(ملفوظ ۶۶) ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ ایک مرتبہ میں موضع (جگہ)اعظم گڑھ گیا تھا۔ وہاں رات کو بعد عشاء بیان ہوا وہاں غیرمقلد بھی ہیں ایک شخص نےاثناء(شروع)وعظ میں پرچہ دینا چاہامیں نےانکارکردیاایک صاحب کو بڑا ہی تعجب ہوا کہنے لگے بڑی ہی ہمت کی بات ہے ورنہ طبعی بات ہےکہ ایسا پرچہ پڑھنے کو دل چاہتا ہے میں نے کہا جی نہیں بلکہ بڑی کم ہمتی کی بات ہے یہ احتمال تھا کہ شاید اس میں کسی غیر مقلد کی طرف سے یا غیر مقلد کی نسبت کوئی بیہودہ مضمون ہو تو اگرہمت ہوتی تو اس کو دیکھ کرضبط کرتا اب دیکھنے کی ہمت نہ کرنا یہ کمزوری کی دلیل ہے
اقوال
(ملفوظ 65) شکایت سے متعلق معاملہ
ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ میرا معمول ہے کہ جب کوئی کسی کی شکایت لکھتا ہے تو میں اس کی تحریر کو جس کی شکایت کی ہے اس کے پاس بھیج دیتا ہوں کہ اگر وہ تکذیب کرے تو شاکی کے قول کر حجت نہیں قرار دیتا اور معاملہ ختم کردیا جاتا ہے اور اگر وہ اس کی تصدیق کرے تو پھر اس سے جواب طلب کرتا ہوں اور شریعت کا یہی حکم ہے اور اگر کوئی شکایت کے ساتھ یہ بھی لکھے کہ اس کو یہ لکھ دو تو میں پوچھتا ہوں کہ کیا تمہاری تحریر اس کے پاس بھیج دوں اس طریق میں بڑی سہولت ہے۔
(ملفوظ 64)غصہ کے موقع (پر) غصہ نہ آنا
ایک صاحب کی غلطی پر مواخذہ فرماتے ہوئے فرمایا کہ بزرگی کے لوازم میں سے یہ بھی سمجھتے ہیں کہ بزرگوں میں بے حسی (اور) بے غیرتی ہو، کسی چیز سے متاثر نہ ہوں جماد (بے جان اشیاء) کی طرح سب کے تابع رہیں۔ میں تو کہا کرتا ہوں کہ بزرگوں کو بت سمجھتے ہیں کہ ان کے ساتھ جو چاہو برتاؤ کرو ان کو حس ہی نہیں ہوتی اور اس کو بے نفسی کہتے ہیں ان اغباء (غبی) کو یہ خبر نہیں کہ بے نفسی اور چیز ہے بے حسی اور چیز ہے۔ امام شافعی نے خوب فرمایا ہے کہ جس کو غصہ دلایا جائے اور اس کو غصہ نہ آئے وہ حمار (گدھا) ہے اور جس سے معذرت کی جائے اور وہ معذرت کو قبول نہ کرے وہ شیطان ہے۔ مطلب کے دونوں چیزوں سے مناثر ہونا یہ انسانیت ہے۔
( ملفوظ 63 ) طاعون سے متعلق تحقیق
ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ طاعون کے متعلق ڈاکٹروں کی تحقیق ہے کہ جراثیم سے ہوتا ہے حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے حدیث شریف میں اس کو وخز جن یعنی طعن جن کا اثر فرمایا ہے تو اس میں کونسا استبعاد ہے اگر حضور نے بھی ایک سبب کی خبر دے دی اور طاعون مجموعہ پر مرتب ہوتا ہے تو ان کو کیا حق ہے اس کی تکذیب کا اور اب تو بڑے بڑے فلاسفر انگریز حقائق شرعیہ کی طرف آنے لگے ہیں اور ان کے ذہنوں میں احکام اسلام کے مصالح خود بخود آنے لگے ہیں ایک بہت بڑے فلاسفر انگریز نے ڈھیلے سے استنجاء سکھلانے پر کہا کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم بہت بڑے حکیم تھے مگر ہم ان احکام میں منتظر نہ ہوں گے حکمت کے کہ اگر مصالح اور حکم معلوم ہوں گے تو مانیں گے ورنہ نہیں ۔ یہ تو محض بد دینی ہے اور یہ مرض نیچریت کی بدولت پھیلا ہے یہ تو حکمتوں کے تلاش کرنے والوں کا مرض ہے اور ایک منکرین حکمت کا مرض ہے وہ احکام کی حکمتیں سن کر کہتے ہیں یہ سب اعتقاد والوں کی گہڑت ہے زبردستی کی حکمتیں نکال لیتے ہیں حضرت مولانا محمد یعقوب صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے اس کا خوب جواب فرمایا کہ نکلتی بھی وہی چیز ہے جو ہوتی ہے بھلا تم تو اپنے پیشواؤں کے کلام میں ایسی چیزیں نکال لو ۔
( ملفوظ 62 ) مصلح محقق کی تعلیم اور تر بیت میں شہادت کرنا یا دخل دینا سخت غلطی ہے
ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ مصلح محقق کی تعلیم اور تر بیت میں شہادت کرنا یا دخل دینا سخت غمطی ہے جیسے طیب حازق کی تجویز اور علاج میں دخل دینا حماقت ہے بعض امور وجدانی اور ذوقی ہوتے ہیں جس کو معالج ہی سمجھ سکتا ہے دوسرا نہیں سمجھتا –
ایک بزرگ کے پاس ایک شخص آئے شیخ کو قرائن اور فراست سے معلوم ہواکہ اس شخص کے قلب میں حب مال ہے دریافت فرمایا کہ تمہارے پاس کچھ مال ہے عوض کیا کہ سودینار ہیں فرمایا ان کو پھینک کر آؤ وہ چل دیئے بلا یا پوچھا کیا کروگے عرض کیا کسی کو دے دوںگا فرمایا نہیں اس سے تو نفس میں حظ (مزہ) ہوگا کہ ہم نے دوسرے کو نفع پہنچایا دریا میں ڈال آؤ وہ چلدیئے پھر بلایا پوچھا کس طرح ڈالوگے عرض کیا ایک دم پھینک آؤں گا فرمایا نہیں ایک دینار روزانہ ڈالو مطلب شیخ کا یہ تھا کہ روزانہ نفس پر آرہ چلے. بعض اہل ظاہر نے مجھ سے اس پر شبہ اور اعتراض کیا کہ یہ تواضاعت ہے مال کی میں نے کہا کہ اضاعت اسے کہتے ہیں کہ جہاں کوئی نفع نہ ہو اور یہاں نفع ہے وہی جو شیخ نے تجویز کیا –
میں بحمداللہ اسکا جو جواب دیا کسی کے کلام میں نہیں دیکھا حضرت یہ لوگ بھی مجتہد ہیں حکیم ہیں – ان کو حق تعالی ایک نور عطا فرماتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی نظر میں حقیتقت آجاتی ہے اسی سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ زمانہ تحریک خلافت میں مجھ پر قسم قسم کے الزامات لگائے گے۔ اور بعض عنایت فرماؤں نے دھمکی کے خطوط بھی لکھے کہ یا تو شریک ہوجاؤ ورنہ عنقریب تہمارے چراغ زنگی کو گل کردیا جائے گا غرض ایک ہڑبونگ مچاہوا تھا اس لئے کہ ایسے لوگوں کے نہ قلب میں دین تھا نہ خدا کا خوف نہ کوئی قاعدہ اور جو جی آیا کرلیا جو منہ میں آیا بک دیا میں اس زمانہ میں حسب معمول جنگل جایا کرتا تھا اب بھی چلا جاتا ہوں ایک دن ایک بوڑھا ہندو راجپوت جنگل میں ملا اس نے کہا کہ میاں کچھ خبر بھی ہے کہ کیا ہو رہا ہے یعنی تمہارے متعلق کیا کیا تجویزیں ہیں میں کہا کہ مجھ کو اس چیز کی بھی خبر ہے جس کی تمہیں خبر ہے اور ایک اور چیز کی بھی خبر ہے جس کی تمہیں خبر نہیں وہ یہ کہ بدون خدا کے حکم کے کوئی کچھ نہیں کرسکتا تو وہ ہندہ کہتا ہے کہ بس میاں تمہیں کچھ جوکھم یعنی خطرہ نہیں جہاں چاہو پھرو اسی طرح ان محققین کو سب چیزوں کی خبر ہے یعنی اس کی بھی جس کی معترض کو خبر ہے یعنی اشکال اور اس کی بھی جس کی معترض کو خبر نہیں یعنی اس اصلاح مذکورہ کی۔
اس نظیر میں ایک حکایت یاد آگئی بڑے کام کی چیز ہے اگر کوئی اس سے منتفع ہو – اگرچہ اس حکایت میں اصلاح کی نیت نہ تھی محض انتقام تھا لکین عبرت کے لئے تھوڑا سا اشتراک بھی کافی ہوتا ہے ایک ولایتی سرحدی پھٹان ریل میں سفر کررہا تھا جب گاڑی ٹونڈلہ میں ٹھہری اس پٹھان نے پلیٹ فارم پر کلی کی جس کی چھینٹیں ایک مغرور کافر کے پیروں پر پڑ گئیں جو پلیٹ فارم پر کھڑا تھا اس کو غصہ آیا اور غصہ میں کہا کہ سور ۔ بس جناب اتنا کہنا تھا کہ ولایتی نے گاڑی سے اتر کر اور اس کا کان پکڑ کر اور ریل کے ہر ڈبہ میں اس کا منہ دے کر کہا کہ کہو میں سور وہ مغرور ہر ڈبہ میں منہ دے کر کہتا تھا کہ میں سور ۔ اس سے اسکی عمر بھر کے لئے اصلاح ہو گئی کہ پھر تو کسی کو سور نہ کہا ہو گا تو بعض دفعہ اصلاح اسی طرح ہوتی ہے۔
پھر ولایتی مناسبت سے فرمایا کہ بعضے سرحدی لوگ بڑے ہی سخت ہوتے ہیں ان کی دوستی کا بھی اعتبار نہیں ۔ قاری عبد الرحمن صاحب پانی پتی رحمۃ اللہ علیہ کے پاس ایک سرحدی طالب علم پڑھا کرتا تھا ایک دفعہ جو وطن سے آیا تو قاری صاحب کے لئے ایک نئی دری لایا انہوں نے اس کو طالب علم اور غریب سمجھ کر لینے سے عذر کر دیا ۔ چلا گیا دوسرے روز پھر لایا تیسرے روز پھر لایا قاری صاحب نے یہ سمجھ کر کہ اصرار کر رہا ہے دل آزاری نہ ہو لے لی اس پر وہ طالب علم کہتا ہے کہ الحمد اللہ کہ آج دو جانیں بچ گئیں آج ہم چھرا لایا تھا کہ اگر آج تم نہ لیتا تو ہم ایک تمہارے اور ایک اپنے مار لیتا اور لینے سے دو جانیں بچ گئیں ۔
( ملفوظ 61 ) اذیت نہ پہچانے کا قصد ہونا چاہیے
ایک صاحب کی غلطی پر مو خذہ فرماتے ہوئے فرمایا کہ آپ نے جو برتاؤ کیا ہے آپ کی شکایت نہیں کیونکہ میں جس جماعت میں سے ہو یعنی ملُا لوگ اس کو تمام دنیا حقیر سمجھتی ہے کہ حتیٰ کہ بھنگی اور چمار بھی اس لئے آپکا قصور نہیں زمانہ کا رنگ اور رفتار ہی یہی ہے، جس لائق میں تھا آپ نے برتاؤ کیا اگر دل میں وقعت ہوتی تو ایسا نہ کرتے۔ مثال تو ساری سامنے رکھ دی وہ بھی ایسی جس کے سر نہ پیر اگر آپ سے سمجھنے کے لئے اس کے متلعق کچھ دریافت کرتا ہو ں تو جواب ہی ندارد آخر کب تک تغیر نہ ہو تشریف لیجایئے اور اپ کو اس کی اجازت دیتا ہو کہ یہاں سے مجھ کو خوب بدنام کیجئے عرض کیا معاف کردیجئے گا، فرمایا معاف کیا مگر جو تکیف تم نے پہنچائی ہے اس کا اظہار بھی نہ کروں اور کیا معافی سے اس کا اثر بھی جاتا رہتا ہے کسی کے سوئی چبھودی اور وہ چلانا شروع کرے اور معافی چاہے پر معاف کردے تو کیا معافی کے الفاظ سے اس کی سوزش بھی ختم ہوجائےگی اور حضرت حاجت تو وہ چیز ہے کہ بھنگی کے پاس بھی اگر حاجت لے جائے اسکو بھی ذلیل نہ سمجھنا چاہئے جناب کو تو بدمزاجی میں بدنام کیا جاتا ہے مگر جیسی نرم مزاجی اور خوش مزاجی آپ چاہئتے ہیں مجھ سے نہیں ہوسکتی یہ تو اچھی خاصی غلامی ہے سو نرم مزاجی اور چیز ہے اور غلامی اور چیز ہے اب یہ صاحب جا کر کہیں گے کہ ذرا سی بات تھی اس قدر خفا ہوا جی ہاں سوئی بھی ذراسی چبھوئی جاتی ہے اگر اس کے چبھونے پر کوئی کہے کہ آہ تو اس پر کہا جاتا ہے کہ اینٹ تھوڑا ہی ماری ہے جو آہ کرتے ہو خبر بھی ہے کہ اینٹ اندر نہیں گھسی تھی اور سوئی کھال کے اندر گھسی ہے –
ایک صاحب نے عرض کیا کہ قصد تو غالبا اذیت پہچانے کا نہ ہوگا فرمایا کہ میں اس کی تکذیب نہیں کرتا نہ حالا نہ قالا میں خود کہا کرتا ہوں کہ اذیت پہچانے کا قصد تو نہیں ہوتا مگر اس کا بھی قصد اور اہتمام نہیں کہ دوسرے کو اذیت نہ پہچے شکایت تو اس کی ہے –
7 ذیقودہ 1350 ھ مجلس بعد نماز یوم چہارم شنبہ
( ملفوظ 60 )آداب معاشرت کی تعلیم
ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ یہاں پر لوگوں آتے ہیں تعویز وغیرہ مانگتے ہیں مگر باستثناء قلیل کوئی پوری بات نہیں کہتا اس پر میں منتبہ کردیتا ہوں تو بد مزاجی میں بدنام کرتے ہیں تو کیا ہم لوگ مٹی پتھر ہیں لوگ کبھی کسی تھا نہ دار یا تحصیلدار کے سامنے ایسا کرسکتے ہیں وہاں دیہاتی پن جاتا رہتا ہے بد تہزیبی سے بات کرنا حقیقت میں سناتا ہے یہ سلسلہ گفتگو جاری ہی تھا کہ دیہاتی شخص آیا آگر بیٹھ گیا خود کچھ نہیں کہا حضرت والا نے دریافت فرمایا کہ کہاں سے آئے ہو عرض کیا فلاں جگہ سے آیا ہو ں فرمایا اگر ئی کام ہوتو کہہ لو اس پر وہ شخص رہا اور حضرت والا کے چند بار دریافت فرمانے پر بہت آہستہ سے عرض کیا کہ ایک تعویز کی ضرورت ہے فرمایا کہ موذی اس قدر پریشان کرکے اب کہتا ہے کیا پہلے سے زبان سہل گئی تھی جب اچھی طرح ستالیا اور وہ بھی میری میرے کئی مرتبہ کے پو چھنے کے بعد کہ مجھ دے کیا کام لینا ہے تب بوکا وہ بھی ایسے طرز سے جیسے کوئی نواب بولتا ہے اب اس کا جواب یہ ہے میں تعویز گنڈے نہیں جانتا یہ کسی عامل کا کام ہے میں تو نماز روزہ کے مسائل جانتا ہوں چل یہاں سے دور ہو یہودہ – کام اپنا غرض اپنی اور نخری دوسروں پر جیسے کوئی ان کے باپ کا نوکر ہے کہ جیسا چاہا برتاؤ کیا اور پھر بولے بھی نواب صاحب نے ادھوری بات کہی یعنی پھر نہیں بتلایا کہ کس بات کا تعویز میں آخر کہاں تک ان لوگوں کے اقوال افعال کی بیٹھا ہوا تاویل کیا کروں انھوں نے تو قسم کھالی ہے کہ کبھی سیدھی بات اور پوری بات بات نہ کہیں گے یہ ہیں وہ باتیں جن پر مجھ کو بدنام کیا جاتا ہے کبھی ریل کے ٹکٹ گھر جاکر بھی پیسے رکھ کر کھڑے ہوگئے ہوں اور اتنا ہی ہوں ٹکٹ دیدیا بابو کے پوچھنے جا انتظار کیا ہو یار بازار سودالینے گئے ہوں اور دکان پر چار آنے پیسے رکھ کر کھڑے ہوگئے ہوں اور سودے کا نام نہ لیا اور بابو یا دوکاندار کی شکایت پر کہہ دیا ہو کہ ہم میں قابلیت نہیں وہاں قابلیت کہاں سے آجاتی ہے –
( ملفوظ 59 ) امراء کا تکبر
ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ ایک صاحب ایک نوجوان شوخ مزاج انگریزی تعلیم یافتہ نواب کا ایک قصہ سنا تے تھے کہ ایک انگریز ( جو اردو بالکل نہ بولتا تھا ) اور نواب صاحب ایک جہاز میں سفر کررہے تھے نواب صاحب یہ سمجھے ہوئے تھے کہ یہ اردو نہیں سمجھتا اور ایسے امراء میں تہزیب بھی کم ہوتی یے اور اس کا اصل منشاء تکبر ہوتا ہے کہ کسی کو کچہ سمجھتے ہی نہیں انہوں نے تمسخر سے اس انگریز کا نام رکھا تھا اور الو کا پٹہ –
اب اس کو بناتے تھے اور کہتے کہ آیئے کے پھٹے وہ الو کے پھٹۓ کے نام پر متغیر نہ ہوتا تھا تمام راستہ جہاز میں اس ہی لقب سے اس کو پکار تے رہے اورآپس میں یار دوستوںمیں ہنستے رہے اس صاحب کو اس کے متغیر نہ ہونے سے پورا یقین ہوچکا تھا کہ یہ اردو کچھ نہیں جانتا جب جہاز مبمئی آکر ٹھر اور اترنے کی تیار ہوئی وہ وہ انگریز نواب صاحب کے سامنے کھڑا ہوکر اور دنہایت ادب سے کہتا ہے کہ الو کا پٹھا آاب بجا لاتا ہے اب معلوم ہواکہ یہ تو اردو سمجھتا ہے بس گڑ ہی تو گئے کا ٹو تو خون نہیں یہ حالت تھے کہ زمین پھٹ جائے اور ہم سما جیئں یہ اعلی طقبہ میں شمار ہونے والے بیدار مغز مشہور ہیں ان کی تہزیب کی یہ کیفیت ہے فرمایا کہ بیداری کے بھی درجے ہیں کبھی بد خوابی کے درجہ تک پہنچ کر دماخ بھی خراب ہوجاتا ہے اب یہ خرابی دماغ ہی کی تو باتیں ہیں – ایک تھانہ دار صاحب کا خط آیا تھا کہ اس میں پوچھاتھا کہ کافر سے سود لینا کیوں حرام ہے میں نے لکھا کہ کافر عورت سے زنا کرنا کیوں حرام ہے اس پر لکھا کہ علماء کو ایسا خشک نہ ہونا چایئے مگر چونکہ جواب کے لئے ٹکٹ وغیرہ نہ آیا تھا جواب نہ لکھ سکا اگر ٹکٹ ہوتا تو یہ لکھتا کہ جہلا ء کو بھی اس قدر ترنہ ہونا چایئے کہ تری میں ڈوب ہی جایئں –
(ملفوظ 58)اہل یورپ روحیانیت میں بالکل تھوس ہیں
ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ روحانیت میں اہل یورپ بالکل ٹھوس ہیں ہاں حسیات میں ان کا دماغ خوب کام کرتا ہے اور علوم کے لئے تو اللہ تعالی نے مسلمانوں ہی کا دماغ بنایا کے لئے اور کسی جے پاس دماغ ہی نہیں دوسروں کے علوم سطحیات ہیں جن میں عمق نہیں مگر پھر بھی ہر طبقے میں کچھ لوگ ذہین بھی ہوتے ہیں کمی بیشی کا فرق الگ رہا میں نے ایک انگریز کا لکھا ہوا فیلصہ دیکھا ہے شیعہ سنیوں کا مقدمہ تبرک کے متلعق عدالت میں پیش ہوا تھا شیعوں کا وکیل کہتا ہے کہ ہمارے یہاں تبرا کرنا عبادت ہے پھر جرم نہیں ہوسکتا – انگریز لکھتا ہے کہ ہم کو اس سے بحث نہیں اگر یہ عبادت ہے تو اس کی جزا ممکن ہے کہ آخرت میں ملے مگر دنیا میں فلاں دفعہ تعزیرات ہند کی بھگتنا ہی پڑے گا اس لئے میںاتنے دنوں کی سزا کرتا ہوں –
7 ذیقعدہ 1350 ھ مجلس خاص بوقت صبح یوم چھہارم شنبہ
( ملفوظ 57 )اہل دین میں بہت عقل ہوتی ہے
ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ کوئی شخص کسی دیندار کو کہتا ہے کہ اس میں عقل نہیں بہت ہی ناگوار ہوتا ہے کیونکہ یہ خیال غلط ہے دین کی وجہ سے عقل نہیں جاتی بلکہ اس زمانہ میں دین کی طرف اکثر متوجہ وہی ہوتے ہیں جن میں عقل کم ہوتی ہے وہ دنیا کا کوئی کام نہیں کرسکتے کہتے ہیں آؤ دین ہی کی طرف چلو اور عقل رکھتے ہیں وہ اس کو دنیا میں صرف کرتے ہیں یہ وجہ ہوگئی اس غلط فہمی کی، ورنہ حضرات انبیاء علیہم السام ہی کو دیکھ لیجئے کہ ان حضرات میں کس درجہ عقل تھی کہ ان کے سامنے ارسطو اور افلا طون سب کی عقلیں گرد تھیں کیا دین اور عقل جمع نہیں ہوسکتیں – اور انبیا ء علیہم السام تو بڑی چیز ہیں ان کے خادموں اور غلاموں کی عقلوں کے سامنے بڑے بڑے فلاسفر اور رفارمر سر کے بل آ پڑے ہیں اور اس زمانے میں بھی اہل دین ایسے ایسے موجود ہیں کہ دنیا کا بڑے سے بڑا عاقل ان کا مقابلہ نہیں کرسکتا – اور یہ حقیقی عاقل ایسے ہیں کہ جتنی عقل ان میں بڑھتی جاتی ہے وہ دین کا طرف زیادہ متوجہ ہوتے جاتے ہیں اور حقیقت میں دین کا خاصہ یہی ہے کہ اس کے احتیار کرنے سے عقل اور بڑھتی ہے وجہ یہ ہے کہ دین کے اختبار کرنے سے نور پیدا ہوتا ہے اور اس نور سے عقل کو ضیاء ہوتی ہے اور جس طرح دین سے عقل بڑھتی ہے اسی طرح عقل سے دین بڑھتا ہے کیونکہ عقل کا فعل یہ ہے کہ ضرر اور نفع کو پہچانے پھر ضرر اور نفع کی دوقسمیں ہیں ایک آخرت کا اور ایک دنیا کا ، اور ایک کا فانی اور دوسرے کا باقی ہونا ظاہر ہے تو عقلِ صیحح کا فعل یہ ہوگا کہ آخرت کے ضرر اور نفع کو دنیا کے نفع کے اور ضرر غالب رکھے تو عقل سے دین کا بڑھنا ثابت ہوگیا پھر اس تلازم کے بعد دینداروں کو کم عقل کون کہ سکتا ہے مگر عقلِ حقیقی میں گفتگو ہے باقی جو آج کل متعارف ہے اس عقل کی نسبت مولانا رومی فرماتے ہیں –
آذ مودم عقل اندیش را بعد ازیں دیوانہ سازم خویش را
( میں نے عقل اور دور اندیش کو آزمایا لیا اس کے بعد دیوانہ ( حق ) بنا ہوں )
ایک غلطی اور ہوجاتی ہے کہ عقل اور تجربہ کو ایک سمجھتے ہیں اس لئے دینداروں کو کم عقل سمجھتے ہیں حالا نکہ عقلی باتیں اور ہیں تجربہ کی باتیں اور ہیں سو جن چیزوں کا تعلق تجربہ سے ہے اس میں یہ حضرات اکثر ناواقف ہوتے ہیں مثلا گیہوں کس زمانے میں بویا جاتا ہے اور زمین اس کی کس وقت تیار کی جاتی ہے اس کا عقل سے کیا تعلق – ایک بنئے نے ریل میں مجھ سے پوچھا کہ آج کل آپ کے یہاں گیہوں کا کیا بھاؤ ہے میں نے کہا کہ نجھ کو ملعوم نہیں ا س کو بڑا تعجب ہوا وجہ یہ کہ ان کے یہاں تو اس کے سوا اور فکر اور کوئی کام ہی نہیں ان کے یہاں عقل کی ایک بات بھی نہیں شب و روز کل کی فکر ہے اسی کو فرماتے ہیں –
خوردن برائے زیستن وذکر کردن است تو معتقد کہ ذیستن از بہر خودن است
( کھانا اس لئے ہے کہ زندگی باقی اور اللہ کا ذکر کرتے رہیں مگر تمہارا اور اعتقاد یہ کہ زندگی اسی لئے کہ کھاؤ )
تو واقعات میں تو خود معترضین ہی عقل کی کمی کا شکار ہیں۔ دیکھئے چمار تجربہ رکھتا ہے چمڑے کے متعلق اور شناخت کرتا ہے اگر وائے سرائے کو چمڑا دکھا یا جا ئے اور اس کے متلعق کچھ پوچھئے وہ انکار کرے کہ مجھ کو اس کی حقیقت معلوم نہیں تو اس میں عقل کی کیا بات ہے بس ایک چیز کا تجربہ نہیں – ہیاں ایک شخص ہے وہ مدرسہ میں بہشتی زیور پڑھتا تھا حیض کا بیان جو آیا اس سے بعض لوگوں نے مزاحا کہا کہ تجھ کو بھی حیض ہوتا ہے کہا کہ کوئی نہیں کہ یہ تو بھت برا مرض ہے جلدی خبر لے اور حکیم صاحب سے جاکر کہو کہ مجھ کو یہ شکایت ہے وہ بھاگا ہوا گیا اور جاکر حکیم محمد ہاشم صاحب سے شکاہت کی کہ حکیم صاحب مجھ کو حیض نہیں ہوتا – حکیم صاحب بھی ہنس پڑے – اب جن لوگوں نے یہ مذاق بنایا تھا وہ اس کو اس کی حماقت کے دلائل میں ذکر کرتے ہیں مگر یہ کوئی حماقت کی بات نہیں وہ حیض کا لعنت اور اس کے معنی اور محل وقوع نہیں جانتا تھا یہ چیزیں اسکو معلوم نہ تھیں تو کسی واقعہ کا معلوم نہ ہونا حماقت نہیں –

You must be logged in to post a comment.