(ملفوظ ۸۲) ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ ایک دیہاتی ہدیہ کچھ کپڑا لایا جو ایک گٹھری کی صورت میں تھا میں اس وقت ڈاک لکھ رہا تھا اس نے ڈاک کے خطوط پر وہ گٹھری رکھ دی مجھ کو ناگوارہوا میں نے غصہ سے کہا کہ میرے سر پر رکھ دے اس نے اس گٹھری کو اٹھایا اور میرے سر پر رکھ دی اور اس کو تھام کر کھڑا ہوگیا تاکہ گر نہ جائے فلاں مفتی صاحب میرے پاس بیٹھے تھے وہ اس پر خفا ہونے لگے میں نے کہا کہ کس پر خفا ہوتے ہو یہ تو غیر مکلف ہے اور میں نے ہی تو کہا تھا کہ میرے سر پر رکھ دے اس کا کیا قصور بلکہ حکم کی اطاعت کی ہے اسی طرح ایک مرتبہ ایک لڑکا چھوٹا سا جس کی عمر تقریباّ پانچ یا چھ سال کی ہوگی اپنے باپ کے ساتھ میرے مکان کے دروازہ پر کھڑا تھا میں نے اس کی بغلوں میں ہاتھ دے کر دروازہ کی چوکی پر کھڑا کردیا اور اس سے کہا کہ منہ پر تھپڑ ماراس نے میرے منہ پر چپت لگایا اس کا باپ اس کو ڈانٹنے لگا میں نے کہا کہ تم اس پر ناحق خفا ہوتے ہو اسکا کوئی قصور نہیں میں نے یہ تونہیں کہا تھا کہ کس کے منہ پر مار میرا ہی کلام ناتمام تھا میں ہی قصوروار ہوں اسکی خطا نہیں ۔ ایک روز یہاں پر جو حافظ صاحب قران کے مدرس ہیں وہ ایک بچے سے کہہ رہے تھے کہ کان پکڑ مجھ کو اپنا واقعہ یادآ کر خیال ہوا کہ کہیں حافظ صاحب ہی کے کان نہ پکڑ لے اس لئے کہ کلام نا تمام ہے

You must be logged in to post a comment.