دے کر پھیر لینے کا بیان

مسئلہ۔ کچھ دے کر پھیر لینا بڑا گناہ ہے۔ لیکن اگر کوئی واپس لے لیوے اور جس کو دی تھی وہ اپنی خوشی سے دے بھی دیوے تو اب پھر اس کی مالک بن جائے گی مگر بعضی باتیں ایسی ہیں جس سے پھیر لینے کا اختیار بالکل نہیں رہتا۔ مثلاً تم نے کسی کو بکری دی۔ اس نے کھلا پلا کر خوب موٹا تازہ کیا تو پھیرنے کا اختیار نہیں ہے یا کسی کو زمین دی اس میں اس نے گھر بنا لیا یا باغ لگایا تو اب پھیرنے کا اختیار نہیں یا کپڑا دینے کے بعد اس نے کپڑے کو سی لیا یا رنگ لیا یا دھلوا لیا تو اب پھیرنے کا اختیار نہیں۔

مسئلہ۔ تم نے کسی کو بکری دی۔ اس کے دو ایک بچے ہوئے تو پھیرنے کا اختیار باقی ہے۔ لیکن اگر پھیرے تو صرف بکری پھیر سکتی ہے وہ بچے نہیں لے سکتی۔

مسئلہ۔ دینے کے بعد اگر دینے والا یا لینے والا مر جائے تب بھی پھیرنے کا اختیار نہیں رہتا۔

مسئلہ۔ تم کو کسی نے کوئی چیز دی۔ پھر اس کے بدلے میں تم نے بھی کوئی چیز اس کو دے دی اور کہہ دیا لو بہن اس کے عوض تم یہ لے لو تو بدلہ دینے کے بعد اب اس کو پھر لینے کا اختیار نہیں ہے۔ البتہ اگر تم نے یہ نہیں کہا ہم اس کے عوض میں دیتے ہیں تو وہ اپنی چیز پھیر سکتی ہے اور تم اپنی چیز بھی پھیر سکتی ہو۔

مسئلہ۔ بی بی نے اپنے میاں کو یا میاں نے اپنی بی بی کو کچھ دیا تو اس کے پھیر لینے کا اختیار نہیں ہے۔ اسی طرح اگر کسی نے ایسے رشتہ دار کو کچھ دیا جس سے نکاح ہمیشہ کے لیے حرام ہے اور وہ رشتہ خون کا ہے جیسے بھائی بہن بھتیجا بھانجا وغیرہ تو اس سے پھیر لینے کا اختیار نہیں ہے اور اگر قرابت اور رشتہ تو ہے لیکن نکاح حرام نہیں ہے۔ جیسے چچا زاد پھوپھی زاد بہن بھائی وغیرہ۔ یا نکاح حرام تو ہے لیکن نسب کے اعتبار سے قرابت نہیں یعنی وہ رشتہ خون کا نہیں بلکہ دودھ کا رشتہ یا اور کوئی رشتہ ہے جیسے دودھ شریک بھائی بہن وغیرہ یا داماد ساس خسر وغیرہ۔ تو ان سب سے پھیر لینے کا اختیار رہتا ہے۔

مسئلہ۔ جتنی صورتوں میں پھیر لینے کا اختیار ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر وہ بھی پھیر دینے پر راضی ہو جائے اس وقت پھیر لینے کا اختیار ہے جیسا اوپر گزر چکا۔ لیکن گناہ اس میں بھی ہے اور اگر وہ راضی نہ ہو اور نہ پھیرے تو بدون قضاء قاضی کے زبردستی پھیر لینے کا اختیار نہیں اور اگر زبردستی بدون قضاء کے پھیر لیا تو یہ مالک نہ ہو گا۔

مسئلہ۔ جو کچھ ہبہ کر دینے کے حکم احکام بیان ہوئے ہیں اکثر خدا کی راہ میں خیرات دینے کے بھی وہی احکام ہیں۔ مثلاً بغیر قبضہ کیے فقیر کی ملک میں چیز نہیں جاتی۔ اور جس چیز کا تقسیم کے بعد دینا شرط ہے اس کا یہاں بھی تقسیم کے بعد دینا شرط ہے۔ جس چیز کا خالی کر کے دینا ضروری ہے یہاں بھی خالی کر کے دینا ضروری ہے البتہ دو با توں کا فرق ہے۔ ایک ہبہ میں رضا مندی سے پھیر لینے کا اختیار رہتا ہے اور یہاں پھیر لینے کا اختیار نہیں رہتا۔ دوسرے آٹھ دس آنے پیسے یا آٹھ دس روپے اگر دو فقیروں کو دے دو کہ تم دونوں بانٹ لینا تو یہ بھی درست ہے۔ اور ہبہ میں اس طرح درست نہیں ہوتا۔

مسئلہ۔ کسی فقیر کو پیسہ دینے لگے مگر دھوکے سے اٹھنی چلی گئی تو اس کے پھیر لینے کا اختیار نہیں ہے۔

بچوں کو دینے کا بیان

مسئلہ۔ ختنہ وغیرہ کسی تقریب میں چھوٹے بچوں کو جو کچھ دیا جاتا ہے اس سے خاص اس بچہ کو دینا مقصود نہیں ہونا بلکہ ماں باپ کو دینا مقصود ہوتا ہے اس لیے وہ سب نتوے بچہ کی ملک نہیں بلکہ ماں باپ اس کے مالک ہیں جو چاہیں اس کو دیں۔ البتہ اگر کوئی شخص خاص بچہ ہی کو کوئی چیز دے تو پھر وہی بچہ اس کا مالک ہے اگر بچہ سمجھ دار ہے تو خود اسی کا قبضہ کر لینا کافی ہے جب قبضہ کر لیا تو مالک ہو گیا۔ اگر بچہ قبضہ نہ کرے یا قبضہ کرنے کے لائق نہ ہو گو اگر باپ نہ ہو تو دادا کے قبضہ کر لینے سے بچہ مالک ہو جائے گا۔ اگر باپ دادا موجود نہ ہوں تو وہ بچہ جس کی پرورش میں ہے اس کو قبضہ کرنا چاہیے اور باپ دادا کے ہوتے ماں نانی دادی وغیرہ اور کسی کا قبضہ کرنا معتبر نہیں ہے۔

مسئلہ۔ اگر باپ یا اس کے نہ ہونے کے وقت دادا اپنے بیٹے پوتے کو کوئی چیز دینا چاہے تو بس اتنا کہہ دینے سے ہبہ صحیح ہو جائے گا کہ میں نے اس کو یہ چیز دے دی۔ اور باپ دادا نہ ہو اس وقت ماں بھائی وغیرہ بھی اگر اس کو کچھ دینا چاہیں اور وہ بچہ ان کی پرورش میں بھی ہو۔ ان کے اس کہہ دینے سے بھی وہ بچہ مالک ہو گیا کسی کے قبضہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

مسئلہ۔ جو چیز ہو اپنی سب اولاد کو برابر برابر دینا چاہیے۔ لڑکا لڑکی سب کو برابر دے۔ اگر کبھی کسی کو کچھ زیادہ دے دیا تو بھی خیر کچھ حرج نہیں لیکن جسے کم دیا اس کو نقصان دینا مقصود نہ ہو نہیں تو کم دینا درست نہیں ہے۔

مسئلہ۔ جو چیز نابالغ کی ملک ہو اس کا حکم یہ ہے کہ اسی بچے ہی کے کام میں لگانا چاہیے کسی کو اپنے کام میں لانا جائز نہیں خود ماں باپ بھی اپنے کام میں نہ لائیں نہ کسی اور بچہ کے کام میں لگائیں۔

مسئلہ۔ اگر ظاہر میں بچہ کو دیا مگر یقیناً معلوم ہے کہ منظور تو ماں باپ ہی کو دینا ہے مگر اس چیز کو حقیر سمجھ کر بچے ہی کے نام سے دے دیا تو ماں باپ کی ملک ہے وہ جو چاہیں کریں پھر اس میں بھی دیکھ لیں اگر ماں کے علاقہ داروں نے دیا ہے تو ماں کا ہے اگر باپ کے علاقہ داروں نے دیا ہے تو باپ کا ہے۔

مسئلہ۔ اپنے نابالغ لڑکے کے لیے کپڑے بنوائے تو وہ لڑکا مالک ہو گیا۔ یا نابالغ لڑکی کے لیے زیور گہنا بنوایا تو وہ لڑکی اس کی مالک ہو گئی۔ اب ان کپڑوں کا یا اس زیور کا کسی اور لڑکا لڑکی کو دینا درست نہیں جس کے لیے بنوائے ہیں اسی کو دے۔ البتہ اگر بنانے کے وقت صاف کہہ دیا کہ یہ میری ہی چیز ہے مانگے کے طور پر دیتا ہوں تو بنوانے والے کی رہے گی۔ اکثر دستور ہے کہ بڑی بہنیں بعض وقت چھوٹی نابالغ بہنوں سے یا خود اپنی لڑکی سے دوپٹہ وغیرہ کچھ مانگ لیتی ہیں تو ان کی چیز کا ذرا دیر کے لیے مانگ لینا بھی درست نہیں۔

مسئلہ۔ جس طرح خود بچہ اپنی چیز کسی کو دے نہیں سکتا اسی طرح باپ کو نابالغ اولا کی چیز دینے کا اختیار نہیں۔ اگر ماں باپ اس کی چیز کسی کو بالکل دے دیں یا ذرا دیر یا کچھ دن کے لیے مانگی دیں تو اس کا لینا درست نہیں۔ البتہ اگر ماں باپ کو نہایت ضرورت ہو اور وہ چیز کہیں اور سے ان کو نہ مل سکے تو مجبوری اور لاچاری کے وقت اپنی اولاد کی چیز لے لینا درست ہے۔

مسئلہ۔ ماں باپ وغیرہ کو بچے کا مال کسی کو قرض دینا بھی صحیح نہیں بلکہ خود قرض لینا بھی صحیح نہیں خوب یاد رکھو۔

ہبہ یعنی کسی کو کچھ دے دینے کا بیان

مسئلہ۔ تم نے کسی کو کوئی چیز دی اور اس نے منظور کر لیا یا منہ سے کچھ نہیں کہا بلکہ تم نے اس کے ہاتھ پر رکھ دیا اور اس نے لے لیا تو اب وہ چیز اسی کی ہو گئی اب تمہاری نہیں رہی بلکہ وہی اس کا مالک ہے اس کو شرع میں ہبہ کہتے ہیں۔ لیکن اس کی کئی شرطیں ہیں۔ ایک تو اس کے حوالہ کر دینا اور اس کا قبضہ کر لینا ہے اگر تم نے کہا یہ چیز ہم نے تم کو دے دی اس نے کہا ہم نے لے لی۔ لیکن ابھی تم نے اس کے حوالے نہیں کیا تو یہ دینا صحیح نہیں ہوا ابھی وہ چیز تمہاری ہی ملک ہے البتہ اگر اس نے اس چیز پر قبضہ کر لیا تو اب قبضہ کر لینے کے بعد اس کی مالک بنی۔

مسئلہ۔ تم نے وہ دی ہوئی چیز اس کے سامنے اس طرح رکھ دی کہ اگر وہ اٹھانا چاہے تو لے سکے اور کہہ دیا کہ لو اس کو لے لو تو اس پاس رکھ دینے سے بھی وہ مالک بن گئی۔ ایسا سمجھیں گے کہ اس نے اٹھا لیا اور قبضہ کر لیا۔

مسئلہ۔ بند صندوق میں کچھ کپڑے دے دیئے لیکن اس کی کنجی نہیں دی تو یہ قبضہ نہیں ہوا جب کنجی دے گی تب قبضہ ہو گا۔ اس وقت اس کی مالک بنے گی۔

مسئلہ۔ کسی بوتل میں تیل رکھا ہے یا اور کچھ رکھا ہے تم نے وہ بوتل کسی کو دے دی لیکن تیل نہیں دیا تو یہ دینا صحیح نہیں۔ اگر وہ قبضہ کر لے تب بھی اس کی مالک نہ ہو گی جب اپنا تیل نکال کے دو گی تب وہ مالک ہو گی۔ اور اگر تیل کسی کو دے دیا مگر بوتل نہیں دی اور اس نے بوتل سمیت لے لیا کہ ہم خالی کر کے پھیر دیں گے تو یہ تیل کا دینا صحیح ہے۔ قبضہ کر لینے کے بعد مالک بن جائے گی۔ غرضیکہ جب برتن وغیرہ کوئی چیز دو تو خالی کر کے دینا شرط ہے بغیر خالی کیے دینا صحیح نہیں ہے۔ اسی طرح اگر اسی نے مکان دیا تو اپنا سارا مال اسباب نکال کے خود بھی اس گھر سے نکل کے دینا چاہیے۔

مسئلہ۔ اگر کسی کو آدھی یا تہائی یا چوتھائی چیز دو پوری چیز نہ دو تو اس کا حکم یہ ہے کہ دیکھو وہ کس قسم کی چیز ہے آدھی بانٹ دینے کے بعد بھی کام کی رہے گی یا نہ رہے گی۔ اگر بانٹ دینے کے بعد اس کام کی نہ رہے جیسے چکی کہ اگر بیچوں بیچ سے توڑ کے دے دو تو پسینے کے کام کی نہ رہے گی۔ اور جیسے چوکی پلنگ پتیل لوٹا کٹورہ پیالہ صندوق جانور وغیرہ ایسی چیزوں کو بغیر تقسیم کیے بھی آدھی تہائی جو کچھ دینا منظور ہو دینا جائز ہے اگر وہ قبضہ کر لے تو جتنا حصہ تم نے دیا ہے اس کی مالک بن گئی اور وہ چیز ساجھے میں ہو گئی۔ اور اگر وہ چیز ایسی ہے کہ تقسیم کرنے کے بعد بھی کام کی رہے جیسے زمین گھی کپڑے کا تھان جلانے کی لکڑ اناج غلہ دودھ دہی وغیرہ تو بغیر تقسیم کیے ان کا دینا صحیح نہیں ہے۔ اگر تم نے کسی سے کہا ہم نے اس برتن کا آدھا گھی تم کو دے دیا۔ وہ کہے ہم نے لے لیا تو یہ دینا صحیح نہیں ہوا بلکہ اگر وہ برتن پر قبضہ بھی کر لے تب بھی اس کی مالک نہیں ہوئی۔ ابھی سارا گھی تمہارا ہی ہے۔ ہاں اس کے بعد اگر اس میں آدھا گھی الگ کر کے اس کے حوالے کر دو تو اب البتہ اس کی مالک ہو جائے گی۔

مسئلہ۔ ایک تھان یا ایک مکان یا باغ وغیرہ دو آدمیوں نے مل کر آدھا آدھا خریدا تو جب تک تقسیم نہ کر لو تب تک اپنا آدھا حصہ کسی اور کو دے دینا صحیح نہیں۔

مسئلہ۔ آٹھ آنے یا بارہ آنے پیسے دو شخصوں کو دیئے کہ تم دونوں آدھے آدھے لے لو۔ یہ صحیح نہیں بلکہ آدھے آدھے تقسیم کر کے دینا چاہئیں۔ البتہ اگر وہ دونوں فقیر ہوں تو تقسیم کی ضرورت نہیں اور اگر ایک روپیہ یا ایک پیسہ دو آدمیوں کو دیا تو یہ دینا صحیح ہے۔

مسئلہ۔ بکری یا گائے وغیرہ کے پیٹ میں بچہ ہے تو پیدا ہونے سے پہلے ہی اس کا دے دینا صحیح نہیں ہے بلکہ اگر پیدا ہونے کے بعد وہ قبضہ بھی کر لے تب بھی مالک نہیں ہوئی۔ اگر دینا ہو تو پیدا ہونے کے بعد پھر سے دے۔

مسئلہ۔ کسی نے بکری دی اور کہا کہ اسی کے پیٹ میں جو بچہ ہے اس کو ہم نہیں دیتے وہ ہمارا ہے تو بکری اور بچہ دونوں اسی کے ہو گئے۔ پیدا ہونے کے بعد بچہ لے لینے کا اختیار نہیں ہے۔

مسئلہ۔ تمہاری کوئی چیز کسی کے پاس امانت رکھی ہے تم نے اسی کو دے دی تو اس صورت میں فقط اتنا کہہ دینے سے کہ میں نے لے لی اس کی مالک ہو جائے گی اب جا کر دوبارہ اس پر قبضہ کرنا شرط نہیں کیونکہ وہ چیز تو اس کے پاس ہی ہے۔

مسئلہ۔ نابالغ لڑکا یا لڑکی اپنی چیز اسی کو دے دی تو اس کا دینا صحیح نہیں ہے اور اس کی چیز لینا بھی ناجائز ہے۔ اس مسئلہ کو خوب یاد رکھو بہت لوگ اس میں مبتلا ہیں۔

مانگے کی چیز کا بیان

مسئلہ۔ کسی سے کوئی کپڑا یا زیور یا چارپائی برتن وغیرہ کوئی چیز کچھ دن کے لیے مانگ لی کہ ضرورت نکل جانے کے بعد دی جائے گی تو اس کا حکم بھی امانت کی طرح ہے اب اس کو اچھی طرح حفاظت سے رکھنا واجب ہے اگر باوجود حفاظت کے جاتی رہے تو جس کی چیز ہے اس کو تاوان لینے کا حق نہیں بلکہ اگر تم نے اقرار کر لیا ہو کہ اگر جائے گی تو ہم سے دام لے لینا تب بھی تاوان لینا درست نہیں۔ البتہ اگر حفاظت نہ کی اس وجہ سے جاتی رہی تو تاوان دینا پڑے گا اور مالک کو ہر وقت اختیار ہے جب چاہے اپنی چیز لے لیوے تم کو انکار کرنا درست نہیں۔ اگر مانگنے پر نہ دی تو پھر ضائع ہو جانے پر تاوان دینا پڑے گا۔

مسئلہ۔ جس طرح برتنے کی اجازت مالک نے دی ہو اسی طرح برتنا جائز ہے اس کے خلاف کرنا درست نہیں اگر خلاف کرے گی تو جاتے رہنے پر تاوان دنا پڑے گا جیسے کسی نے اوڑھنے کو دوپٹہ دیا یہ اس کو بچھا کر لیٹی اس لیے وہ خراب ہو گیا یا چار پائی پر اتنے آدمی لد گئے کہ وہ ٹوٹ گئی یا شیشے کا برتن آگ پر رکھ دیا وہ ٹوٹ گیا یا اور کچھ ایسی خلاف بات کی تو تاوان دینا پڑےگا۔ اسی طرح اگر چیز مانگ لائی تو یہ بدنیتی کی کہ اب اس کو لوٹا کر نہ دوں گی بلکہ ہضم کر جاؤں گی تب بھی تاوان دینا پڑے گا۔

مسئلہ۔ ایک یا دو دن کے لیے کوئی چیز منگوائی تو اب ایک دو دن کے بعد پھیر دینا ضروری ہے جتنے دن کے وعدے پر لائی تھی اتنے دن کے بعد اگر نہ پھیرے گی تو جاتے رہنے پر تاوان دینا پڑے گا۔

مسئلہ۔ جو چیز مانگ لی ہے یہ دیکھنا چاہیے کہ اگر مالک نے زبان سے صاف کہہ دیا کہ چاہو خود برتو۔ چاہو دوسرے کو دو۔ مانگنے والی کو درست ہے کہ دوسرے کو بھی برتنے کے لیے دے دے۔ اسی طرح اگر اس نے صاف تو نہیں کہا مگر اس سے میل جول ایسا ہے کہ اس کو یقین ہے کہ ہر طرح اس کی اجازت ہے تب بھی یہی حکم ہے اور اگر مالک نے صاف منع کر دیا کہ دیکھو تم خود برتنا کسی اور کو مت دینا تو اس صورت میں کسی طرح درست نہیں کہ دوسرے کو برتنے کے لیے دی جائے اور اگر مانگنے والی نے یہ کہہ کر منگائی ہے کہ میں برتوں گی اور مالک نے دوسرے کے برتنے سے منع نہ کیا اور صاف اجازت دی تو اس چیز کو دیکھو کیسی ہے اگر وہ ایسی ہے کہ سب برتنے والے اس کو ایک ہی طرح برتا کرتے ہیں برتنے میں فرق نہیں ہوتا تب تو خود بھی برتنا درست ہے اور دوسرے کو برتنے کے لیے دینا بھی درست ہے اور اگر وہ چیز ایسی ہے کہ سب برتنے والے اس کو ایک طرح نہیں برتا کرتے بلکہ کوئی اچھی طرح برتتا ہے کوئی بری طرح تو ایسی چیز تم دوسرے کو برتنے کے واسطے نہیں دے سکتی ہو۔ اسی طرح اگر یہ کہہ کر منگائی ہے کہ ہمارا فلانا رشتہ دار یا ملاقاتی برتے گا اور مالک نے تمہارے برتنے نہ برتنے کا ذکر نہیں کیا تو اس صورت میں بھی یہی حکم ہے کہ اول قسم کی چیز کو تم بھی برت سکتی ہو اور دوسری قسم کی چیز کو تم نہیں بر سکو گی صرف وہی برے گا جس کے برتنے کے نام سے منگائی ہے۔

اور اگر تم نے یوں ہی منگا بھیجی نہ اپنے برتنے کا نام لیا نہ دوسرے کے برتنے کا اور مالک نے بھی کچھ نہیں کہا تو اس کا حکم یہ ہے کہ اول قسم کی چیز کو تو تم بھی برت سکتی ہو اور دوسرے کو بھی برتنے کے لیے دے سکتی ہو اور دوسری قسم کی چیز میں یہ حکم ہے کہ اگر تم نے برتنا شروع کر دیا تب تو دوسرے کو برتنے کے واسطے نہیں دے سکتیں۔ اور اگر دوسرے سے برتوا لیا تو تم نہیں برت سکتیں خوب سمجھ لو۔

مسئلہ۔ ماں باپ وغیرہ کا کسی چھوٹے نابالغ کی چیز کا مانگے دینا جائز نہیں ہے اگر وہ چیز جاتی رہے تو تاوان دینا پڑے گا۔ اسی طرح اگر خود نابالغ اپنی چیز دے دے اس کا لینا بھی جائز نہیں۔

مسئلہ۔ کسی سے کوئی چیز مانگ کر لائی گئی پھر وہ مالک مر گیا تو اب مرنے کے بعد وہ مانگے کی چیز نہیں رہی اب اس سے کام لینا درست نہیں اسی طرح اگر وہ مانگنے والی مر گئی تو اس کے وارثوں کو اس سے نفع اٹھانا درست نہیں۔

امانت رکھنے اور رکھانے کا بیان

مسئلہ۔ کسی نے کوئی چیز تمہارے پاس امانت رکھائی اور تم نے لے لی۔ تو اب اس کی حفاظت کرنا تم پر واجب ہو گیا۔ اگر حفاظت میں کوتاہی کی اور وہ چیز ضائع ہو گئی تو اس کا تاوان یعنی ڈانڈ دینا پڑے گا۔ البتہ اگر حفاظت میں کوتاہی نہیں ہوئی پھر بھی کسی وجہ سے وہ چیز جاتی رہی مثلاً چوری ہو گئی یا گھر میں آگ لگ گئی اس میں جل گئی تو اس کا تاوان وہ نہیں لے سکتی بلکہ اگر امانت رکھتے وقت یہ اقرار کر لیا کہ اگر جاتی رہے تو میں ذمہ دار ہوں مجھ سے دام لے لینا تب بھی اس کو تاوان لینے کا اختیار نہیں یوں تم اپنی خوشی سے دے دو وہ اور بات ہے۔

مسئلہ۔ کسی نے کہا میں ذرا کام سے جاتی ہوں میری چیز رکھ لو۔ تو تم نے کہا اچھا رکھ دو تم کچھ نہیں بولیں وہ تمہارے پاس رکھ کر چلی گئی تو امانت ہو گئی۔ البتہ اگر تم نے صاف کہہ دیا کہ میں نہیں جانتی اور کسی کے پاس رکھا دو یا اور کچھ کہہ کے انکار کر دیا پھر بھی وہ رکھ کر چلی گئی تو اب وہ چیز تمہاری امانت میں نہیں ہے البتہ اگر اس کے چلے جانے کے بعد تم نے اٹھا کر رکھ لیا ہو تو اب امانت ہو جائے گی۔

مسئلہ۔ کئی عورتیں بیٹھی تھیں ان کے سپرد کر کے چلی گئی تو سب پر اس چیز کی حفاظت واجب ہے اگر وہ چھوڑ کر چلی گئیں اور وہ چیز جاتی رہی تو تاوان دینا پڑے گا۔ اور اگر سب ساتھ نہیں اٹھیں ایک ایک کر کے اٹھیں توجب سے خیر میں رہ گئی اسی کے ذمہ حفاظت ہو گئی۔ اب وہ اگر چلی گئی اور چیز جاتی رہی تو اسی سے تاوان لیا جائے گا۔

مسئلہ۔ جس کے پاس کوئی امانت ہو اس کو اختیار ہے کہ چاہے خود اپنے پاس حفاظت سے رکھے یا اپنی ماں بہن اپنے شوہر وغیرہ کسی ایسے رشتہ دار کے پاس رکھا دے کہ ایک ہی گھر میں اس کے ساتھ رہتے ہوں جن کے پاس اپنی چیز بھی ضرورت کے وقت رکھا دیتی ہو لیکن اگر کوئی دیانتدار نہ ہو تو اس کے پاس رکھنا درست نہیں۔ اگر جان بوجھ کے ایسے غیر معتبر کے پاس رکھ دیا تو ضائع ہو جانے پر تاوان دینا پڑے گا۔ اور ایسے رشتہ دار کے سوا کسی اور کے پاس بھی پرائی امانت رکھانا بدون مالک کی اجازت کے درست نہیں چاہے وہ بالکل غیر ہو یا کوئی رشتہ دار بھی لگتا ہو اگر اوروں کے پاس رکھا دیا تو بھی ضائع ہو جانے پر تاوان دینا پڑے گا البتہ وہ غیر اگر ایسا شخص ہے کہ یہ اپنی چیزیں بھی اس کے پاس رکھتی ہے تو درست ہے۔

مسئلہ۔ کسی نے کوئی چیز رکھائی اور تم بھول گئیں اسے وہیں چھوڑ کر چلی گئیں تو جاتے رہنے پر تاوان دینا پڑے گا یا کوٹھڑی صندوقچہ وغیرہ قفل کھول کر تم چلی گئیں اور وہاں ایرے غیرے سب جمع ہیں اور وہ چیز اییس ہے کہ عرفا بغیر قفل لگائے اس کی حفاظت نہیں ہو سکتی تب بھی ضائع ہو جانے سے تاوان دینا ہو گا۔

مسئلہ۔ گھر میں آگ لگ گئی تو ایسے وقت غیر کے پاس بھی پرائی امانت کا رکھا دینا جائز ہے لیکن جب وہ عذر جاتا رہا تو فورا لے لینا چاہیے۔ اگر اب واپس نہ لے گی تو تاوان دینا پڑے گا۔ اسی طرح مرتے وقت اگر کوئی اپنے گھر کا آدمی موجود نہ ہو تو پڑوسی کے سپرد کر دینا درست ہے۔ مسئلہ۔ اگر کسی نے کچھ روپے پیسے امانت رکھوائے تو بعینہ ان ہی روپے پیسوں کا حفاظت سے رکھنا واجب ہے نہ تو اپنے روپوں میں ان کا ملانا جائز ہے اور نہ ان کا خرچ کرنا جائز ہے۔ یہ نہ سمجھو کہ روپیہ روپیہ سب برابر۔ لاؤ اس کو خرچ کر ڈالیں جب مانگے گی تو اپنا روپیہ دے دیں گے۔ البتہ اگر اس نے اجازت دے دی ہو تو ایسے وقت خرچ کرنا درست ہے لیکن اس کا یہ حکم ہے کہ اگر وہی روپیہ تم الگ رہنے دو تب تو امانت سمجھا جائے گا۔ اگر جاتا رہا تو تاوان نہ دینا پڑے گا۔ اور اگر تم نے اجازت لے کر اسے خرچ کر دیا تو اب وہ تمہارے ذمہ قرض ہو گیا امانت نہیں رہا۔ لہذا اب بہرحال تم کو دینا پڑے گا۔ اگر خرچ کرنے کے بعد تم نے اتنا ہی روپیہ اس کے نام سے الگ کر کے رکھ دیا تب بھی وہ امانت نہیں وہ تمہارا ہی روپیہ ہے اگر چوری گیا تو تمہارا گیا اس کو پھر دینا پڑے گا غرضیکہ خرچ کرنے کے بعد جب تک اس کو ادا نہ کرو گی تب تک تمہارے ذمہ رہے گا۔

مسئلہ۔ سو روپے کسی نے تمہارے پاس امانت رکھائے اس میں سے پچاس تم نے اجازت لے کر خرچ کر ڈالے تو پچاس روپے تمہارے ذمہ قرض ہو گئے اور پچاس امانت۔ اب جب تمہارے پاس روپے ہوں تو اپنے پاس کے پچاس روپے اس امانت کے پچاس روپے میں نہ ملاؤ اگر اس میں ملا دو گی تو وہ بھی امانت نہ رہیں گے یہ پورے سو روپے تمہارے ذمہ ہو جائیں گے اگر جاتے رہے تو پورے سو دینا پڑیں گے کیونکہ امانت کا روپیہ اپنے روپوں میں ملا دینے سے امانت نہیں رہتا بلکہ قرض ہو جاتا ہے اور ہر حال میں دینا پڑتا ہے۔

مسئلہ۔ تم نے اجازت لے کر اس کو سو روپے اپنے سو روپے میں ملا دئیے تو وہ سب روپیہ دونوں کی شرکت میں ہو گیا۔ اگر چوری ہو گیا تو دونوں کا گیا کچھ نہ دینا پڑے گا اور اگر اس میں سے کچھ چوری ہو گیا کچھ رہ گیا تب بھی آدھا اس کا گیا آدھا اس کا۔ اور اگر سو ایک کے ہوں دو سو ایک کے تو اس کے حصے کے موافق اس کا جائے گا اس کے حصے کے موافق اس کا۔ مثلاً اگر بارہ روپے جاتے رہے تو چار روپے ایک سو روپے والے کے گئے اور آٹھ روپے دو سو والے کے۔ یہ حکم اسی وقت ہے جب اجازت سے ملائے ہوں اور بغیر اجازت کے اپنے روپے میں ملا دیا ہو تو اس کا وہی حکم ہے جو بیان ہو چکا کہ امانت کا روپیہ بلا اجازت اپنے روپوں میں ملا لینے سے قرض ہو جاتا ہے اس لیے اب وہ روپیہ امانت نہیں رہا جو کچھ گیا تمہارا گیا اس کا روپیہ اس کو بہرحال دینا پڑے گا۔

مسئلہ۔ کسی نے بکری یا گائے وغیرہ امانت رکھائی تو اس کا دودھ پینا یا کسی اور طرح اس سے کام لینا درست نہیں۔ البتہ اجازت سے یہ سب جائز ہو جاتا ہے بلا اجازت جتنا دودھ لیا ہے اس کے دام دینے پڑیں گے۔ مسئلہ۔ کسی نے ایک کپڑا یا زیور یا چارپائی وغیرہ رکھائی اس کی بلا اجازت اس کا برتنا درست نہیں اگر اس نے بلا اجازت کپڑا یا زیور پہنا یا چارپائی پر لیتی بیٹھی اور اس کے برتنے کے زمانہ میں وہ کپڑا پھٹ گیا یا چو لے گیا یا زیور چار پائی وغیرہ ٹوٹ گئی یا چوری ہو گئی تو تاوان دینا پڑے گا۔ البتہ اگر توبہ کر کے پھر اسی طرح حفاظت سے رکھ دیا پھر کسی طرح ضائع ہوا تو تاوان نہ دینا پڑے گا۔

مسئلہ۔ صندوق میں سے امانت کا کپڑا نکالا کہ شام کو یہی پہن کر فلانی جگہ جاؤں گی۔ پھر پہننے سے پہلے ہی وہ جاتا رہا تو بھی تاوان دینا پڑے گا۔

مسئلہ۔ امانت کی گائے یا بکری وغیرہ بیمار پڑ گئی تم نے اس کی دوا کی۔ اس دوا سے وہ مر گئی تو تاوان دینا پڑے گا۔ اور اگر دوا نہ کی اور مر گئی تو تاوان نہ دینا ہو گا۔

مسئلہ۔ کسی نے رکھنے کو روپیہ دیا تم نے بٹوے میں ڈال لیا یا ازار بند میں باندھ لیا لیکن ڈالتے وقت وہ روپیہ ازار بند یا بٹوے میں نہیں پڑا بلکہ نیچے گر گیا مگر تم یہی سمجھیں کہ میں نے بٹوے میں رکھ لیا تو تاوان نہ دینا پڑے گا۔

مسئلہ۔ جب وہ اپنی امانت مانگے تو فورا اس کو دے دینا واجب ہے بلا عذر نہ دینا اور دیر کرنا جائز نہیں۔ اگر کسی نے اپنی امانت مانگی تم نے کہا بہن اس وقت ہاتھ خالی نہیں کل لے لینا۔ اس نے کہا اچھا کل ہی سہی تب تو خیر کچھ حرج نہیں اور اگر وہ کل کے لینے پر راضی نہ ہوئی اور نہ دینے سے خفا ہو کر چلی گئی تو اب وہ چیز امانت نہیں رہی۔ اب اگر جاتی رہے گی تو تم کو تاوان دینا پڑے گا۔

مسئلہ۔ کسی نے اپنا آدمی امانت مانگنے کے لیے بھیجا۔ تم کو اختیار ہے کہ اس آدمی کو نہ دو اور کہلا بھیجو کہ وہ خود ہی اپنی چیز لے جائیں ہم کسی اور کو نہ دیں گے اور اگر تم نے اس کو سچا سمجھ کر دے دیا اور پھر مالک نے کہا کہ میں نے اس کو نہ بھیجا تھا تم نے کیوں دے دیا۔ تو وہ تم سے لے سکتا ہے اور تم اس آدمی سے وہ شے لوٹا سکتی ہو۔ اور اگر اس کے پاس سے وہ شے جاتی رہی ہو تو تم اس سے دام نہیں لے سکتی ہو اور مالک تم سے دام لے گا۔

مضاربت کا بیان یعنی ایک کا روپیہ ایک کا کام

مسئلہ۔ تم نے تجارت کے لیے کسی کو کچھ روپے دیئے کہ اس سے تجارت کرو جو کچھ نفع ہو گا وہ ہم تم بانٹ لیں گے یہ جائز ہے اس کو مضاربت کہتے ہیں۔ لیکن اس کی کئی شرطیں ہیں اگر ان شرطوں کے موافق ہو تو صحیح ہے نہیں تو ناجائز اور فاسد ہے۔ ایک تو جتنا روپیہ دینا ہو وہ بتلا دو اور اس کو تجارت کے لیے دے بھی دو اپنے پاس نہ رکھو۔ اگر روپیہ اس کے حوالہ نہ کیا اپنے ہی پاس رکھا تو یہ معاملہ فاسد ہے۔ دوسرے یہ کہ نفع بانٹنے کی صورت طے کر لو اور بتلا دو کہ تم کو کتنا ملے گا اور اس کو کتنا۔ اگر یہ بات طے نہیں ہوئی بس اتنا ہی کہا کہ نفع ہم تم دونوں بانٹ لیں گے تو یہ فاسد ہے تیسرے یہ کہ نفع تقسیم کرنے کو اس طرح نہ طے کرو کہ جس قدر نفع ہو اس میں سے دس روپے ہمارے باقی تمہارے۔ یا دس روپے تمہارے باقی ہمارے۔ غرضیکہ کچھ خاص رقم مقرر نہ کرو کہ اتنی ہماری یا اتنی تمہاری بلکہ یوں طے کرو کہ آدھا ہمارا آدھا تمہارا۔ یا ایک حصہ اس کا دو حصے اس کے یا ایک حصہ ایک کا باقی تین حصے دوسرے کے۔ غرضیکہ نفع کی تقسیم حصوں کے اعتبار سے کرنا چاہیے نہیں تو معاملہ فاسد ہو جائے گا۔ اگر کچھ نفع ہو گا تب تو وہ کام کرنے والا اس سے اپنا حصہ پائے گا اور اگر کچھ نفع نہ ہوا تو کچھ نہ پائے گا۔ اگر یہ شرط کر لی کہ اگر نفع نہ ہوا تب بھی ہم تم کو اصل مال میں سے اتنا دیں گے تو یہ معاملہ فاسد ہے۔ اسی طرح اگر یہ شرط کی کہ اگر نقصان ہو گا تو اس کام کرنے والے کے ذمہ پڑے گا یا دونوں کے ذمہ ہو گا یہ بھی فاسد ہے۔ بلکہ حکم یہ ہے کہ جو کچھ نقصان ہو وہ مالک کے ذمہ ہے اسی کا روپیہ گیا۔

مسئلہ۔ جب تک اس کے پاس روپیہ موجود ہو اور اس نے اسباب نہ خریدا ہو تب تک تم کو اس کے موقوف کر دینے اور روپیہ واپس لے لینے کا اختیار ہے اور جب وہ مال خرید چکا تو اب موقوفی کا اختیار نہیں ہے۔

مسئلہ۔ اگر یہ شرط کی کہ تمہارے ساتھ ہم کام کریں گے یا ہمارا فلاں آدمی تمہارے ساتھ کام کرے گا تو یہ معاملہ فاسد ہے۔

مسئلہ۔ اس کا حکم یہ ہے کہ اگر وہ معاملہ صحیح ہوا ہے کوئی واہیات شرط نہیں لگائی ہے تو نفع میں دونوں شریک ہیں جس طرح طے کیا ہو بانٹ لیں۔ اور اگر کچھ نفع نہ ہوا یا نقصان ہوا تو اس آدمی کو کچھ نہ ملے گا اور نقصان کا تاوان اس کو نہ دینا پڑے گا۔ اور اگر وہ معاملہ فاسد ہو گیا ہے تو پھر وہ کام کرنے والا نفع میں شریک نہیں ہے بلکہ وہ بمنزلہ نوکر کے ہے۔ یہ دیکھو کہ اگر ایسا آدمی نوکر رکھا جائے تو کتنی تنخواہ دینی پڑے گی بس اتنی ہی تنخواہ اس کو ملے گی نفع ہو تب بھی اور نہ ہو تب بھی بہرحال تنخواہ پائے گا اور نفع سب مالک کا ہے لیکن اگر تنخواہ زیادہ بیٹھتی ہے۔ اور جو نفع ٹھیرا تھا اگر اس کے حساب سے دیں تو کم بیٹھتا ہے تو اس صورت میں تنخواہ نہ دیں گے نفع بانٹ دیں گے۔

تنبیہ چونکہ اس قسم کے مسئلوں کی عورتوں کو نہایت کم ضرورت پڑتی ہے اس لیے ہم زیادہ نہیں لکھتے جب کبھی ایسا معاملہ ہوا کرے اس کی ہر بات کو کسی مولوی سے پوچھ لیا کرو تاکہ گناہ نہ ہو۔

اپنا قرضہ دوسرے پر اتار دینے کا بیان

مسئلہ۔ شفیعہ کا تمہارے ذمہ کچھ قرض ہے اور رابعہ تمہاری قرض دار ہے۔ شفیعہ نے تم سے تقاضا کیا تم نے کہا کہ رابعہ ہماری قرض دار ہے تم اپنا قرضہ اسی سے لے لو۔ ہم سے نہ مانگو۔ اگر اسی وقت شفیعہ یہ بات منظور کر لے اور رابعہ بھی اس پر راضی ہو جائے تو شفیعہ کا قرضہ تمہارے ذمہ سے اتر گیا۔ اب شفیعہ تم سے بالکل تقاضا نہیں کر سکتی بلکہ اسی رابعہ سے مانگنے چاہے جب ملے اور جتنا قرضہ تم نے شفیعہ کو دلایا ہے اتنا اب تم رابعہ سے نہیں لے سکتیں۔ البتہ اگر رابعہ اس سے زیادہ کی قرض دار ہے تو جو کچھ زیادہ ہے وہ لے سکتی ہو۔ پھر اگر رابعہ نے شفیعہ کو دے دیا تب تو خیر اور اگر نہ دیا اور مر گئی تو جو کچھ مال و اسباب چھوڑا ہے وہ بیچ کر شفیعہ کو دلا دیں گے اور اگر اس نے کچھ مال نہیں چھوڑا جس سے قرضہ دلائیں یا اپنی زندگی ہی میں مکر گئی اور قسم کھا لی کہ تمہارے قرض سے مجھ سے کچھ واسطہ نہیں اور گواہ بھی نہیں ہیں تو اب اس صورت میں پھر شفیعہ تم سے تقاضا کر سکتی ہے اور اپنا قرضہ تم سے لے سکتی ہے اور اگر تمہارے کہنے پر شفیعہ رابعہ سے لینا منظور نہ کرے یا رابعہ اس کو دینے پر راضی نہ ہو تو قرضہ تم سے نہیں اترا۔

مسئلہ۔ رابعہ تمہاری قرض دار نہ تھی تم نے یوں ہی اپنا قرضہ اس پر اتار دیا اور رابعہ نے مان لیا اور شفیعہ نے بھی قبول و منظور کر لیا تب بھی تمہارے ذمہ سے شفیعہ کا قرض اتر کر رابعہ کے ذمہ ہو گیا اس لیے اس کا بھی وہی حکم ہے جو ابھی بیان ہوا اور جتنا روپیہ رابعہ کو دینا پڑے گا دینے کے بعد تم سے لے لیوے اور دینے سے پہلے ہی لے لینا کا حق نہیں ہے۔

مسئلہ۔ اگر رابعہ کے پاس تمہارے روپے امانت رکھے تھے اس لیے تم نے اپنا قرض رابعہ پر اتار دیا پھر وہ روپے کسی طرح ضائع ہو گئے تو اب رابعہ ذمہ دار نہیں رہی بلکہ اب شفیعہ تم ہی سے تقاضا کرے گی اور تم ہی سے لے گی۔ اب رابعہ سے مانگنے اور لینے کا حق نہیں رہا۔

مسئلہ۔ رابعہ پر قرضہ اتار دینے کے بعد اگر تم ہی وہ قرضہ ادا کر دو اور شفیعہ کو دے دو یہ بھی صحیح ہے۔ شفیعہ یہ نہیں کہہ سکتی کہ میں تم سے نہ لوں گی بلکہ رابعہ ہی سے لوں گی۔

وکیل کے برطرف کر دینے کا بیان

وکیل کے موقوف اور برطرف کرنے کا تم کو ہر وقت اختیار ہے مثلاً تم نے کسی سے کہا تھا ہم کو ایک بکری کی ضرورت ہے کہیں مل جائے تو لے لینا۔ پھر منع کر دیا کہ اب نہ لینا تو اب اس کو لینے کا اختیار نہیں اگر اب لیوے گا تو اسی کے سر پڑے گی تم کو نہ لینا پڑے گی۔

مسئلہ۔ اگر خود اس کو نہیں منع کیا بلکہ خط لکھ بھیجا یا آدمی بھیج کر اطلاع کر دی کہ اب نہ لینا تب بھی وہ برطرف ہو گیا۔ اور اگر تم نے اطلاع نہیں دی کسی اور آدمی نے اپنے طور پر اس سے کہہ دیا کہ تم کو فلانے نے برطرف کر دیا ہے اب نہ خریدنا تو اگر دو آدمیوں نے اطلاع دی ہو یا ایک ہی نے اطلاع دی مگر وہ معتبر اور پابند شرع ہے تو برطرف ہو گیا۔ اور اگر ایسا نہ ہو تو برطرف نہیں ہوا۔ اگر وہ خرید لے تو تم کو لینا پڑے گا۔

کسی کو وکیل کر دینے کا بیان

مسئلہ۔ جس کام کو آدمی خود کر سکتا ہے اس میں یہ بھی اختیار ہے کہ کسی اور سے کہہ دے کہ تم ہمارا یہ کام کر دو۔ جیسے بیچنا مول لینا کرایہ پر لینا دینا نکاح کرنا وغیرہ۔ مثلاً ماما کو بازار سودا لینے بھیجا یا ماما کے ذریعہ سے کوئی چیز بکوائی یا یکہ بہلی کرایہ پر منگوایا۔ اور جس سے کام کرایا ہے شریعت میں اس کو وکیل کہتے ہیں ماما کو یا کسی نوکر کو سودا لینے بھیجا تو وہ تمہارا وکیل کہلائے گا۔

مسئلہ۔ تم نے ماما سے گوشت منگوایا وہ ادھار لے آئی تو گوشت والا تم سے دام کا تقاضا نہیں کر سکتا۔ اس ماما سے تقاضا کرے اور وہ ماما تم سے تقاضا کرے گی۔ اسی طرح اگر کوئی چیز تم نے ماما سے بکوائی تو اس لینے والے سے تم کو تقاضا کرنے اور دام کے وصول کرنے کا حق نہیں ہے اس نے جس سے چیز پائی ہے اس کو دام بھی دے گا اور اگر وہ خود تمہیں کو دام دے دے تب بھی جائز ہے مطلب یہ ہے کہ اگر وہ تم کو نہ دے تو تم زبردستی نہیں کر سکتیں۔

مسئلہ۔ تم نے نوکر سے کوئی چیز منگوائی وہ لے آیا تو اس کو اختیار ہے کہ جب تک تم سے دام نہ لے لیوے تب تک وہ چیز تم کو نہ دیوے چاہے اس نے اپنے پاس سے دام دے دیئے ہوں یا ابھی نہ دیئے ہوں دونوں کا ایک حکم ہے۔ البتہ اگر وہ دس پانچ دن کے وعدے پر ادھار لایا ہو تو جتنے دن کا وعدہ کر آیا ہے اس سے پہلے دام نہیں مانگ سکتا۔

مسئلہ۔ تم نے سیر بھر گوشت منگوایا تھا وہ ڈیڑھ سیر اٹھا لایا تو پورا ڈیڑھ سیر لینا واجب نہیں۔ اگر تم نہ لو تو آدھ سیر اس کو لینا پڑے گا۔

مسئلہ۔ تم نے کسی سے کہا کہ فلانی بکری جو فلانے کے یہاں ہے اس کو جا کر دو روپے میں لے آؤ تو اب وہ وکیل وہی بکری خود اپنے لیے نہیں خرید سکتا۔ غرضیکہ جو چیز خاص تم مقرر کر کے بتلا دو اس وقت اس کو اپنے لیے خریدنا درست نہیں۔ البتہ جو دام تم نے بتلائے ہیں اس سے زیادہ میں خرید لیا تو اپنے لیے خریدنا درست ہے اور اگر تم نے کچھ دام نہ بتلائے ہوں تو کسی طرح اپنے لیے نہیں خرید سکتا۔

مسئلہ۔ اگر تم نے کوئی خاص بکری نہیں  بتلائی بس اتنا کہا کہ ایک بکری کی ضرورت ہے ہم کو خرید دو تو وہ اپنے لیے بھی خرید سکتا ہے جو بکری چاہے اپنے لیے خریدے اور جو چاہے تمہارے لیے۔ اگر خود لینے کی نیت سے خریدے تو اس کی ہوئی۔ اور اگر تمہاری نیت سے خریدے تو تمہاری ہوئی اور اگر تمہارے دئیے داموں سے خریدی تو بھی تمہاری ہوئی چاہے جس نیت سے خریدے۔

مسئلہ۔ تمہارے لیے اس نے بکری خریدی پھر ابھی تم کو دینے نہ پایا تھا کہ بکری مر گئی یا چوری ہو گئی تو اس بکری کے دام تم کو دینا پڑیں گے اگر تم کہو کہ تو نے اپنے لیے خریدی تھی ہمارے لیے نہیں خریدی تو اگر تم پہلے اس کو دام دے چکی ہو تو تمہارے گئے۔ اور اگر تم نے ابھی دام نہیں دیئے اور وہ اب دام مانتا ہے تو تم اگر قسم کھا جاؤ کہ تو نے اپنے لیے خریدی تھی تو اس کی بکری گئی اور اگر قسم نہ کھا سکو تو اس کی بات کا اعتبار کرو۔

مسئلہ۔ اگر نوکر یا ماما کوئی چیز گراں خرید لائی تو اگر تھوڑا ہی فرق ہو تب تو تم کو لینا پڑے گا اور دام دینا پڑیں گے اور اگر بہت زیادہ گراں لے آئی کہ اتنے دام کوئی نہیں لگا سکتا تو اس کا لینا واجب نہیں اگر نہ لو تو اس کو لینا پڑے گا۔

مسئلہ۔ تم نے کسی کو کوئی چیز بیچنے کو دی تو اس کو یہ جائز نہیں کہ خود لے لے اور دام تم کو دیوے۔ اسی طرح اگر تم نے کچھ منگوایا کہ فلانی چیز خرید لاؤ تو وہ اپنی چیز تم کو نہیں دے سکتا۔ اگر اپنی چیز دینا یا خود لینا منظور ہو تو صاف صاف کہہ دے کہ یہ چیز میں لیتا ہوں مجھ کو دے دو یا یوں کہہ دے کہ یہ میری چیز تم لے لو۔ اور اتنے دام دے دو۔ بغیر بتلائے ہوئے ایسا کرنا جائز نہیں۔

مسئلہ۔ تم نے ماما سے بکری کا گوشت منگوایا وہ گائے کا لے آئی تو تم کو اختیار ہے چاہے لو چاہے نہ لو۔ اسی طرح تم نے آلو منگوائے وہ بھنڈی یا کچھ اور لے آئی تو اس کا لینا ضروری نہیں۔ اگر تم انکار کرو تو اس کو لینا پڑے گا۔

مسئلہ۔ تم نے ایک پیسہ کی چیز منگوائی وہ دو پیسہ کی لے آئی تو تم کو اختیار ہے کہ ایک ہی پیسہ کے موافق لو۔ اور ایک پیسہ کی جو زائد لائی وہ اسی کے سر ڈالو۔

مسئلہ۔ تم نے دو شخصوں کو بھیجا کہ جاؤ فلانی چیز خرید لاؤ تو خریدتے وقت دونوں کو موجود رہنا چاہیے۔ فقط ایک آدمی کو خریدنا جائز نہیں اگر ایک ہی آدمی خریدے تو وہ بیع موقوف ہے جب تم منظور کر لو گی تو صحیح ہو جائے گی۔

مسئلہ۔ تم نے کسی سے کہا کہ ہمیں ایک گائے یا بکری یا اور کچھ کہا کہ فلانی چیز خرید لا دو۔ اس نے خود نہیں خریدا بلکہ کسی اور سے کہہ دیا اس نے خریدا تو اس کا لینا تمہارے ذمہ واجب نہیں۔ چاہے لو چاہے نہ لو۔ دونوں اختیار ہیں البتہ اگر وہ خود تمہارے لیے خریدے تو تم کو لینا پڑے گا۔

کسی کی ذمہ داری کر لینے کا بیان

مسئلہ۔ نعیمہ کے ذمہ کسی کے کچھ روپے یا پیسے ہوتے تھے تم نے اس کی ذمہ داری کر لی کہ اگر یہ نہ دے گی تو ہم سے لے لینا یا یوں کہا کہ ہم اس کے ذمہ دار ہیں یا دیندار ہیں یا اور کوئی ایسا لفظ کہا جس سے ذمہ داری معلوم ہوئی۔ اور اس حقدار نے تمہاری ذمہ داری منظور بھی کر لی تو اب اس کی ادائیگی تمہارے ذمہ واجب ہو گئی اگر نعیمہ نہ دے تو تم کو دینا پڑیں گے اور اس حقدار کو اختیار ہے جس سے چاہے تقاضا کرے چاہے تم سے اور چاہے نعیمہ سے۔ اب جب تک نعیمہ اپنا قرض ادا نہ کر دے یا معاف نہ کرا لے تب تک برابر تم ذمہ دار ہو گی۔ البتہ اگر وہ حقدار تمہاری ذمہ داری نہیں رہی اور اگر تمہاری ذمہ داری کے وقت ہی اس حق دار نے منظور نہیں کیا اور کہا تمہاری ذمہ داری کا ہم کو اعتبار نہیں یا اور کچھ کہا تو تم ذمہ داری نہیں ہوئیں۔

مسئلہ۔ تم نے کسی کی ذمہ داری کر لی تھی اور اس کے پاس روپے ابھی نہ تھے اس لیے تم کو دینا پڑے تو اگر تم نے اس قرض دار کے کہنے سے ذمہ داری کی ہے تب تو جتنا تم نے حقدار کو دیا ہے اس قرض دار سے لے سکتی ہو۔ اور اگر تم نے اپنی خوشی سے ذمہ داری کی ہے تو دیکھو تمہاری ذمہ داری کو پہلے کس نے منظور کیا ہے اس قرض دار نے یا حقدار نے اگر پہلے قرض دار نے منظور کیا تب تو ایسا ہی سمجھیں گے کہ تم نے اس کو کہنے سے ذمہ داری کی۔ لہذا اپنا روپیہ اس سے لے سکتی ہو اور اگر پہلے حق دار نے منظور کر لیا تو جو کچھ تم نے دیا ہے قرض دار سے لینے کا حق نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ تمہاری طرف سے احسان سمجھا جائے گا کہ ویسے ہی اس کا قرض تم نے ادا کر دیا وہ خود دے دے تو اور بات ہے۔

مسئلہ۔ اگر حقدار نے قرض دار کو مہینہ بھر یا پندرہ دن وغیرہ کی مہلت دے دی تو اب اتنے دن اس ذمہ داری کرنے والے سے بھی تقاضا نہیں کر سکتا۔

مسئلہ۔ اور اگر تم نے اپنے پاس سے دینے کی ذمہ داری نہیں کی تھی بلکہ اس قرض دار کا روپیہ تمہارے پاس امانت رکھا تھا اس لیے تم نے کہا تھا کہ ہمارے پاس اس شخص کی امانت رکھی ہے ہم اس میں سے دے دیں گے پھر وہ روپیہ چوری ہو گیا اور کسی طرح جاتا رہا تو اب تمہاری ذمہ داری نہیں رہی۔ نہ اب تم پر اس کا دینا واجب ہے اور نہ وہ حق دار تم سے تقاضا کر سکتا ہے۔

مسئلہ۔ کہیں جانے کے لیے تم نے کوئی یکہ یا بہلی کرایہ پر کی اور اس بہلی والے کی کسی نے ذمہ داری کر لی کہ اگر یہ نہ لے گیا تو میں اپنی بہلی دے دوں گا تو یہ ذمہ داری درست ہے اگر وہ نہ دے تو اس ذمہ دار کو دینا پڑے گی۔

مسئلہ۔ تم نے اپنی چیز کسی کو دی کہ جاؤ اس کو بیچ لاؤ۔ وہ بیچ آیا۔ لیکن دام نہیں لایا اور کہا کہ دام کہیں نہیں جا سکتے۔ دام کا میں ذمہ دار ہوں اس سے نہ ملیں تو مجھ سے لے لینا تو یہ ذمہ داری صحیح نہیں۔

مسئلہ۔ کسی نے کہا کہ اپنی مرغی اسی میں بند رہنے دو اگر بلی لے جائے تو میرا ذمہ مجھ سے لے لینا۔ یا بکری کو کہا اگر بھیڑیا لے جائے تو مجھ سے لے لینا تو یہ ذمہ داری صحیح نہیں۔

مسئلہ۔ نابالغ لڑکا یا لڑکی اگر کسی کی ذمہ داری کرے تو وہ ذمہ داری صحیح نہیں۔