ملفوظ 489: توجہ کے طالب ایک مولوی صاحب کی درخواست معافی ایک صاحب نے عرض کیا کہ حضرت مولوی صاحب بہت ہی پریشان ہیں – مجھ سے فرماتے تھے کہ میں نے حضرت سے یہ عرض کیا تھا کہ توجہ وغیرہ کا جو بزرگوں میں معمول ہے وہ ہم جیسے ضعفاء کے لیے بہت ہی مناسب ہے حضرت نے اس پر یہ فرمایا کہ اگر آپ کی رائے میں یہ ایسی نافع چیز ہے اور مجھ میں یہ قوت نہیں – تو کسی اور جگہ سے حاصل کریں –
اب مولوی صاحب میرے ذریعے سے معافی کے خوستگار ہیں اور یہ عرض کر رہے ہیں کہ مجھ سے غلطی ہوئی – میں نے ایسی بات حضرت سے کیوں عرض کی فرمایا آپ نے ہی گر ماری ہے آپ ہی نکالیں میری طرف سے کہہ دیجئے گا کہ مجھ پر ذرہ برابر ان کے اس کہنے سے گراں نہیں ہوئی انکو مطمئن فرما دیجئے گا کہ اس کا قلب میں وسوسہ بھی نہ لائیں کہ مجھ پر کوئی خلاف کا اثر ہوا توبہ توبہ مگر جب ان پر اس کا قدر اثر ہے تو ان کو ایسی بات کہنی ہی نہیں چاہیے تھی اور جب جب کہی گئی تو جو میرے ذہن میں جواب آیا عرض کر دیا مجھ سے مصالح پرستی تو آتی نہیں – بلکہ مصر کے متعلق تو میرا یہ مذہب ہے کہ جس قدر ان کو پیسا جائے ہنڈیا مزے دار ہو گی – میں نے اس لئے یہ عرض کر دیا تھا کہ حضرت حاجی صاحبؒ فرمایا کرتے تھے کہ بھائی جو کچھ میرے پاس ہے دوستوں کے سامنے پیش کر دیتا ہوں اگر کسی کو اس سے زائد کی ضرورت اور طلب ہو کہیں اور سے حاصل کر لیا جائے – میں اپنا بندہ نہیں بناتا ہوں خدا کا بندہ بناتا ہوں اگر کوئی چیز یہاں سے حاصل نہ ہو کہیں اور سے سہی کام ہونا چاہئیے – حضرت یہ فرمایا کرتے تھے اس ہی قبیل سے میں نے عرض کر دیا تھا – میرے یہاں اس قسم کی باتیں ہیں ہی نہیں آپ کو تو معلوم ہے یہ بھی کہہ دیجئے گا کہ آئندہ ایسی بات سے احتیاط رکھیں اور میرا مسلک تو کھلا ہے اس میں نہ ابہام ہے نہ اخفاء – اس پر اگر کوئی طلب کرے خدمت کرنے کو تیار ہوں –
