(ملفوظ 116) اعمال صالحہ سے عقل میں نور پیدا ہوتا ہے

ایک صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ آج کل کے نیچری اور لیڈر اکثر عقل سے کورے ہیں، جب عقل صحیح ہی نہیں پھر ایسی عقل میں احکامِ اسلام کیسے آویں۔ عقل ہو تو بقدر ضرورت آویں بھی اجمالاً باتفصیلاً، پھر نماز نہیں، زہد نہیں، تقوٰی نہیں، ان اعمال سے بھی عقل میں نور پیدا ہوتا ہے، اس پر احکامِ شرعیہ پر شبہ کہ ہماری عقل میں نہیں آتے۔ اس کی ایسی مثال ہے جیسے کوئی اندھا کہے کہ ہم کو تو یہ نظر نہیں آتا کہ یہ چیز سفید ہے یا سرخ، تو اس پر یہی کہا جائے گا کہ اگر نگاہ ہو تو نظر آئے، جب نگاہ ہی نہیں تو نظر کیسے آئے۔ اسی طرح یہاں بھی جواب دیا جائے گا کہ عقل ہو تو کچھ عقل میں آئے جیسے اگر مشکیزہ یا پیالہ ہو تو اس میں پانی آئے اور جب یہ ہی نہ ہوں تو پانی کس چیز میں آئے۔ قصور تو اپنا اور الزام اور اعتراض احکامِ اسلام پر۔

جیسے ایک حبشی سفر میں چلا جارہا تھا دیکھا کہ راستہ میں ایک آئینہ پڑا ہے اس کو اٹھا کر جو دیکھا تو اس میں ایک کالی بھیانک صورت، موٹے موٹے ہونٹ، بھدی اور بیٹھی ہوئی ناک، عجیب ایک بدصورت شکل نظر آئی اس نے آئینہ کو دور پھینک مارا اور کہا کہ ایسا بدصورت اور بد شکل نہ ہوتا تو تجھ کو یہاں کون پھینک جاتا۔ اب بتلائیے کہ کیا یہ آئینہ کا قصور تھا؟ اس میں کونسی ایسی چیز تھی کہ جس پر الزام اور اعتراض کیا۔ جناب ہی کی صورت تھی جس کے یہ اوصاف خود ہی بیان کئے۔ اسی طرح احکامِ شریعت تو آئینہ ہیں اور بالکل بے غبار اور صاف شفاف صیقل شدہ، ان میں کونسا نقص ہے سب نقص جناب ہی کے اندر ہیں ۔

دوسری مثال غلط بینی کی اور سنئے اکثر دیکھا ہوگا کہ جب اسٹیشن پر دو گاڑیوں کا میل ہوتا ہے تو ایک پہلے چھوڑی جاتی ہے تو بعض اوقات جو گاڑی کھڑی ہے اس کے مسافروں کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ چل رہی ہے اور چلنے والی گاڑی کھڑی ہے۔ تو چل تو رہا ہے اپنا دماغ اور دیوانے خود ہیں، عقل اپنے اندر نہیں، بد فہمی کُوٹ کُوٹ کر اپنے اندر بھری ہوئی ہے اور عیب ناک سمجھتے ہیں دوسروں کو۔

ایک تیسری مثال سنئے، مثلاً ایک شخص کہے کہ میاں تمام زمین آسمان گھوم رہے ہیں، تمام درخت اور سڑک اور مکانات حرکت میں ہیں۔ اس سے کہا جائے گا کہ بھائی تمہارا سر گھوم رہا ہے، چکر تمہارے دماغ میں ہے تمہارا دماغ خراب ہورہا ہے۔ اس پر وہ کہے کہ کیا غضب ہے کہ تم میرے مشاہدے کی تکذیب کرتے ہو؟ اس پر حقیقت شناس کہے گا کہ تیرے مشاہدہ کی تکذیب نہیں، مشاہدہ تیرا صحیح ہے مگر مشاہدہ کا آلہ ماؤف ہے۔ تو جناب حقیقت کے عدم انکشاف پر انسان کچھ سے کچھ سمجھنے لگتا ہے اور حقیقت سے دور جا پڑتا ہے۔

 تو یہی حالت آج کل کے عقلاء کی ہے۔ پھر اس پر دعوٰی ہے کہ ہم قوم کی کشتی کے ناخدا ہیں۔ ایسوں ہی کی بدولت مسلمانوں کو نقصان پہنچ رہا ہے ہر روز ایک نیا لباس بدل کر پلیٹ فارموں اور ممبروں پر آکھڑے ہوتے ہیں، ہر روز ایک نئی قسم کا لیکچر ہوتا ہے، ہر روز ایک نیا ترانہ اور نیا نغمہ سناتے ہیں جس میں ترقی کے لئے بہت زور لگا چکے ہیں اور لگا رہے ہیں اور لگادیں گے مگر مسلمانوں کا بجائے ترقی کے تنزل ہی کی طرف رخ جارہا ہے۔ میں کہتا ہوں کہ اگر مقصود ترقی ہے اور چاہتے ہو کہ قوم کی فلاح اور بہبود کا سامان ہو اور اسی کے لئے تم یہ سب کچھ کررہے ہو تو عقل کے دشمنوں جیسے تم یہ مُختَرَع (اختراع کردہ) تدابیر اختیار کر رہے ہو اور تجربہ سے غلط ثابت ہو رہی ہیں آخر خدا اور رسول کی بتلائی ہوئی تدابیر سے تم کو کیوں ضد اور نفرت ہے اور ان کو کیوں نہیں اختیار کرتے۔ چند روز کے لئے ان کو بھی تو باعتقادِ دین نہیں بلکہ تدابیر ہی کا درجہ سمجھ کر اختیار کرکے تو دیکھ لو یعنی اگر اس خیال سے اختیار کرنے کی ہمت نہ ہو کہ ان کا دین میں کیا درجہ ہے اور اس پر خدا اور رسول کی خوشنودی ہوگی تو محض بطور امتحان ہی کے کر کے دیکھ لو، اسی کو مولانا فرماتے ہیں۔

سالہا تو سنگ بودی دل خراش  –  آزموں را یک زمانے خاک باش

بہت دن بتوں کی پرستش کرتے ہوئے ہو گئے سوائے ذلت اور خواری کے کچھ پلے نہ پڑا اب ذرا خدا کو راضی کرکے اور انکے سامنے ناک ماتھا رگڑ کر دیکھ لو میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ چند روز میں کایا پلٹ ہو جائے گی اسی کی تعلیم ہے۔

چند خوانی حکمت یونانیاں  –   حکمت ایمانیاں راہم بخواں

اور وجہ اس کی یہ ہے کہ یہ بات تحقیق کو پہنچ چکی ہے کہ بدون مشروع تدابیر کے اختیار کئے ہوئے مسلمانوں کی فلاح اور بہبود مشکل بلکہ محال ہے اور یہ میرا دعوٰی بلا دلیل نہیں اور دلیل بھی ایسی کہ جس کا تم مشاہدہ کررہے ہو کہ اس وقت تک غیر مشروع تدابیر اختیار کرنے پر تم کو ناکامی ہی ناکامی رہی بھلا غیر مشروع تدابیر میں خیر و برکت کہاں؟ کیونکہ یہ سب اسباب تو اُنہیں کے قبضۂ قدرت میں ہیں بدون اُن کی مشیت کے نِری تدابیر و اسباب سے ہوتا کیا ہے؟ اسی کو مولانا فرماتے ہیں۔

خاک و باد و آپ و آتش بندہ اند  –   بامن و تو مردہ باحق زندہ اند

(خاک، ہوا، پانی، آگ سب خدا کے بندے ہیں۔ ہمارے تمہارے سامنے مردہ ہیں مگر حق تعالٰی کے سامنے زندہ ہیں۔)

اور اُنکی مشیّت اہل ایمان کیلئے عادتاً بدون رضا کے ہوتی نہیں پھر کامیابی کہاں؟ اگر تم  نے یہ طریقہ اختیار نہ کیا تو تمہاری ان تدابیرِ غیر مشروع پر یہ حالت ہوگی کہ بجائے کسی بہبود اور فلاح کے خسارہ ہی خسارہ ہوگا۔ پس ترقی کی تدابیر بھی اہل دین ہی سے حاصل کرو وہی تمہارے سچے خیر خواہ ہیں اور اگر ان سے حاصل نہیں کرتے تو سمجھ لو کہ ابھی تمہاری فلاح اور بہبود کے دن نہیں آئے اور تدبیر کے متعلق بالمشینہ ہونے کے ہزاروں واقعات ہیں کہ قاعدے سے تدبیر صحیح مگر اثر کا ترتب ندارد۔ مولانا نے مثنوی میں پہلی حکایت میں اسی کا بیان فرمایا ہے کہ ایک بادشاہ ایک کنیز پر عاشق تھا، وہ بیمار ہوئی بادشاہ نے اپنے قلمرو کے تمام طبیبوں کو جمع کرلیا اور یہ کہا اگر میری محبوبہ صحتیاب ہوگئی تو میری بھی زندگی ہے ورنہ میری بھی موت ہے اس پر تمام اطباء اور ڈاکٹروں نے بالاتفاق عرض کیا جسکو مولانا فرماتے ہیں۔

جملہ گفتندش کہ جانبازی کیتم   –  فہم گرد آریم انبازی کینم

ہر یکے ازما مسیحے عالمے ست  –  ہر الم را در کف ما مرہمے ست

(سب نے کہا کہ ہم باہم مشورہ کرکے اور خوب سوچ سمجھ کر کوشش کرتے ہیں۔ ہم میں کا ہر ایک مسیح العالم ہے ہر بیماری کی ہمارے ہاتھ دوا ہے.)

مولانا انکی مادہ پرستی کو بیان فرماتے ہیں۔

گر خدا خواہد نہ گفتند از بطر  –  پس خدا بنمود شاں عجز بشر

(ان طبیبوں نے ان شاء اللہ۔ بوجہ تکبر کے نہیں کہا۔ لہٰذا حق تعالٰی نے انکا عاجز ہونا دکھلادیا۔)

اور اس پر جو نتیجہ ہوا اس کو فرماتے ہیں۔

ہر چہ کردند از علاج و از دوا     –   رنج افزوں گشت و حاجت ناروا

شربت و ادویہ و اسباب او     –     از طبیباں برو یکسر آبرو

از قضا سرکنگبیں صفرا فزود   –   روغنِ بادام خشکی می نمود

(جس قدر علاج اور دوا کی، تکلیف بڑھتی رہی اور صحت نہ ہوئی۔ تمام دوائیں اور انکے اسباب سب ہی جمع کردئیے مگر طبیبوں کی آبرو بالکل جاتی رہی۔ حکمِ الہٰی سے سرکہ کی انگبیں صفراء کو بڑھاتی تھی اور روغنِ بادام سے خشکی بڑھتی تھی۔)

یعنی نفع کچھ نہ ہوا اور مرض میں ترقی ہرتی رہی اس کے بعد بیان فرمایا ہے کہ کوئی بزرگ بابرکت تشریف لائے اور انہوں نے الہامی تدبیر کی اور کامیابی ہوگئی۔ غرض تدابیر کی تاثیر موقوف ہے مَشِیَّت پر اور مَشِیَّت مسلمان کے لئے موقوف ہے رضاء پر، اس لئے کہتا ہوں کہ بدون حق جل شانہ کو راضی کئے ہوئے اور مشروع تدابیر کو اختیار کئے ہوئے مسلمانوں کو فلاح اور بہبود میسر ہونا محال یے۔ اسکا صرف ایک ہی علاج ہے جو میں تم کو بتلاچکا ہوں کہ اللہ اور رسول کو راضی کرنے کی فکر اور مشروع تدابیر کو اختیار کرو۔ اپنے دوست دشمن کو پہچانو، سلیقہ اور طریقہ سے کام کرو اور جو کام بھی کرو متحد ہر کر کرو ہر مسلمان دوسرے مسلمان سے اپنے کو چھوٹا سمجھے اور یہ چھوٹا سمجھنا ہی صورت اتفاق کی ہے۔

اور آج کل کی یہ ساری خرابیاں بڑے بننے کی ہیں اور یہ سب ضروری تفصیل ہے تدابیر مشروعہ کی ان کو اختیار کرو پھر ان شاء اللہ تعالٰی فتح اور نصرت تمہاری لونڈی غلام بن کر تمہارے ساتھ ہوگی۔ کیا تم نے اپنے سلف کے کارنامے نہیں سنے کہ مادیات کا ان کے پاس نام و نشان نہ تھا ہر طرح کی بے سرو سامانی تھی مگر بڑے بڑے قیصر و کسری اور بڑی بڑی جماعتیں منظم غیر مسلم اقوام کی ان سے لرزاں اور ترساں تھیں۔ آخر کیا چیز ان کے پاس تھی؟ وہ صرف ایک ہی چیز تھی جس کا نام تعلق مع اللہ ہے۔ ان کا اللہ تعالٰی کے ساتھ صحیح تعلق تھا بس سب اس کی برکت تھی۔ ہمارے اندر اسی کی کمی ہے اس لئے ذلیل اور خوار ہیں۔ حق تعالٰی فہم سلیم عطاء فرمائیں کہ صحیح طریق پر چلیں اور دارین کی فلاح پر فائز ہوں۔

(ملفوظ 115) سیاسی تحریک پر گفتگو بے مقصود

ایک سلسلۂ گفتگو میں فرمایا کہ زمانہ تحریک میں ایک لیڈر مولوی صاحب نے مجھ سے بذریعۂ خط تحریکی مسائل پر گفتگو کرنے کے لئے آنے کی اجازت چاہی، میں نے لکھا کہ گفتگو سے دو مقصود ہو سکتے ہیں افادہ یا استفادہ۔ اگر افادہ مقصود ہے تو وہ تبلیغ ہے اس میں میرا کام صرف استماع ہوگا میرے ذمہ جواب نہ ہوگا جواب کا مطالبہ نہ کیجئے اور استفادہ مقصود ہے تو استفادہ ہوتا ہے تردد کے بعد تو پہلے اپنے تردد کا اقرار کیجئے یعنی بذریعہ اشتہار اعلان کردیجئے کہ مجھ کو اب تک تردد نہ تھا مگر اب ہوگیا۔ جواب آیا جو چاہو سمجھ لو مگر مجھ کو آنے دو، چنانچہ آئے اور خفیہ گفتگو کرنا چاہا۔ میں نے بعض مصالح سے اس کو پسند نہ کیا آخر خالی واپس چلے گئے۔

ایک واقعہ ایک اسکول کے ماسٹر کا ہے، انہوں نے بعض شبہات روافض کا جواب چاہا، میں نے لکھا کہ زبانی گفتگو کرلو۔ انہوں نے آنے پر رضامندی ظاہر کی اور ایک بیہودہ شرط لگائی کہ میں آپ کا کھانا نہ کھاؤں گا کیونکہ اس سے میں آپ کا نمک خوار ہوجاؤں گا پھر گفتگو نہ کرسکوں گا۔ بعضے آدمی بڑے ہی بد فہم ہوتے ہیں، چنانچہ میں اس پر راضی ہوگیا اور وہ خود ہی اس شرط سے دستبردار ہوگئے، الحمد اللہ شفا حاصل کرکے گئے۔ چلتے وقت میں نے ان کو مخالفین کی کتابیں دیکھنے سے منع کردیا۔

ایک واقعہ ایک غیر مقلد کی گفتگو کا ہے، بہت سے قیل و قال کے بعد آخر میں میں نے ان سے کہا کہ آپ لوگوں میں دو مرض ہیں، ایک بد گمانی ایک بد زبانی، اگر یہ نہ ہو تو آدمی تحقیق کرکے اس کی سمجھ میں جو حق ہو بشرطیکہ نیت خراب نہ ہو اور اصول شریعت سے تجاوز نہ ہو اس پر عمل کرے اس کو کون برا کہتا ہے گو تقلید کے مسئلہ میں وہ اختلاف ہی رکھے مگر شیعوں کی طرح تبرائی بننا یہ کسی طرح دین نہیں اس سے تو صاف بد نیتی کا پتہ چلتا ہے۔ یہ واقعہ قنوج کا ہے
اور وہاں ہی کا ایک اور واقعہ بھی ہے کہ میں ایک مرتبہ قنوج گیا وہاں کچھ لوگ غیر مقلد بھی ہیں حنفی انکو جامع مسجد میں آنے نہیں دیتے تھے اور وہ وعظ سننے کے لئے آنا چاہتے تھے۔ میں نے کہا کہ آنے دو اور آمین بالجہر کی بھی اجازت دے دی کیونکہ اگر طبیعتوں میں سلامتی ہو فساد نہ ہو تو اختلافی اعمال میں ہمارا حرج ہی کیا ہے مگر مشکل تو یہ ہے کہ اکثر امور میں فساد اور شرارت کی جاتی ہے حتٰی کے آمین بالجہر میں بھی نیت دوسروں کو مشتعل کرنے کی ہوتی ہے اسی لئے آمین بالجہر اس طرح کرتے ہیں گویا آمین کی اذان دیتے ہیں جو کہیں منقول نہیں۔
غرض نمازِ جمعہ کے بعد احباب کے اصرار پر جامع مسجد میں بیان کیا گیا اور اس میں میں نے یہ بھی کہا تھا کہ حضور سرور عالم ﷺ کی سنت کے موافق اپنی بیویوں سے کہہ دو اگر احکام کی اتباع نہ کریں تو اسی سنت پر عمل کرو۔ یہ میں نے قصداً اس لئے کہا کہ معلوم ہوا کہ رسوم متعارفہ ان لوگوں کے گھروں میں ہیں تو مقصود میرا یہ تھا کہ آمین اور رفع یدین میں تو اتباع سنت کا دعویٰ ہے اور رسوم میں اس سنت پر عمل کیوں نہیں۔ میں اس کی قدر کرتا ہوں کہ یہ سن کر اپنے گھر جاکر حنفیوں نے تو نہیں کہا مگر ٖغیر مقلدوں نے جاکر بالاتفاق کہہ دیا۔ عورتوں کے کان کھل گئے اور اصلاح ہوگئی.

اسی سلسلہ میں ایک غیر مقلد کا واقعہ یاد آیا کہ ان کا میرے پاس خط آیا کہ میں غیر مقلد ہوں اور بیعت کرنا چاہتا ہوں، میں نے لکھا کہ یہ بتلاؤ کہ میری بھی تقلید کروگے یا نہیں۔ بس گم ہوگئے کیونکہ ایک شق پر تو مقلد بنتے ہیں اور دوسری شق پر اعتراض ہوتا ہے کہ جب میرا کہنا نہ مانو گے تو بیعت کیسی اور اس لاجواب ہونے کی وجہ یہ تھی کہ ان صاحبوں میں سمجھ نہیں ہوتی، یونہی اوپر اوپر چلتے ہیں ورنہ اس کا جواب بہت آسان تھا یوں لکھتے کہ تمہاری تقلید کروں گا اور اس پر جو شبہ ہوتا کہ امام صاحب کی تو تقلید کرتے نہیں اور میری کروگے اس کا یہ جواب دیتے کہ امام ابو حنیفہ کی تقلید تو احکام میں کراتے ہیں اور تمہاری تقلید تدابیر میں ہوگی، مثل طبیب جسمانی کے کہ اس کی بتلائی ہوئی تدابیر پر عمل کرتے ہیں حالانکہ وہ بھی اجتہادی ہیں مگر احکام تو نہیں، مگر یہ چیز ان کے ذہن میں کہاں آسکتی ہیں۔

ایک نیچریوں لے مولوی صاحب سے علی گڑھ میں گفتگو ہوئی انہوں نے ایک حدیث کا راز پوچھا، میں نے کہا کہ احکام کے اسرار کی آخر غایت کیا ہے؟ مقصود عمل ہے نہ کہ تحقیق۔ اسرار گو اللہ کا شکر ہے کہ بزرگوں کی برکت سے بہت سی ایسی چیزیں بھی معلوم ہیں لیکن ہر چیز کے بتلانے پر میں اکثر یہ شعر پڑھا کرتا ہوں۔

مصلحت نیست کہ از پردہ بروں افتد راز       ورنہ در مجلس رنداں خبر لے نیست کہ نیست
(راز کا پردہ سے باہر آنا خلاف مصلحت ہے ورنہ رندوں کی مجلس میں ہر چیز موجود ہے)

باقی اہل تحقیقات اور ان کے غلام اس کی پروا نہیں کرتے کہ نہ بتلانے پر یہ کیا سمجھیں گے کہ ان کو کچھ آتا نہیں کچھ ہی سمجھا کریں ہاں کوئی وقت ایسا بھی ہوتا ہے کہ اس میں اسرار اور راز بھی بیان کردیتے ہیں ورنہ اصل مسلک ان کا وہی ہے جس کو فرماتے ہیں۔

با مدعی بگوئید اسرار عشق و مستی          بگزار تا بمیر و در رنج خود پرستی
(مدعی سے عشق و مستی کے اسرار بیان کرو۔ اس کو اپنی خود پرستی کہ مصیبت میں مرنے دو۔)

اور کسی کے معتقد غیر معقتد ہونے کی ان کو پرواہ ہی کیسے ہوتی ان پر تو عشق و فنا اس قدر غالب ہوتا ہے کہ اس سے ان حضرات کی شان ہی دوسری ہوجاتی ہے۔ ان کی ہر چیز اور ہر کام اور ہر بات میں اسی محبت اور عشق کی شان جھلکتی ہے ان کی ہر ادا سے دوسرے ہی عالم کا بتا چلتا ہے اور اس کے مصداق ہوتے ہیں۔

عشق آن شعلہ ست کو چوں برفروخت            ہر چہ چیز معشوق باقی جملہ سوخت

گلزار ابراہیم میں اسی کا ترجمہ ہے۔

عشق کی آتش ہے ایسی بد بلا           دے سوا معشوق کے سب کو جلا

غرض انکی وہ حالت ہوتی ہے کہ سوائے ایک کے سب کو فنا کئے ہوئے ہوتے ہیں پھر ان کو کسی کے اعتقاد و عدم اعتقاد سے کیا بحث اس لئے بلا ضرورت وہ علوم کو ظاہر نہیں کرتے ورنہ ان کے علم کی تو یہ شان ہوتی ہے جس کو مولانا فرماتے ہیں۔

بینی اندر خود علوم انبیاء            بے کتاب و بے معید و اوستا
(تم اپنے اندر بغیر کسی مددگار اور کتاب اور استاد کے انبیاء کے علوم پاؤگے)

اگر تم بھی ایسے اسرار معلوم کرنا چاہتے ہو تو اس کا یہ طریق نہیں ہے کہ ان حضرات کو پریشان کرو اور وہ کچھ بتلا بھی دیں تو اس سے کفایت نہیں ہوتی بلکہ اس کا بھی صرف یہی واحد طریق ہے جس طریق سے ان کو یہ دولت ملی یعنی خدا اور رسول کے احکام کا اتباع کرو، خدا کے برگزیدہ بنو اور اس اتباع کا صحیح طریق بزرگوں سے معلوم کرو ان کی صحبت اختیار کرو اور صحبت تو بڑی چیز ہے ان کا تو چہرہ دیکھنے سے بہت کچھ حاصل ہوجاتا ہے اور یہی صحبت اس راہ کے لئے منزل مقصود کی اول سیڑھی ہے، ان کا جلیس محروم نہیں رہتا اور اس کی برکت سے شبہات وغیرہ کافور ہوتے چلے جاتے ہیں۔ مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ اسی کو فرماتے ہیں اور سچ فرماتے ہیں۔

اے لقاء تو جواب ہر سوال             مشکل از تو حل شود بے قیل و قال
(وہ ذات جس کی ملاقات ہی ہر سوال کا جواب ہے اور تجھ سے ہر مشکل بغیر قیل و قال کے حل ہو جاتی ہے)۔

مگر اس کے نافع ہونے کی ایک شرط بھی ہے وہ ضرور یاد رہے اور وہ اخلاص و اعتقاد کے ساتھ اتباع ہے اور اگر اتباع نہیں تو پھر محض صوری قرب کی بالکل ایسی مثال ہے کہ کوئی شخص طبیب کے پاس بیٹھے مگر دوا نہ کرے اور کوئی سوال کرے کہ میاں طبیب کے دوست ہو کے بیمار رہتے ہو تو یہی جواب ہوگا کہ مرض کا ازالہ محض طبیب کے پاس بیٹھنے سے تھوڑا ہی ہوسکتا ہے۔ اس کے پاس بیٹھنے سے تو نسخہ معلوم ہوجائے گا اور وہ بھی اس وقت جب کہ تم اس کے سامنے پہنچ کر اپنا سب حال کہو، باقی صحت تو نسخہ کے استعمال سے ہوگی۔ اسی استعمال نسخہ کی نسبت مولانا فرماتے ہیں۔

قتال راہگزار مسرد حال شو            پیش مدرے کملے پامال شو۔

(ملفوظ 83)غلط تفسیر دانی کی مثال

(ملفوظ ۸۳) ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ آج کل کے نیچری بھی قرآن شریف کی ایسی ہی تفسیر کرتے ہیں جیسے ایک شخص نے شیخ سعدی علیہ الرحمتہ کے شعر کی تفسیر کی تھی قصہ یہ ہے کہ ایک شخص کی کسی سے لڑائی ہوئی مار بھی رہا تھا مار کھا بھی رہا تھا اتفاق سے اس شخص کے ایک دوست صاحب بھی تشریف لے آئے اور آکر اپنے دوست کے دونوں ہاتھ پکڑلئے اب دوست صاحب کی خوب اچھی طرح مرمت ہوئی کسی نے پوچھا کہ یہ کیا حرکت تھی کہا کہ میں نے شیخ سعدی علیہ الرحمتہ کے فرمانے پر عمل کیا وہ فرماتے ہیں۔

دوست آں باشد کہ گیردست دوست در پریشاں حالی ودر ماندگی

یہی حالت ان لوگوں کی تفسیر دانی کی ہے یہاں پر ایک ڈپٹی کللٹر آئے تھے وہ بھی نیچری خیال کے تھے کہنے لگے کہ میں کچھ پوچھ سکتاہوں سمجھ گیا کہ کوئی اس ہی قسم کا سوال کریں گے جس خیال کے ہیں یہ بھی آج کل مرض عام ہے ان لوگوں میں کہ نصوص میں عقلی شبہات نکالتے ہیں نیں نے کہا کہ پوچھئے مجھ کو جو معلوم ہوگا عرض کردوں گا انہوں نے کہا کہ سود کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے یہ طرز سوال بھی نئی روشنی والوں کا ہے کہ بجائے حکم شرعی کے خیال کو پوچھا کرتے ہیں میں نے کہا کہ میرا خیال ہوتا آپ کو معلوم ہے کہ میں فلسفی شخص نہیں ہوں مزہبی شخص ہوں قرآن و حریث کا حکم ظاہر کر دینا میرا کام ہے قرآن و حدیث سے جواب دونگا میرے اس جواب پر ان کے سوالات کا بہت بڑا ذخیرہ ختم ہوگیا پھر میں نے کہا حق تعالی فرماتے ہیں۔

واحل اللہ البیع و حرم الربو۔

کہنے لگے فلاں نظامی دہلوی تو اس کی یہ تفسیر کرتے ہیں میں نے کہا آپ قانون کی دفعات کی بناء پر فیصلے دیا کرتے ہیں آپ وہ قانون اور دفعات مجھ کو دیجئے میں اس کی شرح کرونگا آپ اس شرح کی موافق فیصلے لکھا کریں پھر دیکھئے کہ گورنمنٹ سے آپ پر کیسی لتاڑ پڑتی ہے اور جواب طلب ہوتا ہے اس پر آپ گورنمنٹ سے یہ کہہ دیں کہ فلاں شخص نے قانون کی یہ شرح کی ہے اور وہ عربی فارسی اردو سب جانتا ہے میں نے اس شرح کے موافق یہ فیصلہ لکھا ہے پھر دیکھئے کیا جواب ملے گا یہی کہا جائے گا کہ زبان دانی اور چیز ہے قانون دانی اور چیز ہے اسی طرح اس دہلوی شخص کی قرآن شریف کی تفسیر بھی ہے جیسی میں قانون کی شرح لکھوں پھر اس پر فرمایا کہ ایسی تفسیر اور شرح کی ایک مثال بڑے کام کی یاد آگئی ایک سرحدی ایک اسٹیشن پر اترا اور ایک کشمش کا بورا جس میں قریب دو من کے وزن ہوگا بغل میں تھا بابو کو اپنا ٹکٹ دیا بابو نے دریافت کیا کہ خان صاحب اس بورے کا ٹکٹ یعنی بلٹی کہاں ہے خان صاحب نے کہا کہ اس کا ٹکٹ بھی یہی ہے بابو نے کہا کہ پندرہ سیر سے زائد اسباب بدون بلٹی لے جانا قانون کے خلاف ہے تو خان صاحب کہتے ہیں گویا کہ قانون کی تفسیر بیان کر رہے ہیں کہ پندرہ سیر کا قانون ہندوستانی کے لئے ہے وہ اتنا ہی بوجھ اٹھا سکتا ہے ہمارا یہی پندرہ سیر ہے دیکھو کیسی آسانی سے ہم اس کو بغل میں لئے کھڑا ہے یہ آپ نے قانون کی شرح اور تفسیر کی تو حاصل یہ ہوا کہ اس قانون میں پندرہ سیر کا وزن مراد نہیں بلکہ مراد یہ ہے کہ مسافر جتنا آسانی سے لیجاسکے تو کیا اس کو قانون کی تفسیر کہا جا سکتا ہے اور کیا یہ تفسیر قانون دان کے نزدیک مقبول ہے اسی طرح غیر اہل فن کی قرآنی تفسیر ایسی ہی ہے جیسے اس ولائتی خان نے قانون کی تفسیر کی تھی اور اگر کوئی قانون دان اس کو حقیقت سمجھائے تو بہت مشکل ہے جب کاتب کو فن سے مناسبت ہی نہیں تو اتنا کہہ دینا کافی ہے کہ تو احمق ہے تو کیا جانے قانون کیا چیز ہے ا سکے بفد وہ ڈپٹی کلکٹر کہنے لگے سود نہ لینے کی وجہ سے مسلمان تباہ وبرباد ہورہے ہیں اور ترقی نہیں کرسکتے میں نے کہا کہ اگر ترقی کی ایسی ہی ضرورت ہے تو حرام سمجھ کر بھی تو لے سکتے ہیں اس سے بھی ویسی ہی ترقی ہوگی ترقی تو لینے پر موقوف ہے نہ کہ اعتقاد حلت پر کیونکہ ترقی کو کیا خبر کہ اس کا عقیدہ کیا ہے اسلئے اگر حرام سمجھ کر لیں تب بھی ترقی ہوسکتی ہے اس صورت میں یہ ہوگا کہ جرم میں کسی قدر تخفیف ہوجائے گی فرق یہ ہوگا کہ اگر حرام سمجھ کر لے گا تو چور ڈاکو سمجھاجائے گا سزا میں جیل خانہ یعنی محدرد مدت کے لئے دوذخ میں جائے گا اور اگر حلال سمجھ کر لیا یہ بغاوت ہوگی اس پر بھانسی کا حکم ہوگا یعنی غیر محدود مدت کے لئے دوڈخ میں جائے گا یا دائم الحبس (ہمیشہ کیلئے قید) کیا جائے گا ایک صاحب ان کے ہمراہ تھے ان سے ڈپٹی صاحب کہنے لگے کہ دیکھئے یہ اعلی درجہ کا فلسفہ کہ سود لینے کی ایک گنجائش نکال دی پھر فرمایا کہ سبحان اللہ خوب سمجھے۔ یہ گنجائش تو ایسی ہے جیسے ساحران موسی کہیں کہ موسی علیہ السلام نے ہم کو سحر کی اجازت فرمادی ہے کیونکہ موسی علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ

القوا ما انتم ملقون

کہ ڈالو جو تم کو ڈالنا ہے تو موسی علیہ السلام کا یہ فرمانا جواز سحر کے لئے تھوڑا ہی تھا بلکہ اس کا اظہار تھا کہ تم جو کچھ دکھلاتے ہو دکھلاؤ پھر میں بھی تم کو دکھاؤں گا اسی طرح میرے جواب میں سود کے حرام ہونے کا حکم اور اس کے نتیجہ عقوبت کا اظہار تھا لینے کے لئے تھوڑا ہی تھا حرام ہونا دلیل ہے اس کام سے منع کرنے کی ایسی ٹیڑھی سمجھ کا کس کے پاس علاج ہے