ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ اس طریق میں کسب کو دخل نہیں جزب کی ضرورت ہے البتہ خود جزب موقوف ہے اعمال پرہاں اس معنی کر کسب کو بھی دخیل کہا جا سکتا ہے کہ وہ اعمال اختیاری ہے مگر یہ دخل بھی محض صورۃ ہے ورنہ ہمارے اعمال ہی کیا ـ اس لۓ میں پھر یہی کہوں گا کہ کسب کو دخل نہیں جزب ہی پر موقوف ہے بعض لوگ کہتے ہوں گے یا خیال کرتے ہوں گے یہ اختیاری اور غیراختیاری کے الفاظ خوب سیکھ لۓ ہیں ہر گجہ جاری کر دیے جاتے ہیں مگر معلوم بھی ہے کہ اس کی بدولت بہت سے خلجانوں سے نجات مل گئ ـ یہ تعلیم صدیوں سے گم ہو چکی تھی اس کی بدولت لوگ سخت پریشانیوں میں مبتلا تھے اب اگر کوئ کسی حالت کی نسبت پوچھنے پر لکھتا ہے کہ غیر اختیاری ہے تو میں لکھتا ہوں تو اس کے درپے کیوں ہو اور اگر کہتا ہے کہ اختیاری ہے تو میں جواب دیتا ہوں کہ پھر ہم سے کیوں پوچھتے ہو اختیار سے کام لو ـ بس مناقشہ ختم ہو جاتا ہے اس لۓ میں کہتا ہوں کہ یہ اختیاری اور غیر اختیاری کا مسئلہ نصف سلوک ہے ـ بلکہ اگر نظر عمیق سے دیکھا جاۓ تو کل سلوک کہنا بھی میرے نزدیک بے جا نہ ہو گاـ
