اعتکاف کی فضیلت کا بیان

حدیث میں ہے جس نے اعتکاف کیا دس دن اخیر عشرہ رمضان میں ہو گا وہ اعتکاف مثل دو حج اور دو عمروں کے یعنی اس کو دو حج اور دو عمروں کا ثواب ملے گا۔ حدیث میں ہے جس نے اعتکاف کیا اس کو دین کی عبادت یقین کر کے اور ثواب حاصل کرنے کے لیے تو اس کے گذشتہ گناہ بخش دیئے جائیں گے یعنی گناہ صغیرہ۔ حدیث میں ہے کہ پوری حفاظت سرحد اسلام کی چالیس دن تک ہوتی ہے اور جو چالیس دن تک سرحد اسلام کی حفاظت کرے اس طرح کہ نہ فروخت کرے کچھ اور نہ خریدے اور نہ کرے کوئی بدعت پاک ہو جائے گا۔ اپنے گناہوں سے مثل گناہوں سے پاک ہونے اس دن کے جس دن اس کو اس کی ماں نے جنا تھا یعنی گناہوں سے بالکل پاک ہو جائے گا۔ اور حدیث میں حفاظت سرحد اسلام کی تشبیہا اس کو فرمایا ہے کہ رباط سے اسلامی سرحد پر ملک اسلام کے تمام علاقے دنیا کے چھوڑ کر روزے نماز وغیرہ میں مشغول ہونا اور نفس کی ظاہری و باطنی حفاظت کرنا اور گناہوں سے بچنا مراد ہے اور گناہوں سے صغیرہ گناہ مراد ہیں۔ اور یہی صورت چلہ نشینی کی صوفیہ کرام میں متعارف ہے۔ رواہ الطبرانی عن ابی امامۃ بلفظ تمام الرباط قال المناوی ای المرابطۃ یعنی مرابطۃ النفس بالاقامۃ علی مجاہد تہالتتبدل اخلاقہا الردینۃ بالحسنہ اربعون یوما ومن رابط اربعین یوما لم یبع ولم یشترولم یحدث حدثنا ای لم یفعل شیئا م الامور الدنیویۃ الغیر الضروریۃ خرج من ذنوبہ کیوم دلدلۃ امہ کذا فی شرح الجامع الصغیر العزیزی۔

روزے کی فضیلت کا بیان

حدیث میں ہے کہ فرمایا جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ دار کا سونا عبادت ہے اور اس کا خاموش رہنا تسبیح ہے یعنی روزہ دار اگر خاموش رہے تو اسے تسبیح یعنی سبحان اللہ پڑھنے کا ثواب ملتا ہے اور اس کا عمل ثواب میں بڑھ جاتا ہے یعنی اس کے اعمال کا ثواب بہ نسبت اور دنوں کے ان مبارک دنوں میں زیادہ ہوتا ہے اور اس کی دعا مقبول ہے یعنی روزے کی حالت کو قبولیت دعا میں خاص دخل ہے اور اس کے گناہ بخش دئیے جاتے ہیں یعنی گناہ صغیرہ معاف ہو جاتے ہیں حدیث میں ہے کہ روزہ ڈھال ہے اور مضبوط قلعہ ہے دوزخ سے بچانے کے لیے یعنی جس طرح ڈھال اور مضبوط قلعہ سے انسان پناہ لیتا ہے اور دشمن سے بچتا ہے اسی طرح روزے کے ذریعہ سے دوزخ سے نجات حاصل ہوتی ہے اس طرح کہ انسان کی قوت گناہوں کی کمزور ہو جاتی ہے اور نیکی کا مادہ بڑھتا ہے سو جب انسان باقاعدہ روزہ دار رہے گا اور اچھی طرح روزے کے آداب بجا لائے گا تو گناہ اس سے چھوٹ جائیں گے اور دوزخ سے نجات ملے گی۔ حدیث میں ہے کہ روزہ ڈھال ہے جب تک کہ نہ پھاڑے یعنی برباد نہ کرے روزہ دار اس کو جھوٹ غیبت سے یعنی روزہ ڈھال کا کام دیتا ہے جیساکہ اوپر بیان ہو چکا ہے مگر جبکہ اس کو گناہوں سے محفوظ رکھے اور اگر روزہ رکھا اور غیبت اور جھوٹ وغیرہ گناہوں سے باز نہ آئے تو گو فرض ادا ہو جائے گا مگر بہت بڑا گناہ ہو گا۔ اور روزے کی جو برکت حاصل ہوتی اس سے محرومی ہو گی۔

حدیث میں ہے روزہ ڈھال ہے دوزخ سے سو جو شخص صبح کرے اس حال میں کہ وہ روزہ دار ہو پس نہ جہالت کرے اس روز اور جبکہ کوئی آدمی اس سے جہالت سے پیش آئے تو اسے بدلہ میں برا نہ کہے اور اس سے بری گفتگو نہ کرے اور چاہیے کہ کہہ دے تحقیق میں روزہ دار ہوں اور قسم اس ذات کی جس کے قبضہ میں محمد کی جان ہے بے شک بدبو روزہ دار کے منہ کی زیادہ محبوب ہے خدا کے نزدیک مشک کی خوشبو سے یعنی قیامت کے روز اس بدبو کے عوض جو روزے کی حالت روزے دار کے منہ کے اندر دنیا میں پیدا ہوتی ہے وہ سبب ہے اس خوشبو کے حاصل ہونے کا جو قیامت کو میسر ہو گی۔ حدیث میں ہے کہ روزہ دار کو ہر افطار کے وقت ایک ایسی دعا کی اجازت ہوتی ہے جس کے قبول کرنے کا خاص وعدہ ہے۔ حدیث میں ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو آدمیوں سے فرمایا کہ تم روزہ رکھو اس لیے کہ روزہ ڈھال ہے دوزخ سے بچنے کے لیے اور زمانہ کی مصیبتوں سے بچنے کے لیے یعنی روزہ کی برکت سے دوزخ اور مصائب و تکالیف سے نجات ملتی ہے۔ حدیث میں ہے کہ تین ایسے آدمی ہیں کہ ان سے کھانے کا حساب قیامت میں نہ ہو گا جو کچھ بھی کھائیں جبکہ وہ کھانا حلال ہو اور وہ روزہ دار ہے اور سحری کھانے والا اور محافظ خدا تعالی کے راستہ میں یعنی جو اسلام کی سرحد میں مقیم ہوا اور کافروں سے ملک اسلام کی حفاظت کرے یہاں سے بہت بڑی رعایت روزہ دار کی اور سحری کھانے والے کی ور محافظ اسلام کی ثابت ہوئی کہ ان سے کھانے کا حساب ہی معاف کر دیا گیا لیکن اس رعایت پر بہت سے لذیذ کھانوں میں مصروف نہ ہونا چاہیے۔ بہت سی لذتوں میں مصروف ہونے سے خدا کی یاد غفلت پیدا ہو جاتی ہے اور گناہ کی قوت کو ترقی ہوتی ہے خوب سمجھ لو بلکہ خدا کی اس نعمت کی بہت قدر ہونی چاہیے اور اس کا شکر اس طرح ادا کرنا چاہیے کہ حق تعالی کی خوب اطاعت کرے۔۔

حدیث میں ہے کہ جو روزہ دار کو روزہ افطار کرائے تو اس روزہ افطار کرانے والے کو اس روزہ رکھنے والے کے ثواب کے برابر ثواب ملے گا بغیر اس بات کے کہ روزہ دار کا کچھ ثواب کم ہو یعنی روزہ دار کا ثواب کچھ کم نہ ہو گا بلکہ حق تعالی اپنے فضل و کرم سے اپنی طرف سے روزہ افطار کرانے والے کو اس روزہ دار کی برابر ثواب مرحمت فرمائیں گے اگرچہ کسی معمولی ہی کھانے سے روزہ افطار کرا دے گو وہ پانی ہی ہو۔

حدیث میں ہے بے شک اللہ تعالی نے ثواب مقرر کیا ہے بنی دم کی نیکیوں کا دس گنے سے سات سو گنے تک۔ فرماتا ہے اللہ تعالی مگر روزہ یعنی روزہ میں سات سو کی حد نہیں ہے اور روزہ خاص میرے لیے ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا اس سے روزہ کے ثواب کی عظمت کا اندازہ کرنا چاہیے کہ جس کا حساب ہی نہیں معلوم کہ وہ ثواب کس قدر ہے اور خود حق تعالی اس کو عطا فرمائیں گے اور اس کا بندوبست ملائکہ کے ذریعہ سے نہ ہو گا۔ سبحان اللہ کیا قدر دانی ہے حق تعالی کی تھوڑی سی محنت پر کس قدر عوض مرحمت فرماتے ہیں مگر یہ ضرور ہے کہ روزے کی یہ تمام فضیلتیں جب ہی اپنا اثر دکھلائیں گی جبکہ روزہ کا حق ادا کرے اور اس میں جھوٹ غیبت اور تمام گناہوں سے بچے۔ بعضے لوگ بالکل اور بعضے صبح کی نماز رمضان میں بے پروائی سے قضا کر دیتے ہیں ان کو اس قدر برکت اور ایسا ثواب میسر نہ ہو گا۔ اور اس حدیث سے یہ شبہ نہ ہو کہ روزہ نماز سے بھی افضل ہے اس لیے کہ نماز تمام عبادات میں افضل ہے۔ مراد اس مضمون سے یہ ہے کہ روزہ کا بہت بڑا ثواب ہے اور بس۔ یہ غرض نہیں ہے کہ تمام عبادتوں سے روزہ افضل ہے اور بے شک روزہ دار کے لیے دو خوشیاں ہیں۔ ایک خوشی جب ہوتی ہے جبکہ روزہ افطار کرتا ہے اور دوسری خوشی قیامت کو ہو گی۔ خدا تعالی سے ملنے کے وقت جیسا کہ بعض احادیث میں تصریح بھی آئی ہے۔ حدیث میں ہے جبکہ رمضان مبارک کی پہلی رات ہوتی ہے کھول دئیے جاتے ہیں دروازے آسمان کے اور ان دروازوں میں سے کوئی دروازہ رمضان کی آخر رات تک بھی بند نہیں کیا جاتا۔ اور ایسا کوئی مسلمان نہیں ہے کہ نماز پڑھے کسی رات میں رمضان کی راتوں میں سے مگر یہ بات ہے کہ لکھے گا اللہ تعالی اس کے لیے ڈھائی ہزار نیکیاں عوض ہر رکعت کے یعنی ایک رکعت کے عوض ڈھائی ہزار نیکیوں کا ثواب لکھا جاتا ہے اور بنا دے گا حق تعالی اس کے لیے ایک مکان جنت میں سرخ یاقوت سے جس کے ساٹھ دروازے ہوں گے اور ہر دروازے کے لیے ایک سونے کا محل ہو گا جو راستہ ہو گا سرخ یاقوت سے پھر جب روزہ دار روزہ رکھتا ہے رمضان کے پہلے دن کا تو اس کے گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں جو رمضان گذشتہ کی اس تاریخ تک کے ہیں۔ پچھلے رمضان کی پہلی تاریخ تک یعنی گناہ صغیرہ اس سال کے جو گزر گیا معاف کر دیئے جاتے ہیں اور مغفرت طلب کرتے ہیں اس کے لیے روز مرہ ستر ہزار فرشتے صبح کی نماز سے آیت چھپنے تک اور ملے گا اس کو بدلے میں ہر رکعت کے جس کو پڑھتا ہے رمضان کے مہینہ میں رات میں یا دن میں ایک درخت جنت میں ایسا جس کے سایہ میں سوار پانچ سو برس چل سکتا ہے۔ کس قدر بڑی فضیلت ہے روزے کی مسلمانو کبھی قضا نہ ہونے دو بلکہ ہمت ہو تو نفل روزوں سے بھی مشرف ہو لیا کرو اور اللہ تعالی سے پورے طور پر محبت کرو جس نے اس قدر رحمت سے کام لیا کہ معمولی محنت میں اس قدر ثواب مرحمت فرمایا۔ کم سے کم اپنے مطلب ہی کے لیے کہ جنت میں بڑی بڑی نعمتیں ملیں خدا کو اپنا محبوب بنا لو۔ حدیث میں ہے کہ بے شک جنت سجائی جاتی ہے ابتدائے سال سے آخر سال تک رمضان کے مہینے کے لیے اور بے شک حوریں بڑی بڑی آنکھوں والی بناؤ سنگار کرتی ہیں ابتدائے سال سے آخر سال تک رمضان کے روزہ داروں کے لیے۔ پس جبکہ رمضان آتا ہے جنت کہتی ہے اے اللہ میرے اندر داخل کر دے اس مہینہ میں اپنے بندوں کو یعنی حکم فرما دیجئے کہ قیامت کو میرے اندر داخل ہوں اور بڑی بڑی آنکھوں والی حوریں کہتی ہیں اے اللہ مقرر فرما دے ہمارے لیے اس مہینہ میں خاوند اپنے بندوں میں سے۔

سو جس شخص نے نہ لگائی اس مہینہ میں کسی مسلمان کو تہمت اور نہ پی اس مہینہ میں کوئی نشہ لانے والی چیز۔ مٹا دے گا اللہ تعالی اس کے گناہ۔ اور جس شخص نے تہمت لگائی اس ماہ میں کسی مسلمان کو یا پی اس مہینہ میں کوئی نشہ والی چیز مٹا دے گا حق تعالی اس کے سال بھر کے نیک اعمال یعنی بہت گناہ ہو گا۔ کیونکہ بزرگ زمانہ میں جس طرح نیکیوں کا ثواب زیادہ ملتا ہے اسی طرح گناہوں کا عذاب بھی زیادہ ہوتا ہے۔ ان لفظوں میں کس قدر دھمکی ہے غور تو کرو۔ سو ڈرو رمضان کے مہینے سے اس لیے کہ تحقیق وہ مہینہ اللہ کا ہے جس میں بندوں کو حکم ہوتا ہے کہ اللہ کی عادت اختیار کریں کھانا پینا چھوڑ دیں جیسا کہ اللہ تعالی ہمیشہ کھانے پینے سے پاک رہتا ہے اسی واسطے یہ مہینہ خاص کیا گیا حق تعالی کے ساتھ۔

ورنہ سب مہینے اللہ تعالی ہی کے ہیں تمہارے لیے گیارہ مہینے خدائے تعالی نے مقرر کر دیئے ہیں جن میں تم کھانا کھاتے ہو اور پانی پیتے ہو اور لذت حاصل کرتے ہو اور اپنی ذات کے لیے ایک مہینہ مقرر کیا ہے جس میں کھانے پینے وغیرہ سے تم کو روکا گیا ہے پس ڈرو رمضان کے مہینے سے اس لیے کہ بے شک وہ مہینہ اللہ تبارک و تعالی کا ہے تو اچھی طرح اس میں اطاعت حق بجا لاؤ اور گناہ نہ کرو اگرچہ اطاعت ہمیشہ ضرور ہے لیکن خاص جگہ جیسے مکہ معظمہ و مدینہ منورہ اور خاص ایام مثلاً رمضان مبارک وغیرہ میں نیکیوں کے کرنے اور گناہوں سے بچنے کا خاص اہتمام کرنا چاہیے کہ بزرگ جگہ اور بزرگ دنوں میں نیکیوں کا ثواب زیادہ اور اسی طرح گناہوں کا عذاب بھی زیادہ ہوتا ہے۔حدیث۔میں ہے کہ جب تم میں سے کسی کے سامنے کھانا قریب کیا جائے اس حال میں کہ وہ روزہ دار ہو یعنی روزہ افطار کرنے کے لیے کوئی چیز اس کے پاس رکھی جائے تو چاہیے کہ کہے یعنی افطار سے پہلے یہ دعا پڑھے بسم اللہ والحمدللہ اللہم لک صمت وعلی رزک افطرت وعلیک توکلت سبحانک وبحمدک تقبل منی انک انت السمیع العلیم۔ حدیث میں ہے کہ جب تم میں سے کوئی روزہ افطار کرے تو مناسب ہے کہ چھوہارے سے افطار کرے اس لیے کہ وہ برکت ہے۔ پھر اگر نہ پائے چھوہارہ تو مناسب ہے کہ افطار کرے پانی سے اس لیے کہ تحقیق وہ پاک کرنے والی چیز ہے۔ بعض احادیث میں پانی ملے ہوئے دودھ سے افطار کرنے کا بھی حکم وارد ہوا ہے۔۔

حدیث میں ہے کہ جس نے روزے رکھے چالیس دن اس حال میں کہ وہ نہیں طلب کرتا ہے اس روزہ رکھنے سے مگر خدا کی رضا مندی یعنی فقط رضائے الٰہی مطلوب ہو کوئی اور غرض ریا وغیرہ مطلوب نہ ہو تو نہ مانگے گا وہ اللہ سے کچھ مگر یہ بات ہے کہ دے گا اللہ اس کو وہ چیز یعنی چالیس دن محض حق تعالی کے راضی کرنے کے لیے روزے رکھنے سے دعاء قبول ہونے لگتی ہے اور ایسا شخص حق تعالی کا ایسا مقبول ہو جاتا ہے کہ اس کی ہر دعا جو اللہ کے نزدیک اس کے لیے بہتر ہو گی ضرور ہو گی۔ حضرات صوفیہ رضی اللہ عنہم نے چلہ نشینی تجویز فرمائی ہے یعنی چالیس روز تک تمام تعلقات دنیا کو چھوڑ کر کسی مسجد میں عبادت کرنا اور روزے سے رہنا اس سے بہت بڑا نفع ہوتا ہے دن کا۔ اور نیکیوں کی عمدہ قوت پیدا ہو جاتی ہے اور اس کی برکت سے اللہ پاک کی طرف سے خاص خاص علوم عطا ہوتے ہیں اور فہم عمدہ ہو جاتا ہے رواہ الدیلمی عن واثلۃ ولفظہ من صام اربعین صیاما مایریدبہ الاوجہ اللہ تعالی لم یسال اللہ تعالی شیئا الا اعطاہ۔ حدیث میں ہے کہ جس نے روزہ رکھا ہر محترم مہینہ میں جمعرات اور جمعہ اور سینچر کو لکھے گا اللہ تعالی اس کے لیے سات سو برس کی عبادت یعنی سات سو برس کی عبادت کا ثواب اس کے لیے لکھا جاتا ہے اور محترم مہینے یعنی عزت کے مہینے چار ہیں۔ رجب ذیقعدہ عشرہ ذی الحجہ یعنی بقر عید کے مہینے کے اول کے دس دن اور محترم مگر دسویں گیارہویں بارہویں تیرہویں ذی الحجہ کو روزہ رکھنا منع ہے۔ روا ابن شاہین فی الترغیب وابن عساکر عن انس بسند ضعیف ولفظہ من صام فی کل شہر حرام الخمیس والجمعۃ والسبت کتب اللہ تعالی لہ عبادۃ سبع مائۃ سنۃ۔

حدیث میں ہے کہ جس نے روزہ رکھا تین دن کسی محترم مہینے میں جمعرات اور جمعہ اور سینچر کے دن لکھے گا حق تعالی اس کے لیے دو سال کی عبادت یعنی اللہ تعالی اس کو دو سال کی عبادت کا ثواب ان تین روزوں کے عوض قیامت کے دن مرحمت فرمائیں گے اور اس وقت یہ ثواب نامہ اعمال میں لکھ لیا جائے گا۔ رواہ الطبرانی فی الاوسط عن ابن عباس لفظ من صام ثلثۃ ایام من شہر حرام الخمیس والجمعۃ والسبت کتب اللہ تعالی لہ عبادۃ سنتین انتہی۔

نوٹ رسالہ فضائل رمضان مصنفہ حضرت مولانا محمد زکریا صاحب شیخ الحدیث سہارنپور میں پوری تفصیلات ملاحظہ فرمائیں

جن وجہوں سے روزہ نہ رکھنا جائز ہے ان کا بیان

مسئلہ۔ عورت کو حیض آ گیا یا بچہ پیدا ہوا اور نفاس ہو گیا تو حیض اور نفاس رہنے تک روزہ رکھنا درست نہیں۔

مسئلہ۔ اگر رات کو پاک ہو گئی تو اب صبح کو روزہ نہ چھوڑے۔ اگر رات کو نہ نہائی ہو تب بھی روزہ رکھ لے اور صبح کو نہا لے۔ اور اگر صبح ہونے کے بعد پاک ہوئی تو اب پاک ہونے کے بعد روزہ کی نیت کرنا درست نہیں۔ لیکن کچھ کھانا پینا بھی درست نہیں ہے اب دن بھر روزہ داروں کی طرح رہنا چاہیے۔

جن چیزوں سے روزہ نہیں ٹوٹتا اور جن سے ٹوٹ جاتا ہے

مسئلہ۔ دن کو سو گئی ایسا خواب دیکھا جس سے نہانے کی ضرورت ہو گئی تو روزہ نہیں ٹوٹا۔

مسئلہ۔ مرد اور عورت کا ساتھ لیٹنا ہاتھ لگانا پیار کرنا یہ سب درست ہے لیکن اگر جوانی کا اتنا جوش ہو کہ ان باتوں سے صحبت کرنے کا ڈر ہو تو ایسا نہ کرنا چاہیے مکروہ ہے۔

مسئلہ۔ رات کو نہانے کی ضرورت ہوئی مگر غسل نہیں کیا دن کو نہائی تب بھی روزہ ہو گیا بلکہ اگر دن بھر نہ نہائے تب بھی روزہ نہیں جاتا البتہ اس کا گناہ الگ ہو گا۔

مسئلہ۔ اگر مرد سے ہمبستری ہوئی تب بھی روزہ جاتا رہا اس کی قضا بھی رکھے اور کفارہ بھی دے دے۔ جب مرد کے پیشاب کے مقام کی سپاری اندر چلی گئی تو روزہ ٹوٹ گیا اور قضا و کفارہ واجب ہو گئے چاہے منی نکلے یہ نہ نکلے۔

مسئلہ۔ اگر مرد نے پاخانہ کی جگہ اپنا عضو کر دیا اور سپاری اندر چلی گئی تب بھی عورت مرد دونوں کا روزہ جاتا رہا قضا و کفارہ دونوں واجب ہیں۔

مسئلہ۔ روزہ میں پیشاب کی جگہ کوئی دوا رکھنا یا تیل وغیرہ کوئی چیز ڈالنا درست نہیں اگر کسی نے دوا رکھ لی تو روزہ جاتا رہا قضا واجب ہے کفارہ واجب نہیں۔

مسئلہ۔ کسی ضرورت سے دائی نے پیشاب کی جگہ انگلی ڈالی یا خود سے اپنی انگلی ڈالی پھر ساری انگلی یاتھوڑی سی انگلی نکالنے کے بعد پھر کر دی تو روزہ جاتا رہا لیکن کفارہ واجب نہیں اور اگر نکالنے کے بعد پھر نہیں کی تو روزہ نہیں گیا ہاں اگر پہلے ہی سے پانی وغیرہ کسی چیز میں انگلی بھیگی ہوئی ہو تو اول ہی دفعہ کرنے سے روزہ جاتا رہے گا۔

مسئلہ۔ کوئی عورت غافل سو رہی تھی یا بیہوش پڑی تھی اس سے کسی نے صحبت کی تو روزہ جاتا رہا فقط قضا واجب ہے کفارہ واجب نہیں اور مرد پر کفارہ بھی واجب ہے۔

کوئی چیز پڑی پانے کا بیان

مسئلہ۔ کہیں راستہ گلی میں یا بیبیوں کی محفل میں یا اپنے یہاں کوئی مہمانداری ہوئی تھی یا وعظ کہلوایا تھا سب کے جانے کے بعد کچھ ملایا اور کہیں کوئی چیز پڑی پائی تو اس کو خود لے لینا درست نہیں حرام ہے اگر اٹھائے تو اس نیت سے اٹھائے کہ اس کے مالک کو تلاش کر کے دے دوں گی۔

مسئلہ۔ اگر کوئی چیز پائی اور اس کو نہ اٹھایا تو کوئی گناہ نہیں لیکن اگر یہ ڈر ہو کہ اگر میں نہ اٹھاؤں گی تو کوئی اور لے لے گا اور جس کی چیز ہے اس کو نہ ملے گی تو اس کا اٹھا لینا اور مالک کو پہنچا دینا واجب ہے۔

مسئلہ۔ جب کسی نے پڑی ہوئی چیز اٹھائی تو اب مالک کا تلاش کرنا اور تلاش کر کے دے دینا اس کے ذمے ہو گیا اب اگر پھر وہیں ڈال دیں یا اٹھا کر اپنے گھر لے آئی لیکن مالک کو تلاش نہیں کیا تو گنہگار ہوئی۔ خواہ ایسی جگہ پڑی ہو کہ اٹھانا اس کے ذمے واجب نہ تھا یعنی کسی محفوظ جگہ پڑی تھی کہ ضائع ہو جانے کا ڈر نہیں تھا یا ایسی جگہ ہو کہ اٹھا لینا واجب تھا۔ دونوں کا یہی حکم ہے کہ اٹھا لینے کے بعد مالک کو تلاش کر کر پہنانا واجب ہو جاتا ہے پھر وہیں ڈال دینا جائز نہیں۔

مسئلہ۔ محفلوں میں مردوں اور عورتوں کے جماؤ جم گھٹے میں خوب پکارے تلاش کرے اگر مردوں میں خود نہ جا سکے نہ پکار سکے تو اپنے میاں وغیرہ کسی اور سے پکڑوائے اور خوب مشہور کرا دے کہ ہم نے ایک چیز پائی ہے جس کی ہو ہم سے کر لے لیوے یہ ٹھیک پتہ نہ دے کہ کیا چیز پائی ہے تاکہ کوئی جھوٹ فریب کر کے نہ لے سکے۔ البتہ کچھ گول مول ادھورا پتہ بتلا دینا چاہیے۔ مثلاً یہ کہ ایک زیور ہے یا ایک کپڑا ہے یا ایک بٹوا ہے جس میں کچھ نقد ہے۔ اگر کوئی آئے اور اپنی چیز کا ٹھیک ٹھیک پتہ دے دے تو اس کے حوالہ کر دینا چاہیے۔

مسئلہ۔ بہت تلاش کرنے اور مشہور کرنے کے بعد جب بالکل مایوسی ہو جائے کہ اب اس کا کوئی وارث نہ ملے گا تو اس چیز کو خیرات کر دے اپنے پاس نہ رکھے البتہ اگر وہ خود غریب محتاج ہو تو خود ہی اپنے کام میں لائے لیکن خیرات کرنے کے بعد اگر اس کا مالک گیا تو اس کے دام لے سکتاہے اور اگر خیرات کرنے کو منظور کر لیا تو اس کو اس خیرات کا ثواب مل جائے گا۔

مسئلہ۔ پالتو کبوتر یا طوطا مینا اور کوئی چڑیا اس کے گھر گر پڑی اور اس نے اس کو پکڑ لیا تو مالک کو تلاش کر کے پہنچانا واجب ہو گیا خود لے لینا حرام ہے۔

مسئلہ۔ باغ میں آیا امرود وغیرہ پڑے ہیں تو ان کو بلا اجازت اٹھانا اور کھانا حرام ہے البتہ اگر کوئی ایسی کم قدر چیز ہے کہ ایسی چیز کو کوئی تلاش نہیں کرتا اور نہ اس کے لینے کھانے سے کوئی برا مانتا ہے تو اس کو خرچ میں لانا درست ہے مثلاً راہ میں ایک بیر پڑا ملا یا ایک مٹھی چنے کے بوٹ ملے۔

مسئلہ۔ کسی مکان یا جنگل میں خزانہ یعنی کچھ گڑا ہوا مال نکل آیا تو اس کا بھی وہی حکم ہے جو پڑی ہوئی چیز کا حکم ہے خود لے لینا جائز نہیں تلاش و کوشش کرنے کے بعد اگر مالک کا پتہ نہ چلے تو اس کو خیرات کر دے اور غریب ہو تو خود بھی لے سکتی ہے۔

متفرقات

مسئلہ۔ ہر ہفتہ نہا دھو کر ناف سے نیچے اور بغل وغیرہ کے بال دور کر کے بدن کو صاف ستھرا کرنا مستحب ہے۔ ہر ہفتہ نہ ہو تو پندرہویں دن سہی زیادہ سے زیادہ چالیس دن اس سے زیادہ کی اجازت نہیں اگر چالیس دن گزر گئے اور بال صاف نہ کیے تو گناہ ہوا۔

مسئلہ۔ اپنے ماں باپ شوہر وغیرہ کو نام لے کر پکارنا مکروہ اور منع ہے کیونکہ اس میں بے ادبی ہے لیکن ضرورت کے وقت جس طرح ماں باپ کا نام لینا درست ہے اسی طرح شوہر کا نام لینا بھی درست ہے اسی طرح اٹھتے بیٹھتے بات چیت کرتے ہر بات میں ادب تعظیم کا لحاظ رکھنا چاہیے۔

مسئلہ۔ کسی جاندار چیز کو آگ میں جلانا درست نہیں جیسے بھڑوں کا پھونکنا۔ کھٹمل وغیرہ پکڑ کر آگ میں ڈال دینا یہ سب ناجائز ہے البتہ اگر مجبوری ہو کہ بغیر پھونکے کا م نہ چلے تو بھڑوں کا پھونک دینا یا چارپائی میں کھولتا ہوا پانی ڈال دینا درست ہے۔

مسئلہ۔ کسی بات کی شرط باندھنا جائز نہیں جیسے کوئی کہے سیر بھر مٹھائی کھا جاؤ تو ہم ایک روپیہ دیں گے اور اگر نہ کھا سکے تو ایک روپیہ ہم تم سے لیں گے غرض جب دونوں طرف سے شرط ہو تو جائز نہیں البتہ اگر ایک ہی طرف سے ہو تو درست ہے۔

مسئلہ۔ جب کوئی دو آدمی چپکے چپکے باتیں کرتے ہوں تو ان کے پاس نہ جانا چاہیے۔ چھپ کران کو سننا بڑا گناہ ہے۔ حدیث شریف میں آیا ہے جو کوئی دوسروں کی بات کی طرف کان لگائے اور ان کو ناگوار ہو تو قیامت کے دن اس کے کان میں گرم گرم سیسہ ڈالا جائے گا اس سے معلوم ہوا کہ بیاہ شادی میں دولہا دلہن کی باتیں سننا دیکھنا بہت بڑا گناہ ہے۔

مسئلہ۔ شوہر کے ساتھ جو باتیں ہوئی ہوں جو کچھ معاملہ پیش آیا ہو کسی اور سے کہنا بڑا گناہ ہے۔ حدیث میں آیا ہے کہ ان بھیدوں کے بتلانے والے پر سب سے زیادہ اللہ تعالی کا غصہ اور غضب ہوتا ہے۔

مسئلہ۔ اسی طرح کسی کے ساتھ ہنسی اور چہل کرنا کہ اس کو ناگوار ہو یا تکلیف ہو درست نہیں۔ آدمی وہیں تک گدگدائے جہاں تک ہنسی آئے۔

مسئلہ۔ مصلحت کے وقت موت کی تمنا کرنا اپنے کو کوسنا درست نہیں۔

مسئلہ۔ پچیسی، چوسر، تاش وغیرہ کھیلنا درست نہیں اور اگر بازی بد کر کھیلے تو یہ صریح جوا اور حرام ہے۔

مسئلہ۔ جب لڑکا لڑکی دس برس کے ہو جائیں تو لڑکوں کو ماں بہن بھائی وغیرہ کے پاس اور لڑکیوں کو بھائی اور باپ کے پاس لٹانا درست نہیں۔ البتہ لڑکا اگر باپ کے پاس اور لڑکی ماں کے پاس لیٹے تو جائز ہے۔

مسئلہ۔ جب کسی کو چھینک آئے تو الحمد للہ کہہ لینا بہتر ہے اور جب الحمد للہ کہہ لیا تو سننے والے پر اس کے جواب میں یرحمک اللہ کہنا واجب ہے نہ کہے گی تو گنہگار ہو گی اور یہ بھی خیال رکھو کہ اگر چھینکنے والی عورت یا لڑکی ہے تو کاف کا زیر کہو اور اگر مرد یا لڑکا ہے تو کاف کا زبر کہو۔ پھر چھینکنے والی اس کے جواب میں کہے یغفراللہ لنا ولکم لیکن چھیننے والی کے ذمہ یہ جواب واجب نہیں بلکہ بہتر ہے۔

مسئلہ۔ چھینک کے بعد الحمد للہ کہتے کئی آدمیوں نے سنا تو سب کو یرحمک اللہ کہنا واجب نہیں اگر ان میں سے ایک کہہ دے تو سب کی طرف سے ادا ہو جائے گا لیکن اگر کسی نے جواب نہ دیا تو سب گنہگار ہوں گے۔

مسئلہ۔ اگر کوئی بار بار چھینکے اور الحمدللہ کہے تو فقط تین بار یرحمک اللہ کہنا واجب ہے اس کے بعد واجب نہیں۔

مسئلہ۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا نام مبارک لے یا پڑھے یا سنے تو درود شریف پڑھنا واجب ہو جاتا ہے اگر نہ پڑھا تو گناہ ہوا لیکن اگر ایک ہی جگہ کئی دفعہ نام لیا تو ہر دفعہ درود شریف پڑھنا واجب نہیں ایک ہی دفعہ پڑھ لینا کافی ہے البتہ اگر جگہ بدل جانے کے بعد پھر نام لیا یا سناتو پھر درود پڑھنا واجب ہو گیا۔

مسئلہ۔ بچوں کی بابری وغیرہ بنوانا جائز نہیں یا تو سارا سرمنڈوا دو یا سارے سر پر بال رکھواؤ۔

مسئلہ۔ عطر وغیرہ کسی خوشبو میں اپنے کپڑے بسانا اس طرح کہ غیر مردوں تک اس کی خوشبو جائے درست نہیں۔

مسئلہ۔ ناجائز لباس کا سی کر دینا بھی جائز نہیں مثلاً شوہر ایسا لباس سلوا دے جو اس کو پہننا جائز نہیں تو عذر کر دے اسی طرح درزن سلائی پر ایسا کپڑا نہ سئے۔

مسئلہ۔ جھوٹے قصے اور بے سند حدیثیں جو جاہلوں نے اردو کتابوں میں لکھ دیں اور معتبر کتابوں میں ان کا کہیں ثبوت نہیں جسے نور نامہ وغیرہ اور حسن و عشق کی کتابیں دیکھنا اور پڑھنا جائز نہیں اسی طرح غزل اور قصیدوں کی کتابیں خاص کر آجکل کے ناول عورتوں کو ہرگز نہ دیکھنا چاہیے۔ ان کا خریدنا بھی جائز نہیں اگر اپنی لڑکیوں کے پاس دیکھو جلا دو۔

مسئلہ۔ عورتوں میں بھی السلام علیکم اور مصافحہ کرنا سنت ہے اس کو رواج دینا چاہیے پس میں کیا کرو۔

مسئلہ۔ جہاں تم مہمان جاؤ کسی فقیر و غیرہ کو روٹی کھانا مت دو بغیر گھر والے سے اجازت لیے دینا گناہ ہے۔

٭٭٭

لباس اور پردے کا بیان

مسئلہ۔ چھوٹے لڑکوں کو کڑے ہنسلی وغیرہ کوئی زیور اور ریشمی کپڑا پہنانا مخمل پہنانا جائز نہیں اسی طرح ریشمی اور چاندی سونے کا تعویذ بنا کر پہنانا اور کسم و زعفران کا رنگا ہوا کپڑا پہنانا بھی درست نہیں۔ غرض جو چیزیں مردوں کو حرام ہیں وہ لڑکوں کو بھی نہ پہنانا چاہیے۔ البتہ اگر بانا سوت کا ہو اور تانا ریشمی ایسا کپڑا لڑکوں کو پہنانا جائز ہے۔ اسی طرح اگر کسی مخمل کا رواں ریشم کا نہ ہو وہ بھی درست ہے اور یہ سب مردوں کو بھی درست ہے اور گوٹہ لچکہ لگا کر کپڑے پہنانا بھی درست ہے لیکن وہ لچکہ چار انگل سے زیادہ چوڑا نہ ہونا چاہیے۔

مسئلہ۔ سچی کامدار ٹوپی یا کوئی کپڑا لڑکوں کو اس وقت جائز ہے جب بہت گھنا کام نہ ہو اگر اتنا زیادہ کام ہے کہ ذرا دور سے دیکھنے سے سب کام ہی کام معلوم ہوتا ہے کپڑا بالکل دکھائی نہیں دیتا تو اس کا پہنانا جائز ہیں۔ یہی حال ریشمی کام کا ہے کہ اگر اتنا گھنا ہو تو لڑکوں کو پہنانا جائز نہیں۔

مسئلہ۔ بہت باریک کپڑا جیسے ململ، جالی، بک، آب رواں ان کا پہننا اور ننگے رہنا دونوں برابر ہیں۔ حدیث شریف میں آیا ہے کہ بہتیری کپڑا پہننے والیاں قیامت کے دن ننگی سمجھی جائیں گی۔ اگر کرتہ دوپٹہ دونوں باریک ہوں اور بھی غضب ہے۔

مسئلہ۔ مردانہ جوتا پہننا اور مردانی صورت بنانا جائز نہیں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے۔

مسئلہ۔ عورتوں کو ان کے زیور پہننا جائز ہے لیکن زیادہ نہ پہننا بہتر ہے جس نے دنیا میں نہ پہنا اس کو آخرت میں ملے گا اور بجتا زیور پہننا درست نہیں جیسے جھانجھ چھاگل پازیب وغیرہ اور بجتا زیور چھوٹی لڑکیوں کو پہنانا بھی جائز نہیں چاندی سونے کے علاوہ اور کسی چیز کا زیور پہننا بھی درست ہے جسے پیتل گلٹ رانگا وغیرہ مگر انگوٹھی سونے چاندی کے علاوہ اور کسی چیز کی درست نہیں۔

مسئلہ۔ عورت کو سارا بدن سے سر پیر تک چھپائے رکھنے کا حکم ہے غیر محرم کے سامنے کھولنا درست نہیں۔ البتہ بوڑھی عورت کو صرف منہ اور ہتھیلی اور ٹخنے سے نیچے پیر کھولنا درست ہے باقی اور بدن کا کھولنا کسی طرح درست نہیں۔ ماتھے پر سے اکثر دوپٹہ سرک جاتا ہے اور اسی طرح غیر محرم کے سامنے جاتی ہیں یہ جائز نہیں۔ غیر محرم کے سامنے ایک بال بھی نہ کھولنا چاہیے بلکہ جو بال کنگھی میں ٹوٹے ہیں اور کٹے ہوئے ناخن بھی کسی ایسی جگہ ڈالے کہ کسی غیر محرم کی نگاہ نہ پڑے نہیں تو گنہگار ہو گی اسی طرح اپنے کسی بدن کو یعنی ہاتھ پاؤں وغیرہ کسی عضو کا نامحرم کے مرد کے بدن سے لگانا بھی درست نہیں۔

مسئلہ۔ جوان عورت کو غیر مرد کے سامنے اپنا منہ کھولنا درست نہیں۔ نہ ایسی جگہ کھڑی ہو جہاں کوئی دوسرا دیکھ سکے۔ اسی سے معلوم ہو گیا کہ نئی دلہن کا منہ دکھائی کا جو دستور ہے کہ کنبے کے سارے مرد منہ دیکھتے ہیں یہ ہرگز جائز نہیں اور بڑا گناہ ہے۔

مسئلہ۔ اپنے محرم کے سامنے منہ اور سر اور سینہ اور باہیں اور پنڈلی کھل جائے تو کچھ گناہ نہیں اور پیٹ اور پیٹھ اور ران ان کے سامنے بھی نہ کھلنا چاہیے۔

مسئلہ۔ ناف سے لے کر زانوں کے نیچے تک کسی عورت کے سامنے بھی کھولنا درست نہیں بعضی عورتیں ننگی سامنے نہاتی ہیں یہ بڑی بے غیرتی اور ناجائز بات ہے۔ چھٹی چھلے میں ننگی کر کے نہلانا اور اس پر مجبور کرنا درست نہیں۔ ناف سے زانو تک ہرگز بدن کو ننگا نہ کرنا چاہیے۔

مسئلہ۔ اگر کوئی مجبوری ہو تو ضرورت کے موافق اپنا بدن دکھلا دینا درست ہے مثلاً ران میں پھوڑا ہے تو صرف پھوڑے کی جگہ کھولو زیادہ ہرگز نہ کھولو۔ اس کی صورت یہ ہے کہ پرانا پائجامہ یا چادر پہن لو اور پھوڑے کی جگہ کاٹ دو اس کو جراح دیکھ لے۔ لیکن جراح کے سوا اور کسی کو دیکھنا جائز نہیں کسی مرد کو نہ عورت کو البتہ اگر ناف اور زانو کے درمیان نہ ہو کہیں اور ہو تو عورت کو دکھلانا درست ہے۔ اسی طرح عمل لیتے وقت صرف ضرورت کے موافق اتنا ہی بدن کھولنا درست ہے زیادہ کھولنا درست نہیں۔ یہی حکم دائی جنائی کا ہے کہ ضرورت کے وقت اس کے سامنے بدن کھولنا درست ہے لیکن جتنی ضرورت ہے اس سے زیادہ کھولنا درست نہیں۔ بچہ پیدا ہونے کے وقت یا کوئی دوا لیتے وقت فقط اتنا ہی بدن کھولنا چاہیے بالکل ننگی ہو جانا جائز نہیں اس کی صورت یہ ہے کہ کوئی چادر وغیرہ بندھوا دی جائے اور ضرورت کے موافق دائی کے سامنے بدن کھول دیا جائے رانیں وغیرہ نہ کھلنے پائیں اور دائی کے سوا کسی اور کو بدن دیکھنا درست نہیں بالکل ننگی کر دینا اور ساری عورتوں کا سامنے بیٹھ کر دیکھنا حرام ہے۔ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے ستر دیکھنے والی اور دکھلانے والی دونوں پر خدا کی لعنت ہو۔ اس قسم کے مسئلوں کا بہت خیال رکھنا چاہیے۔

مسئلہ۔ زمانہ حمل وغیرہ میں اگر دائی سے پیٹ ملوانا ہو تو ناف سے نیچے بدن کا کھولنا درست نہیں۔ دوپٹہ وغیرہ ڈال لینا چاہیے۔ بلا ضرورت دائی کو بھی دکھانا جائز نہیں۔ یہ دستور ہے کہ پیٹ ملتے وقت دائی بھی دیکھتی ہے اور دوسری گھر والی ماں بہن وغیرہ بھی دیکھتی ہے یہ جائز نہیں۔

مسئلہ۔ جتنے بدن کا دیکھنا جائز نہیں وہاں ہاتھ لگانا بھی جائز نہیں اس لیے نہاتے وقت اگر بدن بھی نہ کھولے تب بھی نائن وغیرہ سے رانیں ملوانا درست نہیں اگرچہ کپڑے کے اندر ہاتھ ڈال کر ملے البتہ اگر نائن اپنے ہاتھ میں کیسہ پہن کر کپڑے کے اندر ہاتھ ڈال کر ملے تو جائز ہے۔

مسئلہ۔ کافر عورتیں جیسے اہیرن تنبوان تیلن کولن دھوبن بھنگن چماری وغیرہ جو گھروں میں جاتی ہیں ان کا حکم یہ ہے کہ جتنا پردہ نامحرم مرد سے ہے اتنا ہی ان عورتوں سے بھی واجب ہے سوائے منہ اور گٹے تک ہاتھ اور ٹخنے تک پیر کے اور کسی ایک بال کا کھولنا بھی درست نہیں اس مسئلہ کو خوب یاد رکھو سب عورتیں اس کے خلاف کرتی ہیں غرض سر اور سارا ہاتھ اور پنڈلی ان کے سامنے مت کھولو اور اس سے یہ بھی سمجھ لو کہ اگر دائی جنائی ہندو یا میم ہو تو بچہ پیدا ہونے کا مقام تو اس کو دکھلانا درست ہے اور سر وغیرہ اور اعضا اس کے سامنے کھولنا درست نہیں۔

مسئلہ۔ اپنے شوہر سے کسی جگہ کا پردہ نہیں ہے تم کو اس کے سامنے اور اس کو تمہارے سامنے سارے بدن کا کھولنا درست ہے مگر بے ضرورت ایسا کرنا اچھا نہیں۔

مسئلہ۔ جس طرح خود مردوں کے سامنے آنا اور بدن کھولنا درست نہیں اسی طرح جھانک تاک کے مردوں کو دیکھنا بھی درست نہیں۔ عورتیں یوں سمجھتی ہیں کہ مرد ہم کو نہ دیکھیں ہم ان کو دیکھ لیں تو کچھ حرج نہیں یہ بالکل غلط ہے۔ کواڑ کی راہ یا کوٹھے پر سے مردوں کو دیکھنا دولہا کے سامنے جانا یا اور کسی دولہا کو دیکھنا یہ سب ناجائز ہے۔

مسئلہ۔ نامحرم کے ساتھ تنہائی کی جگہ بیٹھنا لیٹنا درست نہیں اگرچہ دونوں الگ الگ اور کچھ فاصلہ پر ہوں تب بھی جائز نہیں۔

مسئلہ۔ اپنے پیر کے سامنے نا ایسا ہی ہے جیسے کسی غیر محرم کے سامنے آنا اس لیے یہ بھی جائز نہیں۔ اسی طرح لے پالک لڑکا بالکل غیر ہوتا ہے لڑکا بنانے سے سچ مچ لڑکا نہیں بن جاتا سب کو اس سے وہی برتاؤ کرنا چاہیے جو بالکل غیروں کے ساتھ ہوتا ہے۔ اس طرح جو نامحرم رشتہ دار ہیں جیسے دیور جیٹھ بہنوئی نندوئی چچا زاد پھوپھی زاد ماموں زاد بھائی وغیرہ یہ سب شرع میں غیر ہیں سب سے گہرا پردہ ہونا چاہیے۔

مسئلہ۔ ہیجڑے خوجے اندھے کے سامنے آنا بھی جائز نہیں۔

مسئلہ۔ بعضی بعضی منہیار سے چوڑیا پہنتی ہیں یہ بڑی بیہودہ بات ہے اور حرام ہے بلکہ جو عورتیں باہر نکلتی ہیں ا نکو بھی اس سے چوڑیاں پہننا جائز نہیں۔

چاندی سونے کے برتنوں کا بیان

مسئلہ۔ سونے چاندی کے برتن میں کھانا پینا جائز نہیں بلکہ ان کی چیزوں کا کسی طرح سے استعمال کرنا درست نہیں جیسے چاندی سونے کے چمچہ سے کھانا پینا خلال سے دانت صاف کرنا گلاب پاش سے گلاب چھڑکنا سرمہ دانی سے یا سلائی سے سرمہ لگانا عطردان سے عطر لگانا خاصدان میں پان رکھنا ان کی پیالی سے تیل لگانا جس پلنگ کے پائے چاندی کے ہوں پر اس لیٹنا بیٹھنا چاندی سونے کی رسی میں منہ دیکھنا یہ سب حرام ہے۔ البتہ رسی کا زینت کے لیے پہنے رہنا درست ہے مگر منہ ہرگز نہ دیکھے غرض ان کی چیز کا کسی طرح استعمال کرنا درست نہیں۔

نشہ کی چیزوں کا بیان

مسئلہ۔ جتنی شرابیں ہیں سب حرام اور نجس ہیں۔ تاڑی کا بھی یہی حکم ہے دوا کے لیے بھی ان کا کھانا پینا درست نہیں بلکہ جس دوا میں اییر چیز پڑی ہو اس کا لگانا بھی درست نہیں۔

مسئلہ۔ شراب کے سوا اور جتنے نشے ہیں جیسے افیون جائے چھل زعفران وغیرہ کا حکم یہ ہے کہ دوا کے لیے اتنی مقدار کھا لینا درست ہے کہ بالکل نشہ نہ آئے اور اس دوا کا لگانا بھی درست ہے جس میں یہ چیزیں پڑی ہوں اور اتنا کھانا کہ نشہ ہو جائے حرام ہے۔

مسئلہ۔ تاڑی اور شراب کے سرکہ کا کھانا درست ہے۔

مسئلہ۔ بعضی عورتیں بچوں کو افیون دے کر لٹا دیتی ہے کہ نشہ میں پڑے رہیں روئیں دھوئیں نہیں یہ حرام ہے۔

حلال و حرام چیزوں کا بیان

مسئلہ۔ جو جانور اور جو پرندے شکار کر کے کھاتے رہتے ہیں یا ان کی غذا فقط گندگی ہے ان کا کھانا جائز نہیں جیسے شیر بھیڑ یا گیدڑ بلی کتا بندر شکرا باز گدھ وغیرہ۔ اور جو ایسے نہ ہوں جیسے طوطا مینا فاختہ چڑیا بٹیر مرغابی کبوتر نیل گائے ہرن بطخ خرگوش وغیرہ سب جائز ہیں۔

مسئلہ۔ بجو گوہ کچھوا خچر گدھا گدھی کا گوشت کھانا اور گدھی کا دودھ پینا درست نہیں۔ گھوڑے کا کھانا جائز ہے لیکن بہتر نہیں۔ دریائی جانوروں میں سے فقط مچھلی حلال ہے باقی سب حرام۔

مسئلہ۔ مچھلی اور ٹڈی بغیر ذبح کیے ہوئے بھی کھانا درست ہے ان کے سوا اور کوئی جاندار چیز بغیر ذبح کیے کھانا درست نہیں جب کوئی چیز مر گئی تو حرام ہو گئی۔

مسئلہ۔ جو مچھلی مر کر پانی کے اوپر الٹی تیرنے لگی اس کا کھانا درست نہیں۔

مسئلہ۔ اوجھڑی کھانا حلال ہے۔ حرام یا مکروہ نہیں۔

مسئلہ۔ کسی چیز میں چیونٹیاں مر گئیں تو بغیر نکالے کھانا جائز نہیں اگر ایک آدھ چیونٹی حلق میں چلی گئی تو مردار کھانے کا گناہ ہوا۔ بعضے بچے بلکہ بڑے بھی گولر کے اندر کے بھنگےسمیت گولر کھا جاتے ہیں اور یوں سمجھتے ہیں کہ اس کے کھانے سے آنکھیں نہیں آتیں یہ حرام ہے۔ مردار کھانے کا گناہ ہوتا ہے۔

مسئلہ۔ جو گوشت ہندو بیچتا ہے اور یوں کہتا ہے کہ میں نے مسلمان سے ذبح کرایا ہے اس سے مول لے کر کھانا درست نہیں البتہ جس وقت سے مسلمان نے ذبح کیا ہے اگر اسی وقت سے کوئی مسلمان برابر بیٹھا دیکھ رہا ہے یا وہ جانے لگا تو دوسرا کوئی اس کی جگہ بیٹھ گیا تب درست ہے۔

مسئلہ۔ جو مرغی گندی چیزیں کھاتی پھرتی ہو اس کو تین دن بند رکھ کر ذبح کرنا چاہیے بغیر بند کیے کھانا مکروہ ہے۔