( ملفوظ 25 )اشرفی لکھنا پسند نہیں

ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا لہ مجھ کو یہ ایسی پارٹی بندی پسند نہیں کہ ایک صاحب ہی خیال اور ایک ہی مشرب کے ہو کر نسبتوں سے فرق ظاہر کریں جیسے ایک صاحب نے اپنے نام کے ساتھ اشرفی لکھا تھا بلا ضرورت ایسی نسبتیں متضمن مفاسد ہیں ایک صاحب نے عرض کیا کہ چشتی قادری ، سہردردی یہ بھی تو ایک نسبت ہے فرمایا کہ وہاں تو اپنے مسلک اور مشروب کو اہل بدعت کے مسلک سے ممتاز کرنا ہے اور یہاں جب ایک ہی مسلک اور مشرب ہے تو وہ مقصود نہیں ہو سکتا –

( ملفوظ 26 ) اپنے کام کے لئے دوسروں کو مجبور نہ کرنا

ایک صاحب کے لئے واسطہ کے ذریعے خط و کتابت کرنا حضرت والا نے تجویز فرمایا تھا ان صاحب نے عرض کیا کہ وسطہ بننے پر کوئی راضی نہیں ہوتا فرمایا پھر میں کیا کروں ہاتھ جوڑ پیر پکڑو اور راضی کرو غرض آپ کاکام ہے آپ کوشش کیجئے میں اس کاکیا انتظام کروں میں تو خود اپنے کاموں کے لئے بھی دوسروں کو مجبور نہیں کرتا دوسروں کے لئے تو کیا کسی کو کچھ کہوں اور مجبور کروں –

( ملفوظ 24 ) دوسرے کی اصلاح مصلح کی ضرورت

ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ کسی کی اصلاح کے لئے نرا صالح ہونا کافی نہیں بکلہ مصلح کی ضرورت ہے جیسے مریض کو معالج کے تند رست ہونے کی ضرورت نہیں بلکہ اس کے طبیب ہونے کی ضرورت ہے اس لئے کہ ہر تندرست طبیب نہیں ہوتا –

( ملفوظ 23 )عدم اذیت کا اہتمام نہ کرنا سبب بے فکری ہے

ایک صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ اس کا توخدا نخواستہ قلب میں شبہ بھی نہیں کہ لوگ جان کریا قصد اور اہتمام سے اذیت پہچاتے ہیں ہاں یہ یقینی ہے کہ عدم اذیت کا بھی اہتمام نہیں کرتے جس کا سبب صرف بے فکری ہے بس میں اسی کی کوشش کرتا ہوں کہ فکر پیدا ہو اگر فکر سے کام لیں تو بھت کم غلطیاں ہوں –
3 ذیقعدہ 1350 ھ مجلس بعد نماز ظہر یوم شنبہ

( ملفوظ 22 )تعلیم کے شرائط

ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ ایک صاحب نے مجھ سے بیعت کا تعلق پیدا کرنا چاہا میں نے انکار کردیا مگر تعلیم سے عذر نہیں کیا اور بیعت اس لئے نہیں کیا کہ مجھ کو ان کی حالت سے ابدازہ ہوچکا تھا کہ اس وقت جوش سے اگر ہوش میں آجائیں اور پھر بھی یہی رائے رہے تب ٹھیک ہے ان کا اصرار تھا میں نے کہا آپ تو بیعت پر مصر ہیں جو طبعا وعرفا بہت قوی تلعق ہے میں تعلیم میں بھی یہ شرط لگاتا ہوں کہ اگر مجھ کو شبہ پیدا ہوجائے گا کہ تو میں خط واکتابت کو بھی قطعا بند کردوں گا وہ اس کو منظور نہ کرتے تھے مگر اب وہ اعتقاد وغیرہ سب غائب ہوگیا خط و کتابت میں گڑ بڑ شروع کی میں نے منع کردیا کہ آئندہ خط و کتابت کی جازت نہیں مجھ کو اپنی رائے کے صائب ہونے پر مسرت ہوئی اب بتلایئے کہ جو صاحب مشورے دیتے ہیں کہ نرمی کرو اور یہ کرو میں ان کے کہنے سے اپنے ان تجربات کو کیسے چھوڑ دوں –

( ملفوظ 21 )جواب دینے کے لئے قیود وشرائط

ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ مجھ کو علماء کا طرز ناپسند ہے کہ سائل کے ہر سوال کے جواب دینے کی کوشش کرتے ہیں – جواب دینے کے بھی تو کچھ شرائط ہیں – آخر نماز اتنا بڑا رکن ہے دین کا بڑامگر وہ بھی قیود اور شرائط سے خالی نہیں ان شرائط کا حاصل یہ ہے اول یہ دیکھ لینا چایئے وہ سوال ضروری ہے یا غیر ضروری پھر اگر یہ بھی معلوم ہو جائے کہ فی نفسہ ضروری ہے تو پھر یہ دیکھنا چایئے کہ مشغلہ کے طور پر سوال کر رہا ہے یا واقع میں بھی اس کو ضرورت ہے – اگر محض مقصود ہے اور عمل وغیرہ مقصود نہیں تو ایسے شخص کو ہر گز نہ جواب دیا جائے البتہ علم کا جو حصہ فرض عین ہے وہ اس سے مستثنی ہے – غرض اس قسم کی باتوں کا خیال رکھنا علماء کو بہت ضروری ہے – علماء نے جو ان اصول کو چھوڑ دیا اس سے بہت مخلوق فضول میں مبتلا ہوگی یہی وجہ ہے کہ عوام الناس جاہل تک علماء کو اپنا تختہ مشق بنالیتے ہیں اور مسائل دینیہ میں اپنے منصب کے خلاف دخل دیتے ہیں اور بلا ضرورت خواہ مخواہ عملاء کو پریشان کرتے اور جھگڑوں میں پھنساتے اور عملاء کے ایسا کرنے کا سبب اکثر جاہ ہے کہ جواب دینے زیادہ معتقد ہوجائے گا یا اور اغراض فاسدہ مثلا یہ کہ ہم کو بدنام کریں گے یا اپنے دل میں سمجھیں گے کہ انہیں کچھ آتا جاتا نہیں یامدرسہ کا چندہ بند کردیں گے اس لئے سوال کا جواب دینے کو تیار ہوتے ہیں سو یہ بھی اچھی خاص مصیبت ہے معلوم بھی ہے کہ مجھے بڑے سے بڑے عالم محقق امام اور مجتھد کو بھی بعض مسائل پر لاادری ( مجھے معلوم نہیں ) کہنے کے سوا کچھ نہیں بن پڑا یہ ہے کہ علماء کو کا تابع نہ ہونا چاہیئے بلکہ سائل کو اپنا تابع بنانا چاہہئے جہاں سوال ضروری ہو اور طالب کو بھی فی الحقیقت ضرورت ہو وہاں اپنے اور کاموں کو چھوڑ کر بھی جواب دینا چاہئے اس لئے وہاں دین کی ضرورت ہو وہاں اپنے کاموں کو چھوڑ کر بھی جواب دینا چاہئے اس لئے وہاں دین کی ضرورت ہے حاصل یہ ہے کہ دین کے تابع خود بھی بنو اور دوسروں کو بھی بناؤ – دین کو کھیل تفریح مت بناؤ جیسا کہ ہو رہا ہے مولانا عبدالقیوم صاحب مقیم بھوپال کا معمول تھا کہ فضول سوال جواب نہ دیا کرتے تھے اگر سوال کرتا یہ مسئلہ کس حدیث میں ہے تو فرمایا کرتے کہ میں نو مسلم ہوں جو حدیث تلاش کرنے کو اپنے ان بڑوں سے دین پہنچا ہے مطلب یہ تھا کہ یہ بتلانا چاہئے تھے کہ سوال تیرا فضول ہے تو علماء کو یہ طرز احتیار کرنا چاہئے اور اس وقت کا جو طرز ہے وہ مفر ہے اور اس میں بڑے بفاسد ہیں –

( ملفوظ 20 ) خانقاہ میں قیام کے شرائط

ایک صاحب کے سوال جواب میں فرمایا اگر نفس کے ضروری حقوق ہیں یا عیاں کے حقوق میں کسی قسم کی بھی کوتاہی ہو اس حالت میں یہاں قیام کرنا نافع نہیں اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے اپنے بزرگوں کی دعا کی برکت سے میرے یہاں ہر چیز اپنی حد پر ہے وہ معاملہ نہیں جیسے آجکل دکاندار مشائخ رسم پرستی کرتے ہیں اور دوسروں سے کراتے ہیں مجھ کو یہ باتیں پسند نہیں ہر بات صاف اور اپنی حد پر رہنی چایئے –

( ملفوظ 19 )بلا ضرورت سوال کا جواب نہ فرمانا

ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ جب کوئ مجھ سے علمی سوال کرتا ہے تو میرا معمول ہے کہ میں جواب سے پہلے دو امر کی تحقیق کر لیتا ہوں پھر جواب دیتا ہوں ایک تو یہ کہ سائل کو علم کس قدر ہے ـ دوسرے یہ اطمینان ہوجائے کہ واقعی خلوص سے پوچھ رہا ہے اگر کوئی طالب سوال کرتا ہے تو اس کو یہ دیکھنا ہوں کہ اپنے استادوں سے کیوں نہیں پوچھتے بعض ایسے ذہین ہوتے ہیں کہ اساتذہ سے پوچھا تھا مگر شفاء نہیں ہوئی میں لکھتا ہوں کہ ان کی تقریر لکھو کہ انھوں نے کیا بیان کیا اور جو تم اس کا مطلب سمجھتے ہو وہ لکھو پھر جو شبہ ہو وہ لکھو تاکہ میں واقعہ اور فہم کا اندازہ کروں مگر پھر کوئی کچھ نہیں لکھتا اگر واقعی تحقیق کیا تھا تردد رہا اور شفا نہ ہوئی تو لکھنا چاہیئے تھا محض ایک مشغلہ ہے کہ لاؤ بیٹھے ہوئے بلا ضرورت یہ بھی سہی سو یہاں باتیں نہیں چلتیں پھر اس پر خفا ہوتے ہیں جی یوں چاہتا ہے کہ ضرورت کے موافق دوسرے کو تکلیف دی جائے فضول باتو ں سے خود بھی اجتناب رکھیں اور دوسرے کو بھی پرشان نہ کریں پھر ضرورت میں بھی استادوں کا وجود بھی عبث نہیں ان سے استفادہ کرنا چایئے –
3 ذیقعدہ 1350 ھ مجلس خاص بوقت صبح یوم شنبہ

( ملفوظ 18 )طریق اور اس کا مقصود

ایک صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ اس طریق میں نکات اور لطائف ہیچ ہیں یہ سب باتیں طریق کی حقیقت سے بیخبری کی بدولت ہو رہی ہیں طریق تو اعمال ہے اور مقصود رضاء حق ہے یہ حقیقت ہے اس طریق کی ایسے ہی طالب میں صدق اور خلوص کی ضرورت ہے اگر یہ نہیں تو محروم رہیگا ـ

( ملفوظ 17 )لوگوں کے ہنسنے پر آپکا ضرر نہیں

ایک صاحب نے عرض کیا کہ حضرت فلاں مقام پر جو جدید مدرسہ بچوں کی تعلیم قرآن و دینیات کے لۓ ہم لوگوں نے جاری کیا ہے اس پر لوگ ہنستے ہیں کہ یہ تو چھے مہینے کا ہے پھر نہ مدرسہ رہے گا نہ مدرسی فرمایا کہ ہنسنے دیجیے آپ کا کیا ضرر ہے اگر ایک شخص کو ایک وقت کی نماز پڑھنے کی توفیق ہو جاہۓ تو ایک ہی وقت کی سہی ایک وقت کا تو قرض ادا ہوا نہ پڑھنے سے تو بہتر ہے مولا نا جامی رحمتہ اللہ علیہ سے کسی نے کہا تھا کہ فلاں شخص ریا سے ذکر کرتا ہے فرمایا کرتا تو ہے تم کو تو ریا سے بھی کبھی توفیق نہ ہوئ تمہارا کیا منہ ہے اعتراض کا حاصل جواب یہ ہے کہ اول تو ریا ہی کا ثبوت نہیں دوسرے ممکن ہے ریاء ہی سے عادت ہو جاۓ پھر عمل بلا ریا ہونے لگے ایک مجتہد شیعی نے ایک مولوی صاحب سے نانوتہ میں کہا تھا آپ حضرات نے فلاں کام کیا تھا جس میں خطرات بھی تھے آخر کیا نتیجہ نکلا بجز پریشانی کے جواب میں مولوی صاحب نے یہ قطعہ پڑھ دیا ـ سود اقمار عشق میں شیریں سے کوہکن بازی اگرچہ پا نہ سکا سر تو کھو سکا کس منہ سے اپنے آپ کو کہتا ہے عشق باز اے رو سپاہ تجھ سے تو یہ بھی نہ ہو سکا اگر کوئ شخص تبلیغ کرے اور سو برس کی کوشش میں ایک شخص بے نمازی سے نمازی ہو جاۓ تو کو شش بیکا ر نہیں گئ کار آمد ہوئ کچھ تو ہوا کچھ نہ ہونے سے نہتر ہوا بلکہ میں تو توسع کر کے کہتا ہوں کہ اگر ساری عمر کی کوشش کا بھی بظاہر کوئ نتیجہ نہ نکلے مثلا ایک نمازی بھی نا ہوا تب بھی کوشش بیکار نہیں کار آمد ہے ظاہر کی قید میں نے اس لیۓ لگائ کہ باطن میں اس کا نفع ہو ہی رہا ہے یعنی ثواب مل رہا ہے مگر آج کل لوگوں کی عجیب حالت ہے جس کو ماموں صاحب فرمایا کرتے تھے کہ یہ وہ زمانہ ہے کہ نہ آپ چلیں نہ دوسرے کو چلنے دیں حتی کہ کام کرنے والے کو بد دل کر دیتے ہیں ـاس پر ایک حکایت بیان فرمایا کرتے تھے کہ غدر کے زمانہ میں ایک میدان میں کچھ لاشیں پڑی ہوئ تھیں ان میں ایک زخمی سپاہی بھی پڑا ہوا تھا اس سپاہی کو خیال ہوا کہ دن تو جس طرح بھی ہو گا گزر جاۓ گا مگر تنہا شب کا کاٹنا مشکل پڑے گا مزاحا فرمایا اس سپاہی کو تنہائ کی ضرورت نہ تھی تنہا کی ضرورت نہ تھی ـ ( یعنی کئ تن کی) ایک لالہ جی اس طرف سےگزر رہے تھے سپاہی نے آواز دی ـ لالہ جی آواز سن کر گبھراۓ ہ لاشوں میں کیسی آواز ہے اس سپاہی نے کہا کہ ڈر مت مرا نہیں زخمی ہو گیا ہوں اور میری کمر میں ایک ہمیانی بندھی ہے اگر میں مر گیا یونہی بیکار جاۓ گئ تم کھول کر لے جاؤ تمہارے ہی کام آۓ گی لالہ جی کے روپیہ کا نام سن کر منہ میں پانی بھر آیا اور ڈرتے ڈرتے سپاہی کے قریب پہنچے سپاہی نے کہا کہ مجھ میں تو کھول کر دینے کی قوت نہیں ہے تم خود کھول لو جب لالہ جی بالکل قریب ہو گۓ سپاہی نے برابر سے تلوار اٹھا کر لالہ جی کے پیروں پر رسید کی ، گر پڑے پھر بھی ہمیانی ٹٹولی مگر وہاں کچھ بھی نہیں تھا تب سپاہی سے پوچھا کہ یہ کیا کیا سپاہی نے کہا لالہ جی بیوقوف ہوۓ ہوۓ ہو میدان جنگ میں کوئ ہمیانی روپوں کی بھی باندھ کر آیا کرتا ہے ـ یہ تو ایک تدبیر تھی تم کو اپنے پاس رکھنے کی شام قریب ہونے کو تھی خیال ہوا کہ رات کو دل گھبراویگا کسی کو پاس رکھوں تم نظر آگۓ اب بات چیت میں رات گزرے گی ـ تب لالہ جی نے کہا کہ اوت کا اوت نہ آپ چلے نہ اور کو چلنے دے تو یہ زمانہ وہی ہے کہ نہ خد کوئ کام کریں ـ نہ دوسروں کو کرنے دیں اگر خاموش ہی رہیں تو اچھا ہے نہیں خاموش نہیں بیٹھا جاتا بلکہ اور کام میں روڑے اٹکاتے ہیں ـ