دودھ پینے اور پلانے کا بیان

مسئلہ1۔ جب بچہ پیدا ہو تو ماں پر دودھ پلانا واجب ہے۔ البتہ اگر باپ مال دار ہو اور کوئی انا تلاش کر سکے تو دودھ نہ پلانے میں کچھ گناہ بھی نہیں۔

مسئلہ2۔ کسی اور کے لڑکے کو بغیر میاں کی اجازت لیے دودھ پلانا درست نہیں ہاں البتہ اگر کوئی بچہ بھوک کے مارے تڑپتا ہو اور اس کے ضائع ہو جانے کا ڈر ہو تو ایسے وقت بے اجازت بھی دودھ پلا دے۔

مسئلہ3۔ زیادہ سے زیادہ دودھ پلانے کی مدت دو برس ہیں۔ دو سال کے بعد دودھ پلانا حرام ہے بالکل درست نہیں۔

مسئلہ4۔ اگر بچہ کچھ کھانے پینے لگا اور اس وجہ سے دو برس سے پہلے ہی دودھ چھڑا دیا تب بھی کچھ حرج نہیں۔

مسئلہ5۔ جب بچہ نے کسی اور عورت کا دودھ پیا تو وہ عورت اس کی ماں بن گئی۔ اور اس انا کا شوہر جس کے بچہ کا یہ دودھ ہے اس بچہ کا باپ ہو گیا اور اس کی اولاد اس کے دودھ شریکی بھائی بہن ہو گئے اور نکاح حرام ہو گیا اور جو رشتے نسب کے اعتبار سے حرام ہیں وہ رشتے دودھ کے اعتبار سے بھی حرام ہو جاتے ہیں لیکن بہت سے عالموں کے فتوے میں یہ حکم جب ہی ہے کہ بچہ نے دو برس کے اندر ہی اندر دودھ پیا ہو۔ اگر بچہ دو برس کا ہو چکا اس کے بعد کسی عورت کا دودھ پیا تو اس پینے کا کچھ اعتبار نہیں نہ وہ پلانے والی ماں بنی اور نہ اس کی اولاد اس بچہ کے بھائی بہن ہوئے۔ اس لیے اگر آپس میں نکاح کر دیں تو درست ہے لیکن امام اعظم جو بہت بڑے امام ہیں وہ فرماتے ہیں کہ اگر ڈھائی برس کے اندر اندر بھی دودھ پیا ہو تب بھی نکاح درست نہیں۔ البتہ اگر ڈھائی برس کے بعد دودھ پیا ہو تو اس کا بالکل اعتبار نہیں بے کھٹکے سب کے نزدیک نکاح درست ہے۔

مسئلہ6۔ جب بچہ کے حلق میں دودھ چلا گیا تو سب رشتے جو ہم نے اوپر لکھے ہیں حرام ہو گئے چاہے تھوڑا دودھ گیا ہو یا بہت اس کا کچھ اعتبار نہیں۔

مسئلہ7۔ اگر بچہ نے چھاتی سے دودھ نہیں پات بلکہ اس نے اپنا دودھ نکال کر اس کے حلق میں ڈال دیا تو اس سے بھی وہ سب رشتے حرام ہو گئے۔ اسی طرح اگر بچہ کی ناک میں دودھ ڈال دیا تب بھی سب رشتے حرام ہو گئے اور اگر کان میں ڈالا تو اس کا کچھ اعتبار نہیں۔

مسئلہ8۔ اگر عورت کا دودھ پانی میں یا کسی دوا میں ملا کر بچہ کو پلایا تو دیکھو کہ دودھ زیادہ ہے یا پانی یا دونوں برابر۔ اگر دودھ زیادہ ہو یا دونوں برابر ہوں تو جس عورت کا دودھ ہے وہ ماں ہو گئی اور سب رشتے حرام ہو گئے۔ اور اگر پانی یا دوا زیادہ ہے تو اس کا کچھ اعتبار نہیں وہ عورت ماں نہیں بنی۔

مسئلہ9۔ عورت کا دودھ بکری یا گائے کے دودھ میں مل گیا اور بچہ نے کھا لیا تو دیکھو زیادہ کونسا ہے اگر عورت کا دودھ زیادہ یا دونوں برابر ہوں تو سب رشتے حرام ہو گئے اور جس عورت کا دودھ ہے یہ بچہ اس کی اولاد بن گیا۔ اور اگر بکری یا گائے کا دودھ زیادہ ہے تو اس کا کچھ اعتبار نہیں ایسا سمجھیں گے کہ گویا اس نے پیا ہی نہیں۔

مسئلہ10۔ اگر کسی کنواری لڑکی کے دودھ اتر آیا۔ اس کو کسی بچہ نے پی لیا تو اس سے بھی سب رشتے حرام ہو گئے۔

مسئلہ11۔ مردہ عورت کا دودھ دوہ کر کسی بچہ کو پلا دیا۔ تو اس سے بھی سب رشتے حرام ہو گئے۔

مسئلہ12۔ دو لڑکوں نے ایک بکری یا ایک گائے کا دودھ پیا تو اس سے کچھ نہیں ہوتا وہ بھائی بہن نہیں ہوتے۔

مسئلہ13۔ جوان مرد نے اپنی بی بی کا دودھ پیا تو وہ حرام نہیں ہوئی۔ البتہ بہت گناہ ہوا۔ کیونکہ دو برس کے بعد دودھ پینا بالکل حرام ہے۔

مسئلہ14۔ ایک لڑکا ایک لڑکی ہے دونوں نے ایک ہی عورت کا دودھ پیا ہے تو ان میں نکاح نہیں ہو سکتا خواہ ایک ہی زمانہ میں پیا ہو۔ یا ایک نے پہلے دوسرے نے کئی برس کے بعد دونوں کا ایک حکم ہے۔

مسئلہ15۔ ایک لڑکی نے باقر کی بیوی کا دودھ پیا تو اس لڑکی کا نکاح نہ باقر سے ہو سکتا ہے نہ اس کے باپ دادا کے ساتھ نہ باقر کی اولاد کے ساتھ بلکہ باقر کے جو اولاد دوسری بیوی سے ہے اس سے بھی نکاح درست نہیں۔

مسئلہ16۔ عباس نے خدیجہ کا دودھ پیا اور خدیجہ کے شوہر قادر کے ایک دوسری بی بی زینب تھی جس کو طلاق مل چکی ہے تو اب زینب بھی عباس سے نکاح نہیں کر سکتی۔ کیونکہ عباس زینب کے میاں کی اولاد ہے اور میاں کی اولاد سے نکاح درست نہیں۔ اسی طرح اگر عباس اپنی عورت کو چھوڑ دے تو وہ عورت قادر کے ساتھ نکاح نہیں کر سکتی کیونکہ وہ اس کا خسر ہوا۔ اور قادر کی بہن اور عباس کا نکاح نہیں ہوسکتا کیونکہ یہ دونوں پھوپھی بھتیجے ہوئے۔ چاہے وہ قادر کی سگی بہن ہو یا دودھ شریک بہن ہو۔ دونوں کا ایک حکم ہے البتہ عباس کی بہن سے قادر نکاح کر سکتا ہے۔

مسئلہ17۔ عباس کی ایک بہن ساجدہ ہے۔ ساجدہ نے ایک عورت کا دودھ پیا۔ لیکن عباس نے نہیں پیا تو اس دودھ پلانے والی عورت کا نکاح عباس سے ہو سکتا ہے۔

مسئلہ18۔ عباس کے لڑکے نے زاہدہ کا دودھ پیا تو زاہدہ کا نکاح عباس کے ساتھ ہو سکتا ہے۔

مسئلہ19۔ قادر اور ذاکر دو بھائی ہیں۔ اور ذاکر کے ایک دودھ شریکی بہن ہے تو قادر کے ساتھ اس کا نکاح ہو سکتا ہے البتہ ذاکر کے ساتھ نہیں ہو سکتا۔ خوب اچھی طرح سمجھ لو۔ چونکہ اس قسم کے مسئلے مشکل ہیں کہ کم سمجھ میں آتے ہیں اس لیے ہم زیادہ نہیں لکھتے جب کبھی ضرورت پڑے تو کسی سمجھدار بڑے عالم سے سمجھ لینا چاہیے۔

مسئلہ20۔ کسی مرد کا کسی عورت سے رشتہ ہونے لگا۔ پھر ایک عورت آئی اور اس نے کہا کہ میں نے تو ان دونوں کو دودھ پلایا ہے اور سوائے اس عورت کے کوئی اور اس دودھ پینے کو نہیں بیان کرتا تو فقط اس عورت کے کہنے سے دودھ کا رشتہ ثابت نہ ہو گا۔ ان دونوں کا نکاح درست ہے بلکہ جب دو معتبر اور دیندار مرد یا ایک دیندار مرد اور دو دیندار عورتیں دودھ پینے کی گواہی دیں تب اس رشتہ کا ثبوت ہو گا اب البتہ نکاح حرام ہو گیا۔ بے ایسی گواہی کے ثبوت نہ ہو گا لیکن اگر فقط ایک مرد یا ایک عورت کے کہنے سے یا دو تین عورتوں کے کہنے سے دل گواہی دینے لگے کہ یہ سچ کہتی ہوں گی ضرور ایسا ہوا ہو گا تو ایسے وقت نکاح نہ کرنا چاہیے کہ خواہ مخواہ شک میں پڑنے سے کیا فائدہ۔ اور اگر کسی نے کر لیا تب بھی خیر ہو گیا۔

مسئلہ21۔ عورت کا دودھ کسی دوا میں ڈالنا جائز نہیں۔ اور اگر ڈال دیا تو اب اس کا کھانا اور لگانا ناجائز اور حرام ہے۔ اسی طرح دوا کے لیے آنکھ میں یا کان میں دودھ ڈالنا بھی جائز نہیں۔ خلاصہ یہ کہ آدمی کے دودھ سے کسی طرح کا نفع اٹھانا اور اس کو اپنے کام میں لانا درست نہیں۔

بیبیوں میں برابری کرنے کا بیان

مسئلہ1۔ جس کے کئی بیبیاں ہوں تو مرد پر واجب ہے کہ سب کو برابر رکھے جتنا ایک عورت کو دیا ہے دوسری بھی اتنے کی دعویدار ہو سکتی ہے۔ چاہے دونوں کنواری ہوں یا دونوں بیاہی ہوں۔ یا ایک تو کنواری ہو اور دوسری بیاہی بیاہ لایا۔ سب کا ایک حکم ہے۔ اگر ایک کے پاس ایک رات رہا تو دوسری کے پاس بھی ایک رات رہے۔ اس کے پاس دو یا تین راتیں رہا تو اس کے پاس بھی دو یا تین راتیں رہے۔ جتنا مال زیور کپڑے اس کو دیئے اتنے ہی کی دوسری عورت بھی دعویدار ہے۔

مسئلہ2۔ جس کا نیا نکاح ہوا اور جو پرانی ہو چکی دونوں کا حق برابر ہے کچھ فرق نہیں۔

مسئلہ3۔ برابری فقط رات کے رہنے میں ہے دن کے رہنے میں برابری ہونا ضروری نہیں۔ اگر دن میں ایک کے پاس زیادہ رہا اور دوسری کے پاس کم رہا تو کچھ حرج نہیں اور رات میں برابری واجب ہے۔ اگر ایک کے پاس مغرب کے بعد ہی آ گیا اور دوسری کے پاس عشاء کے بعد آیا تو گناہ ہوا۔ البتہ جو شخص رات کو نوکری میں لگا رہتا ہو اور دن کو گھر میں رہتا ہو جیسے چوکیدار پہرہ دار اس کے لیے دن کو برابری کا حکم ہے۔

مسئلہ5۔ مرد چاہے بیمار ہو چاہے تندرست بہرحال رہنے میں برابری کرے۔

مسئلہ6۔ ایک عورت سے زیادہ محبت ہے اور دوسری سے کم تو اس میں کچھ گناہ نہیں۔ چونکہ دل اپنے اختیار میں نہیں ہوتا۔

مسئلہ7۔ سفر میں جاتے وقت برابری واجب نہیں جس کو جی چاہے ساتھ لے جائے اور بہتر یہ ہے کہ نام نکال لے جس کا نام نکلے اس کو لے جائے تاکہ کوئی اپنے جی میں ناخوش نہ ہو۔

کافروں کے نکاح کا بیان

مسئلہ1۔ کافر لوگ اپنے اپنے مذہب کے اعتبار سے جس طریقہ سے نکاح کرتے ہوں شریعت اس کو بھی معتبر رکھتی ہے اور اگر وہ دونوں ساتھ مسلمان ہو جائیں تو اب نکاح دہرانے کی کچھ ضرورت نہیں وہی نکاح اب بھی باقی ہے۔

مسئلہ2۔ اگر دونوں میں سے ایک مسلمان ہو گیا دوسرا نہیں ہوا تو نکاح جاتا رہا۔ اب میاں بی بی کی طرح رہنا سہنا درست ہیں۔

مہر مثل کا بیان

مسئلہ1۔ خاندانی مہر یعنی مہر مثل کا مطلب یہ ہے کہ عورت کے باپ کے گھرانے میں سے کوئی دوسری عورت دیکھو جو اس کے مثل ہو یعنی اگر یہ کم عمر ہے تو وہ بھی نکاح کے وقت کم عمر ہو۔ اگر یہ خوبصورت ہے تو وہ بھی خوبصورت ہو۔ اس کا نکاح کنوارے پن میں ہوا اور اس کا نکاح بھی کنوارے پن میں ہوا ہو۔ نکاح کے وقت جتنی مالدار یہ ہے اتنی ہی وہ بھی تھی۔ جس کی یہ رہنے والی ہے اسی دیس کی وہ بھی ہے۔ اگر یہ دیندار ہوشیار سلیقہ دار پڑھی لکھی ہے تو وہ بھی ایسی ہی ہو۔ غرض جس وقت اس کا نکاح ہوا ہے اس وقت ان باتوں میں وہ بھی اسی کے مثل تھی جس کا اب نکاح ہوا۔ تو جو مہر اس کا مقرر ہوا تھا وہی اس کا مہر مثل ہے۔

مسئلہ2۔ باپ کے گھرانے کی عورتوں سے مراد جیسے اس کی بہن پھوپھی۔ چچا زاد بہن وغیرہ یعنی اس کی دادھیالی لڑکیاں۔ مہر مثل کے دیکھنے میں ماں کا مہر نہ دیکھیں گے ہاں اگر ماں بھی باپ ہی کے گھرانے میں سے ہو جیسے باپ نے اپنے چچا کی لڑکی سے نکاح کر لیا تھا تو اس کا مہر بھی مہر مثل کہا جائے گا۔

ولی کا بیان

لڑکی اور لڑکے کے نکاح کرنے کا جس کو اختیار ہوتا ہے اس کو ولی کہتے ہیں

مسئلہ1۔ لڑکی اور لڑکے کا ولی سب سے پہلے اس کا باپ ہے۔ اگر باپ نہ ہو تو دادا۔ وہ نہ ہو تو پردادا۔ اگر یہ لوگ کوئی نہ ہوں تو سگا بھائی۔ سگا بھائی نہ ہو تو سوتیلا بھائی یعنی باپ شریک بھائی پھر بھتیجا پھر بھتیجے کا لڑکا پھر بھتیجے کا پوتا یہ لوگ نہ ہوں تو سگا چچا پھر سوتیلا چچا یعنی باپ کا سوتیلا بھائی پھر سگے چچا کا لڑکا پھر اس کا پوتا پھر سوتیلے چچا کا لڑکا پھر اس کا پوتا۔ یہ کوئی نہ ہوں تو باپ کا چچا ولی ہے۔ پھر اس کی اولاد۔ اگر باپ کا چچا اور اس کے لڑکے پوتے پڑپوتے کوئی نہ ہوں تو دادا کا چچا پھر اس کے لڑکے پوتے پھر پڑپوتے وغیرہ۔ یہ کوئی نہ ہوں تب ماں ولی ہے پھر دادی پھر نانی پھر نانا پھر حقیقی بہن پھر سوتیلی بہن جو باپ شریک ہو۔ پھر جو بھائی بہن ماں شریک ہوں۔ پھر پھوپھی۔ پھر ماموں پھر خالہ وغیرہ۔

مسئلہ2۔ نابالغ شخص کسی کا ولی نہیں ہو سکتا۔ اور کافر کسی مسلمان کا ولی نہیں ہو سکتا۔ اور مجنون پاگل بھی کسی کا ولی نہیں ہے۔

مسئلہ3۔ بالغ یعنی جوان عورت خود مختار ہے چاہے نکاح کرے چاہے نہ کرے۔ اور جس کے ساتھ جی چاہے کرے کوئی شخص اس پر زبردستی نہیں کر سکتا۔ اگر وہ خود اپنا نکاح کسی سے کر لے تو نکاح ہو جائے گا۔ چاہے ولی کو خبر ہو چاہے نہ ہو۔ اور ولی چاہے خوش ہو یا ناخوش ہر طرح نکاح درست ہے۔ ہاں البتہ اگر اپنے میل میں نکاح نہیں کیا اپنے سے کم ذات والے سے نکاح کر لیا اور ولی خوش ہے فتوی اس پر ہے کہ نکاح درست نہ ہو گا۔ اور اگر نکاح تو اپنے میل ہی میں کیا لیکن جتنا مہر اس کے دادھیالی خاندان میں باندھا جاتا ہے جس کو شرع میں مہر مثل کہتے ہیں اس سے بہت کم پر نکاح کر لیا تو ان صورتوں میں نکاح تو ہو گیا لیکن اس کا ولی اس نکاح کو توڑوا سکتا ہے۔ مسلمان حاکم کے پاس فریاد کرے وہ نکاح توڑ دے۔ لیکن اس فریاد کا حق اس ولی کو ہے جس کا ذکر ماں سے پہلے آیا ہے۔ یعنی باپ سے لے کر دادا کے چچا کے بیٹوں پوتوں تک۔

مسئلہ4۔ کسی ولی نے جوان لڑکی کا نکاح بے اس سے پوچھے اور اجازت لیے کر دیا تو وہ نکاح اس کی جازت پر موقوف ہے۔ اگروہ لڑکی اجازت دے تو نکاح ہو گیا اور اگر وہ راضی نہ ہو اور اجازت نہ دے تو نہیں ہوا۔ اور اجازت کا طریقہ آگے آتا ہے۔

مسئلہ5۔ جوان کنواری لڑکی سے ولی نے کہا کہ میں تمہارا نکاح فلانے کے ساتھ کیے دیتا ہوں یا کر دیا ہے اس پر وہ چپ ہو رہی یا مسکرا دی یا رونے لگی تو بس ہی اجازت ہے۔ اب وہ ولی نکاح کر دے تو صحیح ہو جائے گا۔ یا کر چکا تھا تو صحیح ہو گیا۔ یہ بات نہیں ہے کہ جب زبان سے کہے تب ہی اجازت سمجھی جائے۔ جو لوگ زبردستی کر کے زبان سے قبول کراتے ہیں برا کرتے ہیں۔

مسئلہ6۔ ولی نے اجازت لیتے وقت شوہر کا نام نہیں لیا نہ اس کو پہلے سے معلوم ہے تو ایسے وقت چپ رہنے سے رضا مندی ثابت نہ ہو گی اور اجازت نہ سمجھیں گے بلکہ نام و نشان بتلانا ضروری ہے جس سے لڑکی اتنا سمجھ جائے کہ یہ فلانا شخص ہے۔ اسی طرح اگر مہر نہیں بتلایا اور مہر مثل سے بہت کم پر نکاح پڑھ دیا تو بدون اجازت عورت کے نکاح نہ ہو گا۔ اس کے لیے قاعدہ کے موافق پھر اجازت لینی چاہیے۔

مسئلہ7۔ اگر وہ لڑکی کنواری نہیں ہے بلکہ ایک نکاح پہلے ہو چکا ہے یہ دوسرا نکاح ہے اس سے اس کے ولی نے اجازت لی اور پوچھا تو فقط چپ رہنے سے اجازت نہ ہو گی بلکہ زبان سے کہنا چاہیے اگر اس نے زبان سے نہیں کہا فقط چپ رہنے کی وجہ سے ولی نے نکاح کر دیا تو نکاح موقوف رہا بعد میں اگر وہ زبان سے منظور کر لے تو نکاح ہو گیا۔ اور اگر منظور نہ کرے تو نہیں ہوا۔

مسئلہ8۔ باپ کے ہوتے ہوئے چچا یا بھائی وغیرہ کسی اور ولی نے کنواری لڑکی سے اجازت مانگی تو اب فقط چپ رہنے سے اجازت نہ ہو گی بلکہ زبان سے اجازت دے دے تب اجازت ہو گی۔ ہاں اگر باپ ہی نے ان کو اجازت لینے کے واسطے بھیجا ہو تو فقط چھپ رہنے سے اجازت ہو جائے گی۔ خلاصہ یہ ہے کہ جو ولی سب سے مقدم ہو اور شرع سے اسی کو پوچھنے کا حق ہو۔ جب وہ خود یا اس کا بھیجا ہوا آدمی اجازت لے تب چپ رہنے سے اجازت نہ ہو گی۔

مسئلہ9۔ ولی نے بے پوچھے اور بے اجازت لیے نکاح کر دیا۔ پھر نکاح کے بعد خود ولی نے یا اس کے بھیجے ہوئے کسی آدمی نے آ کر خبر کر دی کہ تمہارا نکاح فلانے کے ساتھ کر دیا گیا۔ تو اس صورت میں بھی چھپ رہنے سے اجازت ہو جائے گی اور نکاح صحیح ہو جائے گا۔ اور اگر کسی نے خبر دی تو اگر وہ خبر دینے والا نیک معتبر آدمی ہے یا وہ شخص ہیں تب بھی چھپ رہنے سے نکاح صحیح ہو جائے گا۔ اور اگر خبر دینے والا ایک شخص اور غیر معتبر ہے تو چپ رہنے سے نکاح صحیح نہ ہو گا بلکہ موقوف رہے گا۔ جب زبان سے اجازت دے دے یا کوئی اور ایسی بات پائی جائے جس سے اجازت سمجھ لی جائے تب نکاح صحیح ہو گا

مسئلہ11۔ یہی حکم لڑکے کا ہے کہ اگر جوان ہو تو اس پر زبردستی نہیں کرسکتے اور ولی بے اس کی اجازت کے نکاح نہیں کر سکتا اگر بے پوچھے نکاح کر دے گا تو اجازت پر موقوف رہے گا۔ اگر اجازت دے دی تو ہو گیا نہیں تو نہیں ہوا۔ البتہ اتنا فرق ہے کہ لڑکے کے فقط چپ رہنے سے اجازت نہیں ہوتی۔ زبان سے کہنا اور بولنا چاہیے۔

مسئلہ12۔ اگر لڑکی یا لڑکا نابالغ ہو تو وہ خود مختار نہیں ہے۔ بغیر ولی کے اس کا نکاح نہیں ہوتا۔ اگر اس نے بے ولی کے اپنا نکاح کر لیا یا کسی اور نے کر دیا تو ولی کہ اجازت پر موقوف ہے اگر ولی اجازت دے گا تو نکاح ہو گا نہیں تو نہ ہو گا۔ اور ولی کو اس کے نکاح کرنے نہ کرنے کا پورا اختیار ہے۔ جس سے چاہے کر دے۔ نابالغ لڑکی اور لڑکے اس نکاح کو اس وقت رد نہیں کر سکتے چاہے وہ نابالغ لڑکی کنواری ہو یا پہلے کوئی اور نکاح ہو چکا ہو اور رخصتی بھی ہو چکی ہو۔ دونوں کا ایک حکم ہے۔

مسئلہ13۔ نابالغ لڑکی یا لڑکے کا نکاح اگر باپ نے یا دادا نے کیا ہے تو جوان ہونے کے بعد بھی اس نکاح کو رد نہیں کر سکتے۔ چاہے اپنے میل میں کیا ہو یا بے میل کم ذات والے سے کر دیا ہو۔ اور چاہے مہر مثل پر نکاح کیا ہو یا اس سے بہت کم پر نکاح کر دیا ہو ہر طرح نکاح صحیح ہے اور جوان ہونے کے بعد بھی وہ کچھ نہیں کر سکتے۔

مسئلہ14۔ اور اگر باپ دادا کے سوا کسی اور ولی نے نکاح کیا ہے اور جس کے ساتھ نکاح کیا ہے وہ لڑکا ذات میں برابر درجہ کا بھی ہے اور مہر بھی مہر مثل مقرر کیا ہے۔ اس صورت میں اس وقت تو نکاح صحیح ہو جائے گا لیکن جوان ہونے کے بعد ان کو اختیار ہے چاہے اس نکاح کو باقی رکھیں چاہے مسلمان حاکم کے پاس نالش کر کے توڑ ڈالیں اور اگر اس ولی نے لڑکی کا نکاح کم ذات والے مرد سے کر دیا۔ یا مہر مثل سے بہت کم پر نکاح کر دیا ہے یا لڑکے کا نکاح جس عورت سے کیا ہے اس کا مہر اس عورت کر مہر مثل سے بہت زیادہ مقرر کر دیا تو وہ نکاح نہیں ہوا

نوٹ۔ مسئلہ نمبر15،و نمبر 16ص 53 پر درج کئے گئے۔

مسئلہ17۔ قاعدے سے جس ولی کو نابالغہ کے نکاح کرنے کا حق ہے وہ پردیس میں ہے اور اتنی دور ہے کہ اگر اس کا انتظار کریں اور اس سے مشورہ لیں تو یہ موقع ہاتھ سے جاتا رہے گا اور پیغام دینے والا اتنا انتظار نہ کرے گا اور پھر ایسی جگہ مشکل سے ملے گی۔ تو ایسی صورت میں اس کے بعد والا ولی بھی نکاح کر سکتا ہے۔ اگر اس نے بے اس کے پوچھے نکاح کر دیا تو نکاح ہو گیا۔ اور اگر اتنی دور نہ ہو تو بغیر اس کی رائے لیے دوسرے ولی کو نکاح نہ کرنا چاہیے۔ اگر کرے گا تو اسی ولی کی اجازت پر موقوف رہے گا جب وہ اجازت دے گا تب صحیح ہو گا۔

مسئلہ18۔ اسی طرح اگر حقدار ولی کے ہوتے دوسرے ولی نے نابالغ کا نکاح کر دیا جیسے حق تو تھا باپ کا اور نکاح کر دیا دادا نے اور باپ سے بالکل رائے نہیں لی تو وہ نکاح باپ کی اجازت پر موقوف رہے گا یا حق تو تھا بھائی کا اور نکاح کر دیا چچا نے بھائی کی اجازت پر موقوف ہے۔

مسئلہ19۔ کوئی عورت پاگل ہو گئی اور عقل جاتی رہی اور اس کا جو اب لڑکا بھی موجود ہے اور باپ بھی ہے۔ اس کا نکاح کرنا اگر منظور ہو تو اس کا ولی لڑا ہے کیونکہ ولی ہونے میں لڑکا باپ سے بھی مقدم ہے۔

مہر کا بیان

مسئلہ1۔ نکاح میں چاہے مہر کا کچھ ذکر کرے چاہے نہ کرے ہر حال میں نکاح ہو جائے گا۔ لیکن مہر دینا پڑے گا بلکہ اگر کوئی یہ شرط کر لے کہ ہم مہر نہ دیں گے بے مہر کا نکاح کرتے ہیں تب بھی مہر دینا پڑے گا۔

مسئلہ2۔ کم سے کم مہر کی مقدار تخمینا پونے تین روپے بھر چاندی ہے اور زیادہ کی کوئی حد نہیں چاہے جتنا مقرر کرے لیکن مہر کا بہت بڑھانا اچھا نہیں۔ سو اگر کسی نے فقط ایک روپیہ بھر چاندی یا ایک روپیہ یا ایک اٹھنی مہر مقرر کر کے نکاح کیا تب بھی پونے تین روپے بھر چاندی دینی پڑے گی شریعت میں اس سے کم مہر نہیں ہو سکتا۔ اور اگر رخصتی سے پہلے ہی طلاق دے دے تو اس کا آدھا دے۔

مسئلہ7۔ اگر نکاح کے وقت مہر کا بالکل ذکر ہی نہیں کیا گیا کہ کتنا ہے یا اس شرط پر نکاح کیا کہ بغیر مہر کے نکاح کرتا ہوں کچھ مہر نہ دوں گا۔ پھر دونوں میں سے کوئی مر گیا یا ویسی تنہائی و یکجائی ہو گئی جو شرع میں معتبر ہے تب بھی مہر دلایا جائے گا اور اس صورت میں مہر مثل دینا ہو گا۔ اور اگر اس صورت میں ویسی تنہائی سے پہلے مرد نے طلاق دے دی تو مہر پانے کی مستحق نہیں ہے بلکہ فقط ایک جوڑا کپڑا پائے گی اور یہ جوڑا دینا مرد پر واجب ہے نہ دے گا تو گنہگار ہو گا۔

مسئلہ8۔ جوڑے میں فقط چار کپڑے مرد پر واجب ہیں ایک کرتہ ایک سربند یعنی اوڑھنی ایک پائجامہ یا ساڑھی جس چیز کا دستور ہے۔ ایک بڑی چادر جس میں سر سے پیر تک لپٹ سکے اس کے سوا اور کوئی کپڑا واجب نہیں۔

مسئلہ9۔ مرد کی جیسی حیثیت ہو ویسے کپڑے دینا چاہیے۔ اگر معمولی غریب آدمی ہو تو سوتی کپڑے اور اگر بہت غریب آدمی نہیں لیکن بہت امیر بھی نہیں تو ٹسرکے۔ اور جو بہت امیر کبیر ہو تو عمدہ ریشمی کپڑے دینا چاہیے لیکن بہرحال اس میں یہ خیال رہے کہ اس جوڑے کی قیمت مہر مثل کے آدھے سے نہ بڑھے اور ایک روپیہ چھ آنے یعنی ایک روپیہ اور ایک چونی اور ایک دونی بھر چاندی کے جتنے دام ہوں اس سے کم قیمت بھی نہ ہو۔ یعنی بہت قیمتی کپڑے جن کی قیمت مہر مثل کے آدھے سے بڑھ جائے مرد پر واجب نہیں۔ یوں اپنی خوشی سے اگر وہ بہت قیمتی اس سے زیادہ بڑھیا کپڑے دے دے تو اور بات ہے۔

مسئلہ10۔ نکاح کے وقت تو کچھ مہر مقرر نہیں کیا گیا لیکن نکاح کے بعد میاں بی بی دونوں نے اپنی خوشی سے کچھ مقرر کر لیا تو اب مہر مثل نہ دلایا جائے گا بلکہ دونوں نے اپنی خوشی سے جتنا مقرر کر لیا ہے وہی دلایا جائے گا۔ البتہ اگر ویسی تنہائی و یکجائی ہونے سے پہلے ہی طلاق مل گئی تو اس صورت میں مہر پانے کی مستحق نہیں ہے بلکہ صرف وہی جوڑا کپڑا ملے گا جس کا بیان اوپر ہو چکا ہے۔

مسئلہ11۔ سو روپے یا ہزار روپے اپنی حیثیت کے موافق مہر مقرر کیا۔ پھر شوہر نے اپنی خوشی سے کچھ مہر اور بڑھا دیا اور کہا کہ ہم سو روپے کی جگہ ڈیڑھ سو دے دیں گے تو جتنے روپے زیادہ دینے کو کہے اس میں وہ بھی واجب ہو گئے نہ دے گا تو گنہگار ہو گا۔ اور اگر ویسی تنہائی و یکجائی سے پہلے طلاق ہو گئی تو جس قدر اصل مہر تھا اسی کا آدھا دیا جائے گا جتنا بعد میں بڑھایا تھا اس کو شمار نہ کریں گے۔ اسی طرح عورت نے اپنی خوشی و رضامندی سے اگر کچھ مہر معاف کر دیا تو جتنا معاف کیا ہے اتنا معاف ہو گیا۔ اور اگر پورا معاف کر دیا تو پورا مہر معاف ہو گیا۔ اب اس کے پانے کی مستحق نہیں ہے۔

مسئلہ12۔ اگر شوہر نے کچھ دباؤ ڈال کر دھمکا کر دق کر کے معاف کر لیا تو اس معاف کرانے سے معاف نہیں ہوا۔ اب بھی اس کے ذمہ ادا کرنا واجب ہے۔

مسئلہ13۔ مہر میں روپیہ پیسہ سونا چاندی کچھ مقرر نہیں کیا بلکہ کوئی گاؤں یا کوئی باغ یا کچھ زمین مقرر ہوئی تو یہ بھی درست ہے۔ جو باغ وغیرہ مقرر کیا ہے وہی دینا پڑے گا۔

مسئلہ14۔ مہر میں کوئی گھوڑا یا ہاتھی یا اور کوئی جانور مقرر کیا لیکن یہ مقرر نہیں کیا کہ فلانا گھوڑا دوں گا یہ بھی درست ہے۔ ایک منجھولا گھوڑا جو نہ بہت بڑھیا ہو نہ بہت گھٹیا دینا چاہیے یا اس کی قیمت دے دے۔ البتہ اگر فقط اتنا ہی کہا کہ ایک جانور دے دوں گا۔ اور یہ نہیں بتلایا کہ کون سا جانور دوں گا تو یہ مہر مقرر کرنا صحیح نہیں ہوا۔ مہر مثل دینا پڑے گا۔

مسئلہ17۔ جہاں کہیں پہلی ہی رات کو سب مہر دے دینے کا دستور ہو وہاں اول ہی رات سارا مہر لے لینے کا عورت کو اختیار ہے۔ اگر اول رات نہ مانگا تو جب مانگے تب مرد کو دینا واجب ہے دیر نہ کر سکتا۔

مسئلہ18۔ ہندوستان میں دستور ہے کہ مہر کا لین دین طلاق کے بعد مر جانے کے بعد ہوتا ہے کہ جب طلاق مل جاتی ہے تب مہر کا دعوی کرتی ہے یا مرد مر گیا اور کچھ مال چھوڑ گیا تو اس مال میں سے لے لیتی ہے۔ اور اگر عورت مر گئی تو اس کے وارث مہر کے دعویدار ہوتے ہیں۔ اور جب تک میاں بی بی ساتھ رہتے ہیں تب تک نہ کوئی دیتا ہے نہ وہ مانگتی ہے تو ایسی جگہ اس دستور کی وجہ سے طلاق ملنے سے پہلے مہر کا دعوی نہیں کر سکتی۔ البتہ پہلی رات کو جتنے مہر کے پیشگی دینے کا دستور ہے اتنا مہر پہلے دینا واجب ہے ہاں اگر کسی قوم میں یہ دستور نہ ہو تو اس کا یہ حکم نہ ہو گا

مسئلہ20۔ مہر کی نیت سے شوہر نے کچھ دیا تو جتنا دیا ہے اتنا مہر ادا ہو گیا۔ دیتے وقت عورت سے یہ بتلانا ضروری نہیں ہے کہ میں مہر دے رہا ہوں۔

مسئلہ21۔ مرد نے کچھ دیا لیکن عورت تو کہتی ہے کہ یہ چیز تم نے مجھ کو یوں ہی دی۔ مہر میں نہیں دی اور مرد کہتا ہے کہ یہ میں نے مہر میں دیا ہے تو مرد ہی کی بات کا اعتبار کیا جائے گا۔ البتہ اگر کھانے پینے کی کوئی چیز تھی تو اس کو مہر میں نہ سمجھیں گے اور مرد کی اس بات کا اعتبار نہ کریں گے۔

حج کی فضیلت کا بیان

حدیث میں ہے کہ ملائکہ مصافحہ کرتے ہیں ان حاجیوں سے جو سواری پر جاتے ہیں اور معانقہ کرتے ہیں ان حاجیوں سے جو پیدل جاتے ہیں۔ حدیث میں ہے کہ سوار حاجی کے لیے ہر قدم پر کہ جس کو اس کی اونٹنی طے کرتی ہے اونٹنی ہو یا کوئی دوسری سواری ہو سب کا یہی حکم ہے ستر نیکیاں یعنی ستر نیکیوں کا ثواب لکھا جاتا ہے۔ اور پیدل حاجی کے لیے ہر قدم پر جس کو وہ طے کرتا ہے سات سو نیکیاں لکھی جاتی ہیں یعنی پیدل چلنے والے کو ہر قدم پر سات سو نیکیوں کا ثواب ملتا ہے۔ حدیث میں ہے کہ حج کرنے والے اور جہاد کرنے والے اللہ عزوجل کے مہمان ہیں اگر اس سے یعنی اللہ سے دعا کریں تو ان کی دعا قبول فرمائے اگر اس سے مغفرت طلب کریں تو ان کو بخش دے۔ حدیث میں ہے کہ حج کرنے والا چار سو آدمیوں کی اپنے اہل قرابت میں سے قیامت کے روز شفاعت کرے گا۔ اور وہ پاک ہو جاتا ہے اپنے گناہوں سے اس طرح جیسا کہ اس کا بدن پاک تھا جس دن کے اس کو اس کی ماں نے جنا تھا بشرطیکہ حج قبول ہو جائے پس چاہیے کہ ایسی بڑی نعمت کو حلال روپیہ صرف کر کے اور عمدہ طور پر اس کے احکام بجا لا کر حاصل کرے۔ اے اللہ مجھ کو بھی ایسا ہی حج نصیب فرما۔ آمین۔ اور معافی سے یہ مراد نہیں ہے کہ جو اعمال ایسے فوت ہو گئے تھے جن کی قضا ادا کر سکتا ہے یا اس پر قرض ہے ان سے بھی سبکدوش ہو گیا ان کی تو قضا کرنا ضرور ہے اس لیے کہ یہ حقوق ہیں گناہ نہیں ہیں۔ حدیث میں ہے جو حج کرے مال حرام سے پس کہے لبیک اللہ لبیک یہ دعا ہے جو حج میں پڑھی جاتی ہے۔

یعنی تیری تابعداری میں حاضر ہوں اے اللہ میں تیری تابعداری میں حاضر ہوں فرماتا ہے اللہ عز و جل لالبیک ولا سعدیک وحجک مردود علیک یعنی نہ تیری لبیک قبول ہے اور نہ سعدیک قبول ہے اور تیرا حج تیرے منہ پر مارا گیا مطلب یہ ہے کہ تو ہماری اطاعت میں حاضر نہیں ہے اس لیے کہ ہماری اطاعت میں حاضر ہوتا تو مال حلال خرچ کر کے آتا اور تیرا حج ہمارے عالی اور پاک دربار میں نجس مال کی وجہ سے مقبول نہیں اور اس کا پورا ثواب نہ ملے گا گو فرض ادا ہو جائے گا۔ حدیث میں ہے کہ جب تو حاجی سے ملے تو اس کو سلام کر اور اس سے مصافحہ کر اور اس سے درخواست کر اس بات کی کہ وہ تیرے لیے مغفرت کی دعا کرے اس سے پہلے کہ وہ اپنے مکان میں داخل ہو۔ اس لیے کہ اس کے گناہ بخش دیئے گے پس وہ مقبول بارگاہ الٰہی ہے اس کی دعا مقبول ہونے کی خاص طور پر امید ہے اور جو دعا چاہے اس سے وہ دعا کرائے دن کی یا دنیا کی مگر اس کے مکان میں پہنچنے سے پہلے

خیرات کرنے کے ثواب کا بیان

حدیث میں ہے کہ سخاوت اللہ پاک کی بہت بڑی عادت ہے یعنی حق تعالی بہت بڑے سخی ہیں۔ حدیث میں ہے کہ تحقیق بندہ صدقہ کرتا ہے روٹی کا ٹکڑا پھر وہ بڑھتا ہے اللہ کے نزدیک یہاں تک کہ ہو جاتا ہے مثل احد پہاڑ کے یعنی اللہ پاک اس کا ثواب بڑھاتے ہیں اور اس قدر ثواب بڑھ جاتا ہے جیسے کہ احد کی برابر خرچ کرتا اور اس کا ثواب اس کو ملتا۔ لہذا تھوڑے بہت کا خیال نہ چاہیے جو کچھ میسر ہو خیرات کر دے۔ حدیث میں ہے کہ دوزخ سے بچو اگرچہ ایک چھوارے کا ٹکڑا ہی دے کر یعنی اگرچہ تھوڑی ہی چیز ہو اس کو خیرات کرو اور یہ خیال نہ کرو تھوڑی سی چیز کیا خیرات کریں یہ بھی ذریعہ بن جائے گی دوزخ سے نجات حاصل کرنے کا۔ حدیث میں ہے روزی طلب کرو اللہ سے صدقہ کے ذریعہ سے یعنی خیرات کرو اس کی برکت سے روزی میں ترقی ہو گی۔ حدیث میں ہے کہ احسان کے کام بری ہلاکتوں سے بچاتے ہیں اور پوشیدہ خیرات دینا اللہ تعالی کے غصہ کو بجھاتا ہے۔ اور اہل قرابت سے سلوک کرنا عمر بڑھاتا ہے اگر نیک کام کرتے دیکھ کر دوسرے کو رغبت ہو تو ایسے موقع پر اس کام کا ظاہر طور پر کرنا بہتر ہے اور جو یہ امید نہ ہو تو خفیہ کرنا افضل ہے بشرطیکہ کوئی اور بھی خاص وجہ خفیہ یا ظاہر کرنے کی نہ ہو۔ حدیث میں ہے کہ سائل کا حق ہے اس پر جس سے کہ وہ سوال کرے اگرچہ وہ گھوڑے پر سوار آوے۔ یعنی اگر گھوڑے کا سوار سوال کرے اس کو بھی دینا چاہیے اس لیے کہ ایسا شخص بظاہر کسی مجبوری سے سوال کرے گا یہ خیال نہ کرے کہ اس کے پاس تو گھوڑا ہے سو یہ کیسے محتاج ہو سکتا ہے پھر ہم اس کو کیوں دیں ہاں اگر کسی قوم قرینہ سے معلوم ہو جائے کہ یہ شخص حقیقت میں محتاج نہیں ہے بلکہ اس نے کھانے کمانے کا یہی پیشہ کر لیا ہے کہ بھیک مانگتا ہے تو ایسے شخص کو خیرات دینا حرام ہے اور اس کو مانگنا بھی حرام ہے خوب سمجھ لو۔

حدیث میں ہے کہ اللہ تعالی کریم ہے اور کرم کو پسند کرتا ہے اور دوست رکھتا ہے عالی اخلاق کو یعنی ہمت کے نیک کاموں کو جیسے خیرات کرنا ذلت سے بچنا دوسرے کی وجہ سے اپنی ذات پر تکلیف برداشت کرنا وغیرہ اور ناپسند کرتا ہے حقیر اخلاق و عادتوں کو جیسے پست ہمتی دینی امور ہیں۔ حدیث میں ہے کہ بے شک صدقہ بجھاتا ہے اپنے اہل سے یعنی صدقہ کرنے والے سے گرمی قبر کی اور ضرور یہی بات ہے کہ سایہ حاصل کرے گا مسلمان اپنے صدقہ کے سایہ میں قیامت کے روز یعنی صدقہ کی برکت سے قبر کی گرمی دور ہوتی ہے اور قامت کے دن سایہ میسر ہو گا۔ حدیث میں ہے کہ تحقیق اللہ تعالی کے خاص بندے ہیں جن کو اس نے خاص کیا ہے لوگوں کی حاجتوں کے پورا کرنے کے لیے اور مضطر ہوتے ہیں ان کی طرف لوگ اپنی حاجتوں میں یعنی لوگ مجبور ہو کر ان کے پاس جاتے ہیں اور حق جل شانہ نے ان حضرات کو لوگوں کی نفع رسانی کے لیے منتخب فرما لیا ہے یہ لوگ حاجتوں کے پورا کرنے والے امن پانے والے ہیں۔ اللہ کے عذب سے۔ حدیث میں ہے کہ خرچ کر اے بلال اور مت اندیشہ کر عرش کے مالک سے کمی کا یعنی مناسب موقعوں پر خوب خرچ کرو اور تنگی کا اندیشہ حق تعالی سے نہ کرو اور اس جگہ عرش کی ملکیت اللہ تعالی کی خاص طور پر فرمائی گئی اگرچہ وہ تمام چیزوں کا مالک ہے سو یہ خصوصیت اس لیے فرمائی گئی کہ عرش نہایت عظیم الشان مخلوق ہے پس اس کو ذکر میں خاص کیا اور بتلا دیا کہ جس ذات کے قبضہ و تحت میں ایسی عظیم الشان چیز ہے اور وہ ایسی بڑی چیز کا مالک ہے تو اس سے تنگی کا اندیشہ نہ چاہیے۔ کیا یہ گمان ہو سکتا ہے کہ ایسا بادشاہ اپنے کسی بندے کو دو روٹی نہ دے گا ہرگز یہ گمان نہیں ہو سکتا اور اس حدیث کا یہ مطلب نہیں ہے کہ بے حد ہر شخص خرچ کر ڈالے اور پھر پریشان ہو اور گھبرائے۔

غرض یہ ہے کہ جو لوگ دل کے پختہ ہیں اور صبر کی ان میں پوری قوت ہے تو وہ جس قدر چاہیں نیک کاموں میں صرف کریں کیونکہ وہ تکلیف سے پریشان نہیں ہوتے اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ جو قسمت میں لکھا ہے وہ تو ہم کو ضرور ملے گا خیرات سے کمی نہ ہو گی بلکہ برکت ہو گی تو ایسی ہمت کی حالت میں بشرطیکہ کسی کی حق تلفی بھی نہ ہو ان کو اجازت ہے اور ان کے لیے یہی اچھا ہے کہ ہر طرح کے نیک کاموں میں خوب صرف کریں۔ اور جن کا دل کمزور ہے صبر کی ان میں قوت کم ہے آج خرچ کر دیں گے کل کو تنگی سے پریشان ہوں گے دل ڈاواں ڈول ہو گا اور نیت خراب ہو گی تو ایسے لوگ فقط ضروری موقعوں پر جیسے زکوٰۃ و صدقہ فطر وغیرہ اور مروت کے موقعوں پر صرف کریں اس سے کمی نہ کریں خوب سمجھ لو۔

حضرت سیدنا ابوبکر صدیق خلیفہ اول جناب رسول مقبول علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک بار حضور کی خدمت میں تمام مال چندہ اسلامی میں پیش کر دیا۔ حضور نے فرمایا کہ کچھ گھر بھی باقی رکھا ہے یا نہیں۔ عرض کیا گھر تو اللہ و رسول کا نام چھوڑ آیا ہوں اور بس۔ آپ نے وہ تمام مال قبول کر لیا۔ کیونکہ حضرت خلیفہ اول نہایت دل کے پختہ اور با ہمت اور اعلی درجہ کے خدا تعالی کی راہ میں مال و جان نثار کرنے والے تھے ان سے یہ اندیشہ نہ تھا کہ پریشان ہوں گے اور ایک دوسرے صحابی رضی اللہ عنہ نے تھوڑا سا سونا اللہ کی راہ میں پیش کیا۔ آپ نے قبول نہ فرمایا اس وجہ سے کہ وہ کمزور دل کے تھے۔ اور اس قدر باہمت نہ تھے جیسے کہ حضرت ابوبکر تھے خوب سمجھ لو۔ حدیث میں ہے کہ ایک سائل ایک عورت کے پاس اس حالت میں آیا کہ اس عورت کے منہ میں لقمہ تھا سو اس عورت نے وہ لقمہ منہ سے نکالا اور اس سائل کو دے دیا اس کے پاس اور کچھ دینے کو نہ تھا اس لیے ایسا کیا پھر تھوڑی ہی مدت میں ایک لڑکا اس عورت کے پیدا ہوا۔ پھر جب وہ لڑکا کچھ بڑا ہوا تو ایک بھیڑیا یا اور اس کو اٹھا لے گیا پس نکلی وہ عورت دوڑتی ہوئی بھیڑئیے کے پیچھے اور کہتی ہوئی میرا بیٹا میرا بیٹا میرے بیٹے کو بھیڑیا لیے جاتا ہے جو مدد کر سکے اس کی مدد کرے۔ سو حکم فرمایا اللہ تعالی نے ایک فرشتے کو کہ بھیڑیئے کے پاس جا اور لڑکے کو اس کے منہ سے چھڑا لے اور فرمایا حق عز شانہ نے فرشتے سے اس کی ماں سے کہہ کہ اللہ تجھ کو سلام فرماتا ہے اور یہ بھی کہ یہ لقمہ بدلہ اس لقمہ کا ہے دیکھو صدقہ کی یہ برکت ہوئی کہ لڑکا جان سے بچ گیا اور ثواب بھی ہوا۔ خوب صدقہ کیا کرو تاکہ دین و دنیا میں چین سے رہو۔

حدیث میں ہے کہ نیکی کی جگہ بتلانے والا مثل نیکی کرنے والے کے ثواب میں ہے یعنی جو شخص خود کوئی سلوک نہ کرے مگر اہل ضرور کو ایسی جگہ کا پتہ بتلا دے یا اس کی سفارش کر دے جہاں اس کا کام ہو جائے تو اس بتلانے والے کو مثل اس نیکی کرنے والے کے ثواب ملے گا جو خود اپنی ذات سے کسی کی مدد کرے۔ حدیث میں ہے کہ تین آدمی تھے جن میں سے ایک کے پاس دس دینار تھے سو صدقہ کر دیا اس نے ان میں سے ایک دینار۔ اور دوسرے کے پاس دس اوقیہ تھے۔ سو صدقہ کر دیا اس نے اس میں سے ایک اوقیہ۔ اور تیسرے کے پاس سو اوقیہ تھے سو صدقہ کر دیئے اس نے ان میں سے دس اوقیہ تو یہ سب لوگ ثواب میں برابر ہیں اس لیے کہ ہر ایک نے دسواں حصہ اپنے مال کا خیرات کیا ہے یعنی اگرچہ بظاہر خیرات ان میں سے بعضوں نے زیادہ کی ہے اور بعض نے کم مگر حق تعالی تو نیت پر ثواب دیتے ہیں۔ چونکہ ہر ایک نے اپنے مال کے اعتبار سے دسواں حصہ خیرات کیا اس لیے سب کو برابر ثواب ملے گا۔ ایک دینار دس درہم کا ہوتا ہے اور ایک درہم چار آنے سے کچھ زائد کا اور اوقیہ چالیس درہم کا ہوتا ہے۔ حدیث میں ہے بڑھ گیا ایک درہم ایک لاکھ درہم سے اور وہ یہ صورت ہے کہ ایک شخص ہے کہ اس کے پاس دو درہم ہیں ان میں سے ایک درہم اس نے خیرات کر دیا۔ اور دوسرا شخص ہے کہ اس کے پاس بہت سا مال ہے پس اس نے اپنے مال میں سے ایک لاکھ درہم صدقہ کر دئے یعنی دونوں کے ثواب میں یہ فرق ہوا کہ پہلا شخص باوجود تھوڑا خیرات کرنے کے ثواب میں بڑھ گیا کیونکہ اپنا آدھا مال اس نے خیرات کر دیا۔ اور دوسرے نے اگرچہ ایک لاکھ صدقہ کی لیکن چونکہ یہ عدد اس کے مال کثیر کے مقابلے میں آدھے سے کم تھا اس لیے اس کو پہلے شخص سے کم ثواب ملا خوب سمجھ لو۔ حق تعالی کی کیسی رحمت ہے اس کی قدر کرو جناب رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی سائل سے انکار نہیں فرمایا۔

اگر ہوا دے دیا ورنہ وعدہ فرما لیا کہ جب حق تعالی دے گا اس وقت تم کو دیں گے اور تا حیات آپ نے اور آپ کے اہلبیت نے دو روز برابر بھی شکم سیر ہو کر جو کی روٹی بھی نہیں کھائی۔ کیسی بے رحمی کی بات ہے کہ باوجود گنجائش کے اپنے بھائی مسلمانوں کی مدد نہ کرے اور خود چین کرے۔ حدیث میں ہے کہ اللہ کا ہدیہ ہے مومن کے لیے سائل اس کے دروازے پر اور ظاہر ہے کہ ہدیہ اچھی طرح قبول کرنا چاہیے خصوصاً اللہ تعالی کا ہدیہ پس سائل کی خوب خدمت کرنی چاہیے۔ حدیث میں ہے کہ صدقہ کرو اور اپنے مریضوں کی دوا کرو صدقہ کے ذریعے سے اس لیے کہ صدقہ دفعہ کرتا ہے مرضوں کو اور بیماریوں کو اور وہ زیادتی کرتا ہے تمہاری عمروں اور نیکیوں میں۔ حدیث میں ہے کہ کوئی ولی اللہ عزوجل کا نہیں پیدا کیا گیا مگر سخاوت اور اچھی عادت پر (یعنی اللہ کے دوستوں میں سخاوت اور اچھی عادت ضرور ہوتی ہے۔)

عیدین کی راتوں کی فضیلت کا بیان

حدیث میں ہے جو بیدار رہا عید الفطر کی رات اور عید الاضحی کی رات میں نہ مردہ ہو گا اس کا دل جس دن دل مردہ ہوں گے یعنی قیامت کے دن کی دہشتوں سے محفوظ رہے گا جس روز کہ لوگ قیامت کی سختیوں سے پریشان ہوں گے۔

تراویح کی فضیلت کا بیان

حدیث میں ہے کہ بے شک اللہ تعالی نے فرض کات ہے تم پر رمضان کا روزہ اور سنت کیا ہے اس کی رات کا قیام یعنی تراویح پڑھنا پس جو شخص اس کا روزہ رکھے اور اس کی رات میں قیام کرے یعنی تراویح پڑھے ایمان کے اعتبار سے یعنی روزے اور تراویح کو دین کا حکم سمجھے اور ثواب طلب کرنے کی نیت سے اور یقین ثواب کا سمجھ کر۔ تو ہو گا وہ یعنی روزہ اور تراویح کفارہ یعنی مٹانے والا اس کے لیے جو گذرا یعنی جو اس سے صغیرہ گناہ ہوئے وہ سب معاف ہو جائیں گے۔ پس اس مہینہ میں بہت نیکیاں کرنی چاہئیں۔ ایک فرض ادا کرنے سے ستر فرض کا اور نفل کام کرنے سے فرض کام کرنے کے برابر ثواب ملتا ہے۔

لیلۃ القدر کی فضیلت کا بیان

حق تعالی فرماتے ہیں لیلۃ القدر خیر من الف شہر یعنی لیلۃ القدر بہتر ہے ہزار مہینوں سے۔ مطلب یہ ہے کہ اس رات میں عبادت کرنے کا اس قدر ثواب ہے کہ اس کے سوا اور ایام میں ہزار مہینے کرنے سے بھی اس قدر ثواب نہیں میسر ہو سکتا جتنا ثواب کہ اس ایک رات عبادت کرنے میں مل جاتا ہے۔ اس آیت کا شان نزول امام سیوطی نے لباب النقول میں یہ نقل کیا ہے کہ تحقیق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ذکر فرمایا ایک مرد کا جو بنی اسرائیل کی قوم میں سے تھا اور جس نے ہزار مہینے اللہ تعالی کے راستے یعنی جہاد میں ہتھیار لگائے تھے پس تعجب کیا مسلمانوں نے اس بات سے اور افسوس کیا کہ ہم کو یہ نعمت کسی طرح میسر ہو سکتی ہے سو نازل فرمائیں اللہ تعالی نے یہ آیتیں انا انزلناہ فی لیلۃ القدر وما ادرک مالیلۃ القدر لیلۃ القدر خیر من الف شہر۔ یعنی یہ شب قدر بہتر ہے ان ہزار مہینوں سے جن میں اس مرد نے اللہ تعالی کے راستہ میں ہتھیار لگائے تھے یعنی جہاد کیا تھا اور دوسری روایت میں ہے کہ بنی اسرائیل میں ایک مرد تھا جو رات کو عبادت کرتا تھا صبح تک پھر جہاد کرتا تھا یعنی لڑتا تھا دشمن دین سے دن میں شام تک سو عمل کیا اس نے ہزار مہینے یہی عمل کہ رات و عبادت کرتا تھا اور دن کو جہاد کرتا تھا پس نازل فرمائی اللہ تعالی نے آیۃ لیلۃ القدر خیر من الف شہر۔ یعنی ان ہزار مہینوں سے جن میں اس مرد نے عبادت و جہاد کیا تھا یہ رات بہتر ہے آؤ اے بھائیو اور بہنو اس مبارک رات کی قدر کرو کہ تھوڑی سی محنت میں کس قدر ثواب میسر ہوتا ہے اور اس رات میں خاص طور پر دعا قبول ہوتی ہے اگر تمام رات نہ جاگ سکو تو جس قدر بھی ہو سکے جاگو یہ نہ کرو کہ پست ہمتی سے بالکل ہی محروم رہو۔۔

حدیث میں ہے کہ یہ مہینہ یعنی رمضان تمہارے پاس آ گیا اور اس میں ایک ایسی رات ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے جو شخص اس رات کی برکت و اطاعت و عبادت سے محروم کیا گیا وہ تمام بھلائیوں سے محروم کیا گیا۔ اور انہیں محروم کیا جاتا ہے اس رات کی برکتوں سے مگر محروم یعنی ایسی بے بہا رات کی برکت جسے نہ ملی اور جس نے کچھ بھی عبادت اس شب میں نہ کی تو وہ بڑا بھاری محروم ہے جو ایسی نعمت سے محروم رہا۔ حدیث میں ہے کہ بے شک اگر اللہ چاہتا تو تم کو لیلۃ القدر پر مطلع کر دیتا لیکن بعض حکمتوں سے بالتعیین اس پر مطلع نہیں کیا اس کو رمضان کی سات اخیر راتوں میں تلاش کرو کہ ان راتوں میں غالب گمان شب قدر کا ہے اور تلاش کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ان راتوں میں جاگو اور عبادت کرو تاکہ لیلۃ القدر میسر ہو جائے۔ حدیث میں ہے کہ لیلۃ القدر ستائیسویں شب رمضان کو ہوتی ہے اس رات کی تعیین میں بڑا اختلاف ہے مگر مشہور قول یہی ہے کہ ستائیسویں شب کو ہوتی ہے۔ بہتر یہ ہے کہ اگر ہمت اور قوت ہو تو اخیر کی دس راتوں میں جاگے اور اس میں یہ ضرور نہیں کہ کچھ نظر آئے جب ہی اس کی برکت میسر ہو بلکہ کچھ نظر آئے یا نہ آئے عبادت کرے اور برکت حاصل کرے۔ اور مقصود یہی ہے کہ اس رات کی برکت اور اس قدر ثواب جو مذکور ہوا حاصل کرے۔ کسی چیز کا نظر آنا مقصود نہیں۔