(ملفوظ 36 ) طلب کی شرط اعظم مطلوب کی تعین ہے

ایک صاحب کیے سوال کے جواب میں فرمایا اس کرید سے میرا مقصود یہ معلوم کرنا ہوتا ہے کہ آیا مطلوب ان کے ذہن میں معلم مستحضر ہے یا نہیں کیونکہ طلب کی شرائط اعظم مطلوب کی تعین ہے ـ نیز اس وجہ سے بھی کہ آیا میں اس کو پورا کر سکتا ہوں کہ نہیں اور یہ معلم ہو جانے پر طرفین میں سے کسی کے ساتھ دھوکا نہیں ہوتا ـ میں بات کو صاف ہی کرنا چاہتا ہوں خدانخواستہ مواخزہ بالزات تھوڑا ہی مقصود ہوتا ہے گو وہ مواخزہ ہوتا ہے مگر محض صورۃ مواخزہ ہوتا ہے ـ اس سے اصل مقصود صفائ ہوتی ہے لوگوں کی عادت ہے کہ وہ صاف بات کو بھی الجھاتے ہیں اور تاویلات کرنا شروع کر دیتے ہیں اس کی وجہ سے ناگواری کے سبب میرے لحجے میں تغیر پیدا ہوتا ہے اس تغیر کو خفگی سے تعبیر کرتے ہیں اور یہ تو ایسا ہے کہ طبیب مریض کی بد پرہیزی پر مطلع ہو جاۓ اور وہ مریض طبیب کی خفگی سے بچنا چاہیۓ اس لیۓ اس——– میں تاویلات اور تلبیس کرے تو اب بتلایۓ کہ اس سے طبیب کا نقصان ہے یا مریض کا ـ لوگ ذہانت سے کام نکالنا چاہتے ہیں اور اللہ فضل سے اور اپنے بزرگوں کی دعاء کی برکت سے وہ یہاں پر چلتی چلاتی نہیں ، حق وباطل صاف صاف نظر آنے لگتا ہے اس پر لوگ ناراض ہوتے ہیں بدنام کرتے ہیں اسی دوران تقریر میں ایک صاحب سے ان کی غلطی پر مواخذہ فرمایا کہ یہ حرکت کیوں ہوئی اس پر ان صاحب نے تاویلات شروع کردی ارشاد فرمایا کہ ابھی ذکر ہورہا تھا تاویلات کے مدموم ہونے کا اور وہی حرکت موجود ہے اب آپ حضرات دیکھ رہے ہیں کہ میری گفتگو انتہا درجہ کی صاف ہے کوئی گنجلک نہیں ابہام نہیں اشارہ کیا یہ نہیں کوئی ایسی باریک بات نہیں مگر دیکھ لیجئے کہ اس کو تاویلات کا جامہ پہنا کر کہاں سے کہاں پہچادیں گے – اپنی غلطی کے اقرار کا تو یہ لوگ سبق ہی نہیں پڑھے سب ایک مکتب کے تعلیم پائے ہوئے قسم کھا کر آتے ہیں کہ کبھی اپنی غلطی کا اقرار نہ کریں گے اور کبھی سیدھی بات صاف نہ کہیں گے – پھر بتلایئے نااہلوں کے جمع کرنے سے کیا فائدہ کیا اس میں میرا کوئی نفع ہے یا میری کوئی غرض ہے پوچھتا محض اس غرض سے ہوں کہ منشاء غلطی کا معلوم ہو تو اصلاح کی تدبیر کروں – مگر اس کو بلی کے گوہ کی طرح چھپاتے ہیں سو میری جوتی سے مجھ کو کون غرض ہے کہ میں ایسے بد فہوں کا تختئہ مشق بنوں اپنی اصلاح نہیں چاہتے جائیں اپنے بلانے کون گیا تھا – اور جب تک انسان خود اپنی اصلاح نہ چاہے بیچارے بزرگ اور عالم تو کیا ہستی اور وجود رکھتے ہیں زیسوں کی اصلاح نبی بھی نہیں کرسکے دیکھ لیجئے ابو طالب کا واقعہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے مرتے دم تک سعی اور کوشش فرمائی کہ ایمان لے آئیں مگر چونکہ ابو طالب نے نہ چاہا کچھ بھی نہ ہوا اس کے بعد کسی کو کیا منہ ہے کہ کوئی بدون طالب کی طلب کے اصلاح کرسکے پھر حضرت والا نے ان صاحب کی طرف متوجہ ہوکر فرمایا کہ آپ اگر میری بات کا صاف اور معقول جواب نہیں دے سکتے یا دینا نہیں چاہتے تو مجلس سے اٹھ جایئے اور جب تک جواب نہ دیں مجلس میں بیٹھے کی اجازت نہیں اور اب اگر جواب دینے کا ارادہ ہو تو کسی واسطہ سے جواب دیں میں براہ راست اب گفتگو نہ کروں گا اور یہ بھی ظاہر کئے دیتا ہوں کہ مجھ کو جواب کا انتظار نہ ہوگا اگر تم اپنی مصلحت سمجھو اور جی بھی چاہے تو کسی واسطہ سے جواب دینا ورنہ معاملہ ختم اس پر وہ صاحب خاموش رہے فرمایا کہ جو میں نے عرض کیا آپ نے سن لیا کہ عرض کیا کہ سن لیا فرمایا تو کم از کم ہاں نہ کا جواب تو آدمی کو دینا چاہیئے ٓ تاکہ دوسرا بے فکر ہوجائے نواب نہ بننا چایئے – کیوں آپ لوگ ستاتے ہیں جایئے مسجد میں جاکر بیٹھئے وہ صاحب اٹھ کر چلے گئے فرمایا کہ اب آپ حضرات نے نقشہ دیکھ لیا یہ ہیں وہ باتیں جن پر مجہ کو بدنام کیا جاتا ہے آخر میں بھی بشر ہوں تغیر کی بات پر تغیر ہوتا ہی ہے اور اگر تاویلات کا دروازہ کھولوں تو پھر اصلاح کی کیا صورت ہے اور مجھ کو تو یہ آسان ہے کہ اصلاح کاکام قطعا چھوڑدوں باقی یہ مجھ سے نہیں ہوسکتا کہ آنے والوں کی چاپلوسی کروں اور ہاتھ جوڑ کر عرض کیا کروں کہ حضور آپ سے فلاں غلطی ہوئی آئندہ نہ ہو – سو مجھ سے نہیں ہوسکتا اگر اس کی برداشت نہیں تو اور کہیں جائیں ایک میں ہی تو مصلح نہیں اور بہت جگہ ہیں مگر کام تو ہی کے طریق سے ہوتا ہے –