(ملفوظ 56 )اچھا کپڑا ، اچھا جوتا پہننے میں تکبر نہیں

ایک صاحب نے عرض کیا کہ میں حضرت اچھا کپڑا پہننے کو جی چاہتا ہے اچھا جوتا پہننے کو جی چاہے کیا یہ تکبر ہے فرمایا تکبر نہیں ، متکبر وہ ہے حق کو رد کرکے لوگوں کو حقیر سمجھے – حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے صحابہ نے اسی قسم کا عرض سوال کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا جواب دیا کہ کبھی تنگی نہیں فرمائی مگر لوگ خود تنگیوں میں پڑگے. الحمد اللہ یہاں تو قران وحدیث کے موافق تعلیم ہوتی ہے اس لئے بحمد اللہ کوئی تنگی نہیں اب اگر کوئی سہل کو تنگ کرے یا تنگ سمجھے تو اس کا کوئی علاج نہیں – یہاں تو جس طریق کی تعلیم ہے وہ بہت ہی سہل ہے لیکن نوالہ میں بھی منہ تو چلانا پڑے گا حلق سے نگلنا پڑے گا۔

( ملفوظ 55 ) دو متضاد چیز رنج اور احترام جمع فرمانا

ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ ایک صاحب فلاں مدرسہ کے مبروں میں سے ہیں انہوں نے مجھ کا ایک یہودی تحریر لکھی تھی باوجود اس کے کہ ان کو تعلق اور محبت کا دعویٰ ہے چونکہ یہ تحریر اس کے بعد ان کے قول اور فعل میں تعارض ہے اس سے ناگواری ہوتی ہے یہاں پر وہ دوسرے متعدد ممبر آئے تھے میں نے صاف کہ دیا کہ مجھ کو شکایت تھی اور ہے اور رہے گی میں منقبض تھا اور ہوں رہوں گا جب تک اس تحریر کا تدارک نہ ہوگا باقی مہمان ہونے کی حیثیت ہونے سے ان کا احترام بھی پورا کیاگیا تو میرے قلب میں دونوں چیزیں جمع تھیں شکایت اور رنج بھی اور اکرام واحترام بھی –
بحمداللہ تعالی میرے یہاں ہر چیز اپنی حد پر رہتی ہے ان یہ شبہ کہ دو چیزیں متضاد کیسے جمع ہوسکتی ہیں کیونکہ اول مستلزم ہے ان کے اعتقاد نقص کو اور ثانی استھنار عضمت کو تو میں جواب میں اس پر ایک مثال بیان کیا کرتا ہوں ایک بزرگ نے یہ مثال بیان فرمائی ہے عجیب مثال ہے کہ کسی جرم پر بھنگی کو شاہی حکم ہوا کہ شہزادہ کے بید لگاؤ تو عین بید لگانے کے وقت کیا بھنگی یہ خیال کرسکتا ہے کہ میں شہزادے سے افضل ہوں ہر گز نہیں کرسکتا – تو دیکھئے دونوں باتیں ایک وقت میں جمع ہوگیئں اس کا نقص اور جرم بھی اور اس کی عظمت اور اپنے سے افضل ہونا بھی – یقینا وہ بھنگی یہی سمجھے گا کہ بھنگی بھنگی ہی ہے شہزادہ شہزادہ ہی اسی طرح مصلح میں بھی دونوں باتیں جمع ہوسکتی ہیں اصلاح و احتساب بھہ – تو ضع اور فنا بھی تو تعجب کرنا کہ دونوں کس طرح جمع ہوں غلطی اور غیر محقق تو ایسے جمع کے مطالبہ پر گھبرائے اور یہ کہے گا –
درمیان قعر در یا بندم کرؤہ باز میگوئی کہ دامن تر مکن ہوشیار باش
( دریا کی تہہ میں باندھ کر ڈال دیا – اور کہا جاتا ہے کہ دیکھو دامن بھی تر نہ ہو )
البتہ محقق چونکہ جامع ہوتا ہے وہ کہے گا کہ تختہ بند بھی ہو اور دریا میں بھی رہے پھر بھی دامن تر ہونے سے بچ سکتا ہے اور راز اس میں یہ ہے کہ وہ تختہ بندی محض صورۃ ہوتی ہے دوسرے کو ایسا تو ہم ہو تا ہے ورنہ واقع میں ہاتہ پاؤں کھلے ہوتے ہیں یعنی قدرت ہوتی ہے تو جن چیزوں کو جمع کیا گیا ہے ان میں محض ظاہرا اتضاد ہے حقیقی تضاد نہیں اور یہی محمل ہے اس قول لا کہ محقق وہ شخص ہے جق جامع بین الا ضداد ہو غرض واقع میں وہ چیزیں اضداد نہیں مگر عوام کی نظر میں اضداس نظر آتی ہیں اس ہی مومعنی میں میں نے یہ کہا تھا کہ میرے اندر دو چیزیں جمع تھیں شکایت اور رنج بھی اور احترام بھی شکایت اور رنج یہودگی پر تھا اور احترام مہمان ہونے کی حیثیت سے تھا البتہ ان حقائق کے سمجھنے میں فہم صیحح کی ضرورت ہے –

(ملفوظ 54) حضرت حکیم الامت کی کسر نفسی

ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ اگر کوئی میرا معتقد ہو جاتا ہے تو میں سچ عرض کرتا
ہوں کہ اس پر مجھ کو تعجب ہوتا ہے کہ مجھ میں تو کوئی چیز نہیں جس کی وجہ سے یہ میرا
معتقد ہوا اور اگر معتقد نہ ہو تو اس پر کوئی تعجب نہیں ہوتا کیونکہ وہ تو میری حالت کا
مقتضا ہی ہے ۔

( ملفوظ 53 )بغیر اپنے قصد کے دوسرا اصلاح نہیں کر سکتا

ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ جب تک طالب خود نہ چاہے امراض کا اعلاج نہیں ہو سکتا اور نہ اخلاق کی اصلاح ہو سکتی ہے دہکھۓ خود جناب رسول مقبول صل اللہ علیہ وسلم نے چاہا کہ ابو طالب ایمان لائیں مگر چونکہ ابو طالب نے خود نہیں چاہا کچھ بھی نہ ہوا اب کسی ہادی اور مصلح کو دعوی ہو سکتا ہے کہ اس کے چاہنے سے اصلاح ہو جاتی ہے نیز ارادا کے اعلاوہ درستی اخلاق کیلۓ طلب صادق اور خلوص کی بھی ضرورت ہے ورنہ قدم قدم پر پریشانی کا سامنا کرنا پڑے گا جس کا اعلاج وہی طلب و خلوص ہے بدوں اس کے وہ مشقتوں کو برداشت ہی نہیں کر سکتا اور ایسی حالت میں اس راہ میں قدم رکھنا عبث ہے اب اگر کوئ شخص ڈاکٹر کے پاس آپریشن کیلۓ جاۓ مگر یہ کہے جہاں تک آپریشن کی ضرورت ہے وہاں تک نشتر نہ جانے پاۓ اب بتایۓ مادہ فاسد کس طرح نکلے گا اس کی بالکل وہی مثال ہے جیسی مولانا نے ایک حکایت میں لکھی ہے کہ ایک شخص نے بدن گودنے والے سے کہا کہ میری کمر پر شیر کی تصویر بنا دے اس نے سوئ لے کر جیسے ہی چبھوئتو کہتا ہے کہ ارے یہ کیا بنا رہا ہے اس نے کہا دم بناتا ہوں کہنے لگا کہ کیا بے دم کا شیر نہیں ہوتا اس دم نے تو میرا دم ہی نکالا ہوتا اس نے وہاں چھوڑ کر دوسری طرف سوئ چبھوئ اس نے پھر ایک آہ کی اب کیا بناتا یے اس نے کہا پیٹ بناتا ہوں کہنے لگا کیا یہ کھانا کھاۓ گا جو پیٹ کی ضرورت ہو اس نے یہ چھڑ کر تیسری جگہ سعئ چبھوئ اس نے کہا اب کیا بناتا ہے کہا کہ منہ بناتا ہوں کہا کہ ارے بھائی یہ تو تصویر ہے کوئی بولے گا تھوڑا ہی اسے بھی چھوڑا اس نے اسے بھی چھوڑا اور چوتھی جگہ سوئی چبھوئی پوچھا کہ اب کیا بناتا ہے کہا کہ کان بناتا ہوں اس نے کہا کہ شیر بوچابھی ہوتا ہے اس بھی چھوڑ اس نے جھلا کر سوئی پھینک دی اور کہا جس کو مولانا رومی رحمتہ اللہ علیہ نقل فرماتے ہیں –
شیر بے گو شم داشکم کہ دید ایں چنیں شیر لے خدا ہم نافرید
( بے کان ، بے سر اور بے پیٹ کا شیر بھی کسی نے دیکھا ہے ، ایسا شیر تو خدا نے بھی پیدا نہیں کیا 12 )
یعنی شیر تو خدا نے بھی نہیں بنایا جس کے کوئی عضو ہی نہ ہو اورشیر ہو تو میں تو کیا بنا سکتا ہوں آگے بطور ثمرہ اور نتیجہ کے فرمایا –
گر بہر زخمے تو پر کینہ شوی پس کجابے صیقل آئینہ شوی
یعنی جب تو ہر کوچنے پر چیختا اور پکارتا ہے اور برداشت نہیں کرسکتا مراد یہ کہ مصلح اور مرشد کی ہر تنبیہ پر تیرے نفس میں کدرت پیداہوتی ہے تو بدوں مانجھے ہوئے صاف اور توشن کیسے ہوگا اور اسی کو فرمایا ہیں –
چو نداری طاقت سوزن زون پس تو از شیر ژیاں ہم دم مزن
(جب تھہ کوسوئی چبھنے کا تحمل نہیں ہے تو شیر نر کی تصویر بنوانے کاخیال بھی چھوڑ دو 12 )
اس راہ میں قدم رکھنے کے لئے تو سب سے پہلی شرط یہ ہے جس کو فرماتے ہیں –
دررہ منزل لیلے کہ خطر ہاست بجال شرط اول قدم آنست کہ مجنوں باشی
( لیلی کی طلب میں جان کو اور بھی خطرات ہیں مگر اول شرط مجنوں بننا ہے )
میں ایک مرتبہ حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب گنج مرادی آباد رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت میں بغرض زیارت حاضر ہو اشب کو بے وقت پہنچا حضرت مولانا خفا ہوئے اور مجھ پر ڈانٹ ڈپت کی مولا نا نہ میرے استاد تھے نہ پیر کے پیر تھے حتی کہ جس سلسلہ میں میں یعنی چشتیہ میں مولانا اس سلسلہ میں نہ میں بھی نہ تھے کیوں کہ مولا نا کا سلسلہ نقشبندی تھا مگر مولا نا خفا ہونے کا میرے دل میں ذرہ برابر ثقل نہ تھا میں اپنے نفس کو عین کے وقت خوش پاتا تھا اور ذرا کدرت یا نفرت محسوس نہ کرتا تھا اس پر میں حق تعا لیٰ کے فضل اور رحمت کا شکرادا کیا یہ اللہ سے تلعق کی علامت ہے کہ اللہ والوں کی خفگی سے دل پر ہوئی ناگواری اثر پیدا نہیں ہوا – سو جب تک قلب میں خلوص نہ طلب صادق نہ ہوا ایسی چیزوں کو برداشت نہیں کرسکتا عاشق کو اس مذہب کے احتیار کی ضرورت ہے جس کو کہا ہے –
یا مکن پلیاں ناں دوستی یا بنا کن خانہ برا انداز پیل
یا مکش بر چہرہ نیل عاشقی یا فرو شو جامہ تقوی بہ نیل
( یا تو فیل بان سے دوستی نہ کرو – یا گھر ایسا بناؤ جس میں ہاتھی آسکے ، یا عاشقی کا دعوی نہ کرو ، اور اگر کرتے ہو تو جامہ تقویٰ کو دریائے نیل میں دھوڈالو )
اگر یہ نہیں تو جھوٹا دعوی کی اس سے زیادہ حقیقت نہیں جیسے خاتمہ مثنوی میں ایک حکایت لکھی ہے کہ ایک شخص ایک عورت کے پیچھے ہولیا – اس نے پوچھا کہ تو میرے پیچھے کیوں آرہا ہے اس نے کہا کہ میں تجھ پر عاشق ہوگیا ہوں اس عورت نے کہا کہ مجھ بد شکل ہوکر کیالے گا میرے پیچھے میری بہن مجھ سے بہت زیادہ خوبصورت آرہی ہے وہ عاشق ہونے کے قابل بو الہوس تو تھا ہی فورا پیچھے لوٹا اور منھ پھیر کر دیکھنے لگا اس عورت نے اس کے دھول رسید کی اور کہا –
گفت اے ابلہ اگر تو عاشقی در بیان دعوی خود ضادقی
پس چرا بر غیر افگندی ایں بود دعوی عشق اے بے ہنر
یعنی تو اپنے دعوی میں جھوٹا ہے اگر تو عاشق ہوتا تو غیر پر نظر کیوں کرتا محبت تو وہ چیز
ہے کہ جس دل میں ہوتی ہے محبوب کے سوا سب کو فنا کر دیتی ہے اصلی کو مولانا
فرماتے ہیں ۔
عشق آن شعلہ است کوچوں بر فروخت ہرچہ جز معشوق باقی جملہ سوخت
(عشق تو وہ شعلہ ہے کہ جب یہ بھڑکتا ہے تو مشرق کے سوا سب کو پھینک دیتا ہے )
اور یہ وہ چیز ہے ۔
ہمہ شہر پر زخوہان منم وخیال ما ہے چہ کنم کہ چشم ایک بیں نہ کند بہ کس نگاہے
(سارا شہر حسینوں سے بھرا ہوا ہے مگر میں ہوں کہ ایک چاند کے خیال میں مست ہوں ۔
کیا کروں کہ یہ آنکھ ایک کے سوا کسی کی طرف دیکھتی ہی نہیں ۔ 12)
جب عشق فانی کا یہ خاصہ ہے تو غیر محبوب نظر سے فنا ہو جاتا ہے تو عشق باقی کا تو کیا
پوچھنا اس میں تو خود بھی اپنی نظر سے فنا ہو جاتا ہے حتی کہ کتے اور سور کو اپنے سے افضل
سمجھنے لگتا ہے جس کی اصل حقیقت تو ذوقی اور جدانی ہے مگر ایک ظاہری وجہ استدلالی بھی
ہے کہ بہائم مامون العاقبہ (یعنی جانور عذاب سے امن میں ہیں ) ہیں اور انسان مامون
العاقبہ (عذاب سے مامون ) نہیں غرض فنا ہونا مٹنا خاک میں ملنا اس طریق کا اول قدم
ہے اور آخر دم توجہ ہے وہ جس کو اللہ تعالی عطا فرمادیں اور وہاں تک پہنچا دیں اس میں
کسب کو دخل نہیں محض موہبت و جذب کی ضرورت ہے جو محض ان کے فضل پر ہے ۔

(ملفوظ52)سیدھی بات میں بھی تعلیم کی ضرورت

ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ بعض لوگ اپنے مقصود کے ظاہر کرنے میں ہریشان کرتے ہیں اور بعض ان کی طرف سے یہ عزر کرتے ہیں کہ ان کو تعلیم نہیں ہوئ میں جواب میں یہ کہا کرتا ہوں کہ یہ امر تو فطری اور اصلی ہے کہ جس نقصود کو لے کر آوے اس کو بدوں دریافت کۓ صاف صاف ظاہر کر دے ـ اس میں کسی تعلیم کی ضرورت نہیں ـ تعلیم کی تو ٹیڑھی بات میں ضرورت ہوتی ہے جس کو معمول بنا رکھا ہے مثلا آہستہ بولنے میں بدوں دریافت کۓ ہوۓ کچھ نہیں کہتے ان باتوں کی بیشک تعلیم کی ضرورت ہے اور سیدھی بات میں تعلیم کی کون سی ضرورت ہے ـ

( ملفوظ51 ) طریق میں جزب کی ضرورت

ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ اس طریق میں کسب کو دخل نہیں جزب کی ضرورت ہے البتہ خود جزب موقوف ہے اعمال پرہاں اس معنی کر کسب کو بھی دخیل کہا جا سکتا ہے کہ وہ اعمال اختیاری ہے مگر یہ دخل بھی محض صورۃ ہے ورنہ ہمارے اعمال ہی کیا ـ اس لۓ میں پھر یہی کہوں گا کہ کسب کو دخل نہیں جزب ہی پر موقوف ہے بعض لوگ کہتے ہوں گے یا خیال کرتے ہوں گے یہ اختیاری اور غیراختیاری کے الفاظ خوب سیکھ لۓ ہیں ہر گجہ جاری کر دیے جاتے ہیں مگر معلوم بھی ہے کہ اس کی بدولت بہت سے خلجانوں سے نجات مل گئ ـ یہ تعلیم صدیوں سے گم ہو چکی تھی اس کی بدولت لوگ سخت پریشانیوں میں مبتلا تھے اب اگر کوئ کسی حالت کی نسبت پوچھنے پر لکھتا ہے کہ غیر اختیاری ہے تو میں لکھتا ہوں تو اس کے درپے کیوں ہو اور اگر کہتا ہے کہ اختیاری ہے تو میں جواب دیتا ہوں کہ پھر ہم سے کیوں پوچھتے ہو اختیار سے کام لو ـ بس مناقشہ ختم ہو جاتا ہے اس لۓ میں کہتا ہوں کہ یہ اختیاری اور غیر اختیاری کا مسئلہ نصف سلوک ہے ـ بلکہ اگر نظر عمیق سے دیکھا جاۓ تو کل سلوک کہنا بھی میرے نزدیک بے جا نہ ہو گاـ

(ملفوظ 50 )طریق سے بیگانگی کی حد

فرمایا کہ ایک صاحب کا پہلے خط آیا تھا اس کا جواب میں نے لکھا تھا کہ ذکر واشتغال ہی مقصود ہیں یا اصلاح اعمال بھی آج ان صاحب کا خط آیا ہے لکھا کہ سوال ہی میری سمجھ میں نہیں آیا حضرت والا نے جواب میں تحریر فرمایا کہ پھر کس طرح سمجھاؤں کسی اور سے سمجھ لو – زبانی ارشاد فرمایا کہ لوگوں کو اس طرف توجہ ہی نہیں اور وجہ اس کی بے فکری اور طریق سے بے گانگی ہے اور میرا مقصود سوالات سے پو چھنا ہی تھوڑا ہی ہوتا ہے بلکہ بتلانا ہوتا ہے مگر اس طرز میں مصلحت یہ ہے کہ اس میں ذہن پر بار پڑتا ہے خود فکرو غور کرتا ہے اور خود چل پڑتا ہے میں اول ہی میں طالب کو کام میں لگا دیتا ہوں اور بے فکری سے ہٹا کر فکر کی طرف متوجہ کر دیتا ہوں جب تک خود دوڑ سکتے ہیں دوڑیں جب تھک جائیں گے گود میں اٹھا کر راستہ طے کرادیا جاۓ گا اگر خوب فکر کے بعد بھی ذہن نہ پہنچے پھر میں خود بتلا دیتا ہوں ـ

( ملفوظ 49 )ایک صاحب کی بد تمیزی وبے شرمی

ایک گاؤں کا شخص آیا اور مجلس کے منتہا پر کھڑے ہو کر پاجامہ کے نیفے میں سے ایک بٹوا نکال کر اس میں سے ایک پر چہ نکالا اس کے بعد حضرت والا کے قریب آکر بیھٹا حضرت والا نے دریافت فرمایا کہ میں اتنی دیر تک کیوں آکھڑا رہے عرض کیا کہ بٹوا نکال رہا تھا فرمایا کے لوگوں کے سر پر پاجامہ کو ٹٹولنا اور بٹوا نکالنا بے شرمی کی بات ہے آئندہ ایسا نہ کرنا اس کی صورت یہ تھی کہ یہاں آنے سے پہلے باہر بٹوا نکال لیتے تب یہاں آتے آدمی کو تمیز سیکھنا چاہئے جانوروں میں رہ کر جانورہ نہیں بننا چاہئے –

(ملفوظ 48 )گمراہ عقیدہ کے لوگ دنیا میں موجود ہیں

فرمایا کہ ایک شخص کا خط آیا ہے لکھا ہے میں فکر و شغل اس لئے نہیں کرتا کہ کہیں تنگی معاش میں نہ مبتلا ہوجاؤں – حضرت والا نے جواب میں تحریر فرمایا کہ یہ خیال کیوں پیدا ہوا اور زبانی ارشاد فرمایا اس عقیدہ کے لوگ بھی دنیا میں موجود ہیں کہ اللہ کا نام لینے سے افلاس آتا ہے استغفراللہ – نعوذ بااللہ میں نے بھی ابھی کوئی جواب نہیں دیا اس ہی سے اس خیال کی وجہ ملعوم کی ہے دیکھئے کیا لکھتا ہے –

(ملفوظ 47 )فقہاء کا عظیم کار نامہ

ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ کلام کو علماء نے ایسا مدون کیا کہ ساری دنیا کو بند کر دیا کوئ آج تک اس کو نہیں توڑ سکا اسی طرح فقہاء نے احکام کی تدوین کیا اور اور نصوص کے محامل کو ظاہر کیا مگر اغبیاء نے بجاۓ شکر گزاری کے اور الٹا ان پر اعتراض کیا کہ یہ لوگ تاویل کر کے نصوص کو ترک کرتے ہیں چناچہ ایک غیر مقلد نے دہلی میں وعظ کہا اس میں بیان کیا کہ قرآن حدیث سب ظاہر ہے کہیں تاویل جائز نہیں ایک طالب علم مولوی عبدالحق تھے قصبہ جلال آباد کے انہوں نے کہا کیوں کہ صاحب تاویل نہ کی جاوے گی کہا کہ کہیں نہ کی جاوے گی انہوں نے کہا کہ بہت اچھا تو میں کہتا ہوں کہ اس قائدہ کی بناء پر تو کافر ہے کہنے لگا کہ یہ کیوں انوں نے کہا کہ یہ قرآن میں ہے
ومن کان فی ھذہ اعمی فہو فی الاخرۃ اعمی
یہ غیر مقلد اندھا تھا کہنے لگا اس کا تو یہ مطلب نہیں بلکہ مجازی معنی مراد ہے انہوں نے کہا یہ تو تاویل ہے اور تاویل بقول آپ کے باطل ہے بڑا پر یشان ہوا فرمایا کہ واقعی اگر ضرورت اور دلیل سے بھی تاویل نہ کی جاوے گی تو ایسا ہو گا ایک شخص نے شیخ سعدی علیہ الرحمہ کے اس شعر کا مطلب سمجھا تھاـ
دوست آن باشد کہ دوست دوست در پریشان حالی دور ماندگی
( دوست وہ ہے جو دوست کی پریشانی حالی درعاجز ہونے کے وقت مدد کرے 16 )
واقعہ یہ ہوا کہ اس کا دوست کسی سے لڑ رہا تھا اور وہ بھی ہاتھ پاؤں چلا رہا تھا اس نے پہنچ کر دوست کے دونوں ہاتھ پکڑ لۓ جس سے بیچارے کی اچھی طرح مرمت ہوئ کسی نے کہا یہ کیا حرکت ـ کہتا ہے کہ میں نے تو شیخ سعدی علیہ الرحمتہ کی تعلیم پر عمل کیا وہ فرما گۓہیں ـ
دوست آن باشد کہ گیر دوست دوست در پریشانی حالی دور ماندگی
اگر تاویل سے بچیں تو کوئ کلام بھی صحیح معنی میں استعمال نہیں ہو سکتا اسی طرح کسی مطلق لفظ کو مقید پر محمول کرنا ایک قسم کا مجاز اور تاویل ہے مگر دلیل کی ضرورت سے اختیار کیا جاۓ گا ـ میں ایک مرتبہ علی گڑھ اپنے چھوٹے بھائ کے پاس مہمان تھا نواب وقار الملک کی استدعاء پر کالج گیا وہاں جمعہ بھی پڑھا ـ وعظ بھی کہا وہاں کے پروفیسر نے سائنس کے کمرہ کی بھی سیر کرائ اس میں بجلی بھی تھی ـ اس کے افعال خواص کا بھی مشاہدہ کیا اس کے بعد وعظ ہوا تو میں نے وعظ میں برق کے متعلق بھی بیان کیا کہ آپ لوگوں کو کہیں یہ شبہ نہ ہو کہ بجلی تو ہم نے بھی پیدا کر لی ہے پھر جو حقیقت بجلی کی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی ہے ہمارا مشاہدہ اس کی نفی کرتا ہےکیونکہ برق تو ہم بھی بناسکتے ہیں میں نے جواب دیا کہ برق کی دو قسمیں ہیں ایک سماوی اور ایک ارضی سو ارضی برق کی تو حقیقت ہے جو تم سمجھتے ہو اور سماوی برق کی وہ حقیقت ہے جوحضور صلی اللہ عیلہ وسلم نے ارشاد فرمائی گو سماوی کی قید لفظوں میں مصرح نہیں مگر قرائن سے اس کا اعتبار کیا جاوے گا میرے اس بیان کا ان لوگوں پر بے حد اثر ہو اس لئے کہ ایسا قریب جواب انہوں نے کبھی نہ سنا
تھا – میں نے یہ بھی کہا کہ جو کچھ میں نے اس وقت بیان کیا برق کے متعلق اس کو توجیہ وتکلیف نہیں کہتے تو ضیح وتحقیق کہتے ہیں یعنی حقیقت کا اظہار جو شخص دونوں میں منافات سمجھتا تھا اس کو حقیقت سمجھادی –
6 ذیقعدہ 1350 ھ مجلس بعد نماز یوم شنبہ