ذبح کرنے کا بیان

مسئلہ۔ ذبح کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ جانور کا منہ قبلہ کی طرف کر کے تیز چھری ہاتھ میں لے کر بسم اللہ اللہ اکبر کہہ کے اس کے گلے کو کاٹے یہاں تک کہ چار رگیں کٹ جائیں۔ ایک نرخرہ سے سانس لیتا ہے دوسری وہ رگ جس سے دانہ پانی جاتا ہے اور دو شہ رگیں جو نرخرہ کے دائیں بائیں ہوتی ہیں۔ اگر ان چار میں سے تین ہی رگیں کٹیں تب بھی ذبح درست ہے اس کا کھانا حلال ہے اور اگر دو ہی رگیں کٹیں تو وہ جانور مردار ہو گیا اس کا کھانا درست نہیں۔

مسئلہ۔ ذبح کے وقت بسم اللہ قصداً نہیں کہا تو وہ مردار ہے اور اس کا کھانا حرام ہے اور اگر بھول جائے تو کھانا درست ہے۔

مسئلہ۔ کند چھری سے ذبح کرنا مکروہ ہے اور منع ہے کہ اس میں جانور کو بہت تکلیف ہوتی ہے اسی طرح ٹھنڈا ہونے سے پہلے اس کی کھال کھینچنا ہاتھ پاؤں توڑنا کاٹنا اور ان چاروں رگوں کے کٹ جانے کے بعد بھی گلا کاٹے جانا یہ سب مکروہ ہے۔

مسئلہ۔ ذبح کرنے میں مرغی کا گلا کٹ گیا تو اس کا کھانا درست ہے مکروہ بھی نہیں البتہ اتنا زیادہ ذبح کر دینا یہ بات مکروہ ہے مرغی مکروہ نہیں ہوئی۔

مسئلہ۔ مسلمان کا ذبح کرنا بہرحال درست ہے چاہے عورت ذبح کرے یا مرد اور چاہے پاک ہو یا ناپاک ہو ہر حال میں اس کا ذبح کیا ہوا جانور کھانا حلال ہے اور کافر کا ذبح کیا ہوا جانور کھانا حرام ہے۔

مسئلہ۔ جو چیز دھار دار ہو جیسے دھار دار پتھر گنے یا بانس کا چھلکا سب سے ذبح کرنا درست ہے۔

دین سے پھر جانے کا بیان

مسئلہ۔ اگر خدانخواستہ کوئی اپنے ایمان اور دین سے پھر گئی تو تنہ دن کی مہلت دی جائے گی اور جو اس کو شبہ پڑا ہو اس شبہ کا جواب دے دیا جائے گا۔ اگر اتنی مدت میں مسلمان ہو گئی تو خیر نہیں تو ہمیشہ کے لیے قید کر دیں گے جب توبہ کرے گی تب چھوڑیں گے۔

مسئلہ۔ جب کسی نے کفر کا کلمہ زبان سے نکالا تو ایمان جاتا رہا اور جتنی نیکیاں اور عبادت اس نے کی تھی سب اکارت گئی نکاح ٹوٹ گیا۔ اگر فرض حج کر چکی ہے تو وہ بھی ٹوٹ گیا۔ اب اگر توبہ کر کے پھر مسلمان ہوئی تو اپنا نکاح پھر سے پڑھوائے اور پھر دوسرا حج کرے۔

مسئلہ۔ اسی طرح اگر کسی کا میاں توبہ توبہ بے دین ہو جائے تو بھی نکاح جاتا رہا اب وہ جب تک توبہ کر کے پھر سے نکاح نہ کرے عورت اس سے کچھ واسطہ نہ رکھے۔ اگر کوئی معاملہ میاں بی بی کا سوا تو عورت کو بھی گناہ ہو گا اور اگر وہ زبردستی کرے تو اس کو سب سے ظاہر کر دے شرمائے نہیں دین کی بات میں کیا شرم۔

مسئلہ۔ جب کفر کا کلمہ زبان سے نکالا تو ایمان جاتا رہا۔ اگر ہنسی دل لگی میں کفر کی بات کہے اور دل میں نہ ہو تب بھی یہی حکم ہے جیسے کسی نے کہا کیا خدا کو اتنی قدرت نہیں جو فلانا کام کر دے۔ اس کا جواب دیا ہاں نہیں ہے تو اس کہنے سے کافر ہو گئی۔

مسئلہ۔ کسی نے کہا اٹھو نماز پڑھو جواب دیا کون اٹھک بیٹھک کرے یا کسی نے روزہ رکھنے کو کہا تو جواب دیا کون بھوکا مرے یا کہا روزہ وہ رکھے جس کے گھر کھانا نہ ہو یہ سب کفر ہے۔

مسئلہ۔ اس کو کوئی گناہ کرتے دیکھ کر کسی نے کہا خدا سے ڈرتی نہیں جواب دیا ہاں نہیں ڈرتی تو کافر ہو گئی۔

مسئلہ۔ کسی کو برا کام کرتے دیکھ کر کہا کیا تو مسلمان نہیں ہے جو اییز بات کرتی ہے جواب دیا ہاں نہیں ہوں تو کافر ہو گئی اگر ہنسی میں کہا ہو تب بھی یہی حکم ہے۔

مسئلہ۔ کسی نے نماز پڑھنا شروع کی اتفاق سے اس پر کوئی مصیبت پڑ گی اس لیے کہا کہ یہ سب نماز ہی کی نحوست ہے تو کافر ہو گئی۔

مسئلہ۔ کسی کافر کی کوئی بات اچھی معلوم ہوئی اس لیے تمنا کر کے کہا ہم بھی کافر ہوتے تو اچھا تھا کہ ہم بھی ایسا کرتے تو کافر ہو گئی۔ مسئلہ۔ کسی کا لڑکا مر گیا اس نے یوں کہا یا اللہ یہ ظلم مجھ پر کیوں کیا مجھے کیوں ستایا تو اس کہنے سے وہ کافر ہو گئی۔ مسئلہ۔ کسی نے یوں کہا اگر خدا بھی مجھ سے کہے تو یہ کام نہ کروں۔ یا یوں کہا جبرئیل بھی اترآئیں تو ان کا کہا نہ مانوں تو کافر ہو گئی۔ مسئلہ۔ کسی نے کہا میں ایسا کام کرتی ہوں کہ خدا بھی نہیں جانتا تو کافر ہو گئی۔ مسئلہ۔ جب اللہ تعالی کی یا اس کے کسی رسول کی کچھ حقارت کی یا شریعت کی بات کو برا جانا عیب نکالا کفر کی بات پسند کی ان سب باتوں سے ایمان جاتا رہتا ہے اور کفر کی باتوں کو جن سے ایمان جاتا رہتا ہے ہم نے پہلے ہی حصہ میں سب عقیدوں کے بیان کرنے کے بعد بھی بیان کیا ہے وہاں دیکھ لینا چاہیے اور اپنے ایمان کو سنبھالنے میں بہت احتیاط کرنا چاہیے۔ اللہ تعالی ہم سب کا ایمان ٹھیک رکھے اور ایمان ہی پر خاتمہ کرے۔ مین یا رب العالمین۔

قسم کے کفارہ کا بیان

مسئلہ۔ اگر کسی نے قسم توڑ ڈالی تو اس کا کفارہ یہ ہے کہ دس محتاجوں کو دو وقتہ کھانا کھلائے یا کچا اناج دے اور ہر فقیر کو انگریزی تول سے آدھی چھٹانک اوپر پونے دو سیر گیہوں دینا چاہیے بلکہ احتیاطا پورے دو سیر دے دے اور اگر جو دیے تو اس کے دونے دے باقی اور سب ترکیب فقیر کھانے کی وہی ہے جو روزے کے کفارے میں بیان ہو چکی یا دس فقیروں کو کپڑا پہنا دے ہر فقیر کو اتنا بڑا کپڑا دے جس سے بدن کا زیادہ حصہ ڈھک جائے جیسے چادر یا بڑا لمبا کرتہ دے دیا تو کفارہ ادا ہو گیا۔ لیکن وہ کپڑا بہت پرانا نہ ہونا چاہیے۔ اگر ہر فقیر کو فقط ایک ایک لنگی یا فقط ایک ایک پاجامہ دے دیا تو کفارہ ادا نہیں ہوا اور اگر لنگی کے ساتھ کرتہ بھی ہو تو ادا ہو گیا۔ ان دونوں باتوں میں اختیار ہے چاہے کپڑا دے اور چاہے کھانا کھلائے ہر طرح کفارہ ادا ہو گیا۔ اور یہ حکم جو بیان ہوا جب ہے کہ مرد کو کپڑا دے اور اگر کسی غریب عورت کو کپڑا دیا تو اتنا بڑا کپڑا ہونا چاہیے کہ سارا بدن ڈھک جائے اور اس سے نماز پڑھ سکے اس سے کم ہو گا تو کفارہ ادا نہ ہو گا۔

مسئلہ۔ اگر کوئی ایسی غریب ہو کہ نہ تو کھانا کھلا سکتی ہے اور نہ کپڑا دے سکتی ہے تو لگاتار تین روزے رکھے اگر الگ الگ کر کے تین روزے پورے کر لیے تو کفارہ ادا نہیں ہوا تینوں لگاتار رکھنا چاہیے۔ اگر دو روزے رکھنے کے بعد بیچ میں کسی عذر سے ایک روزہ چھوٹ گیا تو اب پھر تینوں رکھے۔

مسئلہ۔ قسم توڑنے سے پہلے ہی کفارہ ادا کر دیا اس کے بعد قسم توڑی تو کفارہ صحیح نہیں ہوا۔ اب قسم توڑنے کے بعد پھر کفارہ دینا چاہیے اور جو کچھ فقیروں کو دے چکی ہے اس کو پھیر لینا درست نہیں۔

مسئلہ۔ کسی نے کئی دفعہ قسم کھائی جیسے ایک دفعہ کہا خدا قسم فلانا کام نہ کروں گی اس کے بعد پھر کہا خدا قسم فلانا کام نہ کروں گی۔ اسی دن یا اس کے دوسرے تیسرے دن غرض اسی طرح کئی مرتبہ کہا یا یوں کہا خدا کی قسم اللہ کی قسم کلام اللہ کی قسم فلانا کام ضرور کروں گی پھر وہ قسم توڑ دی تو ان سب قسموں کا ایک ہی کفارہ دے دے۔

مسئلہ۔ کسی کے ذمہ قسموں کے بہت کفارے جمع ہو گئے تو بقول مشہور ہر ایک کا جدا کفارہ دینا چاہیے۔ زندگی میں نہ دے تو مرتے وقت وصیت کر جانا واجب ہے۔

مسئلہ۔ کفارہ میں انہی مساکین کو کپڑا یا کھانا دینا درست ہے جن کو زکوٰۃ دینا درست ہے۔

قسم کھانے کا بیان

مسئلہ۔ بے ضرورت بات بات میں قسم کھانا بری بات ہے اس میں اللہ تعالی کے نام کی بڑی بے تعظیمی اور بے حرمتی ہوتی ہے جہاں تک ہو سکے سچی بات پر بھی قسم نہ کھانا چاہیے۔

مسئلہ۔ جس نے اللہ تعالی کی قسم کھائی اور یوں کہا اللہ قسم خدا قسم خدا کی عزت و جلال کی قسم خدا کی بزرگی اور بڑائی کی قسم تو قسم ہو گئی اب اس کے خلاف کرنا درست نہیں۔ اگر خدا کا نام نہی لیا فقط اتنا کہہ دیا میں قسم کھاتی ہوں کہ فلاں کام نہ کروں گی بھی قسم ہو گئی۔

مسئلہ۔ اگر یوں کہا خدا گواہ ہے خدا کو گواہ کر کے کہتی ہوں خدا کو حاضر و ناظر جان کے کہتی ہوں تب بھی قسم ہو گئی۔

مسئلہ۔ قرآن کی قسم کلام اللہ کی قسم کلام مجید کی قسم کھا کر کوئی بات کہی تو قسم ہو گئی اور اگر کلام مجید کو ہاتھ میں لے کر آیا اس پر ہاتھ رکھ کر کوئی بات کہی لیکن قسم نہیں کھائی تو قسم نہیں ہوئی۔

مسئلہ۔ یوں کہا اگر فلانا کام کروں تو بے ایمان ہو کر مروں مرتے وقت ایمان نہ نصیب ہو بے ایمان ہو جاؤں یا اس طرح کہا اگر فلانا کام کروں تو میں مسلمان نہیں تو قسم ہو گئی اس کے خلاف کرنے سے کفارہ دینا پڑے گا اور ایمان نہ جائے گا۔

مسئلہ۔ اگر فلانا کام کروں تو ہاتھ ٹوٹیں دے دے پھوٹیں کوڑھی ہو جائے بدن پھوٹ نکلے خدا کا غضب ٹوٹے آسمان پھٹ پڑے دانے دانے کی محتاج ہو جائے خدا کی مار پڑے خدا کی پھٹکار پڑے اگر فلانا کام کروں تو سور کھاؤں مرتے وقت کلمہ نہ نصیب ہو قیامت کے دن خدا اور رسول کے سامنے زرد رو ہوں ان باتوں سے قسم نہیں ہوتی اس کے خلاف کرنے سے کفارہ نہ دینا پڑے گا۔

مسئلہ۔ خدا کے سوا اور کسی کی قسم کھانے سے قسم نہیں ہوتی جیسے رسول اللہ کی قسم کعبہ کی قسم اپنی آنکھوں کی قسم اپنی جوانی کی قسم اپنے ہاتھ پیروں کی قسم اپنے باپ کی قسم اپنے بچے کی قسم اپنے پیاروں کی قسم تمہارے سر کی قسم تمہاری جان کی قسم تمہاری قسم اپنی قسم اس طرح قسم کھا کے پھر اس کے خلاف کرے تو کفارہ نہ دینا پڑے گا۔ لیکن اللہ تعالی کے سوا کسی اور کی قسم کھانا بڑا گناہ ہے۔ حدیث شریف میں اس کی بڑی ممانعت آئی ہے۔ اللہ کو چھوڑ کر اور کسی کی قسم کھانا شرک کی بات ہے اس سے بہت بچنا چاہیے۔

مسئلہ۔ کسی نے کہا تیرے گھر کا کھانا مجھ پر حرام ہے یا یوں کہا فلانی چیز میں نے اپنے اوپر حرام کر لی تو اس کہنے سے وہ چیز حرام نہیں ہوئی لیکن یہ قسم ہو گئی اب اگر کھائے گی تو کفارہ دینا پڑے گا۔

مسئلہ۔ کسی دوسرے کی قسم دلانے سے قسم نہیں ہوتی جیسے کسی نے تم سے کہا تمہیں خدا کی قسم یہ کام ضرور کرو تو یہ قسم نہیں ہوئی اس کے خلاف کرنا درست ہے۔

مسئلہ۔ قسم کھا کر اس کے ساتھ ہی انشاء اللہ کا لفظ کہہ دیا جیسے کوئی اس طرح کہے خدا کی قسم فلانا کام انشاء اللہ نہ کروں گی تو قسم نہیں ہوئی۔

مسئلہ۔ جو بات ہو چکی ہے اس پر جھوٹی قسم کھانا بڑا گناہ ہے جیسے کسی نے نماز نہیں پڑھی اور جب کسی نے پوچھا تو کہہ دیا خدا کی قسم میں نماز پڑھ چکی یا کسی سے گلاس ٹوٹ گیا اور جب پوچھا گیا تو کہہ دیا خدا کی قسم میں نے نہیں توڑا جان بوجھ کر جھوٹی قسم کھا لی تو اس کے گناہ کی کوئی حد نہیں اور اس کا کوئی کفارہ نہیں۔ بس دن رات اللہ سے توبہ و استغفار کر کے اپنا گناہ معاف کرائے سوائے اس کے اور کچھ نہیں ہو سکتا اور اگر غلطی اور دھوکہ میں جھوٹی قسم کھا لی جیسے کسی نے کہا خدا کی قسم ابھی فلانا آدمی نہیں آیا اور اپنے دل میں یقین کے ساتھ یہی سمجھتی ہے کہ سچی قسم کھا رہی ہوں پھر معلوم ہوا کہ اس وقت گیا تھا تو معاف ہے اس میں گناہ نہ ہو گا اور کچھ کفارہ بھی نہیں۔

مسئلہ۔ اگر ایسی بات پر قسم کھائی جو ابھی نہیں ہوئی بلکہ آئندہ ہو گی جیسے کوئی کہے خدا کی قسم آج پانی برسے گا خدا کی قسم آج میرا بھائی آئے گا پھر وہ نہیں آیا اور پانی نہیں برسا تو کفارہ دینا پڑے گا۔

مسئلہ۔ کسی نے قسم کھائی خدا قسم آج قرآن ضرور پڑھوں گی تو اب قرآن پڑھنا واجب ہو گیا نہ پڑھے گی تو گناہ ہو گا اور کفارہ دینا پڑے گا اور کسی نے قسم کھائی خدا کی قسم آج فلانا کام نہ کروں گی تو وہ کام کرنا درست نہیں اگر کرے گی تو قسم توڑنے کا کفارہ دینا پڑے گا۔

مسئلہ۔ کسی نے گناہ کرنے کی قسم کھائی کہ خدا قسم آج فلانے کی چیز چراؤں گی خدا قسم آج نماز نہ پڑھوں گی۔ خدا قسم اپنے ماں باپ سے کبھی نہ بولوں گی تو ایسے وقت قسم کا توڑ دینا واجب ہے توڑ کے کفارہ دے دے نہیں تو گناہ ہو گا۔

مسئلہ۔ کسی نے قسم کھائی کہ آج میں فلانی چیز نہ کھاؤں گی پھر بھولے سے کھا لی اور قسم یاد نہیں رہی یا کسی نے زبرستی منہ چیر کر کھلا دی تب بھی کفارہ دے۔

مسئلہ۔ غصہ میں قسم کھائی کہ تجھ کو کبھی ایک کوڑی نہ دوں گی پھر ایک پیسہ یا ایک روپیہ دے دیا تب بھی قسم ٹوٹ گئی کفارہ دے۔

منت ماننے کا بیان

مسئلہ۔ کسی کام پر عبادت کی بات کی کوئی منت مانی پھر وہ کام پورا ہو گیا جس کے واسطے منت مانی تھی تو اب منت کا پورا کرنا واجب ہے اگر منت پوری نہ کرے گی تو بہت گناہ ہو گا لیکن اگر کوئی واہیات منت ہو جس کا شرع میں کچھ اعتبار نہیں تو اس کا پورا کرنا واجب نہیں جیسا کہ ہم آگے بیان کرتے ہیں۔

مسئلہ۔ کسی نے کہا یا اللہ اگر میرا فلانا کام ہو جائے تو پانچ روزے رکھوں گی تو جب کام ہو جائے گا پانچ روزے رکھنے پڑیں گے اور اگر کام نہیں ہوا تو نہ رکھنا پڑیں گے۔ اگر فقط اتنا ہی کہا ہے کہ پانچ روزے رکھوں گی تو اختیار ہے چاہے پانچوں روزے ایکدم سے لگاتار رکھے اور چاہے ایک ایک دو دو کر کے پورے پانچ کر لے دونوں باتیں درست ہیں اور اگر نذر کر تے وقت یہ کہہ دیا کہ پانچوں روزے لگاتار رکھوں گی یا دل میں یہ نیت تھی تو سب ایکدم رکھنے پڑیں گے اگر بیچ میں ایک آدھ چھوٹ جائے تو پھر سے رکھے۔

مسئلہ۔ اگر یوں کہا کہ جمعہ کا روزہ رکھوں گی محرم کی پہلی تاریخ سے دسویں تاریخ تک روزے رکھوں گی تو خاص جمعہ کو روزہ رکھنا واجب نہیں اور محرم کی خاص انہی تاریخوں میں روزہ رکھنا واجب نہیں جب چاہے دس روزے رکھ لے لیکن دسوں لگاتار رکھنا پڑیں گے چاہے محرم میں رکھے چاہے کسی اور مہینے میں سب جائز ہے اسی طرح اگر یہ کہا کہ اگر آج میرا یہ کام ہو جائے تو کل ہی روزہ رکھوں گی جب بھی اختیار ہو جب چاہے رکھے۔

مسئلہ۔ کسی نے نذر کرتے وقت یوں کہا محرم کے مہینے کو روزے رکھوں گی تو محرم کے پورے مہینے کے روزے لگاتار رکھنا پڑیں گے اگر بیچ میں کسی وجہ سے دس پانچ روزے چھوٹ جائیں تو اس کے بدلے اتنے روزے اور رکھ لے سارے روزے نہ دہرائے اور یہ بھی اختیار ہے کہ محرم کے مہینہ میں نہ رکھے اور مہینہ میں رکھے لیکن سب لگاتار رکھے۔

مسئلہ۔ کسی نے منت مانی کہ میری کھوئی ہوئی چیز مل جائے تو میں آٹھ رکعت نماز پڑھوں گی تو اس کے مل جانے پر آٹھ رکعت نماز پڑھنا پڑے گی چاہے ایکدم سے آٹھوں رکعتوں کی نیت باندھے یا چار چار کی نیت باندھے یا دو دو کی سب اختیار ہے اور اگر چار رکعت کی منت مانی تو چاروں ایک ہی سلام سے پڑھناہوں گی الگ الگ دو دو پڑھنے سے نذر ادا نہ ہو گی۔

مسئلہ۔ کسی نے ایک رکعت پڑھنے کی منت مانی تو پوری دو رکعتیں پڑھنی پڑیں گی اگر تین کی منت کی تو پوری چار۔ اگر پانچ کی منت کی تو پوری چھ رکعتیں پڑھے۔ اسی طرح آگے کا بھی یہی حکم ہے۔

مسئلہ۔ یوں منت مانی کہ دس روپے خیرات کروں گی یا ایک روپیہ خیرات کروں گی تو جتنا کہا ہے اتنا خیرات کرے۔ اگر یوں کہا کہ پچاس روپے خیرات کروں گی اور اس کے پاس اس وقت فقط دس ہی روپے کی کائنات ہے تو دس ہی روپے دینا پڑیں گے۔ البتہ اگر دس روپے کے سوا کچھ مال اسباب بھی ہے تو اس کی قیمت بھی لگا لیں اس کی مثال یہ سمجھو کہ دس روپے نقد ہیں اور سب مال اسباب پندرہ روپے کا ہے یہ سب پچیس روپے ہوئے تو فقط پچیس روپے خیرات کرنا واجب ہے اس سے زیادہ واجب نہیں۔

مسئلہ۔ اگر یوں منت مانی کہ دس مسکین کھلاؤں گی تو اگر دل میں کچھ خیال ہے کہ ایک وقت یا دو وقت کھلاؤں گی تب تو اسی طرح کھلا دے اور اگر کچھ خیال نہیں تو دو وقتہ دس مسکین کھلائے اور اگر کچا اناج دے تو اس میں بھی یہی بات ہے کہ اگر دل میں کچھ خیال تھا کہ اتنا اتنا ہر ایک کو دوں گی تو اسی قدر دے اور اگر کچھ خیال نہ تھا تو ہر ایک کو اتنا دے جتنا ہم نے صدقہ فطر میں بیان کیا ہے۔

مسئلہ۔ اگر یوں کہا ایک روپیہ کی روٹی فقیروں کو بانٹوں گی تو اختیار ہے چاہے ایک روپیہ کی روٹی دے چاہے ایک روپیہ کی کوئی اور چیز یا ایک روپیہ نقد دے دے۔

مسئلہ۔ کسی نے یوں کہا دس روپے خیرات کروں گی ہر فقیر کو ایک ایک روپیہ پھر دسوں روپے ایک ہی فقیر کو دے دے تو بھی جائز ہے ہر فقیر کو ایک ایک روپیہ دینا واجب نہیں۔ اگر دس روپے بیس فقیروں کو دے دیئے تو بھی جائز ہے اور اگر یوں کہا دس روپے دس فقیروں پر خیرات کروں گی تو بھی اختیار ہے چاہے دس کو دے چاہے کم زیادہ کو۔

مسئلہ۔ اگر یوں کہا دس نمازی کھلاؤں گی یا دس حافظ کھلاؤں گی تو دس فقیر کھلا دے چاہے وہ نمازی اور حافظ ہوں یا نہ ہوں۔

مسئلہ۔ کسی نے یوں کہ کہ دس روپے مکہ میں خیرات کروں گی تو مکہ میں خیرات کرنا واجب نہیں جہاں چاہے خیرات کرے۔ یا یوں کہا تھا جمعہ کے دن خیرات کروں گی فلانے فقیر کو دوں گی تو جمعہ کے دن خیرات کرنا اور اسی فقیر کو دینا ضروری نہیں اسی طرح اگر روپے مقرر کر کے کہا کہ یہی روپے اللہ تعالی کی راہ میں دوں گی تو بعینہ وہی روپے دینا واجب نہیں چاہے وہ دے یا اتنے ہی اور دے دے۔

مسئلہ۔ اسی طرح اگر منت مانی کہ جامع مسجد میں نماز پڑھوں گی یا مکہ میں نماز پڑھوں گی تو بھی اختیار ہے جہاں چاہے پڑھے۔

مسئلہ۔ کسی نے کہ اگر میرا بھائی اچھا ہو جائے تو ایک بکری ذبح کروں گی یا یوں کہا ایک بکری کا گوشت خیرات کروں گی تو منت ہو گئی اگر یوں کہا کہ قربانی کروں گی تو قربانی کے دنوں میں ذبح کرنا چاہئے اور دونوں صورتوں میں اس کا گوشت فقیروں کے سوا اور کسی کو دینا اور خود کھانا درست نہیں جتنا خود کھائے یا امیروں کو دے دے اتنا پھر خیرات کرنا پڑے گا۔

مسئلہ۔ ایک گائے قربانی کرنے کی منت مانی پھر گائے نہیں ملی تو سات بکریاں کر دے۔

مسئلہ۔ یوں منت مانی تھی کہ جب میرا بھائی آئے تو دس روپے خیرات کروں گی پھر آنے کی خبر پا کر اس نے آنے سے پہلے ہی روپے خیرات کر دیئے تو منت پوری نہیں ہوئی آنے کے بعد پھر خیرات کرے۔

مسئلہ۔ اگر ایسے کام کے ہونے پر منت مانی جس کے ہونے کو چاہتی اور تمنا کرتی ہو کہ یہ کام ہو جائے جیسے یوں کہے اگر میں اچھی ہو جاؤں تو ایسا کروں۔ اگر میرا بھائی خیریت سے آ جائے تو ایسا کروں۔ اگر میرا باپ مقدمہ سے بری ہو جائے یا نوکر ہو جائے تو ایساکروں تو جب وہ کام ہو جائے منت پوری کرے۔ اور اگر اس طرح کہا کہ اگر میں تجھ سے بولوں تو دو روزے رکھوں۔ یا یہ کہا اگر آج میں نماز نہ پڑھوں تو ایک روپیہ خیرات کروں پھر اس سے بولدی یا نماز نہ پڑھی تو اختیار ہے چاہے قسم کا کفارہ دے دے اور چاہے دو روزے رکھے اور ایک روپیہ خیرات کرے۔

مسئلہ۔ یہ منت مانی کہ ایک ہزار مرتبہ درود شریف پڑھوں گی یا ہزار مرتبہ کلمہ پڑھوں گی تو منت ہو گئی اور پڑھنا واجب ہو گیا اور اگر کہا ہزار دفعہ سبحان اللہ سبحان اللہ پڑھوں گی یا ہزار دفعہ لاحول پڑھوں گی تو منت نہیں ہوئی اور پڑھنا واجب نہیں۔

مسئلہ۔ منت مانی کہ دس کلام مجید ختم کروں گی یا ایک پارہ پڑھوں گی تو منت ہو گئی۔

مسئلہ۔ یہ منت مانی کہ اگر فلانا کام ہو جائے تو مولود پڑھواؤں گی تو منت نہیں ہوئی یا یہ منت کی کہ فلانی بات ہو جائے تو فلانے مزار پر چادر چڑھاؤں یہ منت بھی نہیں ہوئی یا شاہ عبدالحق صاحب کا توشہ مانا یا سہ منی یا سید کبیر کی گائے مانی یا مسجد میں گلگلے چڑھانے اور اللہ میاں کے طاق بھرنے کی منت مانی یا بڑے پیر کی گیارہویں کی منت مانی تو یہ منت صحیح نہیں ہوئی اس کا پورا کرنا واجب نہیں۔

مسئلہ۔ مولی مشکل کشا کا روزہ آس بی بی کا کونڈا یہ سب واہیات خرافات ہے۔ اور مشکل کشا کا روزہ ماننا شرک ہے۔

مسئلہ۔ یہ منت مانی کہ فلانی مسجد جو ٹوٹی پڑی ہے اس کو بنوا دوں گی یا فلانا پل بندھوا دوں گی تو یہ منت بھی صحیح نہیں ہے اس کے ذمہ کچھ واجب نہیں ہوا۔

مسئلہ۔ اگر یوں کہا کہ میرا بھائی اچھا ہو جائے تو ناچ کراؤں گی یا باجہ بجواؤں گی تو یہ منت گناہ ہے اچھا ہونے کے بعد ایسا کرنا جائز نہیں۔

مسئلہ۔ اللہ تعالی کے علاوہ کسی اور سے منت ماننا مثلاً یوں کہنا اے بڑے پیر اگر میر اکام ہو جائے تو میں تمہاری یہ بات کروں گی یا قبروں اور مزاروں پر جانا یا جہاں جن رہتے ہوں وہاں جانا اور درخواست کرنا حرام اور شرک ہے بلکہ اس منت کی چیز کا کھانا بھی حرام ہے اور قبروں پر جانے کی عورتوں کے لیے حدیث میں ممانعت آئی ہے حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے۔

زیارت مدینہ کا بیان

اگر گنجائش ہو تو حج کے بعد یا حج سے پہلے مدینہ منورہ حاضر ہو کر جناب رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ مبارک اور مسجد نبوی کی زیارت سے برکت حاصل کرے۔ اس کی نسبت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جس شخص نے میری وفات کے بعد میری زیارت کی اس کو وہی برکت ملے گی جیسے میری زندگی میں کسی نے زیارت کی۔ اور یہ بھی فرمایا ہے کہ جو شخص خالی حج کر لے اور میری زیارت کو نہ آئے اس نے میرے ساتھ بڑی بے مروتی کی اور اس مسجد کے حق میں آپ نے فرمایا ہے کہ جو شخص اس میں ایک نماز پڑھے اس کو پچاس ہزار نماز کے برابر ثواب ملے گا۔ اللہ تعالی ہم سب کو یہ دولت نصیب کرے اور نیک کاموں کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔

حج کا بیان

جس شخص کے پاس ضروریات سے زائد اتنا خرچ ہو کہ سواری پر متوسط گزارن سے کھاتا پیتا چلا جائے اور حج کر کے چلا آئے اس کے ذمہ حج فرض ہو جاتا ہے اور حج کی بڑی بزرگی آئی ہے چنانچہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو حج گناہوں اور خرابیوں سے پاک ہو اس کا بدلہ بجز بہشت کے اور کچھ نہیں۔ اسی طرح عمرہ پر بھی بڑے ثواب کا وعدہ فرمایا گیا ہے چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ حج اور عمرہ دونوں کے دونوں گناہوں کو اس طرح دور کرتے ہیں جیسے بھٹی لوہے کے میل کو دور کر دیتی ہے اور جس کے ذمہ حج فرض ہوا اور وہ نہ کرے اس کے لیے بڑی دھمکی آئی ہے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے جس شخص کے پاس کھانے پینے اور سواری کا اتنا سامان ہو جس سے وہ بیت اللہ شریف جا سکے اور پھر وہ حج نہ کرے تو وہ یہودی ہو کر مرے یا نصرانی ہو کر مرے خدا کو اس کی کچھ پرواہ نہیں۔ اور یہ بھی فرمایا ہے کہ حج کا ترک کرنا اسلام کا طریقہ نہیں ہے۔

مسئلہ۔ عمر بھر میں ایک مرتبہ حج کرنا فرض ہے۔ اگر کئی حج کیے تو ایک فرض ہوا اور سب نفل ہیں اور ان کا بھی بہت بڑا ثواب ہے۔

مسئلہ۔ جوانی سے پہلے لڑکپن میں اگر کوئی حج کیا ہے تو اس کا کچھ اعتبار نہیں ہے۔ اگر مالدار ہے تو جوان ہونے کے بعد پھر حج کرنا فرض ہے۔ اور جو حج لڑکپن میں کیا ہے وہ نفل ہے۔

مسئلہ۔ اندھی پر حج فرض نہیں ہے چاہے جتنی مالدار ہو۔

مسئلہ۔ جب کسی پر حج فرض ہو گیا تو فورا اسی سال حج کرنا واجب ہے بلا عذر دیر کرنا اور یہ خیال کرنا کہ ابھی عمر پڑی ہے پھر کسی سال حج کر لیں گے درست نہیں ہے۔ پھر دو چار برس کے بعد بھی اگر حج کر لیا تو ادا ہو گیا لیکن گنہگار ہوئی۔

مسئلہ۔ حج کرنے کے لیے راستہ میں اپنے شوہر کا یا کسی محرم کا ساتھ ہونا بھی ضروری ہے۔ بغیر اس کے حج کے لیے جانا درست نہیں ہے۔ ہاں البتہ اگر مکہ سے اتنی دور پر رہتی ہو کہ اس کے گھر سے مکہ تک تنہا منزل نہ ہو تو بے شوہر اور محرم کے ساتھ ہوئے بھی جانا درست ہے۔

مسئلہ۔ اگر وہ محرم نابالغ ہو یا ایسا بد دین ہو کہ ماں بہن وغیرہ سے بھی اس پر اطمینان نہیں تو اس کے ساتھ جانا درست نہیں۔

مسئلہ۔ جب کوئی محرم قابل اطمینان ساتھ جانے کے لیے مل جائے تو اب حج کو جانے سے شوہر کا روکنا درست نہیں ہے اگر شوہر روکے بھی تو اس کی بات نہ مانے اور چلی جائے۔

مسئلہ۔ جو لڑکی ابھی جوان نہیں ہوئی لیکن جوانی کے قریب ہو چکی ہے اس کو بھی بغیر شرعی محرم کے جانا درست نہیں اور غیر محرم کے ساتھ جانا بھی درست نہیں۔

مسئلہ۔ جو محرم اس کو حج کرانے کے لیے جائے اس کا سارا خرچ اسی پر واجب ہے کہ جو کچھ خرچ ہو دے۔

مسئلہ۔ اگر ساری عمر ایسا محرم نہ ملا جس کے ساتھ سفر کرے تو حج نہ کرنے کا گناہ نہ ہو گا۔ لیکن مرتے وقت یہ وصیت کر جانا واجب ہے کہ میری طرف سے حج کرا دینا۔ مر جانے کے بعد اس کے وارث اسی کے مال میں سے کسی آدمی کو خرچ دے کر بھیجیں کہ وہ جا کر مردہ کی طرف سے حج کرائے۔ اس سے اس کے ذمہ کا حج اتر جائے گا اور اس حج کو جو دوسرے کی طرف سے کیا جاتا ہے حج بدل کہتے ہیں۔

مسئلہ۔ اگر کسی کے ذمہ حج فرض تھا اور اس نے سستی سے دیر کر دی پھر وہ اندھی ہو گئی یا ایسی بیمار ہو گئی کہ سفر کے قابل نہ رہی تو اس کو بھی حج بدل کی وصیت کر جانا چاہیے۔ مسئلہ۔ اگر وہ اتنا مال چھوڑ کر مری ہو کہ قرض وغیرہ دے کر تہائی مال میں سے حج بدل کرا سکتے ہیں تب تو وارث پر اس کی وصیت کا پورا کرنا اور حج بدل کرانا واجب ہے۔ اور اگر مال تھوڑا ہے کہ ایک تہائی میں سے حج بدل نہیں ہو سکتا تو اس کا ولی حج نہ کرائے۔ ہاں اگر ایسا کرے کہ تہائی مال مردہ کا دے اور جتنا زیادہ لگے وہ خود دے تو البتہ حج بدل کرا سکتا ہے غرض یہ ہے کہ مردے کا تہائی مال سے زیادہ نہ دے۔ ہاں اگر اس کے سب وارث بخوشی راضی ہو جائیں کہ ہم اپنا حصہ نہ لیں گے تم حج بدل کرا دو تو تہائی مال سے زیادہ لگا دینا بھی درست ہے لیکن نابالغ وارثوں کی اجازت کا شرع میں کچھ اعتبار نہیں ہے اس لیے ان کا حصہ ہرگز نہ لے۔

مسئلہ۔ اگر وہ حج بدل کی وصیت کر کے مر گئی لیکن مال کم تھا اس لیے تہائی مال میں حج بدل نہ ہو سکا اور تہائی سے زیادہ لگانے کو وارثوں نے خوشی سے منظور نہ کیا اس لیے حج نہیں کرایا گیا تو اس بیچاری پر کوئی گناہ نہیں۔

مسئلہ۔ سب وصیتوں کا یہی حکم ہے۔ سو اگر کسی کے ذمے بہت روزے یا نمازیں قضا باقی تھیں یا زکوٰۃ باقی تھی اور وصیت کر کے مر گئی تو فقط تہائی مال سے یہ سب کچھ کیا جائے گا۔ تہائی سے زیادہ بغیر وارثوں کی دلی رضا مندی کے لگانا جائز نہیں ہے۔ اور اس کا بیان پہلے بھی ہوچکا ہے۔

مسئلہ۔ بغیر وصیت کے اس کے مال میں سے حج بدل کرانا درست نہیں ہے۔ ہاں اگر سب وارث خوشی سے منظور کر لیں تو جائز ہے۔ اور انشاء اللہ حج فرض ادا ہو جائے گا مگر نابالغ کی اجازت کا کچھ اعتبار نہیں۔

مسئلہ۔ اگر یہ عورت عدت میں ہو تو عدت چھوڑ کر حج کو جانا درست نہیں۔

مسئلہ۔ جس کے پاس مکہ آمدورفت کے لائق خرچ ہو اور مدینہ کا خرچ نہ ہو اس کے ذمہ حج فرض ہو گا بعضے آدمی سمجھتے ہیں کہ جب تک مدینہ کا بھی خرچ نہ ہو جانا فرض نہیں یہ بالکل غلط خیال ہے۔

مسئلہ۔ احرام میں عورت کو منہ ڈھانکنے میں منہ سے کپڑا لگانا درست نہیں۔ آج کل اس کام کے لیے ایسا جالی دار پنکھا بکتا ہے اس کو چہرہ پر باندھ لیا جائے اور آنکھوں کے روبرو جالی رہے۔ اس پر برقعہ پڑا رہے یہ درست ہے۔

مسئلہ۔ مسائل حج کے بدون حج کیے نہ سمجھ میں آ سکتے ہیں نہ یاد رہ سکتے ہیں۔ اور جب حج کو جاتے ہیں وہاں معلم لوگ سب بتلا دیتے ہیں۔ اس لیے لکھنے کی ضرورت نہیں سمجھی۔ اسی طرح عمرہ کی ترکیب بھی وہاں جا کر معلوم ہو جاتی ہے۔

عقیقے کا بیان

مسئلہ۔ جس کے کوئی لڑکا یا لڑکی پیدا ہو تو بہتر ہے کہ ساتویں دن اس کا نام رکھ دے اور عقیقہ کر دے۔ عقیقہ کر دینے سے بچہ کی سب الا بلا دور ہو جاتی ہے اور فتنوں سے حفاظت رہتی ہے۔

مسئلہ۔ عقیقہ کا طریقہ یہ ہے کہ اگر لڑکا ہو تو دو بکری یا دو بھیڑ اور لڑکی ہو تو ایک بکری یا بھیڑ ذبح کرے یا قربانی کی گائے میں لڑکے کے واسطے دو حصے اور لڑکی کے واسطے ایک حصہ لے۔ اور سر کے بال منڈوا دے اور بال کے برابر چاندی یا سونا تول کر خیرات کر دے اور بچہ کے سر میں اگر دل چاہے تو زعفران لگا دے۔

مسئلہ۔ اگر ساتویں دن عقیقہ نہ کرے تو جب کرے ساتویں دن ہونے کا خیال کرنا بہتر ہے۔ اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ جس دن بچہ پیدا ہوا ہو اس سے ایک دن پہلے عقیقہ کر دے۔ یعنی اگر جمعہ کو پیدا ہوا ہو تو جمعرات کو عقیقہ کر دے اور اگر جمعرات کو پیدا ہوا ہو تو بدھ کو کرے چاہے جب کرے وہ حساب سے ساتواں دن پڑے گا۔

مسئلہ۔ یہ جو دستور ہے کہ جس وقت بچہ کے سر پر استرا رکھا جائے اور نائی سر مونڈنا شروع کرے فورا اسی وقت بکری ذبح ہو۔ یہ محض مہمل رسم ہے۔ شریعت سے سب جائز ہے چاہے سر مونڈنے کے بعد ذبح کرے یا ذبح  کر لے تب سر مونڈے۔ بے وجہ ایسی باتیں تراش لینا برا ہے۔

مسئلہ۔ جس جانور کی قربانی جائز نہیں اس کا عقیقہ بھی درست نہیں اور جس کی قربانی درست ہے اس کا عقیقہ بھی درست ہے۔

مسئلہ۔ عقیقہ کا گوشت چاہے کچا تقسیم کرے چاہے پکا کر بانٹے چاہے دعوت کر کے کھلا دے سب درست ہے۔

مسئلہ۔ عقیقہ کا گوشت باپ دادا نانا نانی دادی وغیرہ سب کو کھانا درست ہے۔

مسئلہ۔ کسی کو زیادہ توفیق نہیں اس نے لڑکے کی طرف سے ایک ہی بکری کا عقیقہ کیا تو اس کا بھی کچھ حرج نہیں ہے۔ اور اگر بالکل عقیقہ ہی نہ کرے تو بھی کچھ حرج نہیں۔

قربانی کا بیان

قربانی کا بڑا ثواب ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ قربانی کے دنوں میں قربانی سے زیادہ کوئی چیز اللہ تعالی کو پسند نہیں ان دونوں میں یہ نیک کام سب نیکیوں سے بڑھ کر ہے اور قربانی کرتے وقت یعنی ذبح کرتے وقت خون کا جو قطرہ زمین پر گرتا ہے تو زمین تک پہنچنے سے پہلے ہی اللہ تعالی کے پاس مقبول ہو جاتا ہے تو خوب خوشی سے اور خوب دل کھول کر قربانی کیا کرو اور حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ قربانی کے بدن پر جتنے بال ہوتے ہیں ہر ہر بال کے بدلے میں ایک ایک نیکی لکھی جاتی ہے۔ سبحان اللہ بھلا سوچو تو کہ اس سے بڑھ کر اور کیا ثواب ہو گا کہ ایک قربانی کرنے سے ہزاروں لاکھوں نیکیاں مل جاتی ہیں۔ بھیڑ کے بدن پر جتنے بال ہوتے ہیں اگر کوئی صبح سے شام تک گنے تب بھی نہ گن پائے۔ پس سوچو تو کتنی نیکیاں ہوئیں بڑی دینداری کی بات تو یہ ہے کہ اگر کسی پر قربانی کرنا واجب بھی نہ ہو تب بھی اتنے بے حساب ثواب کے لالچ سے قربانی کر دنا چاہیے کہ جب یہ دن چلے جائیں تو یہ دولت کہاں نصیب ہو گئی اور اتنی آسانی سے اتنی نیکیاں کیسے کما سکے گی اور اگر اللہ نے مالدار اور امیر بنایا ہو تو مناسب ہے کہ جہاں اپنی طرف سے قربانی کرے جو رشتہ دار مر گئے ہیں جیسے ماں باپ وغیرہ ان کی طرف سے بھی قربانی کر دے کہ ان کی رو کو اتنا بڑا ثواب پہنچ جائے۔ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے آپ کی بیبیوں کی طرف سے اپنے پیر وغیرہ کی طرف سے کر دے اور نہیں تو کم سے کم اتنا تو ضرور کرے کہ اپنی طرف سے قربانی کرے کیونکہ مالدار پر تو واجب ہے جس کے پاس مال و دولت سب کچھ موجود ہے اور قربانی کرنا اس پر واجب ہے پھر بھی اس نے قربانی نہ کی اس سے بڑھ کر بدنصیب اور محروم اور کون ہو گا اور گناہ رہا سو الگ۔ جب قربانی کا جانور قبلہ رخ لٹا دے تو پہلے یہ دعا پڑھے۔

انی وجہت وجہی للذی فطر السموات والارض حنیفا وما انا من المشرکین ان صلوتی ونسلی ومحیای وممانی للہ رب العلمین لا شریک لہ وبذلک امرت وانا من المسلمین اللہم منک ولک پھر بسم اللہ اللہ اکبر کہہ کر ذبح کرے اور ذبح کرنے کے بعد یہ دعا پڑھے۔ اللہم تقبلہ منی کما تقبلت من حبیبک محمد وخلیلک ابراہیم علیہما الصلوۃ والسلام۔

مسئلہ۔ جس پر صدقہ فطر واجب ہے اس پر بقر عید کے دنوں قربانی کرنا بھی واجب ہے اور اگر اتنا مال نہ ہو جتنے کے ہونے سے صدق فطر واجب ہوتا ہے تو اس پر قربانی واجب نہیں ہے لیکن پھر بھی اگر کر دے تو بہت ثواب پائے۔

مسئلہ۔ مسافر پر قربانی واجب نہیں

مسئلہ۔ بقر عید کی دسویں تاریخ سے لے کر بارہویں تاریخ کی شام تک قربانی کرنے کا وقت ہے چاہے جس دن قربانی کرے لیکن قربانی کرنے کا سب سے بہتر دن عید کا دن ہے پھر گیارہویں تاریخ پھر بارہویں تاریخ۔

مسئلہ۔ بقر عید کی نماز ہونے سے پہلے قربانی کرنا درست نہیں ہے جب لوگ نماز پڑ چکیں تب کرے البتہ اگر کوئی کسی دیہات میں اور گاؤں میں رہتی ہو تو وہاں طلوع صبح صادق کے بعد بھی قربانی کر دینا درست ہے۔ شہر کے اور قصبہ میں رہنے والے نماز کے بعد کریں۔

مسئلہ۔ اگر کوئی شہر کی رہنے والی اپنی قربانی کا جانور کسی گاؤں بھیج دے تو اس کی قربانی بقر عید کی نماز سے پہلے درست ہے اگرچہ خود وہ شہر ہی میں موجود ہے۔ لیکن جب قربانی دیہات میں بھیج دے تو نماز سے پہلے قربانی کرنا درست ہو گیا۔ ذبح ہو جانے کے بعد اس کو منگوا لے اور گوشت کھائے۔

مسئلہ۔ بارہویں تاریخ سورج ڈوبنے سے پہلے پہلے قربانی کرنا درست ہے جب سورج ڈوب گیا تو اب قربانی کرنا درست نہیں۔

مسئلہ۔ دسویں سے بارہویں تک جب جی چاہے قربانی کرے چاہے دن میں چاہے رات میں لیکن رات کو ذبح کرنا بہتر نہیں کہ شاید کوئی رگ نہ کٹے اور قربانی درست نہ ہو۔

مسئلہ۔ دسویں گیارہویں بارہویں تاریخ سفر میں تھی پھر بارہویں تاریخ سورج ڈوبنے سے پہلے گھرپہنچ گئی یا پندرہ دن کہیں ٹھیرنے کی نیت کر لی تو اب قربانی کرنا واجب ہو گیا اسی طرح اگر پہلے اتنا مال نہ تھا اس لیے قربانی واجب نہ تھی پھر بارہویں تاریخ سورج ڈوبنے سے پہلے کہیں سے مال مل گار تو قربانی کرنا واجب ہے۔

مسئلہ۔ اپنی قربانی کو اپنے ہاتھ سے ذبح کرنا بہتر ہے اگر خود ذبح کرنا نہ جانتی ہو تو کسی اور سے ذبح کروا لے اور ذبح کے وقت وہاں جانور کے سامنے کھڑی ہو جانا بہتر ہے اور اگر ایسی جگہ ہے کہ پردہ کی وجہ سے سامنے نہیں کھڑی ہو سکتی تو بھی کچھ حرج نہیں۔

مسئلہ۔ قربانی کرتے وقت زبان سے نیت پڑھنا اور دعا پڑھنا ضروری نہیں ہے اگر دل میں خیال کر لیا کہ میں قربانی کرتی ہوں اور زبان سے کچھ نہیں پڑھا فقط بسم اللہ اللہ اکبر کہہ کر ذبح کر دیا تو بھی قربانی درست ہو گئی لیکن اگر یاد ہو تو وہ دعا پڑھ لینا بہتر ہے جو اوپر بیان ہوئی۔

مسئلہ۔ قربانی فقط اپنی طرف سے کرنا واجب ہے اولاد کی طرف سے واجب نہیں بلکہ اگر نابالغ اولاد مالدار بھی ہو تب بھی اس کی طرف سے کرنا واجب نہیں نہ اپنے مال میں سے نہ اس کے مال میں سے۔ اگر کسی نے اس کی طرف سے قربانی کر دی تو نفل ہو گئی لیکن اپنے ہی مال میں سے کرے اس کے مال میں سے ہرگز نہ کرے۔

مسئلہ۔ بکری بکرا بھیڑ دنبہ گائے بیل بھنس  بھینسا اونٹ اونٹنی اتنے جانوروں کی قربانی درست ہے اور کسی جانور کی قربانی درست نہیں۔

مسئلہ۔ گائے بھینس اونٹ میں اگر سات آدمی شریک ہو کر قربانی کریں تو بھی درست ہے لیکن شرط یہ ہے کہ کسی کا حصہ ساتویں حصہ سے کم نہ ہو اور سب کی نیت قربانی کرنے کی یا عقیقہ کی ہو صرف گوشت کھانے کی نیت نہ ہو۔ اگر کسی کا حصہ ساتویں حصہ سے کم ہو گا تو کسی کی قربانی درست نہ ہو گی نہ اس کی جس کا پورا حصہ ہے نہ اس کی جس کا ساتویں سے کم ہے۔

مسئلہ۔ اگر گائے میں سات آدمیوں سے کم لوگ شریک ہوئے جیسے پانچ آدمی شریک ہوئے یا چھ آدمی شریک ہوئے اور کسی کا حصہ ساتویں حصہ سے کم نہیں تب بھی سب کی قربانی درست ہے۔ اور اگر آٹھ آدمی شریک ہو گئے تو کسی کی قربانی صحیح نہیں ہوئی۔

مسئلہ۔ قربانی کے لیے کسی نے گائے خریدی اور خریدتے وقت یہ نیت کی کہ اگر کوئی اور ملے گا تواس کو بھی اس گائے میں شریک کر لیں گے اور ساجھے میں قربانی کریں گے۔ اس کے بعد کچھ اور لوگ اس گائے میں شریک ہو گئے تو یہ درست ہے۔ اور اگر خریدتے وقت اس کی نیت شریک کرنے کی نہ تھی بلکی پوری گائے اپنی طرف سے قربانی کرنے کا ارادہ تھا تو اب اس میں کسی اور کا شریک ہونا بہتر تو نہیں ہے لیکن اگر کسی کو شریک کر لیا تو دیکھنا چاہیے جس نے شریک کیا وہ امیر ہے کہ اس پر قربانی واجب ہے یا غریب ہے جس پر قربانی واجب نہیں۔ اگر امیر ہے تو درست ہے اور اگر غریب ہے تو درست نہیں۔

مسئلہ۔ اگر قربانی کا جانور کہیں گم ہو گیا اس لیے دوسرا خریدا پھر وہ پہلا بھی مل گیا۔ اگر امیر آدمی کو ایسا اتفاق ہوا تو ایک ہی جانور کی قربانی اس پر واجب ہے اور اگر غریب آدمی کو ایسا اتفاق ہوا تو دونوں جانوروں کی قربانی اس پر واجب ہو گی۔

مسئلہ۔ سات آدمی گائے میں شریک ہوئے تو گوشت بانٹتے وقت اٹکل سے نہ بانٹیں بلکہ خوب ٹھیک ٹھیک تول کر بانٹیں نہیں تو اگر کوئی حصہ زیادہ کم رہے گا تو سود ہو جائے گا۔ اور گناہ ہو گا البتہ اگر گوشت کے ساتھ کلہ پائے اور کھال کو بھی شریک کر لیا تو جس طرف کلہ پائے یا کھال ہو اس طرف اگر گوشت کم ہو درست ہے چاہے جتنا کم ہو۔ جس طرف گوشت زیادہ تھا اس طرف کلہ پائے شریک کیے تو بھی سود ہو گیا اور گنا ہوا۔

مسئلہ۔ بکری سال بھر سے کم کی درست نہیں۔ جب پورے سال بھر کی ہو تب قربانی درست ہے۔ اور گائے بھینس دو برس سے کم کی درست نہیں۔ پورے دو برس ہو چکیں تب قربانی درست ہے۔ اور اونٹ پانچ برس سے کم کا درست نہیں ہے اور دنبہ یا بھیڑ اگر اتنا موٹا تازہ ہو کہ سال بھر کا معلوم ہوتا ہو اور سال بھر والے بھیڑ دنبوں میں اگر چھوڑ دو تو کچھ فرق نہ معلوم ہوتا ہو تو ایسے وقت چھ مہینے کے دنبہ اور بھیڑ کی بھی قربانی درست ہے۔ اور اگر ایسا نہ ہو تو سال بھر کا ہونا چاہیے۔

مسئلہ۔ جو جانور اندھا ہو یا کانا ہو۔ ایک آنکھ کی تہائی روشنی یا اس سے زیادہ جاتی رہی ہو یا ایک کان تہائی یا تہائی سے زیادہ کٹ گیا۔ یا تہائی دم یا تہائی سے زیادہ کٹ گئی تو اس جانور کی قربانی درست نہیں۔

مسئلہ۔ جو جانور اتنا لنگڑا ہے کہ فقط تین پاؤں سے چلتا ہے چوتھا پاؤں رکھا ہی نہیں جاتا چوتھا پاؤں رکھتا تو ہے لیکن اس سے چل نہیں سکتا اس کی بھی قربانی درست نہیں اور اگر چلتے وقت وہ پاؤں زمین پر ٹیک کر چلتا ہے اور چلنے میں اس سے سہارا لگتا ہے لیکن لنگڑا کر کے چلتا ہے تو اس کی قربانی درست ہے۔

مسئلہ۔ اتنا دبلا بالکل مریل جانور جس کی ہڈیوں میں بالکل گودا نہ رہا ہو اس کی قربانی درست نہیں ہے اور اگر اتنا دبلا نہ ہو تو دبلے ہونے سے کچھ حرج نہیں اس کی قربانی درست ہے لیکن موٹے تازہ جانور کی قربانی کرنا زیادہ بہتر ہے۔

مسئلہ۔ جس جانور کے بالکل دانت نہ ہوں اس کی قربانی درست نہیں۔ اور اگر کچھ دانت گر گئے لیکن جتنے گرے ہیں ان سے زیادہ ہیں تو اس کی قربانی درست ہے۔

مسئلہ۔ جس جانور کی پیدائش ہی سے کان نہیں ہیں اس کی بھی قربانی درست نہیں ہے اور اگر کان تو ہیں لیکن بالکل ذرا ذرا سے چھوٹے چھوٹے ہیں تو اس کی قربانی درست ہے۔

مسئلہ۔ جس جانور کے پیدائش ہی سے سینگ نہیں یا سینگ تو تھے لیکن ٹوٹ گئے اس کی قربانی درست ہے البتہ اگر بالکل جڑ سے ٹوٹ گئے تو قربانی درست نہیں۔

مسئلہ۔ خصی یعنی بدھیا بکرے اور مینڈھے وغیرہ کی قربانی درست ہے۔ جس جانور کے خارش ہو اس کی بھی قربانی درست ہے۔ البتہ اگر خارش کی وجہ سے بالکل لاغر ہو گیا ہو تو درست نہیں۔

مسئلہ۔ اگر جانور قربانی کے لیے خرید لیا تب کوئی ایسا عیب پیدا ہو گیا جس سے قربانی درست نہیں تو اس کے بدلے دوسرا جانور خرید کر کے قربان کرے۔ ہاں اگر غریب آدمی ہو جس پر قربانی کرنا واجب نہیں تو اس کے واسطے درست ہے وہی جانور قربانی کر دے۔

مسئلہ۔ قربانی کا گوشت آپ کھائے اور اپنے رشتہ ناتے کے لوگوں کو دے دے اور فقیروں محتاجوں کو خیرات کرے۔ اور بہتر یہ ہے کہ کم سے کم تہائی حصہ خیرات کرے۔ خیرات میں تہائی سے کمی نہ کرے لیکن اگر کسی نے تھوڑا ہی گوشت خیرات کیا تو بھی کوئی گناہ نہیں ہے۔

مسئلہ۔ قربانی کی کھال یا تو یوں ہی خیرات کر دے اور یا بیچ کر اس کی قیمت خیرات کر دے وہ قیمت ایسے لوگوں کو دے جن کو زکوٰۃ کا پیسہ دنا درست ہے اور قیمت میں جو پیسے ملے ہیں بعینہ وہی پیسے خیرات کرنا چاہیے اگر وہ پیسے کسی کام میں خرچ کر ڈالے اور اتنے ہی پیسے اور اپنے پاس سے دے دیئے تو بری بات ہے مگر ادا ہو جائیں گے۔

مسئلہ۔ اس کھال کی قیمت کو مسجد کی مرمت یا اور کسی نیک کام میں لگانا درست نہیں۔ خیرات ہی کرنا چاہیے۔

مسئلہ۔ اگر کھال کو اپنے کام میں لائے جیسے اس کی چھلنی بنوائی یا مشک یا ڈول یا جائے نماز بنوالی یہ بھی درست ہے۔

مسئلہ۔ کچھ گوشت یا چربی یا چھیچھڑے قصائی کو مزدوری میں نہ دے بلکہ مزدوری اپنے پاس سے الگ دے۔

مسئلہ۔ قربانی کی رسی جھول وغیرہ سب چیزیں خیرات کر دی۔ مسئلہ۔ کسی پر قربانی واجب نہیں تھی لیکن اس نے قربانی کی نیت سے جانور خرید لیا تو اب اس جانور کی قربانی واجب ہو گئی۔

مسئلہ۔ کسی پر قربانی واجب تھی لیکن قربانی کے تینوں دن گزر گئے اور اس نے قربانی نہیں کی تو ایک بکری یا بھیڑ کی قیمت خیرات کر دے۔ اور اگر بکری خرید لی تھی وہی بکری بعینہ خیرات کر دے۔

مسئلہ۔ جس نے قربانی کرنے کی منت مانی پھر وہ کام پورا ہو گیا جس کے واسطے منت مانی تھی تو اب قربانی کرنا واجب ہے چاہے مالدار ہو یا نہ ہو اور منت کی قربانی کا سب گوشت فقیروں کو خیرات کر دے۔ نہ آپ کھائے نہ امیروں کو دے۔ جتنا آپ کھایا ہو یا امیروں کو دیا ہو اتنا پھر خیرات کرنا پڑے گا۔

مسئلہ۔ اگر اپنی خوشی سے کسی مردے کے ثواب پہنچانے کے لیے قربانی کرے تو اس گوشت میں سے خود کھانا کھلانا بانٹنا سب درست ہے جس طرح اپنی قربانی کا حکم ہے۔

مسئلہ۔ اگر کوئی مردہ وصیت کر گیا ہو کہ میرے ترکہ میں سے میری طرف سے قربانی کی جائے اور اس کی وصیت پر اس کے مال سے قربانی کی گئی تو اس قربانی کے تمام گوشت وغیرہ کا خیرات کر دینا واجب ہے۔

مسئلہ۔ اگر کوئی شخص یہاں موجود نہیں اور دوسرے شخص نے اس کی طرف سے بغیر اس کے امر کے قربانی کر دی تو یہ قربانی صحیح نہیں ہوئی اور اگر کسی جانور میں کسی غائب کا حصہ بدون اس کے امر کے تجویز کر لیا تو اور حصہ داروں کی قربانی بھی صحیح نہ ہو گی۔

مسئلہ۔ اگر کوئی جانور کسی کو حصہ پر دیا ہے تو یہ جانور اس پرورش کرنے والی کی ملک نہیں ہوا بلکہ اصل مالکہ کا ہی ہے۔ اس لیے اگر کسی نے اس پالنے والی سے خرید کر قربانی کر دی تو قربانی نہیں ہوئی۔ اگر ایسا جانور خریدنا ہو تو اصل مالک سے جس نے حصہ پر دیا ہے خرید لیں۔

مسئلہ۔ اگر ایک جانور میں کئی آدمی شریک ہیں اور وہ سب گوشت کو آپس میں تقسیم نہیں کرتے بلکہ یکجا ہی فقراء و احباب کو تقسیم کرنا یا کھانا پکا کر کھلانا چاہیں تو بھی جائز ہے اگر تقسیم کریں گے تو اس میں برابری ضروری ہے۔

مسئلہ۔ قربانی کی کھال کی قیمت کسی کو اجرت میں دینا جائز نہیں کیونکہ اس کا خیرات کرنا ضروری ہے۔

مسئلہ۔ قربانی کا گوشت کافروں کو بھی دینا جائز ہے بشرطیکہ اجرت میں نہ دیا جائے۔

مسئلہ۔ اگر کوئی جانور گابھن ہو تو اس کی قربانی جائز ہے پھر اگر بچہ زندہ نکلے تو اس کو بھی ذبح کر دے۔

صدقہ فطر کا بیان

مسئلہ۔ جو مسلمان اتنا مالدار ہو کہ اس پر زکوٰۃ واجب ہو یا اس پر زکوٰۃ تو واجب نہیں لیکن ضروری اسباب سے زائد اتنی قیمت کا مال و اسباب ہے جتنی قیمت پر زکوٰۃ واجب ہو تو اس پر عید کے دن صدقہ دینا واجب ہے چاہے وہ سوداگری کا مال ہو یا سوداگری کا نہ ہو اور چاہے سال پورا گذر چکا ہو یا نہ گذرا ہو اور اس صدقہ کو شرع میں صدقہ فطر کہتے ہیں۔

مسئلہ۔ کسی کے پاس رہنے کا بڑا بھاری گھر ہے کہ اگر بیچا جائے تو ہزار پانسو کا بکے اور پہننے کے بڑے قیمتی قیمتی کپڑے ہیں مگر ان میں گوٹہ لچکا نہیں اور خدمت کے لیے دو چار خدمت گار ہیں۔ گھر میں ہزار پانسو کا ضروری اسباب بھی ہے مگر زیور نہیں اور وہ سب کام میں آیا کرتا ہے یا کچھ اسباب ضرورت سے زیادہ بھی ہے اور کچھ گوٹہ لچکہ اور زیور بھی ہے لیکن وہ اتنا نہیں جتنے پر زکوٰۃ واجب ہوتی ہے تو ایسے پر صدقہ فطر واجب نہیں ہے۔

مسئلہ۔ کسی کے دو گھر ہیں ایک میں خود رہتی ہے اور ایک خالی پڑا ہے یا کرایہ پر دے دیا ہے تو یہ دوسرا مکان ضرورت سے زائد ہے اگر اس کی قیمت اتنی ہو جتنی پر زکوٰۃ واجب ہوتی ہے تو اس پر صدقہ فطر واجب ہے اور ایسے کو زکوٰۃ کا پیسہ دینا بھی جائز نہیں۔ البتہ اگر اسی پر اس کا گذارا ہو تو یہ مکان بھی ضروری اسباب میں داخل ہو جائے گا اور اس پر صدقہ فطر واجب نہ ہو گا اور زکوٰۃ کا پیسہ لینا اور دینا بھی درست ہو گا۔ خلاصہ یہ ہوا کہ جس کو زکوٰۃ اور صدقہ واجبہ لینا درست ہے اس پر صدقہ فطر واجب نہیں اور جس کو صدقہ اور زکوٰۃ کا لینا درست نہیں اس پر صدقہ فطر واجب ہے۔

مسئلہ۔ کسی کے پاس ضروری اسباب سے زائد مال اسباب ہے لیکن وہ قرض دار بھی ہے تو قرضہ مجرا کر کے دیکھو کیا بچتا ہے اگر اتنی قیمت کا اسباب بچ رہے جتنے میں زکوٰۃ یا صدقہ واجب ہو جائے تو صدقہ فطر واجب ہے اور اگر اس سے کم بچے تو واجب نہیں۔