہے گو کوٹ پتلون نہ ہو ثقہ ہی لباس ہو مگر ہر لباس میں مادہ قلب میں وہی ہے کہ ہر وقت بناؤ سنوار ہو،  اپنی دیکھ بھال ہو۔  جیسے بازاری عورت جس کو  ہر وقت دکانداری ہی کا اہتمام رہتاہے ۔غرض ہر ہیئت میں تو مادہ قلب میں وہی ہے جو کوٹ پتلون میں ہے جس پر طرز و  انداز نمایاں دلالت کرتی ہے اور اسی دلالت کی فرع ہے کہ ایک ہی چیز کا مادہ ایک شخص میں اور ہے دوسرے میں اور اسی لیے میں جس کیلئے جو مناسب سمجھتا ہوں اس کو وہی تعلیم کرتا ہوں اور ایک کی حالت پر دوسروں کی حالت کو قیاس کرنا سخت نادانی ہے جیسے بعض لوگ بزرگوں کا لباس دیکھ کر خود بھی اس کی نقل کرنے لگتے ہیں مگر دونوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے دو شخصوں کا ایک ہی فعل ہو دونوں کی ظاہری ایک ہی صورت ہے مگر زمین وآسمان کا فرق ہوتا ہے مولانا (جلال الدین رومی رح)اسی کو فرماتے ہیں

گفت منصور آناالحق گشت مست  – گفت فرعونے اناالحق گشت پست

(منصور نے اناالحق کہا تو وہ محبت حق کا مست ہوگیا اور فرعون نے اناالحق کہا تو وہ پست ہوتا چلاگیا)

لفظی صورت ایک ظاہر میں دونوں کا دعویٰ ایک مگر ایک مقبول اور ایک مردود۔اسی وجہ سے مولانا یہ بھی فرماتے ہیں کہ اپنی حالت پر دوسروں کی حالت کو قیاس مت کرو۔

کارپاکاں راقیاس از خود مگیر  – گرچہ ماند در نوشتن شیر وشیر

(پاک لوگوں کے کاموں پر اپنے کاموں کو قیاس مت کرو۔(دیکھو شیر جانور)اور شیر (بمعنی دودھ) ایک ہی طرح لکھے جاتے ہیں مگر دونوں میں حقیقت کے اعتبار سے کس قدر فرق ہے)

تو اہل اللّہ اور خاصان حق کا کھانا پہننا چلنا پھرنا اٹھنا بیٹھنا ہنسنا رونا بولنا خاموش رہنا سب اللّہ ہی کے واسطے ہوتا ہے اور

قل ان صلوتی ونسکی ومحیای ومماتی للّہ رب العالمین

کا مصداق ہوتا ہے ان کے اچھے لباس کو دیکھ کر ان کے سامان کو دیکھ کر نہ ان پر معترض ہوں نہ ہر موقع پر ان کی نقل کرو۔ اسی بناء پر جس کیلئے جو مناسب سمجھتا ہوں تعلیم کرتا ہوں سب کو ایک لکڑی سے نہیں ہانکتا اور یہ بھی سمجھنے کی بات ہے کہ کسی نعمت کا استعمال مذموم اور برا نہیں جس قدر اس کی طرف درجہ مقصودیت میں التفات کا رہنا برا ہے اس لئے کہ ایسا التفات تو منعم کی طرف ہونا چاہیے۔