(ملفوظ 479)تعلیمیات ومجاہدات کا نچوڑ

ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ تمام تعلیمات ومجاہدات کا حاصل اور مقصود یہ ہے کہ بندہ کا تعلق اللہ تعالٰٰ سے صحیح معنی میں پیدا ہوجائے اسی کے پیچھے طالبین نے سلطنتیں چھوڑ دیں اور ایسی چھوڑ دیں کہ دل میں خطرہ بھی نہیں ایا ۔ حضرت ابراہیم ان اوہم بلخی رحمتہ اللہ علیہ کا قصہ ہے کہ جب انہوں نے بلخ کی سلطنت چھوڑی ہے تو جنگل میں ایک جگہ نماز کا وقت ہوگیا تو ایک کنوئیں سے پانی کھینچنا پاہا تو ڈول میں بجائے پانی کے چاندی بھری ہوئی آئی ۔ اس کو الٹ کر پھر ڈال تو ایک اشرفی آئی پھرتیسری بار جواہرات آئے۔ عرض کیا کرو ایے اللہ ! میں امتحان کے قابل تو نہیں مگر ان چیزوں کو تو چھوڑ کر آیا ہوں پھرا پانی آیا ۔ اللہ اکبر ! کیا چیز پیدا ہوجاتی ہے قلب میں جس نے امارت بلخ کو تلخ کردیا ۔ ان کا ابتدائی واقعہ ترک سلطنت کا یہ ہوا کہ یہ پڑے ہوئے آرام فرمارہے تھے کہ چھت پر آہٹ معلوم ہوئی دریافت کیا کون کہا کر میں ایک شخص ہوں جس شخص ہوں جس کا اونٹ گم ہو گیا ہے اس کو تلاش پر اونٹ کیوں نہیں مل سکتا اس سے ایک کھٹک پیدا ہوگئی اور سلطنت چھوڑدی ۔
یہ ا براہیم ابن اور ادہم بلخی حضرت امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ کے شاگرد ہیں بہت بڑے عالم ہیں محدث فقیہ ہیں نرے درویش ہی نہیں اور تبع تابعی بھی ہیں ۔ ایک مولوی صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ حضرت امام ابوحنیفہ رحمتہ اللہ علیہ کے تابعی ہونے میں اختلاف ہے مگر راجح تابعیت ہے ۔