(ملفوظ ۱۰۲) اسی سلسلہ میں فرمایا کہ بعضے بزرگ بھولے معلوم ہوتے ہیں مگر واقع میں نہایت دانشمند ہوتے ہیں اور بھولے کسی حالت کے غلبہ سے معلوم ہوتے ہیں چنانچہ حضرت مولونا شاہ محمد یعقوب صاحبؒ دھلوی جو مکہ معظمہ میں مقیم تھے ان کا واقعہ ہے کہ ان کے پاس ایک تھیلی تھی جس میں روپیہ گنے پیسے سب ایک ہی جگہ رکھتے تھے اور جب بازار جاتے تو اگر ایک پیسہ کا بھی سودا لینا ہوتا تب بھی پوری تھیلی لے جاتے اور سودا خرید کر پوری تھیلی کو دکان پر لوٹ کر دکاندار کو پیسہ دیتے اور بقیہ اس میں اٹھا کر بھر لیتے۔ ایک روز بازار سے تھیلی ہاتھ میں لیئے واپس مکان کو جارہے تھے جب مکان کے قریب ایک گلی میں داخل ہوئے ایک بدوی راستہ سے ساتھ ہولیا تھا وہ تھیلی ہاتھ سے چھینی اور چلدیا آپ نے پیچھے مڑکر بھی نہ دیکھا کیا ہوا سیدھے مکان پر پہنچ کر اور مکان کا دروازہ بند کرکے اندر سے کنڈی لگالی اب وہ بدوی تھیلی لئے چلا مگر جب اس ہی گلی سے نکلنے کا ارادہ کرتا تب ہی لوٹ کر پھر اسی گلی میں آجاتا گویا راستہ بند ہوگیا سمجھ گیا یہ وبال کسی بات کا ہے اور پریشان ہوکر تھیلی لوٹانے کے لئے واپس شیخ کے مکان پر آیا اور آواز دی یاشیخ یاشیخ اپنی تھیلی لےلو شیخ کوئی جواب ہی نہیں دیتے یہ پھر دوبارہ لےکر چلا پھر وہی صورت کہ راستہ بند پھر لوٹا اور شیخ کے مکان پر پہنچ کر پکارا مگر جواب ندارد آخر اس نے ایک ترکیب کی کہ غل(شور) مچانا شروع کیا کہ دوڑو شیخ نے مجھ پر بڑٓا ظلم کیا ہے سارا محلہ جمع ہوگیا پوچھا کیا معاملہ ہے کہا کہ اس مکان میں جو شخص ہے اس نے مجھ پر بڑا ظلم کیا ہے انہیں سامنے لاؤ تو بیان کروں لوگ ان کے بزرگی کے معتقد تھے اس کو ڈانٹا کہ کیا بکتا ہے وہ تو بڑے بزرگ ہیں کہا کہ ذرا کواڑ تو کھلواؤ میں ابھی بزرگی ظاھر کئے دیتا ہوں اہل محلہ نے بزرگ سے خوشامد کر کے کواڑ کھلوائے اور بدوی سے دریافت کیا کہ بتلاؤ انہوں نے کیا ظلم کیا ہے کہا کہ میں نے ان کے ہاتھ سے روپوں کی تھیلی لے کر بھاگا اب یہ مجھ کو جانے نہیں دیتے جب جانے کا ارادہ کرتا ہوں راستہ بند نظر آتا ہے اور تھیلی بھی نہیں لیتے یہ ان بزرگ کا ظلم تھا غرض کہ یہ نہ جانے دیتے ہیں اور نہ اپنی تھیلی واپس لیتے ہیں یہ ظلم نہیں تو اور کیا ہے لوگوں نے ان بزرگ سے عرض کیا کہ آپ اپنی تھیلی لے لیں فرمایا کہ یہ تھیلی اب میری نہیں رہی اسی کی ہوگئی وجہ یہ کہ جس وقت یہ میرے ہاتھ سے لے کر بھاگا تھا اسی وقت مجھ کو یہ خیال ہوا کہ ایک مسلمان میرے سبب گہنگار ہوا اور دوزخ میں جائے گا اس لئے مین نے اسی وقت وہ تھیلی اس کو ہبہ کردی اللہ اکبر ان حضرات کا بڑا ظرف ہوتا ہے یہ بھی گوار نہ ہوا کہ ایک مسلمان ایک لمحہ اور ایک منٹ کے لئے بھی خدا کا گہنگار رہے اور کُل مال کا چلا جانا اور دے دینا گوارا کر لیا اور یہ ہبہ اصطلاحی تو نہ تھا کیونکہ اس مین دوسرے کا قبول شرط ہے مگر اپنی نیت سے اس کو بری الذمہ کردینے کو مجازاََ ہبہ فرمادیا پھرفرمایا کہ یہ حکایت بیان کرنے میں تو بہت سہل ہے مگر کوئی کر بھی سکتا ہے؟ بس وہی کر سکتا ہے کہ جس کے دل میں کوئی اور چیز ہو اس چیز کے ہوتے ہوئے دو عالم بھی اس کی نظروں میں کوئی وقعت نہیں رکھتے حضرت غوث اعظمؒ کی خدمت میں شاہ سنجر نے لکھا کہ مین چاہتا ہوں کہ ملک سنجر کا کچھ حصہ خانقاہ کے نام کردوں تاکہ اہل خانقاہ کو اور آپ کو کوئی تاکلیف نہ رہے آپ نے اس کے جواب میں یہ لکھ کر بھیجا۔
چوں چتر سنجری تجتم سیاہ باد
دردل اگربودہوس ملک سنجرم
زانگہ کہ یاقتم خبراز ملک نیم شب
من ملک نیمروزبیک جونمی خرم
(اگر میرے دل میں سنجرکی ہوس ہو تو جس طرح سنجرکا چتر سیاہ ہے۔ میرا نصیب بھی سیاہ ہو۔اور جس وقت سے ملک نیم شب(یعنی عبادت نیم شب) کی مجھے خبر ہوئی ہے۔ میں تو ملک نیم روز کو ایک جؤ کے بدلہ میں بھی نہ خریدوں گا۔)
پھرفرمایا کہ حضرت شاہ صاحب کی اس عادت کا منشاء ظاہراََ تو بھولا پن ہے مگر واقع میں دوسری وجہ ہے یعنی متاع دنیا سے استغناء اور قلب کا عدم تعلق ورنہ ان کی ذکاوت مشہور ہے

You must be logged in to post a comment.