سوگ کرنے کا بیان

مسئلہ1۔ جس عورت کو طلاق رجعی ملی ہے اس کے عدت تو فقط یہی ہے کہ اتنی مدت تک گھر سے باہر نہ نکلے نہ کسی اور مرد سے نکاح کرے۔ اس کو بناؤ سنگار وغیرہ درست ہے اور جس کو تین طلاقیں مل گئیں یا ایک طلاق بائن ملی یا اور کسی طرح سے نکاح ٹوٹ گیا یا مرد مر گیا۔ ان سب صورتوں کا حکم یہ ہے کہ جب تک عدت میں رہے تب تک نہ تو گھر سے باہر نکلے نہ اپنا دوسرا نکاح کرے نہ کچھ بناؤ سنگار کرے یہ سب باتیں اس پر حرام ہیں۔ اس سنگار نہ کرنے اور میلے کچیلے رہنے کو سوگ کہتے ہیں۔

مسئلہ2۔ جب تک عدت ختم نہ ہو تب تک خوشبو لگانا کپڑے بسانا زیور گہنا پہننا پھول پہننا سرمہ لگانا پان کھا کر منہ لال کرنا مسی ملنا سر میں تیل ڈالنا کنگھی کرنا مہندی لگانا اچھے کپڑے پہننا ریشمی اور رنگے ہوئے بہار دار کپڑے پہننا یہ سب باتیں حرام ہیں۔ البتہ اگر بہار دار نہ ہوں تو درست ہے چاہے جیسا رنگ ہو مطلب یہ ہے کہ زینت کا کپڑا نہ ہو۔

مسئلہ3۔ سر میں درد ہونے کی وجہ سے تیل ڈالنے کی ضرورت پڑے تو جس میں خوشبو نہ ہو وہ تیل ڈالنا درست ہے۔ اسی طرح دوا کے لیے سرمہ لگانا بھی ضرورت کے وقت درست ہے لیکن رات کو لگائے اور دن کو پونچھ ڈالے۔ اور سر ملنا اور نہانا بھی درست ہے۔ ضرورت کے وقت کنگھی کرنا بھی درست ہے جیسے کسی نے سر ملایا جوں پڑ گئی۔ لیکن پٹی نہ جھکائے نہ باریک کنگھی سے کنگھی کرے جس میں بال چکنے ہو جاتے ہیں بلکہ موٹے دندانے والی کنگھی کرے کہ خوبصورتی نہ آنے پائے۔

مسئلہ4۔ سوگ کرنا اسی عورت پر واجب ہے جو بالغ ہو۔ نابالغ لڑکی پر واجب نہیں۔ اس کو یہ سب باتیں درست ہیں۔ البتہ گھر سے نکلنا اور دوسرا نکاح کرنا اس کو بھی درست نہیں۔

مسئلہ5۔ جس کا نکاح صحیح نہیں ہوا تھا بے قاعدہ ہو گیا تھا وہ توڑ دیا گیا یا مرد مر گیا تو ایسی عورت پر بھی سوگ کرنا واجب نہیں

مسئلہ6۔ شوہر کے علاوہ کسی اور کے مرنے پر سوگ کرنا درست نہیں۔ البتہ اگر شوہر منع نہ کرے تو اپنے عزیز اور رشتہ دار کے مرنے پر بھ تین دن تک بناؤ سنگار چھوڑ دینا درست ہے۔ اس سے زیادہ بالکل حرام ہے اور اگر منع کرے تو تین دن بھی نہ چھوڑے۔

میاں کے لاپتہ ہو جانے کا بیان

جس کا شوہر بالکل لاپتہ ہو گیا معلوم نہیں مر گیا یا زندہ ہے تو وہ عورت اپنا دوسرا نکاح نہیں کر سکتی بلکہ انتظار کرتی ہے کہ شاید آ جائے۔ جب انتظار کرتے کرتے اتنی مدت گزر جائے کہ شوہر کی عمر نوے برس کی ہو جائے تو اب حکم لگا دیں گے کہ وہ مر گیا ہو گا۔ سو اگر وہ عورت ابھی جوان ہو اور نکاح کرنا چاہے تو شوہر کی عمر نوے برس کی ہونے کے بعد عدت پوری کر کے نکاح کر سکتی ہے مگر شرط یہ ہے کہ اس لاپتہ مرد کے مرنے کا حکم کسی شرعی حاکم نے لگایا ہو۔

مزید احکام ان صفحات پر دیکھیں

مفقود الخبر شوہر کا حکم

لاپتہ شوہر کا حکم

خلع کا بیان

مسئلہ1۔ اگر میاں بی بی میں کسی طرح نباہ نہ ہو سکے اور مرد طلاق بھی نہ دیتا ہو تو عورت کو جائز ہے کہ کچھ مال دے کر یا اپنا مہر دے کر اپنے مرد سے کہے کہ اتنا روپیہ لے کر میری جان چھوڑ دے۔ یا یوں کہے جو میرا مہر تیرے ذمہ ہے اس کے عوض میں میری جان چھوڑ دے۔ اس کے جواب میں مرد کہے میں نے چھوڑ دی تو اس سے عورت پر ایک طلاق بائن پڑ گئی۔ روک رکھنے کا اختیار مرد کو نہیں ہے البتہ اگر مرد نے اسی جگہ بیٹھے بیٹھے جواب نہیں دیا بلکہ اٹھ کھڑا ہوا یا مرد تو نہیں اٹھا عورت اٹھ کھڑی ہوئی تب مرد نے کہا اچھا میں نے چھوڑ دی تو اس سے کچھ نہیں ہوا۔ جواب سوال دونوں ایک ہی جگہ ہونے چاہیں۔ اس طرح جان چھڑانے کو شرع میں خلع کہتے ہیں۔

مسئلہ2۔ مرد نے کہا میں نے تجھ سے خلع کیا۔ عورت نے کہا میں نے قبول کیا تو خلع ہو گیا۔ البتہ اگر عورت نے اسی جگہ جواب نہ دیا ہو وہاں سے کھڑی ہو گئی ہو یا عورت نے قبول ہی نہیں کیا تو کچھ نہیں ہوا۔ لیکن عورت اگر اپنی جگہ بیٹھی رہی اور مرد یہ کہہ کر کھڑا ہوا اور عورت نے اس کے اٹھنے کے بعد قبول کیا تب بھی خلع ہو گیا۔

مسئلہ3۔ مرد نے فقط اتنا کہا میں نے تجھ سے خلع کیا اور عورت نے قبول کر لیا روپے پیسے کا ذکر نہ مرد نے کیا نہ عورت نے تب بھی جو حق مرد کا عورت پر ہے اور جو حق عورت کا مرد پر ہے سب معاف ہوا۔ اگر مرد کے ذمے مہرباقی ہو تو وہ بھی معاف ہو گیا۔ اور اگر عورت پا چکی ہے تو خیر اب اس کا پھیرنا واجب نہیں البتہ عدت کے ختم ہونے تک روٹی کپڑا اور رہنے کا گھر دینا پڑے گا۔ ہاں اگر عورت نے کہہ دیا ہو کہ عدت کا روٹی کپڑا اور رہنے کا گھر بھی تجھ سے نہ لوں گی تو وہ بھی معاف ہو گا۔

مسئلہ4۔ اور اگر اس کے ساتھ مال کا بھی ذکر کر دیا جیسے یوں کہا سو روپے کے عوض میں نے تجھ سے خلع کیا پھر عورت نے قبول کر لیا تو خلع ہو گیا اب عورت کے ذمے سو روپے دینے واجب ہو گئے۔ اپنا مہر پا چکی ہو تب بھی سو روپے دینے پڑیں گے اور اگر مہر ابھی نہ پایا ہو تب بھی دینے پڑیں گے اور مہر بھی نہ ملے گا کیونکہ وہ بوجہ خلع معاف ہو گیا۔

مسئلہ5۔ خلع میں اگر مرد کے ذمے مہر باقی ہو تو وہ بھی معاف نہیں ہوا۔

مسئلہ7۔ یہ سب باتیں اس وقت ہیں جب خلع کا لفظ کہا ہو یا یوں کہا ہو سو روپے پر یا ہزار روپے کے عوض میں میری جان چھوڑ دے یا یوں کہا میرے مہر کے عوض میں مجھ کو چھوڑ دے اور اگر اس طرح نہیں کہا بلکہ طلاق کا لفظ کہا جیسے یوں کہے سو روپے کے عوض میں مجھے طلاق دے دے تو اس کو خلع نہ کہیں گے اگر مرد نے اس مال کے عوض طلاق دے دی تو ایک طلاق بائن پڑ گئی اور اس میں کوئی حق معاف نہیں ہوا نہ وہ حق معاف ہوئے جو مرد کے اوپر ہیں نہ وہ جو عورت پر ہی مرد نے اگر مہر نہ دیا ہو تو وہ بھی معاف نہیں ہوا۔ عورت اس کی دعویدار ہو سکتی ہے اور مرد یہ سو روپے عورت سے لے لے گا۔

مسئلہ8۔ مرد نے کہا میں نے سو روپے کے عوض میں طلاق دی تو عورت کے قبول کرنے پر موقوف ہے۔ اگر نہ قبول کرے تو نہ پڑے گی اور اگر قبول کر لے تو ایک طلاق بائن پڑ گئی۔ لیکن اگر جگہ بدل جانے کے بعد قبول کیا تو طلاق نہیں پڑی۔

مسئلہ9۔ عورت نے کہا مجھے طلاق دے دے مرد نے کہا تو اپنا مہر وغیرہ اپنے سب حق معاف کر دے تو طلاق دے دوں۔ اس پر عورت نے کہا اچھا میں نے معاف کیا اس کے بعد مرد نے طلاق نہیں دی تو کچھ معاف نہیں ہوا۔ اور اگر اسی مجلس میں طلاق دے دی تو معاف ہو گیا۔

مسئلہ10۔ عورت نے کہا تین سو روپے کے عوض میں مجھ کو تین طلاقیں دے دے۔ اس پر مرد نے ایک ہی طلاق دی تو فقط ایک سو روپے مرد کو ملے گا۔ اور اگر دو طلاقیں دی ہوں تو دو سو روپے اور اگر تینوں دے دیں تو پورے تین سو روپے عورت سے دلائے جائیں گے اور سب صورتوں میں طلاق بائن پڑ گئی۔ کیونکہ مال کا بدلہ ہے۔

مسئلہ11۔ نابالغ لڑکا اور دیوانہ پاگل آدمی اپنی بی بی سے خلع نہیں کرسکتا۔

طلاق رجعی میں رجعت کر لینے یعنی روک رکھنے کا بیان

مسئلہ1۔ جب کسی نے رجعی ایک طلاق یا دو طلاقیں دیں تو عدت ختم ہونے سے پہلے پہلے مرد کو اختیار ہے کہ اس کو روک رکھے پھر سے نکاح کرنے کی ضرورت نہیں۔ اور عورت چاہے راضی ہو یا راضی نہ ہو اس کو کچھ اختیار نہیں ہے اور اگر تین طلاقیں دیں دے تو اس کا حکم اوپر بیان ہو چکا اس میں یہ اختیار نہیں ہے۔

مسئلہ2۔ رجعت کرنے یعنی روک رکھنے کا طریقہ یہ ہے کہ یا یہ صاف صاف زبان سے کہہ دے کہ میں تجھ کو پھر رکھے لیتا ہوں تجھ کو نہ چھوڑوں گا۔ یا یوں کہہ دے کہ میں اپنے نکاح میں تجھ کو رجوع کرتا ہوں یا عورت سے نہیں کہا کسی اور سے کہا کہ میں نے اپنی بی بی کو پھر رکھ لیا اور طلاق سے باز آیا۔بس اتنا کہہ دینے سے وہ پھر اس کی بی بی ہو گئی۔

مسئلہ3۔ جب عورت کا روک رکھنا منظور ہو تو بہتر ہے کہ دو چار لوگوں کو گواہ بنا لے کہ شاید کبھی کچھ جھگڑا پڑے تو کوئی مکر نہ سکے۔ اگر کسی کو گواہ نہ بنایا تنہائی میں ایسا کر لیا تب بھی صحیح ہے۔ مطلب تو حاصل ہی ہو گیا۔

مسئلہ4۔ اگر عورت کی عدت گزر چکی تب ایسا کرنا چاہا تو کچھ نہیں ہو سکتا۔ اب اگر عورت منظور کرے اور راضی ہو تو پھر سے نکاح کرنا پڑے گا بے نکاح کیے نہیں رکھ سکتا۔ اگر وہ رکھے بھی تو عورت کو اس کے پاس رہنا درست نہیں۔

مسئلہ8۔ جس عورت کو ایک یا دو طلاق رجعی ملی ہوں جس میں مرد کو طلاق سے باز آنے کا اختیار ہوتا ہے ایسی عورت کو مناسب ہے کہ خوب بناؤ سنگار کر کے رہا کرے کہ شاید مرد کا جی اس کی طرف جھک پڑے اور رجعت کرلے۔ اور مرد کا قصد اگر باز آنے کا نہ ہو تو اس کو مناسب ہے کہ جب گھر میں آئے تو کھانس کھنگار کے آئے کہ وہ اپنا بدن اگر کچھ کھلا ہو تو ڈھک لے اور کسی بے موقع جگہ نگاہ نہ پڑے۔ اور جب عدت پوری ہو چکے تو عورت کہیں اور جا کے رہے۔

مسئلہ9۔ اگر ابھی رجعت نہ کی ہو تو اس عورت کو اپنے ساتھ سفر میں لے جانا جائز نہیں اور عورت کو اس کے ساتھ جانا بھی درست نہیں۔

مسئلہ10۔ جس عورت کو ایک یا دو طلاق بائن دے دیں جس میں روک رکھنے کا اختیار نہیں ہوتا اس کا حکم یہ ہے کہ اگر کسی اور مرد سے نکاح کرنا چاہیے تو عدت کے بعد نکاح کرے۔ عدت کے اندر نکاح درست نہیں۔ اور خود اسی سے نکاح کرنا منظور ہو تو عدت کے اندر بھی ہو سکتا ہے۔

بیمار کے طلاق دینے کا بیان

مسئلہ1۔ بیماری کی حالت میں کسی نے اپنی عورت کو طلاق دے دی پھر عورت کی عدت ابھی ختم نہ ہونے پائی تھی کہ اس بیماری میں مر گا۔ تو شوہر کے مال میں سے بی بی کا جتنا حصہ ہوتا ہے اتنا اس عورت کو بھی ملے گا چاہے ایک طلاق دی ہو یا دو تین۔ اور چاہے طلاق رجعی دی ہو یا بائن سب کا ایک حکم ہے۔ اگر عدت ختم ہو چکی تھی تب وہ مرا تو حصہ نہ پائے گی۔ اسی طرح اگر مرد اسی بیماری میں نہیں مرا بلکہ اس سے اچھا ہو گیا پھر بیمار ہو گیا تب بھی حصہ نہ پائے گی۔ چاہے عدت ختم ہو چکی ہو یا نہ ختم ہوئی ہو۔

مسئلہ2۔ عورت نے طلاق مانگی تھی اس لیے مرد نے طلاق دے دی۔ تب بھی عورت حصہ پانے کی مستحق نہیں چاہے عدت کے اندر مرے یا عدت کے بعد۔ دونوں کا ایک حکم ہے۔ البتہ اگر طلاق رجعی دی ہو اور عدت کے اندر مرے تو حصہ پائے گی۔

مسئلہ3۔ بیماری کی حالت میں عورت سے کہا اگر تو گھر سے باہر جائے تو تجھ کو بائن طلاق ہے۔ پھر عورت باہر گئی اور طلاق بائن پڑ گئی تو اس صورت میں حصہ نہ پائے گی کہ اس نے خود ایسا کام کیوں کیا جس سے طلاق پڑی۔ اور اگر یوں کہا اگر تو کھانا کھائے تو تجھ کو طلاق بائن ہے یا یوں کہا اگر تو نماز پڑھے تو تجھ کو طلاق بائن ہے ایسی صورت میں اگر وہ عدت کے اندر مر جائے گا تو عورت کو حصہ ملے گا کیونکہ عورت کے اختیار سے طلاق نہیں پڑی۔ کھانا کھانا اور نماز پڑھنا تو ضروری ہے اس کو کیسے چھوڑتی۔ اور اگر طلاق رجعی دی ہو تو پہلی صورت میں عدت کے اندر اندر مرنے سے حصہ پائے گی۔ غرضیکہ طلاق رجعی میں بہرحال حصہ ملتا ہے۔ بشرطیکہ عدت کے اندر مرا ہو۔

مسئلہ4۔ کسی بھلے چنگے آدمی نے کہا جب تو گھر سے باہر نکلے تو تجھ کو طلاق بائن ہے۔ پھر جس وقت وہ گھر سے باہر نکلی اس وقت وہ بیمار تھا اور اسی بیماری میں عدت کے اندر مر گیا تب بھی حصہ نہ پائے گی۔

مسئلہ5۔ تندرستی کے زمانہ میں کہا جب تیرا باپ پردیس سے آئے تو تجھ کو بائن طلاق۔ جب وہ پردیس سے آیا اس وقت مرد بیمار تھا اور اسی بیماری میں مر گیا تو حصہ نہ پائے گی۔ اور اگر بیماری کی حالت میں یہ کہا ہو اور اسی میں عدت کے اندر مر گیا ہو تو حصہ پائے گی۔

کسی شرط پر طلاق دینے کا بیان

مسئلہ1۔ نکاح کرنے سے پہلے کسی عورت کو کہا اگر میں تجھ سے نکاح کروں تو تجھ کو طلاق ہے تو جب اس عورت سے نکاح کرے گا تو نکاح کرتے ہی طلاق بائن پڑ جائے گی۔ اب بے نکاح کیے اس کو نہیں رکھ سکتا۔ اور اگر یوں کہا ہو اگر تجھ سے نکاح کروں تو تجھ پر دو طلاق۔ تو دو طلاق بائن پڑ گئیں اور اگر تین طلاق کو کہا تھا تو تینوں پڑ گئیں اور اب طلاق مغلظہ ہو گئی۔

مسئلہ2۔ نکاح ہوتے ہی جب اس پر طلاق پڑ گئی تو اس نے اسی عورت سے پھر نکاح کر لیا تو اب اس دوسرے نکاح کرنے سے طلاق نہ پڑے گی۔ ہاں اگر یوں کہا ہو جس دفعہ تجھ سے نکاح کروں ہر مرتبہ تجھ کو طلاق ہے تو جب نکاح کرے گا ہر دفعہ طلاق پڑ جایا کرے گی۔ اب اس عورت کو رکھنے کی کوئی صورت نہیں۔ دوسرا خاوند کر کے اگر اس مرد سے نکاح کرے گی تب بھی طلاق پڑ جائے گی۔

مسئلہ3۔ کسی نے کہا جس عورت سے نکاح کروں اس کو طلاق تو جس سے نکاح کرے گا اس پر طلاق پڑ جائے گی۔ البتہ طلاق پڑنے کے بعد اگر پھر اسی عورت سے نکاح کر لیا تو طلاق نہیں پڑی۔

مسئلہ4۔ کسی غیر عورت سے جس سے ابھی نکاح نہیں کیا ہے اس طرح کہا اگر تو فلانا کام کرے تو تجھ کو طلاق۔ اس کا کچھ اعتبار نہیں اگر اس سے نکاح کر لیا اور نکاح کے بعد اس نے وہی کام کیا تب بھی طلاق نہیں پڑی۔ کیونکہ غیر عورت کو طلاق دینے کی یہی صورت ہے کہ یوں کہے اگر تجھ سے نکاح کروں تو طلاق۔ کسی اور طرح طلاق نہیں پڑ سکتی۔

مسئلہ5۔ اور اگر اپنی بی بی سے کہا اگر تو فلانا کام کرے تو تجھ کو طلاق اگر تو میرے پاس سے جائے تو تجھ کو طلاق۔ اگر تو اس گھر میں جائے تو تجھ کو طلاق یا اور کسی بات کے ہونے پر طلاق دی تو جب وہ کام کرے گی تب طلاق پڑ جائے گی اگر نہ کرے گی تو نہ پڑے گی اور طلاق رجعی پڑے گی جس میں بے نکاح بھی روک رکھنے کا اختیار ہوتا ہے۔ البتہ اگر کوئی گول لفظ کہتا ہے جیسے یوں کہے اگر تو فلانا کام کرے تو مجھ تجھ سے کچھ واسطہ نہیں تو جب وہ کام کرے گی تب طلاق بائن پڑے گی بشرطیکہ مرد نے اس لفظ کے کہتے وقت طلاق کی نیت کی ہو۔

مسئلہ6۔ اگر یوں کہا اگر فلانا کام کرے تو تجھ کو دو طلاق یا تین طلاق تو جو طلاق کہی اتنی پڑیں گی۔

مسئلہ7۔ اپنی بی بی سے کہا تھا گر اس گھر میں جائے تو تجھ کو طلاق اور وہ چلی گئی اور طلاق پڑ گئی۔ پھر عدت کے اندر اندر اس نے روک رکھا یا پھر سے نکاح کر لیا تو اب پھر گھر میں جانے سے طلاق نہ پڑے گی۔ البتہ اگر یوں کہا ہو جتنی مرتبہ اس گھر میں جائے ہر مرتبہ تجھ کو طلاق۔ یا یوں کہا ہو جب کبھی تو گھر میں جائے ہر مرتبہ تجھ کو طلاق۔ تو اس صورت میں عدت کے اندر یا پھر نکاح کر لینے کے بعد دوسری مرتبہ گھر میں جانے سے دوسری طلاق ہو گئی پھر عدت کے اندر یا تیسرے نکاح کے بعد اگر تیسری دفعہ گھر میں جائے گی تو تیسری طلاق پڑ جائے گی۔ اب تین طلاق کے بعد اس سے نکاح درست نہیں۔ البتہ اگر دوسرا خاوند کر کے پھر اسی مرد سے نکاح کرے تو اب اس گھر میں جانے سے طلاق نہ پڑے گی۔

مسئلہ8۔ کسی نے اپنی عورت سے کہا اگر تو فلانا کام کرے تو تجھ کو طلاق۔ ابھی اس نے وہ کام نہیں کیا تھا کہ اس نے اپنی طرف سے ایک اور طلاق دے دی اور چھوڑ دیا اور کچھ مدت بعد پھر اسی عورت سے نکاح کیا اور اس نکاح کے بعد اب اس نے وہی کام کیا تو پھر طلاق پڑ گئی۔ البتہ اگر طلاق پانے اور عدت گزر جانے کے بعد اس نکاح سے پہلے اس نے وہی کام کر لیا ہو تو اب اس نکاح کے بعد اس کام کے کرنے سے طلاق نہ پڑے گی۔ اور اگر طلاق پانے کے بعد عدت کے اندر اس نے وہی کام کیا ہو تب بھی دوسری طلاق پڑ گئی۔

مسئلہ10۔ اگر کسی نے بی بی سے کہا اگر تو روزہ رکھے تو تجھ کو طلاق تو روزہ رکھتے ہی فورا طلاق پڑی گئی البتہ اگر یوں کہا اگر تو ایک روزہ رکھے یا دن بھر کا روزہ رکھے تو تجھ کو طلاق۔ تو روزہ کے ختم پر طلاق پڑے گی۔ اگر روزہ توڑ ڈالے تو طلاق نہ پڑے گی۔

مسئلہ11۔ عورت نے گھر سے باہر جانے کا ارادہ کیا مرد نے کہا ابھی مت جاؤ۔ عورت نہ مانی۔ اس پر مرد نے کہا اگر تو باہر جائے تو تجھ کو طلاق۔ تو اس کا حکم یہ ہے کہ اگر ابھی باہر جائے گی تو طلاق پڑے گی اور اگر ابھی نہ گئی کچھ دیر میں گئی تو طلاق نہ پڑے گی۔ کیونکہ اس کا مطلب یہی تھا کہ ابھی نہ جاؤ پھر جانا۔ یہ مطلب نہیں کہ عمر بھر کبھی نہ جانا۔

مسئلہ12۔ کسی نے یوں کہا جس دن تجھ سے نکاح کروں تجھ کو طلاق۔ پھررات کے وقت نکاح کیا تب بھی طلاق پڑ گئی۔ کیونکہ بول چال میں اس کا مطلب یہ ہے کہ جس وقت تجھ سے نکاح کروں تجھ کو طلاق۔

تین طلاق دینے کا بیان

مسئلہ1۔ اگر کسی نے اپنی عورت کو تین طلاقیں دے دیں تو اب وہ عورت بالکل اس مرد کے لیے حرام ہو گئی اب اگر پھر سے نکاح کرے تب بھی عورت کو اس مرد کے پاس رہنا حرام ہے اور یہ نکاح نہیں ہوا چاہے صاف لفظوں میں تین طلاقیں دی ہوں یا گول لفظوں میں سب کا ایک حکم ہے۔

مسئلہ2۔ تین طلاقیں ایک دم سے دے دیں۔ جیسے یوں کہہ دیا تجھ کو تین طلاق یا یوں کہا تجھ کو طلاق ہے طلاق ہے طلاق ہے یا الگ کر کے تین طلاقیں دیں جیسے ایک آج دی ایک کل ایک پرسوں۔ یا ایک اس مہینہ میں ایک دوسرے مہینہ میں ایک تیسرے میں یعنی عدت کے اندر اندر تینوں طلاقیں دے دیں سب کا ایک حکم ہے اور صاف لفظوں میں طلاق دے کر پھر روک رکھنے کا اختیار اس وقت ہوتا ہے جب تین طلاقیں نہ دے فقط ایک یا دو دے۔ جب تین طلاقیں دے دیں تو اب کچھ نہیں ہو سکتا۔

مسئلہ3۔ کسی نے اپنی عورت کو ایک طلاق رجعی دی۔ پھر میاں راضی ہو گیا اور روک رکھا۔ پھر دو چار برس میں کسی بات پر غصہ آیا تو ایک طلاق رجعی اور دے دی جس میں روک رکھنے کا اختیار ہوتا ہے۔ پھر جب غصہ اترا تو روک رکھا اور نہیں چھوڑا۔ یہ دو طلاقیں ہو چکیں اب اس کے بعد اگر کبھی ایک طلاق اور دے دے گا تو تین پوری ہو جائیں گی اور اس کا وہی حکم ہو گا کہ بے دوسرا خاوند کیے اس مرد سے نکاح نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح اگر کسی نے طلاق بائن دی جس میں روک رکھنے کا اختیار نہیں ہوتا نکاح ٹوٹ جاتا ہے۔ پھر پشیمان ہوا اور میاں بی بی نے راضی ہو کر پھر سے نکاح پڑھوا لیا۔ کچھ زمانہ کے بعد پھر غصہ آیا اور ایک طلاق بائن دے دی اور غصہ اترنے کے بعد پھر نکاح پڑھوا لیا یہ دو طلاقیں ہوئیں۔ اب تیسری دفعہ اگر طلاق دے گا تو پھر وہی حکم ہے کہ بے دوسرا خاوند کیے اس سے نکاح نہیں کر سکتی۔

رخصتی سے پہلے طلاق ہو جانے کا بیان

مسئلہ1۔ ابھی میاں کے پاس نہ جانے پائی تھی کہ اس نے طلاق دے دی۔ یا رخصتی تو ہو گئی لیکن ابھی میاں بی بی میں ویسی تنہائی نہیں ہونے پائی جو شرع میں معتبر ہے جس کا بیان مہر کے باب میں ہو چکا ہے۔ تنہائی و یکجائی رہنے سے پہلے ہی طلاق دے دی تو طلاق بائن پڑی۔ چاہے صاف لفظوں سے دی ہو یا گول لفظوں میں۔ ایسی عورت کو جب طلاق دی جائے تو پہلی ہی قسم کی یعنی بائن طلاق پڑتی ہے اور ایسی عورت کے لیے طلاق کی عدت بھی کچھ نہیں ہے۔ طلاق ملنے کے بعد فورا دوسرے مرد سے نکاح کر سکتی ہے اور ایسی عورت کو ایک طلاق دینے کے بعد اب دوسری تیسری طلاق بھی دینے کا اختیار نہیں اگر دیوے گا تو نہ پڑے گی۔ البتہ اگر پہلی ہی دفعہ یوں کہہ دے کہ تجھ کو دو طلاق یا تین طلاق تو جتنی دی ہیں سب پڑ گئیں اور اگر یوں کہا تجھ کو طلاق ہے طلاق ہے تب بھی ایسی عورت کو ایک ہی طلاق پڑے گی۔

طلاق دینے کا بیان

مسئلہ1۔ طلاق دینے کا اختیار فقط مرد کو ہے۔ جب مرد نے طلاق دے دی تو پڑ گئی۔ عورت کا اس میں کچھ بس نہیں چاہے منظور کرے چاہے نہ کرے ہر طرح طلاق ہو گئی۔ اور عورت اپنے مرد کو طلاق نہیں دے سکتی۔

مسئلہ2۔ مرد کو فقط تین طلاق دینے کا اختیار ہے اس سے زیادہ کا اختیار نہیں۔ تو اگر چار پانچ طلاق دے دیں تب بھی تین ہی طلاقیں ہوئیں۔

مسئلہ3۔ جب مرد نے زبان سے کہہ دیا کہ میں نے اپنی بی بی کو طلاق دے دی اور اتنے زور سے کہا کہ خود ان الفاظ کو سن لیا۔ بس اتنا کہتے ہی طلاق پڑ گئی چاہے کسی کے سامنے کہے چاہے تنہائی میں اور چاہے بی بی سنے یا نہ سنے ۔ ہر حال میں طلاق ہو گئی۔

مسئلہ4۔ طلاق تین قسم کی ہے۔ ایک تو ایسی طلاق جس میں نکاح بالکل ٹوٹ جاتا ہے اور بے نکاح کیے اس مرد کے پاس رہنا جائز نہیں۔ اگر پھر اسی کے پاس رہنا چاہے اور مرد بھی اس کو رکھنے پر راضی ہو تو پھر سے نکاح کرنا پڑے گا ایسی طلاق کو بائن طلاق کہتے ہیں۔ دوسری وہ جس میں نکاح ایسا ٹوٹا کہ دوبارہ نکاح بھی کرنا چاہیں تو بعد عدت کسی دوسرے سے اول نکاح کرنا پڑے گا اور جب وہاں طلاق ہو جائے تب بعد عدت اس سے نکاح ہو سکے گا۔ ایسی طلاق کو مغلظہ کہتے ہیں۔ تیسری وہ جس میں نکاح ابھی نہیں ٹوٹا صاف لفظوں میں ایک یا دو طلاق دینے کے بعد اگر مرد پشیمان ہوا تو پھر سے نکاح کرنا ضروری نہیں۔ بے نکاح کیے بھی اس کو رکھ سکتا ہے۔ پھر میاں بی بی کی طرح رہنے لگیں تو درست ہے البتہ اگر مرد طلاق دے کر اسی پر قائم رہا اور اس سے نہیں پھرا تو جب طلاق کی مدت گزر جائے گی تب نکاح ٹوٹ جائے گا اور عورت جدا ہو جائے گی۔ اور جب تک عدت نہ گزرے تب تک رکھنے نہ رکھنے دونوں باتوں کا اختیار ہے۔ ایسی طلاق کو رجعی طلاق کہتے ہیں۔ البتہ اگر تین طلاقیں دے دیں تو اب اختیار نہیں۔

مسئلہ5۔ طلاق دینے کی دو قسمیں ہیں۔ ایک تو یہ کہ صاف صاف لفظوں میں کہہ دیا کہ میں نے تجھ کو طلاق دے دی یا یوں کہا کہ میں نے اپنی بی بی کو طلاق دے دی۔ غرضیکہ ایسی صاف بات کہہ دی جس میں طلاق دینے کے سوا کوئی اور معنی نہیں نکل سکتے ایسی طلاق کو صریح کہتے ہیں۔ دوسری قسم یہ کہ صاف صاف لفظ نہیں کہے بلکہ ایسے گول گول لفظ کہے جس میں طلاق کا مطلب بھی بن سکتا ہے اور طلاق کے سوا اور دوسرے معنے بھی نکل سکتے ہیں۔ جیسے کوئی کہے میں نے تجھ کو دور کر دیا۔ تو اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ میں نے تجھ کو طلاق دے دی۔ دوسرا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ طلاق تو نہیں دی لیکن اب تجھ کو اپنے پاس نہ رکھوں گا۔ ہمیشہ اپنے میکے میں پڑی رہ۔ تیری خبر نہ لوں گا۔ یا یوں کہے مجھ سے تجھ سے کچھ واسطہ نہیں۔ مجھ سے تجھ سے کچھ مطلب نہیں تو مجھ سے جدا ہو گئی۔ میں نے تجھ کو الگ کر دیا۔ جدا کر دیا میرے گھر سے چلی جا۔ نکل جا۔ ہٹ دور ہو۔ اپنے ماں باپ کے سرجا کے بیٹھ۔ اپنے گھر جا۔ میرا تیرا نباہ نہ ہو گا۔ اسی طرح کے اور الفاظ جن میں دونوں مطلب نکل سکتے ہیں ایسی طلاق کو کنایہ کہتے ہیں۔

مسئلہ6۔ اگر صاف صاف لفظوں میں طلاق دی تو زبان سے نکلتے ہی طلاق پڑ گئی۔ چاہے طلاق دینے کی نیت ہو چاہے نہ ہو۔ بلکہ ہنسی دل لگی میں کہا ہو ہر طرح طلاق ہو گئی اور صاف لفظوں میں طلاق دینے سے تیسری قسم کی طلاق پڑتی ہے یعنی عدت کے ختم ہونے تک اس کے رکھنے نہ رکھنے کا اختیار ہے اور ایک مرتبہ کہنے سے ایک ہی طلاق پڑے گی نہ دو پڑیں گی نہ تین۔ البتہ اگر تین دفعہ کہے یا یوں کہے تجھ کو تین طلاق دیں تو تین طلاقیں پڑیں۔

مسئلہ7۔ کسی نے ایک طلاق دی تو جب تک عورت عدت میں رہے تب تک دوسری طلاق اور تیسری طلاق اور دینے کا اختیار رہتا ہے اگر دے گا تو پڑ جائے گی۔

مسئلہ8۔ کسی نے یوں کہا تجھ کو طلاق دے دوں گا تو اس سے طلاق نہیں ہوئی۔ اسی طرح اگر کسی بات پر یوں کہا کہ اگر فلانا کام کرے گی تو طلاق دے دوں گا تب بھی طلاق نہیں ہوئی چاہے وہ کام کرے چاہے نہ کرے۔ ہاں اگر یوں کہہ دے اگر فلانا کام کرے تو طلاق ہے تو اس کے کرنے سے طلاق پڑ جائے گی۔

مسئلہ9۔ کسی نے طلاق دے کر اس کے ساتھ ہی انشاء اللہ بھی کہہ دیا تو طلاق نہیں پڑی۔ اسی طرح اگر یوں کہا اگر خدا چاہے تو تجھ کو طلاق۔ اس سے بھی کسی قسم کی طلاق نہیں پڑتی۔

البتہ اگر طلاق دے کر ذرا ٹھیر گیا پھر انشاء اللہ کہا تو طلاق پڑ گئی۔

مسئلہ10۔ کسی نے اپنی بی بی کو طلاقن کہہ کر پکارا تب بھی طلاق پڑ گئی اگرچہ ہنسی میں کہا ہو۔

مسئلہ11۔ کسی نے کہا جب تو لکھنو جائے تو تجھ کو طلاق ہے تو جب تک لکھنو نہ جائے گی طلاق نہ پڑے گی جب وہاں جائے گی تب پڑے گی۔

مسئلہ12۔ اور اگر صاف صاف طلاق نہیں دی بلکہ گول گول الفاظ کہے اور اشارہ کنایہ سے طلاق دی تو ان لفظوں کے کہنے کے وقت اگر طلاق دینے کی نیت تھی تو طلاق ہو گئی اور اول قسم کی یعنی بائن طلاق ہوئی۔ اب بے نکاح کیے نہیں رکھ سکتا۔ اور اگر طلاق کی نیت نہ تھی بلکہ دوسرے معنی کے اعتبار سے کہا تھا تو طلاق نہیں ہوئی۔ البتہ اگر کہنے سے معلوم ہو جائے کہ طلاق ہی دینے کی نیت تھی اب وہ جھوٹ بکتا ہے تو اب عورت اس کے پاس نہ رہے اور یہی سمجھے کہ مجھے طلاق مل گئی۔ جیسے بی بی نے غصہ میں آ کر کہا کہ میرا تیرا نباہ نہ ہو گا مجھ کو طلاق دے دے اس نے کہا اچھا میں نے چھوڑ دیا تو یہاں عورت یہی سمجھے کہ مجھے طلاق دے دی۔

مسئلہ13۔ کسی نے تین دفعہ کہا کہ تجھ کو طلاق طلاق طلاق تو تینوں طلاقیں پڑ گئیں یا گول الفاظ میں تنئ مرتبہ کہا تب بھی تنی پڑ گئیں۔ لیکن اگر نیت ایک ہی طلاق کی کی ہے فقط مضبوطی کے لیے تین دفعہ کہا تھا کہ بات خوب پکی ہو جائے تو ایک طلاق ہوئی۔ لیکن عورت کو اس کے دل کا حال تو معلوم نہیں اس لیے یہی سمجھے کہ تین طلاقیں مل گئیں۔

طلاق کا بیان

مسئلہ1۔ جو شوہر جوان ہو چکا ہو اور دیوانہ پاگل نہ ہو اس کے طلاق دینے سے طلاق پڑ جائے گی۔ اور جو لڑکا ابھی جوان نہیں ہوا۔ اور دیوانہ پاگل جس کی عقل ٹھیک نہیں ان دونوں کے طلاق دینے سے طلاق نہیں پڑتی۔

مسئلہ2۔ سوتے ہوئے آدمی کے منہ سے نکلا کہ تجھ کو طلاق ہے یا یوں کہہ دیا کہ میری بی بی کو طلاق تو اس بڑبڑانے سے طلاق نہ پڑے گی۔

مسئلہ3۔ کسی نے زبردستی کسی سے طلاق دلوادی۔ بہت مارا کوٹا دھمکایا کہ طلاق دے دے نہیں تو تجھے مار ڈالوں گی اس مجبوری سے اس نے طلاق دے دی تب بھی طلاق پڑ گئی۔

مسئلہ4۔ کسی نے شراب وغیرہ کے نشہ میں اپنی بی بی کو طلاق دے دی جب ہوش آیا تو پشیمان ہوا تب بھی طلاق پڑ گئی۔ اسی طرح غصے میں طلاق دینے سے بھی طلاق پڑ جاتی ہے۔

مسئلہ5۔ شوہر کے سوا کسی اور کو طلاق دینے کا اختیار نہیں ہے البتہ اگر شوہر نے کہہ دیا ہو کہ تو اس کو طلاق دے تو وہ بھی دے سکتا ہے۔