قرض لینے کا بیان

مسئلہ۔ جو چیز ایسی ہو کہ اس طرح کی چیز تم دے سکتے ہو اس کا قرض لینا درست ہے۔ جیسے اناج انڈے گوشت وغیرہ اور جو چیز ایسی ہو کہ اسی طرح کی چیز دینا مشکل ہے تو اس کا قرض لینا درست نہیں جیسے امرود نارنگی بکری مرغی وغیرہ۔

مسئلہ۔ جس زمانے میں روپے کے دس سیر گیہوں ملتے تھے اس وقت تم نے پانچ سیر گیہوں قرض لیے پھر گیہوں سستے ہو گئے اور روپے کے بیس سری ملنے لگے تو تم کو وہی پانچ سیر گیہوں دینا پڑیں گے۔ اسی طرح اگر گراں ہو گئے تب بھی جتنے لیے ہیں اتنے ہی دینا پڑیں گے۔

مسئلہ۔ جیسے گیہوں تم نے دیئے تھے اس نے اس سے اچھے گیہوں ادا کیے تو اس کا لینا جائز ہے یہ سود نہیں مگر قرض لینے کے وقت یہ کہنا درست نہیں کہ ہم اس سے اچھے لیں گے البتہ وزن میں زیادہ نہ ہونا چاہیے۔ اگر تم نے دیئے ہوئے گیہوں سے زیادہ لیے تو یہ ناجائز ہو گیا۔ خوب ٹھیک تول کر لینا دینا چاہیے لیکن اگر تھوڑا جھکتا تول دیا تو کچھ ڈر نہیں۔

مسئلہ۔ کسی سے کچھ روپیہ یا غلہ اس وعدہ پر قرض لیا کہ ایک مہینہ یا پندرہ دن کے بعد ہم ادا کر دیں گے اور اس نے منظور کر لیا تب بھی یہ مدت کا بیان کرنا لغو بلکہ ناجائز ہے۔ اگر اس کو مدت سے پہلے ضرورت پڑے اور تم سے مانگے یا بے ضرورت ہی مانگے تو تم کو ابھی دینا پڑے گا۔

مسئلہ۔ تم نے دو سیر گیہوں یا آٹا وغیرہ کچھ قرض لیا جب اس نے مانگا تو تم نے کہا بہن اس وقت گیہوں تو نہیں ہیں اس کے بدلے تم دو نہ پیسے لے لو اس نے کہا اچھا۔ تو یہ پیسے اسی وقت سامنے رہتے رہتے دے دینا چاہیے۔ اگر پیسے نکالنے اندر گئی اور اس کے پاس سے الگ ہو گئی تو وہ معاملہ باطل ہو گیا۔ اب پھر سے کہنا چاہیے کہ تم اس ادھار گیہوں کے بدلے دو آنے لے لو۔

مسئلہ۔ ایک روپے کے پیسے قرض لیے پھر پیسے گراں ہو گئے اور روپے کے ساڑھے پندرہ آنے چلنے لگے تو اب سولہ آنے دینا واجب نہیں ہیں بلکہ اس کے بدلے روپیہ دے دینا چاہیے۔ وہ یوں نہیں کہہ سکتی کہ میں روپیہ نہیں لیتی پیسے لیے تھے وہی لاؤ۔

مسئلہ۔ گھروں میں دستور ہے کہ دوسرے گھر سے اس وقت دس پانچ روٹی قرض منگا لی۔ پھر جب اپنے گھر پک گئی گن کر بھیج دی یہ درست ہے۔

بیع سلم کا بیان

مسئلہ۔ فصل کٹنے سے پہلے یا کٹنے کے بعد کسی کو دس روپے دیئے اور یوں کہا کہ دو مہینے یا تین مہینے کے بعد فلانے مہینے میں فلاں تاریخ میں ہم تم سے ان دس روپے کے گیہوں لیں گے اور نرخ اسی وقت طے کر لیا کہ روپے کے پندرہ سیر یا روپے کے بیس سیر کے حساب سے لیں گے تو یہ بیع درست ہے جس مہینے کا وعدہ ہوا ہے اس مہینے میں اس کو اسی بھاؤ گیہوں دینا پڑیں گے چاہے بازار میں گراں بکیں چاہے سستے بازار کے بھاؤ کا کچھ اعتبار نہیں ہے اور اس بیع کو سلم کہتے ہیں لیکن اس کے جائز ہونے کی کئی شرطیں ہیں ان کو خوب غور سے سمجھو اول شرط یہ ہے کہ گیہوں وغیرہ کی کیفیت خوب صاف صاف ایسی طرح بتلا دے کہ لیتے وقت دونوں میں جھگڑا نہ پڑے مثلاً کہہ دے کہ فلاں قسم کا گیہوں دینا۔ بہت پتلا نہ ہو نہ پالا مارا ہوا ہو۔ عمدہ ہو خراب نہ ہو۔ اس میں کوئی اور چیز چنے مٹر وغیرہ نہ ملی ہو۔ خوب سوکھے ہوں گیلے نہ ہوں۔ غرضیکہ جس قسم کی چیز لینا ہو ویسی بتلا دینا چاہیے تاکہ اس وقت بکھیڑا نہ ہو۔ اگر اس وقت صرف اتنا کہہ دیا کہ دس روپے کے گیہوں دے دینا تو یہ ناجائز ہوا۔ یا یوں کہا کہ ان دس روپے کے دھان دے دینا یا چاول دے دینا اس کی قسم کچھ نہیں بتلائی یہ سب ناجائز ہے دوسری شرط یہ ہے کہ نرخ بھی اسی وقت طے کر لے کہ روپے کے پندرہ سیر یا بیس سیر کے حساب سے لے لیں گے۔ اگر یوں کہا کہ اس وقت جو بازار کا بھاؤ ہو اس حساب سے اس کو دینا یا اس سے دو سیر زیادہ دینا تو یہ جائز نہیں بازار کے بھاؤ کا کچھ اعتبار نہ کرو۔ اسی وقت اپنے لینے کا نرخ مقرر کر لو۔ وقت آنے پر اسی مقرر کیے ہوئے بھاؤ سے لے لو۔ تیسری شرط یہ ہے کہ جتنے روپے کے لینا ہوں اسی وقت بتلا دو کہ ہم دس روپے یا بیس روپے کے گیہوں لیں گے۔ اگر یہ نہیں بتلایا اور یوں ہی گول مول کہہ دیا کہ تھوڑے روپے کے ہم بھی لیں گے تو یہ صحیح نہیں۔

چوتھی شرط یہ ہے کہ اسی وقت اسی جگہ رہتے رہتے سب روپے دے دے اگر معاملہ کرنے کے بعد الگ ہو کر پھر روپے دیئے تو وہ معاملہ باطل ہو گیا اب پھر سے کرنا چاہیے۔ اسی طرح اگر پانچ روپے تو اسی وقت دے دیئے اور پانچ روپے دوسرے وقت دیئے تو پانچ روپے میں بیع سلم باقی رہی اور پانچ روپے میں باطل ہو گئی۔ پانچویں شرط یہ ہے کہ اپنے لینے کی مدت کم سے کم ایک مہینہ مقرر کرے کہ ایک مہینے کے بعد فلانی تاریخ ہم گیہوں لیوں گے مہینے سے کم مدت مقرر کرنا صحیح نہیں اور زیادہ چاہیے جتنی مقرر کرے جائز ہے لیکن دن تاریخ مہینہ سب مقرر کر دے تاکہ بکھیڑا نہ پڑے کہ وہ کہے میں ابھی نہ دوں گا۔ تم کہو نہیں آج ہی دو۔ اس لیے پہلے ہی سے سب طے کر لو۔ اگر دن تاریخ مہینہ مقرر نہ کیا بلکہ یوں کہا کہ جب فصل کٹے گی تب دے دینا تو یہ صحیح نہیں۔ چھٹی شرط یہ ہے کہ یہ بھی مقرر کر دے کہ فلانی جگہ وہ گیہوں دینا یعنی اس شہر میں یا کسی دوسرے شہر میں جہاں لینا ہو وہاں پہنچانے کے لیے کہہ دے یا یوں کہہ دے کہ ہمارے گھر پہنچا دینا۔ غرضیکہ جو منظور ہو صاف بتلا دے۔ اگر یہ نہیں بتلایا تو صحیح نہیں۔ البتہ اگر کوئی ہلکی چیز ہو جس کے لانے اور لے جانے میں کچھ مزدوری نہیں لگتی مثلاً مشک خریدا یا سچے موتی یا اور کچھ تو لینے کی جگہ بتلانا ضروری نہیں۔ جہاں یہ ملے اس کو دے دے اگر ان شرطوں کے موافق کیا تو بیع سلم درست ہے۔ ورنہ درست نہیں۔

مسئلہ۔ گیہوں وغیرہ غلہ کے علاوہ اور جو چیزیں ایسی ہوں کہ ان کی کیفیت بیان کر کے مقرر کر دی جائے کہ لیتے وقت کچھ جھگڑا ہونے کا ڈر نہ رہے ان کی بیع سلم بھی درست ہے جیسے انڈے اینٹیں کپڑا مگر سب باتیں طے کر لے کہ اتنی بڑی اینٹ ہو۔ اتنی لمبی۔ اتنی چوڑی۔ کپڑا سوتی ہو اتنا باریک ہو اتنا موٹا ہو۔ دیسی ہو یا ولایتی ہو غرضیکہ سب باتیں بتا دینا چاہئیں۔ کچھ گنجلک باقی نہ رہے۔

مسئلہ۔ روپے کی پانچ گٹھڑی یا پانچ کھانچی کے حساب سے بھوسا بطور بیع سلم کے لیا تو یہ درست نہیں کیونکہ گٹھڑی اور کھانچی کی مقدار میں بہت فرق ہوتا ہے البتہ اگر کسی طرح سے سب کچھ مقرر اور طے کر لے یا وزن کے حساب سے بیع کرے تو درست ہے۔

مسئلہ۔ سلم کے صحیح ہونے کی یہ بھی شرط ہے کہ جس وقت معاملہ آیا ہے اس وقت سے لینے اور وصول پانے کے زمانے تک وہ چیز بازار میں ملتی رہے نایاب نہ ہو۔ اگر اس درمیان میں وہ چیز بالکل نایاب ہو جائے کہ اس ملک میں بازاروں میں نہ ملے گو دوسری جگہ سے بہت مصیبت جھیل کر منگوا سکے تو وہ بیع سلم باطل ہو گئی۔

مسئلہ۔ معاملہ کرتے وقت یہ شرط کر دی کہ فصل کے کٹنے پر فلاں مہینے میں ہم نئے گیہوں لیں گے یا فلانے کھیت کے گیہوں لیں گے تو یہ معاملہ جائز نہیں ہے اس لیے یہ شرط نہ کرنا چاہیے پھر وقت مقررہ پر اس کو اختیار ہے چاہے نئے دے یا پرانے ۔ البتہ اگر نئے گیہوں کٹ چکے ہوں تو نئے کی شرط کرنا بھی درست ہے۔

مسئلہ۔ تم نے دس روپے کے گیہوں لینے کا معاملہ کیا تھا وہ مدت گزر گئی بلکہ زیاد ہو گئی مگر اس نے اب تک گیہوں نہیں دیئے نہ دینے کی امید ہے تو اب یہ کہنا جائز نہیں کہ اچھا تم گیہوں نہ دو بلکہ اس گیہوں کے بدلے اتنے چنے یا اتنے دھان یا اتنی فلاں چیز دے دو۔ گیہوں کے عوض کسی اور چیز کا لینا جائز نہیں یا تو اس کو کچھ مہلت دے دو اور بعد مہلت گیہوں لو۔ یا اپنا روپیہ واپس لے لو۔ اسی طرح اگر بیع سلم کو تم دونوں نے توڑ دیا کہ ہم وہ معاملہ توڑتے ہیں گیہوں نہ لیں گے روپیہ واپس دے دیا یا تم نے نہیں توڑا بلکہ وہ معاملہ خود ہی ٹوٹ گیا جیسے وہ چیز نایاب ہو گئی کہیں نہیں ملتی تو اس صورت میں تم کو صرف روپے لینے کا اختیار ہے اس روپے کے عوض اس سے کوئی اور چیز لینا درست نہیں۔ پہلے روپیہ لیلو لینے کے بعد اس سے جو چیز چاہو خریدو۔

جو چیزیں تل کر بکتی ہیں ان کا بیان

مسئلہ۔ اب ان چیزوں کا حکم سنو جو تول کر بکتی ہیں جیسے اناج گوشت لوہا تانبا ترکاری نمک وغیرہ اس قسم کی چیزوں میں سے اگر اک چیز کو اسی قسم کی چیز سے بیچنا اور بدلنا چاہو مثلاً ایک گیہوں دے کر دوسرے گیہوں لیے یا ایک دھان دے کر دوسرے دھان لیے یا آٹے کے عوض آٹا یا اسی طرح کوئی اور چیز غرضیکہ دونوں طرف ایک ہی قسم کی چیز ہے تو اس میں بھی ان دونوں باتوں کا خیال رکھنا واجب ہے ایک تو یہ کہ دونوں طرف بالکل برابر ہو ذرا بھی کسی طرف کمی بیشی نہ ہو ورنہ سود ہو جائے گا۔ دوسری یہ کہ اسی وقت ہاتھ در ہاتھ دونوں طرف سے لین دین اور قبضہ ہو جائے۔ اگر قبضہ نہ ہو تو کم سے کم اتنا ضرور ہو کہ دونوں گیہوں الگ کر کے رکھ دیئے جائیں تم اپنے گیہوں تول کر الگ رکھ دو کہ دیکھو یہ رکھے ہیں جب تمہارا جی چاہے لے جانا۔ اسی طرح وہ بھی اپنے گیہوں تول کر الگ کر دے اور کہہ دے کہ یہ تمہارے الگ رکھے ہیں جب چاہو لے جانا۔ اگر یہ بھی نہ کیا اور ایک دوسرے سے الگ ہو گئی تو سود کا گناہ ہوا۔ مسئلہ۔ خراب گیہوں دے کر اچھے گیہوں لینا منظور ہے یا برا آٹا دے کر اچھا آٹا لینا ہے اس لیے اس کے برابر کوئی نہیں دیتا تو سود سے بچنے کی ترکیب یہ ہے کہ اس گیہوں یا آٹے وغیرہ کو پیسوں سے بیچ دو کہ ہم نے اتنا آٹا دو نے کو بیچا۔ پھر اسی دو نے کے عوض اس سے وہ اچھے گیہوں یا آٹا لے لو یہ جائز ہے۔ مسئلہ۔ اور اگر ایسی چیزوں میں جو تول کر بکتی ہیں ایک طرح کی چیز نہ ہو جیسے گیہوں دے کر دھان لیے یا جو۔ چنا۔ جوار۔ نمک۔ گوشت۔

ترکاری وغیرہ کوئی اور چیز لی غرضیکہ ادھر اور چیز ہے اور ادھر اور چیز دونوں طرف ایک چیز نہیں تو اس صورت میں دونوں کا وزن برابر ہونا واجب نہیں۔ سیر بھر گیہوں دے کر چاہے دس سیر دھان وغیرہ لے لو یا چھٹانک ہی بھر لو تو سب جائز ہے۔ البتہ وہ دوسری بات یہاں بھی واجب ہے کہ سامنے رہتے رہتے دونوں طرف سے لین دین ہو جائے یا کم سے کم اتنا ہو کہ دونوں کی چیزیں الگ کر کے رکھ دی جائیں اگر ایسا نہ کیا تو سود کا گناہ ہو گیا۔ مسئلہ۔ سیر بھر چنے کے عوض میں کنجڑن سے کوئی ترکاری لی پھر گیہوں نکالنے کے لیے اندر کوٹھڑی میں گئی وہاں سے الگ ہو گئی تو یہ ناجائز اور حرام ہے اب پھر سے معاملہ کرے۔ مسئلہ۔ اگر اس قسم کی چیز جو تول کر بکتی ہے روپے پیسے سے خریدی یا کپڑے وغیرہ کسی ایسی چیز سے بدلی ہے جو تول کر نہیں بکتی بلکہ گز سے ناپ کر بکتی ہے یا گنتی سے بکتی ہے مثلاً ایک تھان کپڑا دے کر گیہوں وغیرہ لے یا گیہوں چنے دے کر امرود نارنگی ناشپاتی انڈے ایسی چیزیں لیں جو گن کر بکتی ہیں غرضیکہ ایک طرف ایسی چیز ہے جو تول کر بکتی ہے اور دوسری طرف گنتی سے یا گز سے ناپ کر بکنے والی چیز ہے تو اس صورت میں ان دونوں باتوں میں سے کوئی بات بھی واجب نہیں۔ ایک پیسہ کے چاہے جتنے گیہوں آٹا ترکاری خریدے اسی طرح کپڑا دے کر چاہے جتنا اناج لیوے گیہوں چنے وغیرہ دے کر چاہے جتنے امرود نارنگی وغیرہ لیوے اور چاہے اسی وقت اس جگہ رہتے رہتے لین دین ہو جائے اور چاہے الگ ہو نے کے بعد ہر طرح یہ معاملہ درست ہے۔ مسئلہ۔ ایک طرف چھنا ہوا آٹا ہے دوسری طرف بے چھنا یا ایک طرف موٹا ہے دوسری طرف باریک۔ تو بدلتے وقت ان دونوں کا برابر ہونا واجب ہے کمی زیادتی جائز نہیں اگر ضرورت پڑے تو اس کی وہی ترکیب ہے جو بیان ہوئی۔

اور اگر ایک طرف گیہوں کا آٹا ہے دوسری طرف چنے کا یا جوار وغیرہ کا تو اب وزن میں دونوں کا برابر ہونا واجب نہیں مگر وہ دوسری بات بہرحال واجب ہے کہ ہاتھ در ہاتھ لین دین ہو جائے۔ مسئلہ۔ گہوں کو ٹے سے بدلنا کسی طرح درست نہیں چاہے سیر بھر گیہوں دے کر سیر ہی بھر آٹا لو چاہے کچھ کم زیادہ لو۔ بہرحال ناجائز ہے البتہ اگر گیہوں دے کر گیہوں کا آٹا نہیں لیا بلکہ چنے وغیرہ کسی اور چیز کا آٹا لیا تو جائز ہے مگر ہاتھ در ہاتھ ہو۔ مسئلہ۔ سرسوں دے کر سرسوں کا تیل لیا یا تل دے کر تلی کا تیل لیا تو دیکھو اگر یہ تیل جو تم نے لیا ہے یقیناً اس تیل سے زیادہ ہے جو اس سرسوں اور تل میں نکلے گا تو یہ بدلنا ہاتھ در ہاتھ صحیح ہے اور اگر اس کے برابر یا کم ہو یا شبہ ہو کہ شاید اس سے زیادہ نہ ہو تو درست نہیں بلکہ سود ہے۔

مسئلہ۔ گائے کا گوشت دے کر بکری کا گوشت لیا تو دونوں کا برابر ہونا واجب نہیں کمی بیشی جائز ہے مگر ہاتھ در ہاتھ ہو۔ مسئلہ۔ اپنا لوٹا دے کر دوسرے کا لوٹا لیا یا لوٹے کو پتیلی وغیرہ کسی اور برتن سے بدلا تو وزن میں دونوں کا برابر ہونا اور ہاتھ در ہاتھ ہونا شرط ہے اگر ذرا بھی کمی بیشی ہوئی تو سود ہو گیا کیونکہ دونوں چیزیں تانبے کی ہیں اس لیے وہ ایک ہی قسم کی سمجھی جائیں گی۔ اسی طرح اگر وزن میں برابر ہو مگر ہاتھ در ہاتھ نہ ہوئی تب بھی سود ہوا۔ البتہ اگر ایک طرف تانبے کا برتن ہو دوسری طرف لوہے کا یا پیتل وغیرہ کا تو وزن کی کمی بیشی جائز ہے مگر ہاتھ در ہاتھ ہو۔ مسئلہ۔ کسی سے سیر بھر گیہوں قرض لیے اور یوں کہا ہمارے پاس گیہوں تو ہیں نہیں ہم اس کے عوض دو سیر چنے دے دیں گے تو جائز نہیں کیونکہ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ گیہوں کو چنے سے بدلتی ہے اور بدلتے وقت ایسی دونوں چیزوں کا اسی وقت لین دین ہو جانا چاہیے کچھ ادھار نہ رہنا چاہیے۔ اگر کبھی ایسی ضرورت پڑے تو یوں کرے کہ گیہوں ادھار لے جائے اس وقت یہ نہ کہے کہ اس کے بدلے ہم چنے دیں گے بلکہ کسی دوسرے وقت چنے لا کر کہے۔ بہن اس گیہوں کے بدلے تم یہ چنے لے لو یہ جائز ہے۔ مسئلہ۔ یہ جتنے مسئلے بیان ہوئے سب میں اسی وقت رہتے رہتے سامنے لین دین ہو جانا یا کم سے کم اسی وقت سامنے دونوں چیزیں الگ کر کے رکھ دینا شرط ہے۔ اگر ایسا نہ کیا تو سودی معاملہ ہوا۔

مسئلہ۔ جو چیزیں تول کر نہیں بکتیں بلکہ گز سے ناپ کر یا گن کر بکتی ہیں ان کا حکم یہ ہے کہ اگر ایک ہی قسم کی چیز دے کر اسی قسم کی چز لو جیسے امرود دے کر دوسرے امرود لے یا نارنگی دے کر نارنگی یا کپڑا دے کر دوسرا ویسا کپڑا لیا۔ تو برابر ہونا شرط نہیں کمی بیشی جائز ہے لیکن اسی وقت لین دین ہو جانا واجب ہے اور اگر ادھر اور چیز ہے اور اس طرف اور چیز مثلاً امرود دے کر نارنگی لی یا گیہوں دے کر امرود لیے یا تنزیب دے کر لٹھا یا گاڑھا لیا تو بہرحال جائز ہے نہ تو دونوں کا برابر ہونا واجب ہے اور نہ اسی وقت لین دین ہونا واجب ہے۔

مسئلہ۔ سب کا خلاصہ یہ ہوا کہ علاوہ چاندی سونے کے اگر دونوں طرف ایک ہی چیز ہو اور وہ چیز تول کر بکتی ہو جیسے گیہوں کے عوض گیہوں چنے کے عوض چنا وغیرہ تب تو وزن میں برابر ہونا بھی واجب ہے اور اسی وقت سامنے رہتے رہتے لین دن ہو جانا بھی واجب ہے اور اگر دونوں طرف ایک ہی چیز ہے اس طرف سے اور چیز لیکن دونوں تول کر بکتی ہیں جیسے گیہوں کے بدلے چنا چنے کے بدلے جوار لینا۔ ان دونوں صورتوں میں وزن میں برابر ہونا واجب نہیں۔ کمی بیشی جائز ہے البتہ اسی وقت لین دین ہونا واجب ہے اور جہاں دونوں باتیں نہ ہوں یعنی دونوں طرف ایک ہی چیز نہیں اس طرف کچھ اور ہے اس طرف کچھ اور۔ اور وہ دونوں وزن کے حساب سے بھی نہیں بکتیں وہاں کمی بیشی بھی جائز ہے اور اسی وقت لین دین کرنا بھی واجب نہیں جیسے امرود دے کر نارنگی لینا۔ خوب سمجھ لو۔

مسئلہ۔ چینی کا ایک برتن دوسرے چینی کے برتن سے بدل لیا۔ یا چینی کو تام چینی سے بدلا تو اس میں برابری واجب نہیں ایک کے بدلے دو لیوے تب بھی جائز ہے۔ اسی طرح ایک سوئی دے کر دو سوئیاں یا تین یا چار لینا بھی جائز ہے لیکن اگر دونوں طرف چینی یا دونوں طرف تام چینی ہو تو اس وقت سامنے رہتے ہوئے لین دین ہو جانا چاہیے اور اگر قسم بدل جائے مثلاً چینی سے تام چینی بدلی تو یہ بھی واجب نہیں۔

مسئلہ۔ تمہارے پاس پڑوسن آئی کہ تم نے جو سیر بھر آٹا پکایا ہے وہ روٹی ہم کو دے دو۔ ہمارے گھر مہمان آ گئے ہیں اور سیر بھر یا سوا سیر آٹا یا گیہوں لے لو یا اس وقت روٹی دے دو پھر ہم سے آٹا یا گیہوں لے لے لینا۔ یہ درست ہے۔

مسئلہ۔ اگر نوکر ماما سے کوئی چیز منگاؤ تو اس کو خوب سمجھا دو کہ اس چیز کو اس طرح خرید کر لانا کبھی ایسا نہ ہو کہ وہ بے قاعدہ خرید لائے جس میں سود ہو جائے پھر تم اور سب بال بچے اس کو کھائیں اور حرام کھانا کھانے کے وبال میں سب گرفتار ہوں اور جس جس کو تم کھلاؤ مثلاً میاں کو مہمان کو سب کا گناہ تمہارے اوپر پڑے۔

سونے چاندی اور ان کی چیزوں کا بیان

مسئلہ۔ چاندی سونے کے خریدنے کی کئی صورتیں ہیں۔ ایک تو یہ کہ چاندی کو چاندی سے اور سونے کو سونے سے خریدا۔ جیسے ایک روپیہ کی چاندی خریدنا منظور ہے یا آٹھ نے کی چاندی خریدی اور دام میں اٹھنی دی یا اشرفی سے سونا خریدا۔ غرض کہ دونوں طرف ایک ہی قسم کی چیز ہے تو ایسے وقت دو باتیں واجب ہیں ایک تو یہ کہ دونوں طرف کی چاندی یا دونوں طرف کا سونا برابر ہو۔ دوسرے یہ کہ جدا ہونے سے پہلے ہی پہلے دونوں طرف سے لین دین ہو جائے کچھ ادھار باقی نہ رہے اگر ان دونوں باتوں میں سے کسی بات کے خلاف کیا تو سود ہو گیا مثلاً ایک روپے کی چاندی تم نے لی تو وزن میں ایک روپے کے برابر لینا چاہیے اگر روپے بھر سے کم لی یا اس سے زیادہ لی تو یہ سود ہو گیا۔ اسی طرح اگر تم نے روپیہ تو دے دیا لیکن اس نے چاندی ابھی نہیں دی تھوڑی دیر میں تم سے الگ ہو کر دینے کا وعدہ کیا یا اسی طرح تم نے ابھی روپیہ نہیں دیا چاندی ادھار لے لی تو یہ بھی سود ہے۔

مسئلہ۔ دوسری صورت یہ ہے کہ دونوں طرف ایک قسم کی چیز نہیں بلکہ ایک طرف چاندی اور ایک طرف سونا ہے اس کا حکم یہ ہے کہ وزن کا برابر ہونا ضروری نہیں ایک روپے کا چاہے جتنا سونا ملے جائز ہے اسی طرح ایک اشرفی کی چاہے جتنی چاندی ملے جائز ہے لیکن جدا ہونے سے پہلے ہی لین دین ہو جانا کچھ ادھار نہ رہنا یہاں بھی واجب ہے جیسا کہ ابھی بیان ہوا۔

مسئلہ۔ بازار میں چاندی کا بھاؤ بہت تیز ہے یعنی اٹھارہ آنے کی روپیہ بھر چاندی ملتی ہے روپے کی روپے بھر کوئی نہیں دیتا یا چاندی کا زی بہت عمدہ بنا ہوا ہے اور دس روپے بھر اس کا وزن ہے مگر بارہ سے کم میں نہیں ملتا تو سود سے بچنے کی ترکیب یہ ہے کہ روپے سے نہ خریدو بلکہ پیسوں سے خریدو اور اگر زیادہ لینا ہو تو اشرفیوں سے خریدو یعنی اٹھارہ آنے پیسوں کی عوض میں روپیہ بھر چاندی لے لو یا کچھ ریزگاری یعنی ایک روپے سے کم اور کچھ پیسے دے کر خرید لو تو گناہ نہ ہو گا لیکن ایک روپیہ نقد اور دو نے پیسے نہ دینا چاہیے نہیں تو سود ہو جائے گا اسی طرح اگر آٹھ روپے بھر چاندی نو روپے میں لینا منظور ہے تو سات روپے اور دو روپے کے پیسے دے دو تو سات روپے کے عوض میں سات روپے بھر چاندی ہو گئی باقی سب چاندی ان پیسوں کی عوض میں گئی۔ اگر دو روپے کے پیسے نہ دو تو کم سے کم اٹھارہ آنے کے پیسے ضرور دینا چاہیے یعنی سات روپے اور چودہ آنے کی ریزگاری اور اٹھارہ آنے کے پیسے دیئے تو چاندی کے مقابلہ میں تو اسی کے برابر چاندی آئی جو کچھ بچی وہ سب پیسوں کی عوض میں ہو گئی اگر آٹھ روپے اور ایک روپے کے پیسے دو گی تو گناہ سے نہ بچ سکو گی کیونکہ آٹھ روپے کی عوض میں آٹھ روپے بھر چاندی ہونی چاہیے پھر یہ پیسے کیسے اس لیے سود ہو گیا۔ غرضیکہ اتنی بات ہمیشہ خیال میں رکھو کہ جتنی چاندی لی ہے تم اس سے کم چاندی دو اور باقی پیسے شامل کر دو تو سود نہ ہو گا اور یہ بھی یاد رکھو کہ اس طرح ہرگز سود نہ طے کرو کہ نو روپے کی اتنی چاندی دے دو بلکہ یوں کہو کہ سات روپے اور دو۔ روپے کے پیسوں کے عوض میں یہ چاندی دے دو۔ اور اگر اس طرح کہا تو پھر سود ہو گیا خوب سمجھ لو۔

مسئلہ۔ اور اگر دونوں لینے دینے والے رضا مند ہو جائیں تو ایک آسان بات یہ ہے کہ جس طرف چاندی وزن میں کم ہو اس طرف پیسے شامل ہونے چائیں۔

مسئلہ۔ اور ایک اس سے بھی آسان بات یہ ہے کہ دونوں آدمی جتنے چاہیں روپے رکھیں اور جتنی چاہیں چاندی رکھیں مگر دونوں آدمی ایک ایک پیسہ بھی شامل کر دیں اور یوں کہہ دیں کہ ہم اس چاندی اور اس پیسہ کو اس روپے اور اس پیسہ کے بدلے لیتے ہیں سارے بکھیڑوں سے بچ جاؤ گی۔

مسئلہ۔ اگر چاندی سستی ہے اور ایک روپے کی ڈیڑھ روپیہ بھر ملت ہے روپے کی روپیہ بھر لینے میں اپنا نقصان ہے تو اس کے لینے اور سود سے بچنے کی یہ صورت ہے کہ داموں میں کچھ نہ کچھ پیسے ضرور ملا دو۔ کم سے کم دو ہی نے یا ایک نہ یا ایک پیسہ ہی سہی۔ مثلاً دس روپے کی چاندی پندرہ روپے بھر خریدی تو نو روپے اور ایک روپے کے پیسے دے دو یا دو ہی آنے کے پیسے دے دو۔ باقی روپے اور ریزگاری دے دو تو ایسا سمجھیں گے کہ چاندی کے عوض میں اس کے برابر چاندی لی باقی سب چاندی ان پیسوں کی عوض میں ہے اس طرح گناہ نہ ہو گا اور وہ بات یہاں بھی ضرور خیال رکھو کہ یوں نہ کہو کہ اس روپے کی چاندی دے دو بلکہ یوں کہو کہ نو روپے اور ایک روپے کے پیسوں کے عوض میں یہ چاندی دے دو۔ غرض جتنے پیسے شامل کرنا منظور ہیں معاملہ کرتے وقت ان کو صاف کہہ بھی دو ورنہ سود سے بچاؤ نہ ہو گا۔

مسئلہ۔ عورتیں اکثر بازار سے سچا گوٹہ ٹھپہ لچکہ خریدتی ہیں اس میں ان مسئلوں کا خیال رکھو کیونکہ وہ بھی چاندی ہے اور روپیہ چاندی کا اس کے عوض دیا جاتا ہے یہاں بھی آسان بات وہی ہے کہ دونوں طرف ایک ایک پیسہ ملا لیا جائے۔

مسئلہ۔ اگر چاندی یا سونے کی بنی ہوئی کوئی ایسی چیز خریدی جس میں فقط چاندی ہی چاندی ہے یا فقط سونا ہے کوئی اور چیز نہیں ہے تو اس کا بھی یہی حکم ہے کہ اگر سونے کی چیز چاندی یا روپوں سے خریدے یا چاندی کی چیز اشرفی سے خریدے تو وزن میں چاہے جتنی ہو جائز ہے فقط اتنا خیال رکھے کہ اسی وقت لین دین ہو جائے کسی کے ذمہ کچھ باقی نہ رہے۔ اور اگر چاندی کی چیز روپوں سے اور سونے کی چیز اشرفیوں سے خریدے تو وزن میں برابر ہونا واجب ہے اگر کسی طرف کچھ کمی بیشی ہو تو اسی ترکیب سے خریدو جو اوپر بیان ہوئی۔

مسئلہ۔ اور اگر کوئی ایسی چیز ہے کہ چاندی کے علاوہ اس میں کچھ اور بھی لگا ہوا ہے مثلاً جو شن کے اندر لاکھ بھری ہوئی ہے اور نو رنگوں پر رنگ جڑے ہیں انگوٹھیوں پر نگینے رکھے ہیں یا جوشنوں میں لاکھ تو نہیں ہے لیکن تاگوں میں گندھے ہوئے ہیں۔ ان چیزوں کو روپوں سے خریدا تو دیکھو اس چیز میں کتنی چاندی ہے وزن میں اتنے ہی روپوں کے برابر ہے جتنے کو تم نے خریدا ہے۔ یا اس سے کم ہے یا اس سے زیادہ اگر روپوں کی چاندی سے اس چیز کی چاندی یقیناً کم ہو تو یہ معاملہ جائز ہے اور اگر برابر یا زیادہ ہو تو سود ہو گیا اور اس سے بچنے کی وہی ترکیب ہے جو اوپر بیان ہوئی کہ دام کی چاندی اس زیور کی چاندی سے کم رکھو اور باقی پیسے شامل کر دو اور اسی وقت لین دین کا ہو جانا ان سب مسئلوں میں بھی شرط ہے۔

مسئلہ۔ اپنی انگوٹھی سے کسی کی انگوٹھی بدل لی تو دیکھو اگر دونوں پر نگ لگا ہو تب تو بہرحال یہ بدل لینا جائز ہے چاہے دونوں کی چاندی برابر ہو یا کم زیادہ سب درست ہے البتہ ہاتھ در ہاتھ ہونا ضروری ہے اور اگر دونوں سادی یعنی بے رنگ کی ہوں تو برابر ہونا شرط ہے اگر ذرا بھی کمی بیشی ہو گئی تو سود ہو جائے گا اگر ایک پر رنگ ہے اور دوسری سادی تو اگر سادی میں زیادہ چاندی ہو تو یہ بدلنا جائز ہے ورنہ حرام اور سود ہے۔ اسی طرح اگر اسی وقت دونوں طرف سے لین دین نہ ہو ایک نے تو ابھی دے دی دوسری نے کہا بہن میں ذرا دیر میں دے دوں گی تو یہاں بھی سود ہو گیا۔

مسئلہ۔ جن مسئلوں میں اسی وقت لین دین ہونا شرط ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ دونوں کے جدا اور علیحدہ ہونے سے پہلے ہی پہلے لین دین ہو جائے اگر ایک آدمی دوسرے سے الگ ہو گیا اس کے بعد لین دین ہوا تو اس کا اعتبار نہیں یہ بھی سود میں داخل ہے مثلاً تم نے دس روپے کی چاندی یا سونا یا چاندی سونے کی کوئی چیز سنار سے خریدی تو تم کو چاہیے کہ روپے اسی وقت دے دو اور اس کو چاہیے کہ وہ چیز اس وقت دے دے۔ اگر سنار چاندی اپنے ساتھ نہیں لایا اور یوں کہا کہ میں گھر جا کر ابھی بھیج دوں گا تو یہ جائز نہیں بلکہ اس کو چاہیے کہ یہیں منگوا دے اور اس کے منگوانے تک لینے والا بھی وہاں سے نہ ہلے اور نہ اس کو اپنے سے الگ ہونے دے اگر اس نے کہا تم میرے ساتھ چلو میں گھر پہنچ کر دے دوں گا تو جہاں جہاں وہ جائے برابر اس کے ساتھ ساتھ رہنا چاہیے اگر وہ اندر چلا گیا یا اور کسی طرح الگ ہو گیا تو گناہ ہوا اور وہ بیع ناجائز ہو گئی اب پھر سے معاملہ کریں۔

مسئلہ۔ خریدنے کے بعد تم گھر میں روپیہ لینے آئیں یا وہ کہیں پیشاب وغیرہ کے لیے چلا گیا یا اپنی دوکان کے اندر ہی کسی کام کو گیا اور ایک دوسرے سے الگ ہو گیا تو یہ ناجائز اور سودی معاملہ ہو گیا۔

مسئلہ۔ اگر تمہارے پاس اس وقت روپیہ نہ ہو اور ادھار لینا چاہو تو اس کی تدبیر یہ ہے کہ جتنے دام تم کو دینا چاہئیں اتنے روپے اس سے قرض لے کر اس خریدی ہوئی چیز کے دام بیباق کر دو قرض کی ادائیگی تمہارے ذمہ رہ جائے گی اس کو جب چاہے دے دینا۔

 مسئلہ۔ ایک کا مدار دوپٹہ یا ٹوپی وغیرہ دس روپے کو خریدا تو دیکھو اس میں کے روپے بھر چاندی نکلے گی جے روپے چاندی اس میں ہو اتنے روپے اسی وقت پاس رہتے رہتے دے دینا واجب ہیں باقی روپے جب چاہو دو۔ یہی حکم جڑاؤ زیوروں وغیرہ کی خرید کا ہے مثلاً پانچ روپے کا زیور خریدا اور اس میں دو روپے بھر چاندی ہے تو دو روپے اسی وقت دے دو باقی جب چاہے دینا۔

مسئلہ۔ ایک روپیہ یا کئی روپے کے پیسے لیے یا پیسے دے کر روپیہ لیا تو اس کا حکم یہ ہے کہ دونوں طرف سے لین دین ہونا ضروری نہیں ہے بلکہ ایک طرف سے ہو جانا کافی ہے مثلاً تم نے روپیہ تو اسی وقت دے دیا لیکن اس نے پیسے ذرا دیر بعد دیئے یا اس نے پیسے اسی وقت دے دیئے تم نے روپیہ علیحدہ ہونے کے بعد دیا یہ درست ہے البتہ اگر پیسوں کے ساتھ کچھ ریزگاری بھی لی ہو تو ان کا لین دین دونوں طرف سے اسی وقت ہو جانا چاہیے کہ یہ روپیہ دے دے اور وہ ریزگاری دے دے لیکن یاد رکھو کہ پیسوں کا یہ حکم اسی وقت ہے جب دوکاندار کے پاس پیسے ہیں تو سہی لیکن کسی وجہ سے دے نہیں سکتا یا گھر پر تھے وہاں جا کر لا دے گا تب دے گا۔ اور اگر پیسے نہیں تھے یوں کہا جب سودا بکے اور پیسےآئیں تو لے لینا یا کچھ پیسے ابھی دے دیئے اور باقی سبت کہا جب بکری ہو اور پیسےآئیں تو لے لینا یہ درست نہیں اور چونکہ اکثر پیسوں کے موجود نہ ہونے ہی سے یہ ادھار ہوتا ہے۔ اس لیے مناسب یہی ہے کہ بالکل پیسے ادھار کے نہ چھوڑے۔ اور اگر کبھی ایسی ضرورت پڑے تو یوں کرو کہ جتنے یہ پیسے موجود ہیں وہ قرض لے لو اور روپیہ امانت رکھا دو جب سب پیسے دے اس وقت بیع کر لینا۔

مسئلہ۔ اگر اشرفی دے کر روپے لیے تو دونوں طرف سے لین دین سامنے رہتے رہتے ہو جانا واجب ہے۔

مسئلہ۔ چاندی سونے کی چیز روپے یا اشرفیوں سے خریدی اور شرط کر لی کہ ایک دن تک یا تین دن تک ہم کو لینے نہ لینے کا اختیار ہے تو یہ جائز نہیں ایسے معاملہ میں یہ اقرار نہ کرنا چاہیے۔

سودی لین دین کا بیان

سودی لین دین کا بڑا بھاری گناہ ہے۔ قرآن مجید اور حدیث شریف میں اس کی بڑی برائی اور اس سے بچنے کی بڑی تاکید آئی ہے۔ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود دینے والے اور لینے والے اور بیچ میں پڑ کے سود دلانے والے سودی دستاویز لکھنے والے گواہ شاہد وغیرہ سب پر لعنت فرمائی ہے اور فرمایا ہے کہ سود دینے والا اور لینے والا گناہ میں دونوں برابر ہیں اس لیے اس سے بہت بچنا چاہیے اس کے مسائل بہت نازک ہیں۔ ذرا ذرا سی بات میں سود کا گناہ ہو جاتا ہے اور انجان لوگوں کو پتہ بھی نہیں لگتا کہ کیا گناہ ہوا۔ ہم ضروری ضروری مسئلے یہاں بیان کرتے ہیں لین دین کے وقت ہمیشہ ان کا خیال رکھا کرو۔ مسئلہ۔ ہندو پاکستان کے رواج سے سب چیزیں چار قسم کی ہیں۔ ایک تو خود سونا چاندی یا ان کی بنی ہوئی چیز۔ دوسرے اس کے سوا اور وہ چیزیں جو تول کر بکتی ہیں جیسے اناج غلہ لوہا تانبہ روٹی ترکاری وغیرہ۔ تیسرے وہ چیزیں جو گز سے ناپ کر بکتی ہیں جیسے کپڑا چوتھے وہ جو گنتی کے حساب سے بکتی ہیں جیسے انڈے م امرود نارنگی بکری گائے گھوڑا وغیرہ۔ ان سب چیزوں کا حکم الگ الگ سمجھ لو۔

نوٹ بوقت تالیف بہشتی زیور روپیہ اور رپز گاری چاندی کے رائج تھے لہذا روپیہ وغیرہ سے چاندی وغیرہ خرید نے کے مسائل لکھے گئے تھے۔ اب چونکہ روپیہ اور ریزگاری دوسری دھات کے ہیں اس لیے موجودہ روپیہ سے اس کے وزن سے کم و بیش بھی خریدی جا سکتی ہے۔ ہاں ہاتھ در ہاتھ ہونا اب بھی شرط ہے اور ان مسائل کو اب بھی باقی اس لیے رکھا گیا ہے کہ اگر پھر کبھی روپیہ وغیرہ چاندی کا رائج ہو جائے تو مسائل معلوم رہیں۔ شبیر علی۔

نفع لے کر دام کے دام پر بیچنے کا بیان

مسئلہ۔ ایک چیز ہم نے ایک روپیہ کو خریدی تھی تو اب اپنی چیز کا ہم کو اختیار ہے چاہے ایک ہی روپیہ کو بیچ ڈالیں اور چاہے دس بیس روپے کو بیچیں اس میں کوئی گناہ نہیں۔ لیکن اگر معاملہ اس طرح طے ہوا۔ کہ اس نے کہا ایک آنہ روپیہ منافع لے کر ہمارے ہاتھ بیچ ڈالو۔ اس پر تم نے کہا اچھا ہم نے روپے پیچھے ایک آنہ نفع پر بیچا تو اب ایک آنہ روپیہ سے زیادہ نفع لینا جائز نہیں۔ یا یوں ٹھہرا کہ جتنے کو خریدا ہے اس پر چار آنہ نفع لے لو۔ اب بھی ٹھیک دام بتلا دینا واجب ہے اور چار نے سے زیادہ نفع لینا درست نہیں۔ اسی طرح اگر تم نے کہا کہ یہ چیز ہم تم کو خرید کے دام پر دیں گے کچھ نفع نہ لیں گے۔ تو اب کچھ نفع لینا درست نہیں۔ خرید ہی کے دام ٹھیک ٹھیک بتلا دینا واجب ہے۔

مسئلہ۔ کسی سودے کا یوں مول کیا کہ ایک روپیہ کے نفع پر بیچ ڈالو۔ اس نے کہا کہ اچھا میں نے اتنے ہی نفع پر بیچا۔ یا تم نے کہا کہ جتنے کو لیا ہے اتنے ہی دام پر بیچ ڈالو۔ اس نے کہا اچھا تم وہی دے دو نفع کچھ نہ دینا لیکن اس نے ابھی یہ نہیں بتلایا کہ یہ چیز کتنے کی خرید ہے تو دیکھو اگر اسی جگہ اٹھنے سے پہلے وہ اپنی خرید کے دام بتلا دے تو تب تو یہ بیع صحیح ہے۔ اور اگر اسی جگہ نہ بتلا دے بلکہ یوں کہے آپ لے جائیے حساب دیکھ کر بتلایا جائے گا یا اور کچھ کہا تو وہ بیع فاسد ہے۔

مسئلہ۔ لینے کے بعد اگر معلوم ہوا کہ اس نے چالاکی سے اپنی خرید غلط بتلائی ہے اور نفع وعدہ سے زیادہ لیا ہے تو خریدنے والے کو دام کم دینے کا اختیار نہیں ہے بلکہ اگر خریدنا نامنظور ہے تو وہی دام دینا پڑیں گے جتنے کو اس نے بیچا ہے۔ البتہ یہ اختیار ہے کہ اگر لینا منظور نہ ہو تو پھیر دے۔ اور اگر خرید کے دام پے بیچ دینے کا اقرار تھا اور یہ وعدہ تھا کہ ہم نفع نہ لیں گے پھر اس نے اپنی خرید غلط او ر زیادہ بتلائی تو جتنا زیادہ بتلایا ہے اس کے لینے کا حق نہیں ہے لینے والی کو اختیار ہے کہ فقط خرید کے دام دے اور جو زیادہ بتلایا ہے وہ نہ دے۔

مسئلہ۔ کوئی چیز تم نے ادھار خریدی تو اب جب تک دوسرے خریدنے والے کو یہ نہ بتلا دو کہ بھائی ہم نے یہ چیز ادھار لی ہے اس وقت تک اس کو نفع پر بیچنا یا خرید کے دام پر بیچنا ناجائز ہے بلکہ بتلا دے کہ یہ چیز میں نے ادھار خریدی تھی پھر اس طرح نفع لے کر یا دام کے دام پر بیچنا درست ہے البتہ اگر اپنی خرید کے داموں کا کچھ ذکر نہ کرے پھر چاہے جتنے دام پر بیچ دے تو درست ہے۔

مسئلہ۔ ایک کپڑا ایک روپیہ کا خریدا۔ پھر چار نے دے کر اس کو رنگوایا۔ یا اس کو دھلوایا۔ یا سلوایا تو اب ایسا سمجھیں گے کہ سوا روپے کو اس نے مول لیا۔ لہذا اب سوا روپیہ اس کی اصلی قیمت ظاہر کر کے نفع لینا درست ہے مگر یوں نہ کہے کہ سوا روپے کو میں نے لیا ہے بلکہ یوں کہے کہ سوا روپے میں یہ چیز مجھ کو پڑی ہے تاکہ جھوٹ نہ ہونے پائے۔

مسئلہ۔ ایک بکری چار روپے کو مول لی۔ پھر مہینہ بھر تک رہی اور ایک روپیہ اس کی خوراک میں لگ گیا تو اب پانچ روپے اس کی اصلی قیمت ظاہر کر کے نفع لینا درست ہے۔ البتہ اگر وہ دودھ دیتی ہو تو جتنا دودھ دیا ہے اتنا گھٹا دینا پڑے گا۔ مثلاً اگر مہینہ بھر میں آٹھ آنے کا دودھ دیا ہے تو اب اصل قیمت ساڑھے چار روپے ظاہر کرے اور یوں کہے کہ ساڑھے چار مجھ کو پڑی۔ اور چونکہ عورتوں کو اس قسم کی ضرورت زیادہ نہیں پڑتی اس لیے ہم اور مسائل نہیں بیان کرتے۔

بیع باطل اور فاسد وغیرہ کا بیان

مسئلہ۔ جو بیع شرع میں بالکل ہی غیر معتبر اور لغو ہو اور ایسا سمجھیں کہ اس نے بالکل خریدا ہی نہیں۔ اور اس نے بیچا ہی نہیں اس کو باطل کہتے ہیں اس کا حکم یہ ہے کہ خرید نے والا اس کا مالک نہیں ہوا۔ وہ چیز اب تک اسی بیچنے والے کی ملک میں ہے اس لیے خرید نے والی کو نہ تو اس کا کھانا جائز نہ کسی کو دینا جائز۔ کسی طرح سے اپنے کام میں لانا درست نہیں۔ اور جو بیع ہو تو گئی ہو لیکن اس میں کچھ خرابی گئی ہے اس کو بیع فاسد کہتے ہیں۔ اس کا حکم یہ ہے کہ جب تک خریدنے والی کے قبضہ میں نہ آئے تب تک وہ خریدی ہوئی چیز اس کی ملک میں نہیں تی۔ اور جب قبضہ کر لیا تو ملک میں تو گئی لیکن حلال طیب نہیں ہے۔ اس لیے اس کو کھانا پینا یا کسی اور طرح سے اپنے کام میں لانا درست نہیں۔ بلکہ ایسی بیع کا توڑ دینا واجب ہے۔ لینا ہو تو پھر سے بیع کریں اور مول لیں۔ اگر یہ بیع نہیں توڑی بلکہ کسی اور کے ہاتھ وہ چیز بیچ ڈالی تو گناہ ہوا اور اس دوسری خریدنے والی کے لیے اس کا کھانا پینا اور استعمال کرنا جائز ہے اور یہ دوسری بیع درست ہو گئی۔ اگر نفع لے کر بیچا ہو تو نفع کا خیرات کر دینا واجب ہے اپنے کام میں لانا درست نہیں۔ مسئلہ۔ زمینداروں کے یہاں یہ جو دستور ہے کہ تالاب کی مچھلیاں بیچ دیتے ہیں یہ بیع باطل ہے۔ تالاب کے اندر جتنی مچھلیاں ہوتی ہیں جب تک شکار کر کے پکڑی نہ جائیں تب تک ان کا کوئی مالک نہیں ہے شکار کر کے جو کوئی پکڑے وہی ان کا مالک بن جاتا ہے۔ جب یہ بات سمجھ میں گئی تو اب سجھو کہ جب یہ زمیندار ان کا مالک ہی نہیں تو بیچنا کیسے درست ہو گا۔ ہاں اگر زمیندار خود مچھلیاں پکڑ کر بیچا کریں تو البتہ درست ہے۔ اگر کسی اور سے پکڑوا دیں گے تو وہی مالک بن جائے گا۔ زمیندار کا اس پکڑی ہوئی مچھلی میں کچھ حق نہیں ہے۔ اسی طرح مچھلیوں کے پکڑنے سے لوگوں کو منع کرنا بھی درست نہیں ہے۔ مسئلہ۔

کسی کی زمین میں خود بخود گھاس اگی نہ اس نے لگایا نہ اس کو پانی دے کر سینچا تو یہ گھاس بھی کسی کی ملک نہیں ہے جس کا جی چاہے کاٹ لے جائے نہ اس کا بیچنا درست ہے اور نہ کاٹنے سے کسی کو منع کرنا درست ہے البتہ اگر پانی دے کر سینچا اور خدمت کی ہو تو اس کی ملک ہو جائے گی۔ اب بیچنا بھی جائز ہے اور لوگوں کو منع کرنا بھی درست ہے۔ مسئلہ۔ جانور کے پیٹ میں جو بچہ ہے پیدا ہونے سے پہلے اس بچہ کو بیچنا باطل ہے۔ اور اگر پورا جانور بیچ دیا تو درست ہے۔ لیکن اگر یوں کہہ دیا کہ میں یہ بکری تو بیچتی ہوں لیکن اس کے پیٹ کا بچہ نہیں بیچتی ہوں جب پیدا ہو تو وہ میرا ہے تو یہ بیع فاسد ہے۔ مسئلہ۔ جانور کے تھن میں جو دودھ بھرا ہوا ہے دوہنے کے پہلے اس کا بیچنا باطل ہے پہلے دوہ لے تب بیچے۔ اسی طرح بھیڑ دنبہ وغیرہ کے بال جب تک کاٹ نہ لے تب تک بالوں کا بیچنا جائز اور باطل ہے۔ مسئلہ۔ جو دہنی یا لکڑی مکان میں یا چھت میں لگی ہوئی ہے کھودنے یا نکالنے سے پہلے اس کا بیچنا درست نہیں ہے۔ مسئلہ۔ آدمی کے ہاں اور ہڈی وغیرہ کسی چیز کا بیچنا جائز اور باطل ہے اور ان چیزوں کا اپنے کام میں لانا اور برتنا بھی درست نہیں ہے۔ مسئلہ۔ بجز خنزیر کے دوسرے مردار کی ہڈی اور بال اور سینگ پاک ہیں ان سے کام لینا بھی جائز ہے اور بیچنا بھی جائز ہے۔ مسئلہ۔ تم نے ایک بکری یا اور کوئی چیز کسی سے پانچ روپے کو مول لی اور اس بکری پر قبضہ کر لیا اور اپنے گھر منگا کر بندھوا لی لیکن ابھی دام نہیں دیئے پھر اتفاق سے اس کے دام نہ دے سکی یا اب اس کا رکھنا منظور نہ ہوا اس لیے تم نے کہا کہ یہ بکری چار روپے میں لے جاؤ ایک روپیہ ہم تم کو اور دیں گے۔ یہ بیچنا اور لینا جائز نہیں جب تک اس کو روپے نہ دے چکے اس وقت تک کم داموں پر اس کے ہاتھ بیچنا درست نہیں ہے۔ مسئلہ۔ کسی نے اس شرط پر اپنا مکان بیچا کہ ایک مہینے تک ہم نہ دیں گے بلکہ خود اس میں رہیں گے۔

یا یہ شرط ٹھہرائی کہ اتنے روپے تم ہم کو قرض دے دو۔ یا کپڑا اس شرط پر خریدا کہ تم ہی قطع کر کے سی دینا۔ یا یہ شرط کی کہ ہمارے گھر تک پہنچا دینا۔ اور کوئی ایسی شرط مقر رکی جو شریعت سے واہیات اور ناجائز ہے تو یہ سب بیع فاسد ہے۔ مسئلہ۔ یہ شرط کر کے ایک گائے خریدی کہ یہ چار سیر دودھ دیتی ہے تو بیع فاسد ہے البتہ اگر کچھ مقدار نہیں مقرر کی فقط یہ شرط کی کہ یہ گائے بہت دودہیاری ہے تو بیع جائز ہے۔ مسئلہ۔ مٹی یا چینی کے کھلونے یعنی تصویریں بچوں کے لیے خریدے تو یہ بیع باطل ہے شرع میں ان کھلونوں کی کچھ قیمت نہیں لہذا اس کے کچھ دام نہ دلائے جائیں گے اگر کوئی توڑ دے تو کچھ تاوان بھی دینا نہ پڑے گا۔ مسئلہ۔ کچھ اناج گھی تیل وغیرہ روپے کے دس سیر یا اور کچھ نرخ طے کر کے خریدا تو دیکھو کہ اس بیع ہونے کے بعد اس نے تمہارے یا تمہارے بھیجے ہوئے آدمی کے سامنے تول کر دیا ہے یا تمہارے اور تمہارے بھیجے ہوئے آدمی کے سامنے نہیں تولا بلکہ کہا تم جاؤ ہم تول کر گھر بھیجے دیتے ہیں یا پہلے سے الگ تولا ہوا رکھا تھا اس نے اسی طرح اٹھا دیا پھر نہیں تولا۔ یہ تین صورتیں ہوئیں۔ پہلی صورت کا حکم یہ ہے کہ گھر میں لا کر اب اس کا تولنا ضروری نہیں ہے بغیر تولے بھی اس کا کھانا پینا بیچنا وغیرہ سب صحیح ہے۔ اور دوسری اور تیسری صورت کا حکم یہ ہے کہ جب تک خود نہ تول لے تب تک اس کا کھانا پینا بیچنا وغیرہ کچھ درست نہیں۔ اگر بے تولے بیچ دیا تو یہ بیع فاسد ہو گئی پھر اگر تول بھی لے تب بھی یہ بیع درست نہیں ہوئی۔

مسئلہ۔ بیچنے سے پہلے اس نے تول کر تم کو دکھایا اس کے بعد تم نے خرید لیا اور پھر دوبارہ اس نے نہیں تولا تو اس صورت میں بھی خریدنے والی کو پھر تولنا ضروری ہے بغیر تولے کھانا اور بیچنادرست نہیں۔ اور بیچنے سے پہلے اگرچہ اس نے تول کر دکھا دیا ہے لیکن اس کا کچھ اعتبار نہیں۔ مسئلہ۔ زمین اور گاؤں اور مکان وغیرہ کے علاوہ اور جتنی چیزیں ہیں ان کے خریدنے کے بعد جب تک قبضہ نہ کر لے تب تک بیچنا درست نہیں۔ مسئلہ۔ ایک بکری یا اور کوئی چیز خریدی کچھ دن بعد ایک اور شخص یا اور کہا کہ یہ بکری تو میری ہے کسی نے یونہی پکڑ کر بیچ لی اس کی نہیں تھی تو اگر وہ اپنا دعوی قاضی مسلم کے یہاں دو گواہوں سے ثابت کر دے تو قضائے قاضی کے بعد بکری اسی کو دے دینا پڑے گی اور بکری کے دام سے کچھ نہیں لے سکتے بلکہ جب وہ بیچنے والا ملے تو اس سے اپنے دام وصول کرو اس آدمی سے کچھ نہیں لے سکتے۔ مسئلہ۔ کوئی مرغی یا بکری گائے وغیرہ مر گئی تو اس کی بیع حرام اور باطل ہے۔ بلکہ اس مری چیز کو بھنگی یا چمار کو کھانے کے لیے دینا بھی جائز نہیں۔ البتہ چمار بھنگیوں سے پھینکنے کے لیے اٹھوا دیا پھر انھوں نے کھا لیا تو تم پر کچھ الزام نہیں اور اس کی کھال نکلوا کر درست کر لینے اور بنا لینے کے بعد بیچنا اور اپنے کام میں لانا درست ہے جیسا کہ پہلے حصہ میں صفحہ پر ہم نے بیان کیا ہے وہاں دیکھ لو۔

مسئلہ۔ جب ایک نے مول تول کر کے ایک دام ٹھہرائے اور وہ بیچنے والا اتنے داموں پر رضا مند بھی ہو تو اس وقت کسی دوسرے کو دام بڑھا کر خود لے لینا جائز نہیں۔ اسی طرح یوں کہنا بھی درست نہیں کہ تم اس سے نہ لو ایسی چیز میں تم کو اس سے کم داموں پر دے دوں گی۔

مسئلہ۔ ایک کنجڑن نے تم کو پیسہ کے چار امرود دیئے پھر کسی نے زیادہ تکرار کر کے پیسہ کے پانچ لیے تو اب تم کو اس سے ایک امرود لینے کا حق نہیں زبردستی کر کے لینا ظلم اور حرام ہے جس سے جو کچھ طے ہو بس اتنا ہی لینے کا اختیار ہے۔

مسئلہ۔ کوئی شخص کچھ بیچتا ہے لیکن تمہارے ہاتھ بیچنے پر راضی نہیں ہوتا تو اس سے زبردستی لے کر دام دے دینا جائز نہیں کیونکہ وہ اپنی چیز کا مالک ہے چاہے بیچے یا نہ بیچے اور جس کے ہاتھ چاہے بیچے۔ پولیس والے اکثر زبردستی سے لے لیتے ہیں یہ بالکل حرام ہے۔ اگر کسی کا میاں پولیس میں نوکر ہو تو ایسے موقع پر میاں سے تحقیق کر لیا کرے یوں ہی نہ برت لے۔

مسئلہ۔ ٹکے کے سیر بھر لو لیے اس کے بعد تین چار لو زبردستی اور لے لیے یہ درست نہیں البتہ اگر وہ خود اپنی خوشی سے کچھ اور دے دے تو اس کا لینا جائز ہے۔ اسی طرح جو دام طے کر لیے ہیں چیز لے لینے کے بعد اب اس سے کم دام دینا درست نہیں البتہ اگر وہ اپنی خوشی سے کچھ کم کر دے تو کم دے سکتی ہے۔

مسئلہ۔ جس کے گھر میں شہد کا چھتہ لگا ہے وہی مالک ہے کسی غیر کو اس کا توڑنا اور لینا درست نہیں۔ اور اگر اس کے گھر میں کسی پرندے نے بچے دیئے تو وہ گھر والے کی ملک نہیں بلکہ جو پکڑے اسی کے ہیں لیکن بچوں کو پکڑنا اور ستانا درست نہیں ہے۔

سودے میں عیب نکل آنے کا بیان

مسئلہ۔ جب کوئی چیز بیچے تو واجب ہے جو کچھ اس میں عیب و خرابی ہو سب بتلا دے نہ بتلانا اور دھوکہ دے کر بیچ ڈالنا حرام ہے۔ مسئلہ۔ جب خرید چکی تو دیکھا اس میں کوئی عیب ہے جیسے تھان کو چوہوں نے کتر ڈالا ہے یا دوشالے میں کیڑا لگ گیا ہے یا اور کوئی عیب نکل آیا تو اب اس خریدنے والی کو اختیار ہے چاہے رکھ لے اور لے لیوے چاہے پھیر دے لیکن اگر رکھ لے تو پورے دام دینا پڑیں گے اس عیب کے عوض میں کچھ دام کاٹ لینا درست نہیں البتہ اگر دام کی کمی پردہ بیچنے والا بھی راضی ہو جائے تو کم کر کے دینا درست ہے۔ مسئلہ۔ کسی نے کوئی تھان خرید کر رکھا تھا کہ کسی لڑکے نے اس کا ایک کونا پھاڑ ڈالا یا قینچی سے کتر ڈالا۔ اس کے بعد دیکھا کہ وہ اندر سے خراب ہے جا بجا چوہے کتر گئے ہیں تو اب اس کو نہیں پھیر سکتی کیونکہ ایک اور عیب تو اس کے گھر ہو گیا ہے البتہ اس عیب کے بدلے میں جو کہ بیچنے والی کے گھر کا ہے دام کم کر دیئے جائیں۔ لوگوں کو دکھایا جائے جو وہ تجویز کریں اتنا کم کر دو۔ مسئلہ۔ اسی طرح اگر کپڑا قطع کیا ہوا دے دو اور اپنے سب دام لے لو میں دام کم نہیں کرتی تو اس کو یہ اختیار حاصل ہے خریدنے والی انکار نہیں کر سکتی۔ اگر قطع کر کے سی بھی لیا تھا پھر عیب معلوم ہوا تو عیب کے بدلے دام کم کر دیئے جائیں گے اور بیچنے والی اس صورت میں اپنا کپڑا نہیں لے سکتی۔ اور اگر اس خریدنے والی نے وہ کپڑا بیچ ڈالا یا اپنے نابالغ بچہ کے پہنانے کی نیت سے قطع کر ڈالا بشرطیکہ بالکل اس کے دے ڈالنے کی نیت کی ہو اور پھر اس میں عیب نکلا تو اب دام کم نہیں کیے جائیں گے۔ اور اگر بالغ اولاد کی نیت سے قطع کیا تھا اور پھر عیب نکلا تو اب دام کم کر دیئے جائیں گے۔ مسئلہ۔ کسی نے فی انڈا ایک پیسہ کے حساب سے کچھ انڈے خریدے جب توڑے تو سب گندے نکلے بعضے اچھے تو گندوں کے دام پھیر سکتی ہے۔

اور اگر سی نے بیس پچیس انڈوں کے یکمشت دام لگا کر خرید لیے کہ یہ سب انڈے پانچ آنے کو میں نے لیے تو دیکھو کتنے خراب نکلے اگر سو میں پانچ چھ خراب نکلے تو اس کا کچھ اعتبار نہیں اور اگر زیادہ خراب نکلے تو خراب کے دام حساب سے پھر لیے۔ مسئلہ۔ کھیرا ککڑی خربوزہ تربوز لوکی بادام اخروٹ وغیرہ کچھ خریدا۔ جب توڑے اندر سے بالکل خراب نکلے تو دیکھو کہ کام میں آ سکتے ہیں یا بالکل نکمے اور پھینک دینے کے قابل ہیں۔ اگر بالکل خراب اور نکمے ہوں تب تو یہ بیع بالکل صحیح نہیں ہوئی اپنے سب دام پھیر لے اور اگر کسی کام میں آ سکتے ہوں تو جتنے دام بازار میں لگیں اتنے دیئے جائیں پوری قیمت نہ دی جائے گی۔ مسئلہ۔ اگر سو بادام میں چار پانچ ہی خراب نکلے تو کچھ اعتبار نہیں۔ اور اگر زیادہ خراب نکلے تو جتنے خراب ہیں ان کے دام کاٹ لینے کا اختیار ہے۔ مسئلہ۔ ایک روپیہ کے پندرہ سیر گیہوں خریدے یا ایک روپیہ کا ڈیڑھ سیر گھی لیا۔ اس میں سے کچھ تو اچھا نکلا اور کچھ خراب نکلا تو یہ درست نہیں ہے کہ اچھا اچھا لوں ے اور خراب خراب پھیر دیوے اور خراب خراب پھیر دے بلکہ اگر لیوے تو سب لینا پڑے گا اور پھیرے تو سب پھیرے ہاں البتہ اگر بیچنے والی خود راضی ہو جائے کہ اچھا اچھا لے اور جتنا خراب ہے وہ پھیر دو تو ایسا کرنا درست ہے بے اس کی مرضی کے نہیں کر سکتی۔ مسئلہ۔ عیب نکلنے کے وقت پھیر دینے کا اختیار اس وقت ہے جبکہ عیب دار چیز کے لیے پر کسی طرح رضا مندی ثابت نہ ہوتی ہو اور اگر اسی کے لیے پر راضی ہو جائے تو اب اس کا پھیرنا جائز نہیں البتہ بیچنے والی خوشی سے پھیر لے تو پھیرنا درست ہے جیسے کسی نے ایک بکری یا گائے وغیرہ کوئی چیز خریدی جب گھر آئی تو معلوم ہوا کہ یہ بیمار ہے یا اس کے بدن میں کہیں زخم ہے پس اگر دیکھنے کے بعد اپنی رضا مندی ظاہر کرے کہ خیر ہم نے عیب دار ہی لے لی تو اب پھیرنے کا اختیار نہیں رہا۔

اور اگر زبان سے نہیں کہا لیکن ایسے کام کیے جس سے رضا مندی معلوم ہوتی ہے جیسے اس کی دوا علاج کرنے لگی تب بھی پھیرنے کا اختیار نہیں رہا۔ مسئلہ۔ بکری کا گوشت خریدا پھر معلوم ہوا کہ بھیڑ کا گوشت ہے تو پھیر سکتی ہے۔ مسئلہ۔ موتیوں کا ہار یا اور کوئی زیور خریدا اور کسی وقت اس کو پہن لیا یا جوتہ خریدا اور پہنے پہنے چلنے پھرنے لگی تو اب عیب کی وجہ سے پھیرنے کا اختیار نہیں رہا۔ ہاں اگر اس وجہ سے پہنا ہو کہ پاؤں میں دیکھوں آتا ہے یا نہیں اور پیر کو چلنے میں کچھ تکلیف تو نہیں ہوتی تو اس آزمائش کے لیے ذرا دیر کے پہننے سے کچھ حرج نہیں اب بھی پھیر سکتی ہے۔ اسی طرح اگر کوئی چار پائی یا تخت خریدا اور کسی ضرورت سے اس کو بچھا کر بیٹھی یا تخت پر نماز پڑھی اور استعمال کرنے لگی تو اب پھیرنے کا اختیار نہیں رہا۔ اسی طرح اور سب چیزوں کو سمجھ لو۔ اگر اس سے کام لینے لگے تو پھیرنے کا اختیار نہیں رہتا۔ مسئلہ۔ بیچتے وقت اس نے کہہ دیا کہ خوب دیکھ بھال لو اگر اس میں کچھ عیب نکلے یا خراب ہو تو میں ذمہ دار نہیں۔ اس کہنے پر بھی اس نے لے لیا تو اب چاہے جتنے عیب اس میں نکلیں پھیرنے کا اختیار نہیں ہے اور اس طرح بیچنا بھی درست ہے۔ اس کہہ دینے کے بعد عیب کا بتلانا واجب نہیں ہے

بے دیکھی ہوئی چیز کے خریدنے کا بیان

مسئلہ۔ کسی نے کوئی چیز بے دیکھے ہوئے خرید لی تو یہ بیع درست ہے۔ لیکن جب دیکھے تو اس کو اختیار ہے پسند ہو تو رکھے نہیں تو پھیر دے اگرچہ اس میں کوئی عیب بھی نہ ہو۔ اور جیسی ٹھہرائی تھی ویسی ہی ہو تب بھی رکھنے نہ رکھنے کا اختیار ہے۔ مسئلہ۔ کسی نے بے دیکھے اپنی چیز بیچ ڈالی تو اس بیچنے والی کو دیکھنے کے بعد پھیر لینے کا اختیار نہیں ہے دیکھنے کے بعد اختیار فقط لنیے والی کو ہوتا ہے۔ مسئلہ۔ کوئی کنجڑن مٹر کی پھلیاں بیچنے کو لائی اس میں اوپر تو اچھی اچھی تھیں ان کو دیکھ کر پورا ٹوکرا لے لیا لیکن نیچے خراب نکلیں تو اب بھی اس کو پھیر دینے کا اختیار ہے البتہ اگر سب پھلیاں یکساں ہوں تو تھوڑی سی پھلیاں دیکھ لینا کافی ہے چاہے سب پھلیاں دیکھے چاہے نہ دیکھے پھیرنے کا اختیار نہ رہے گا۔ مسئلہ۔ امرود یا انار یا نارنگی وغیرہ کوئی ایسی چیز خریدی کہ سب یکساں نہیں ہوا کرتیں تو جب تک سب نہ دیکھے تب تک اختیار رہتا ہے تھوڑے کے دیکھ لینے سے اختیار نہیں جاتا۔ مسئلہ۔ اگر کوئی چیز کھانے پینے کی خریدی تو اس میں فقط دیکھ لینے سے اختیار نہیں جائے گا بلکہ چکھنا بھی چاہیے اگر چکھنے کے بعد ناپسند ٹھہرے تو پھیر دینے کا اختیار ہے۔ مسئلہ۔ بہت زمانہ ہو گیا کہ کوئی چیز دیکھی تھی اب آج اس کو خرید لیا لیکن ابھی دیکھا نہیں۔ پھر جب گھر لا کر دیکھا تو جیسی دیکھی تھی بالکل ویسی ہی اس کو پایا تو اب دیکھنے کے بعد پھیر دینے کا اختیار نہیں ہے۔ ہاں اگر اتنے دنوں میں کچھ فرق ہو گیا ہو تو دیکھنے کے بعد اس کے لینے نہ لینے کا اختیار ہو گا۔

پھیر دینے کی شرط کر لینے کا بیان اور اس کو شرع میں خیار شرط کہتے ہیں

مسئلہ۔ خریدتے وقت یوں کہہ دیا کہ ایک دن یا دو دن یا تین دن تک ہم کو لینے نہ لینے کا اختیار ہے جی چاہے گا لے لیں گے نہیں تو پھرد دیں گے تو یہ درست ہے۔ جتنے دن کا اقرار کیا ہے اتنے دن تک پھیر دینے کا اختیار ہے چاہے لیوے چاہے پھیر دے۔ مسئلہ۔ کسی نے کہا کہ تین دن تک مجھ کو لینے نہ لینے کا اختیار ہے پھر تین دن گزر گئے اور اس نے کچھ نہیں جواب دیا نہ وہ چیز پھیری تو اب وہ چیزی لینی پڑے گی پھیرنے کا اختیار نہیں رہا۔ ہاں اگر وہ رعایت کر کے پھیر لے تو خیر پھر دے۔ بے رضا مندی کے نہیں پھیر سکتی۔ مسئلہ۔ تین دن سے زیادہ کی شرط کرنا درست نہیں ہے اگر کسی نے چار یا پانچ دن کی شرط کی تو دیکھو تین دن کے اندر اس نے کچھ جواب دیا یا نہیں۔ اگر تین دن کے اندر اس نے پھیر دیا تو بیع پھر گئی اور اگر کہہ دیا کہ میں نے لے لیا تو بیع درست ہو گئی اور اگر تین دن گزر گئے اور کچھ حال معلوم نہ ہوا کہ لے لیوے گی یا نہ لے گی تو بیع فاسد ہو گئی۔ مسئلہ۔ اسی طرح بیچنے والی بھی کہہ سکتی ہے کہ تین دن تک مجھ کو اختیار ہے اگر چاہوں گی تو تین دن کے اندر پھیر لوں گی تو یہ بھی جائز ہے۔ مسئلہ۔ خریدتے وقت کہہ دیا تھا کہ تین دن تک مجھے پھیر دینے کا اختیار ہے پھر دوسرے دن آئی اور کہہ دیا کہ میں نے وہ چیز لے لی اب نہ پھیروں گی تو اب وہ اختیار جاتا رہا اب نہیں پھیر سکتی بلکہ اگر اپنے گھر میں آ کر کہہ دیا کہ میں نے یہ چیز لے لی اب نہ پھیروں گی تب بھی وہ اختیار جاتا رہا۔ اور جب بیع کا توڑنا اور پھیرنا منظور ہو تو بیچنے والے کے سامنے توڑنا چاہیے اس کی پیٹھ پیچھے توڑنا درست نہیں ہے۔ مسئلہ۔ کسی نے کہا تین دن تک میری ماں کو اختیار ہے اگر کہے گی تو لے لوں گی نہیں تو پھیر دوں گی تو یہ بھی درست ہے اب تین دن کے اندر وہ یا اس کی ماں پھیر سکتی ہیں۔

اور اگر خود وہ یا اس کی ماں کہہ دے کہ میں نے لے لی اب نہ پھیروں گی تو اب پھیرنے کا اختیار نہیں رہا۔ مسئلہ۔ دو یا تین تھان لیے اور کہا کہ تین دن تک ہم کو اختیار ہے کہ اس میں سے جو پسند ہو گا ایک تھان دس روپے کو لے لیں گے تو یہ درست ہے تین دن کے اندر اس میں سے ایک تھان پسند کر لے اور چار یا پانچ تھان اگر لیے اور کہا کہ اس میں سے ایک پسند کر لیں گے تو یہ بیع فاسد ہے۔ مسئلہ۔ کسی نے تین دن تک پھیر دینے کی شرط ٹھیرالی تھی پھر وہ چیز اپنے گھر برتنا شروع کر دی جیسے اوڑھنے کی چیز تھی تو اوڑھنے لگی یا پہننے کی چیز تھی اس کو پہن لیا یا بچھانے کی چیز تھی اس کو بچھانے لگی تو اب پھیر دینے کا اختیار نہیں رہا۔ مسئلہ۔ ہاں اگر استعمال صرف دیکھنے کے واسطے ہوا ہے تو پھیر دینے کا حق ہے مثلاً سلا ہوا کرتا یا چادر یا دری خریدی تو یہ دیکھنے کے لیے کہ یہ کرتہ ٹھیک بھی تا ہے یا نہیں ایک مرتبہ پہن کر دیکھا اور فورا اتار دیا۔ یا چادر کی لمبائی چوڑائی اوڑھ کر دیکھی یا دری کی لمبائی چوڑائی بچھا کر دیکھی تو بھر پھیر دینے کا حق حاصل ہے۔